|
غدیر کا ردّ عمل ؍ دوسری قسط |
رئیس الواعظین مولانا سید کرار حسین واعظؒ |
غدیر کا رد عمل حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی خلافت پر خدا اور رسول کی طرف سے جس قدر اصرار ہو اور اس اعلان غدیر پر جتنا زور لگایا گیا جس قدر عظیم اہتمام اور انتظام کیا گیا وہ آج بھی کتا بوں میں محفوظ ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی عظیم خلافت اور ایسے عظیم معصوم کے مقابلے پر جو خلافت قائم کی جائے گی اور جو خلافت برپا ہو گی وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو گی جب تک الہی خلافت نیست و نابود نہ ہو جائے اور جب تک علی جیسے عظیم انسان کو منظر سے ہٹا نہ دیا جائے خلافت کی نیستی و نابودی ااورعلی بن ابو طالب کو خلافت سے ہٹانے کے لئے کیا کچھ نہ کرنا پڑے گا ۔تفصیل میں گئے بغیر ناظر بصیر نبوت کے بستر علالت سے کربلا تک اگر ایک طائرانہ نظرڈالیں تو غدیر کے ردعمل کا ہرپہلو اس کے سامنے آجائے گا ۔ آنحضرتؐ کی آنکھ بند ہوتے ہی الہی خلافت، اعلان غدیر اور حضرت علی بن ابی طالب کے خلاف ردعمل کا ظہور شروع ہو گا ۔چنایچہ علامہ شبلی اپنی شہرہ آفاق کتاب الفارق میں لکھتے ہیں : بنو ہاشم اپنے ادعا پر رکے رہے اور حضرت فاطمہؑ کے گھر میں وقتاً فوقتاً جمع ہو کر مشورے کرتے رہتے تھے ۔ حضرت عمر نے بزور ان سے بیعت لینی چاہی لیکن بنی ہاشم حضرت علی کے سوا کسی اور کے سامنے سر نہیں جھکا سکتے تھے ۔ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اورعلامہ طبری نے تاریخ کبیر میں روایت نقل کی ہے حضرت عمر نے حضرت فاطمہؑ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا کہ یا بنت رسول اللہ خدا کی قسم آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔تا ہم اپ کے یہاں اس طرح مجمع کرتے رہے تو میں ان لوگوں کی وجہ سے گھر میں آگ لگا دوں گا ۔ اگر چہ سند کے اعتبار سے ہم اس روایت پر اعتبار نہیں کر سکتے ۔کیونکہ اس روایت کے روات کا خیال معلوم نہیں ہو سکتا تا ہم درایت کے اعتبار سے اس واقعہ کی کوئی وجہ نہیں حضرت عمر کی تندی اور تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس نازک واقعہ میں حضرت عمر نے نہایت تیزی اور سرگرمی کے ساتھ جو کار روائیاں کی ان میں گو بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہوں لیکن یاد رکھنا چاہیے انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیا۔بنو ہاشم کی سازشیں اگر قائم رہتیں تو اسی وقت جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا۔ علامہ شبلی نعمانی کی طویل عبارت ہم نے اس لئے نقل کی ہے تا کہ ناظرین اعلان غدیر کے رد عمل کی شدت کاا حساس کر سکیں۔رد عمل کی شدت کا دباؤ پہلی صدی سے چودہویں صدی تک مدینہ منورہ سے اعظم گڑھ تک کتنا زیادہ ہے خط کشیدہ الفاظ ذرا آپ ملاحظہ فرمائیں۔ ١۔بنت رسول خداؐ ،صدیقہ طاہرہ،بقیہ نبوت ،جان خاتم النبین،شفیع روز جزا، خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کے خانہ مقدس کے لئے کیسی جرات اور کیسی گستاخی ؟لکھتے ہیں کہ: اگر آپ کے یہاں لوگ اس طرح مجمع کرتے رہے تو میں ان لوگوں کی وجہ سے گھر میں آگ لگا دوں گا۔ ٢۔خانہ صدیقہ طاہرہ ؑکے لئے پھر علامہ شبلی کا قلم خنجر کی طرح کام کرتاہے یاد رکھنا چاہئے کہ انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوے فتنو ں کو دبا دیا یعنی بنت رسول اللہ کے خانہ اقدس میں فتنے پرورش پا رہے تھے۔ جو گھر مبیط ملا ئکہ رہا ہو جس گھر کی روٹیا ں محدث دہلوی شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر عزیز کے قو ل کے مطابق جبرئیل یتیم 'اسیر ' مسکین بن بن کر تین روز تک لے گئے ہوں ۔جس گھر کے دروازے پر خاتم الانبیا صاحب معراج محمد مصطفےٰ ۖ کھڑے ہو کر سلام کرتے رہے ہوں معاذ اللہ اسی گھر میں فتنے پل رہے تھے ؟ تفو بر تو اے چرخ گردان تفو۔ ٣۔آگے چل کر علامہ شبلی کاغدیری ردعمل اور تیز ہوتا ہے لکھتے ہیں :'بنو ہاشم کی سازشیں اگر قائم رہتی تو اسی وقت جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا '۔ یہ سازشیں اسلام اور جمیعت اسلامی کے خلاف خانہ سیدہ میں تیار کی جاتی تھیں اور اس اسلام اور اسلامی معاشرے کے خلاف ہونے والی سازش میں حضرت علی شریک رہتے تھے اور انھیں کے زیرصدارت اسلام کے خلاف منصوبے بنائے جا رہے تھے اور صاحبان ایمان اور اسلام کے خلاف سازشیں حضرت علی کی ہی رائے اور مشورے سے تیار کی جارہی تھیں۔اسلام کے سب سے بڑے ہمدرد اور مسلمانوں کے آقا و محسن حضرت عمر کو یہ بات ناگوار ہوئی اس لئے اس گھر کو جلانے کی دھمکی دے رہے تھے تاکہ یہ گھر سازشی جماعت اور سازشیوں سمیت جل کر تباہ و برباد ہو جائے (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ) کرشمہ سازی! علامہ شبلی نعمانی کی دریدہ دہنی 'گستاخی اور بے ادبی پر میں اپنے شدید غم و غصہ کے باوجود کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ہر چند کہ ان کی تحریر نے میرا کلیجہ خون کر دیا ہے مگر تسکین ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ وہ اپنی اس تحریر کا قرارو واقعی انعام لینے کے لئے وہاں جا چکے ہیں جہاں صدیقہ طاہرہ سے بے پناہ محبت اور ان کا احترام کرنے والے ان کے والد گرامی احمد مختار محمد مصطفےٰموجود ہیں . علی اور فاطمہؑ کا گھر علامہ شبلی کی نظر میں ''اٹھتے ہوے فتنوں ''کی آماجگاہ تھا بنو ہاشم سازشی تھے جن کی سر پرستی حضرت علی فرماتے تھے ۔علامہ شبلی کو اس خیرہ چشمی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔یہ سقیفائی وکالت کیا غدیر کا رد عمل نہیں ہے ؟اس ردعمل کی شدت کے زور میں علامہ شبلی عقل و حواس تک کھو بیٹھے اور انھیں اتنا ہوش نہیں رہا کہ لات وہبل کے پجاری تو اسلام اور مسلمان کے ہمدرد ہو گئے اور کل ایمان کا گھر اٹھتے فتنوں کی آماجگاہ اور وہ خود معاذ اللہ سازیشوں کا سردار ہو گیا ۔بغرض محال اگر خانہ علی و فاطمةۖ میں خلافت کے سلسلہ میں گفتگو بھی ہوتی رہی ہو ۔باطل نظام خلافت کی داروگیر سے بچنے کے لئے یہاں بنوہاشم پناہ بھی لیتے رہے ہو ں تو یہ کون سا گناہ تھا ۔ فتنے تو اعلان غدیر کے منکرین اور غداروں نے پیدا کیے۔سازش تو اعلان غدیر کے خلاف غدیر خم میں مبارکباد دینے اور اندھیری رات آنحضرت کی جان لینے کا منصوبہ بنانے والوں نے کی تھی جن کے نام حذیفہ کو معلوم تھے ۔اس سازش کی توڑ کرنے کے لئے اگر بنو ہاشم جمع بھی ہو رہے تھے تو یہ کون سا جرم تھا ؟ سوچئے اصلی اور واقعی حقدار خلافت کے خلاف سازش کر کے حق پرستو ں نے اپنی سازشی کاروائی منوانے کے لیے علامہ شبلی کے قول کے مطابق حضرت عمر نے بزور ان سے بیعت لینی چاہی ؛ اس زور زبردستی سے بچنے کے لیے اور سازشی کاروائی سے محفوظ رہنے کے لیے اگر بنو ہاشم نے علی کی پناہ حاصل کی تو علامہ شبلی چراغپا کیوں ہورہے ہیں ؟ اورپھر ''زور '' بھی کیسا ؟ کہ خانہ سیدہ ۖ میں آگ لگانے کو تیار اپنی سازشی کاروائی کو کامیاب کرنے کے لیے جو شخص خاتون جنت کے گھر کو آگ لگا سکتا ہے وہ افراد بنو ہاشم کو زنداہ درگور بھی کر سکتا تھا ا نھیں نذرآتش بھی کر سکتا تھا ۔ حکومت و ریاست اور طمع اقتدار ایسی ہی بیماری ہوتی ہے جس میں آخرت و عاقبت کا مطلق خیال نہیں رہ جاتا ٹھنڈے دل ودماغ کا آدمی بھی اگر اس مرض کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کا خون بھی گرم ہو جاتا ہے بھائی بھائی کی آنکھیں نکلوا لیتا ہے سر قلم کر دیتا ہے بیٹا باپ کو قیدی بنا دیتا ہے اگر یہ مرض بقول علامہ شبلی تندخواور تندمزاج کو ہوئے تو اس کے شعلہ جوالہ بن جانے میں کیادیر لگتی ہے ایک ایسی تاریخی حقیقت جس کو لوگ جھٹلاتے تھے چھپانے کی کوشش کرتے تھے خدا کا شکر ہے کہ اعلان غدیر کی ردعمل کی شراب اور سقیفائی وکالت کے زور میں علامہ شبلی نے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ اس کااقرار کر لیا اور نہایت صفائی سے کہتے ہیں کہ'' اس واقعہ کے انکار کی کوئی وجہ نہیں'' انکار کی کوئی وجہ اس لیے نہیں ہے کہ غدیر کے مولا امیرالمومنین پر فتنہ پروری اور سازش کی قیادت کا مجرمانہ الزام عائد کرنا تھا چاندنی پر گماںسیاہی کا شعبدہ تیری کم نگا ہی کا طرفہ تماشا یہ ہے کہ جوچوتھی خلافت کے مرحلہ پر (معاذ اللہ ثم معاذاللہ 'نقل کفر ' کفر نباشد) اسی فتنہ پروسازشی کو علامہ شبلی اپنا چھوتھا خلیفہ ماننے پر مجبور ہو گئے ۔ ہمیں دیکھئے ہماری نظر میں جو فتنہ پرور اور سازشی جماعت کا سردار ثابت ہوگا خلیفہ در کنا ر ہم لوگ نے اسے مسلمان مان کر بھی نہ دیا ۔ حکومت کی کل اور اس کے پرزے! اعلان غدیر کے منکرین اوراحکام خدا اور رسول سے منحرف ہو جانے والوں کو اس بات کاپورا پورا احساس تھا کہ اپنا باطل نظام خلافت اور سازشی کاروائی کا بول بالاممکن نہیں ہے جب تک پوری شدت کے ساتھ غدیری خلافت کو کچل نہ دیا جائے اور جب تک غدیری خیلفہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو پوری طور پر منظر سے ہٹا نہ دیا جائے اسی لیے آپ تاریخ میں دیکھیں گے کہ عہد رسالت مآب ۖ میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں علی نہ ہوں ۔اور سازشی کاروائی کے بعد جب '' مدینہ سرکار'' بن گئی تو یہی علی جمع قرآن کمیٹی سے لیکر مسجد کے پیش نماز تک کہیں کسی منزل پرآپ کو برائے نام بھی نظر نہیں آئیں گے کیا بات ہے کہ کل جس کے بغیر نبوت و رسالت ایک قدم نہ چلتی رہی ہو آ ج وہ علی کہیں نظر نہیں آتے اور '' مدینہ سرکار '' کی مشین پورے طاقت سے گردش کر رہی ہے ۔اس معمہ کو بھی علامہ شبلی ہی حل کرتے ہیں۔علامہ شبلی حضرت عمر کی مدح ثنا کرتے ہوئے الفارق کے حصہ دوم میں لکھتے ہیں کہ: عرب میں چار شخص تھے جن کو دہاةالعرب کہا جاتا تھا یعنی جو فن سیاست وتدبیر میں اپناجواب نہیں رکھتے تھے (١) امیرمعاویہ '(٢)عمر وبن عاص'(٣)مغیرہ بن شعبد'(٤)زیاد بن ابیہ ایک صفحہ اگے چل کر لکھتے ہیں کہ؛ '' عمر نے زیاد کے سوا تینوں کو بڑے بڑے ملکی عہد دیئے اور چونکہ یہ لوگ صاحب ادعا بھی تھے اس لیے اس طرح اس پر قابو رکھا کہ کبھی کسی قسم کی خود سری نہ کر نے پائیں ۔ زیاد ان کے زمانے میں شانزدہ (١٦) سالہ نوجوان تھا اس کو کوئی بڑا عہدہ نہیں دیا لیکن اس کی قابلیت اور استعداد کی بنا پرابو موسیٰ اشعری کو لکھاکہ کاروبارحکومت میں اس کو مشیر کا بنائیں '' ایک صفحہ بعد لکھتے ہیں کہ '' کسی شخص کو شوق ہو تو رجال کی کتاب سے عرب کے تمام آدمیوں کا پتا لگائے اور پھر دیکھئے کہ حضرت عمر نے ان پرزوں کو حکومت کی کل میں کیسے مناسب معوقوں لگایا تھا ۔ چونکہ کل وہ دیسی تھی اس کی بنیاد تمامتر فتنوں اور سازشوں پر تھی اس لئے حکومت کی اس سازشی کل میں جو پرزے استعمال کئے گئے تھے ؛ معاویہ 'عمر وبن عاص'مغیرہ بن شعبد'زیاد بن ابیہ وغیرہ اور حضرت علی الہی و ریاستی طرز حکومت کی کل کے پرزے تھے بھلا ولایتی پرزہ اس کل میں کیسے استعمال ہو سکتا تھا ؟ اسی الفاروق حصہ دوم میں آگے چل کر علامہ شبلی لکھتے ہیں کہ اس وقت تمام عرب میں تین شخص تھے جو مشہور مدبر اور صاحب ادعا تھے معاویہ 'عمربن عاص' مغیرہ بن شعبد چونکہ میمات ملکی کے انجام دینے کے لیے ان لوگ سے بڑھ کر تمام عرب میں کوئی شخص ہاتھ نہیں آسکتا تھا اس لیے سب کو بڑے بڑے عہدے دیئے بڑے عہدے د ے کر ان لوگوں کی منہ بھرائی کی گئی تاکہ غدیرکے بالمقابل سقیفائی خلافت کا یہ لوگ ساتھ دیتے رہیں ۔حیرت ہے کی ملکی میمات کی انجام دہی کے لیے آج جن پرزوں کو حکومت کی کل میں ہنسی خوشی استعمال کیا جا رہا ہے ان پرزو ں کو مختار کائنات مرسل اعظمۖنے اپنی زندگی میں خود کیوں نہ استعمال فرمایا ؟کل جوپرزے بیکار محض بلکہ ضرر رساں اور نقصان دہ تھے وہ آج کار آمد کیسے ہو گئے اور کل جو پرزہ اتنا اہم 'قیمتی اور ضروری تھا کہ اس کے بغیر آنحضرت نے اپنی نبوت و رسالت کا اعلان تک نہ کیا وہ پرزہ (حضرت علی) اس دور میں بالکل ناکام کیسے ہوگیا؟ یہ ہے غدیر کا رد عمل اور ا س کے بھیانک اثرات جس کی جھلکیا ںآپ کو تاریخ میں قدم قدم پر ملیں گی ۔ہر وہ شخص جسے اللہ نے ذرا بھی عقل دی ہے خود فیصلہ کر سکتا ہے . ایک جنگ میں حضرت علی علیہ السلام سے سپہ سلاری کی درخواست کی گئی تو حضرت علی نے صاف انکار کردیا چنانچہ علامہ شبلی لکھتے ہیں کہ ''حضرت علی علیہ السلام سے درخواست کی گئی مگر انھوں نے انکار کردیا ۔ علامہ شبلی نے حضرت علی علیہ السلام کے انکار کی نہ وجہ بتائی اور اس پر کوئی تبصرہ فرمایا ہم سمجھتے ہیں کہ مجبوراً حضرت علی کو سقیفائی حکومت کی کل میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہاں امید کہ یہ پرزہ کام کر ہی جائے مگر حضرت علی نے انکار کر کے اس دیسی کل کی نااہلی کا اعلان کر دیا . امیرالمومنین کالقب: امیرالمومنین کا خاص لقب غدیر خم کے اعلان کے بعد رسالت مآب ۖ کی بارگاہ سے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کو عنایت ہوا تھا اور مرسل اعظمۖ نے عام اعلان فرمایا تھا کہ تمام لوگ علی کو تہنیت و مبارکباد دینے جائیں تو امیرالمومنین کہہ کر سلام کریں چنانچہ سب نے اس حکم کی تعمیل کی خود حضرت عمر مسلسل تین دن تک اپنے ہمراہیوں کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کو امیرالمومنین کہہ کر سلام کرتے رہے ۔ مگراس لقب پر ان کی نظریں لگی رہی اور سقیفائی کاروائی کی کامیابی کے بعد جیسے ہی تخت نشین ہوئے اس خاص لقب کو بھی ہتھیا لیا اور اپنے کو امیرالمومنین کہلانے لگے ۔اس کے بعد اس لقب کی مٹی ایسی پلید ہوئی کہ تمام شاہان بنو امیہ اور بنو عباس امیرالمومنین بن گئے ۔ غدیر کے ردعمل پر اس بات کی خصوصی نظر رکھی گئی تھی کہ علی کے پاس کچھ بچنے نہ پائے اس کی خصوصیت اور انفرادیت کو قطعاً مٹا دو۔ حضرت علی علیہ السلام سے چھین کر اس لقب کی آبرْاور وقار کو اس طرح خاک میں ملا دیا گیا کہ تاریخی اورخاندانی ننگا یزید بھی موقع ملتے ہی امیرالمومنین بن بیٹھا جو طرزجہانبانی انداز پرچم کشائی اور ملکی داروگیر میں اپنے بزرگوں سے کچھ زیادہ ہی آگے نکل گیا پیچھے نہیں رہا . سیاسی انتظام: بہت سے افراد اور جماعتوں کے نذدیک سیاسی انتقام اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے بغیر سیاسی استحکام ناممکن ہوتا ہے ۔یقینا اعلان غدیر کے خلاف جو جماعت بر سراقتدارآئی تھی وہ محسوس کر رہی تھی کہ اقتدار سنبھل نہیں سکتا ۔حکومت چل نہیں سکتی اور نسل رسولۖ بالخصوص علی بن ابی طالب کی موجودگی میں ہمیں سیاسی استحکام نہیں مل سکتا اس لیے انتقامی کاروائی کے سلسلہ میں نہ صرف آخرت و عاقبت کو بھلا دیا گیا بلکہ آدمیت و انسانیت کو بھی قطعاً فراموش کر دیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ الملک عقیم سیاست و حکومت بانجھ ہوا کرتی ہے ۔ یعنی عموماً سلاطین و شاہان زمانہ کے سینوں میں دل کی جگہ پتھر کا ٹکڑا ہوتا ہے اورا گر ا س میں جاہلی خوبو پہلے سے موجود ہوتو اس کی مثا ل نیم چڑھے کریلے کی ہوجاتی ہے ۔حریفان غدیر نے محمد وآل محمد ۖ سے سیاسی انتقام کے سلسلہ میں تشدد بلکہ ظلم و ستم کی جو کاروائیاں کیں اس کی وجہ سے انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا اور آدمیت کو آٹھ آٹھ آنسو رونے پڑے کل صرف ددو ماہ چند دنوں پہلے جس کی خلافت کا اعلان مرسل اعظمۖ نے فرمایا :جس کو امیرالمومنین کہہ کہہ کر تہنیت اور مبارکباد دی اس سے بیعت لینے کے لئے اتنی زیادتی کہ علامہ ابن حدید معتزلی گردن میں رسی کا پھندہ 'گھر میں آگ لگا دی جائے او ر دروازہ گرا دیا جائے ؟ دبے لفطوں میں تاویلات کے ساتھ علامہ شبلی نے بھی اس کا اقرار کیا ہے ۔ سیاسی انتقام کا ایک اسلحہ معاشی و اقتصادی ضرب بھی ہے ۔اپنی منتقمانہ کاروائی میں حریفان غدیر نے اس پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور صرف کیا ہے خیبر کی آمدنی جس نے مسلمانوں کی معاشی و اقتصادی دنیا میں عظیم انقلاب برپا کیا اور اسلامی معاشرہ کے افراد کو نان شبینہ کی طرف سے مطمئن کیا ۔اس کاشکریہ اس طرح ادا کیا گیا کہ فاتح خیبر علی بن ابی طالب اور ان کی اولاد کو فدک اور خمس کی قرآنی آمدنی سے محروم کر دیا گیا '' مدینہ سرکار'' علاقہ فدک کو ضبط کرتی ہے بنت رسولۖ خدا کے وہ کارندے جو وہاں مامور تھے اس کو ہٹا کر فدک اور اس کی آراضیات پر قبضہ غاصبانہ کرتی ہے ۔ فدک کا وہ ہبہ نامہ جو رسول ۖ خدا کاتحریر کردہ تھا اس کو چاک کر کے پھینک دیا جاتا ہے اور اس ظلم و ستم کے خلاف لب کشائی کی جرأت بھی کسی میں نہ رہی ۔ سیاسی انتقام میں ایک ذلیل حربہ کردار کشی بھی ہے عزت و وقار کو مٹا کر معاشرہ کی نظروں میں اہمیت اور عظمت اور اس کی شرافت و حرمت کو پامال کرنا بیحد ضروری ہے جس سے حکومت اپنے لیے خطرہ محسوس کرتی ہے اس کو ملک کا دوسرے درجہ کا شہری بنا دیتی ہے ۔ حریفان غدیر نے غدیری خلافت کے بالمقابل خدا اور رسول ۖ کے احکام و مرضی کے علی الرغم جو حکومت قائم کی اس کا نظریہ یہی تھا ۔ یہ بات دنیاکا ہر آدمی جانتا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب مرسل اعظم ۖ کے چچازاد بھائی تھے یہ تو تھا خاندانی اور خون کا رشتہ اس کے بعد دعوت ذوالعشیرہ میں مرسل اعظم ۖ نے حضرت علی کو اپنا بھائی کہا دنیا میں بھی حضرت علی رسولۖ کے بھائی ہیں اور آخرت میں بھی یہ رشتہ اخوت باقی رہے گا ان دونوں حقیقتوں کے بعد واقعہ عقد مواخات ہے جو ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں پیش آیااور دوسری مرتبہ مدینہ منورہ میں ان دونوںمقامات پر مرسل اعظمۖ نے علی کو اپنا بھائی قرار دیا اور اس اخوت کا اعلان فرمایا ۔ مگر افسوس کہ غدیر کے حریفوں نے سیاسی انتقام کے جوش میں اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا علامہ ابن قتیبہ دینوری اپنی تاریح الامامة و السیاسة میں لکھتے ہیں کہ: ددربار خلافت میں حضرت علی کو بیعت نہ کرنے کے سلسلہ میں دھمکی دیتے ہوئے یہ کہاکہ اگرآپ بیعت نہ کریں گے تو اپ کو قتل کر دیا جائے گا ۔ حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا اگر مجھے قتل کر دو گے تو ایک بندہ خدا اور رسول ۖ کے بھائی کو قتل کرو گے ۔جواب میں تشد د مزاج شخص نے جواب دیا کہ ہم آپ کو بندہ خدا تو مانتے ہیں مگر رسولۖ کا بھائی نہیں مانتے افسوس اورحیرت تو اس بات پر ہے کہ اس دربار میں ایک بھی ایسا حق گو نہیں تھا جو اس کا جواب دیتا کہ تم ایسی روشن حقیقت کا انکار کیسے کر رہے ہو ؟تاریخ کی اس دھاندلی پر جب ایک طالب علم کی نظر جاتی ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ''مدینہ سرکار'' نے جو اندھیر پھیلا رکھا تھا اس کی وجہ سے اس مدینہ میں جسے ''منورہ''کہا جاتا ہے ایسی تاریکی اور گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا جیسا یزیدی عہد میں کربلا میں بھی نہ تھا کربلا میں امام حسین علیہ السلام یزیدی لشکر سے پوچھ رہے تھے ۔ کیا میرے علاوہ بھی کوئی اس وقت ہے جو تمہارے نبیۖ کی بیٹی کا بیٹا ہو؟ کیا میرے بھائی حسن کے علاوہ کوئی جنت جوانوں کا سردار ہے ؟ یزیدی لشکر اور اس کے تمام سرداروں نے جواب دیا نہیں . امام نے دریافت فرمایاکیا میرے ذمہ کسی کا خون بہاہے ؟ کیا میں نے شریعت میں کوئی تبدیلی کی ہے ؟ جواب آیا نہیں .یعنی جو جھوٹ کربلا میں یزیدی سپاہی نہ بول سکے وہ جھوٹ نبی اکرمۖکے انتقال کے صرف تین دین بعد مدینہ میںبولا جا رہا ہے اورکسی میں لب کشائی کی جرأت نہیں ۔یہ صریحی کذب بیانی صرف اسی لیے تو تھا تاکہ اخوت رسالت کا رشتہ علی پر ہونے والے ظلم و ستم اور حکومتی زیادتیوں کی راہ میں موانع نہ پیدا کرے۔؟ کل حریفان غدیر نے اعلان غدیر کے بالمقابل فرمان خدا اور رسول ۖ کی مخالفت اور نافرمانی کرتے ہوئے نئی خلافت کی سنگ بنیاد رکھ کر ''مدینہ سرکار''قائم کر لی اور یہ سلسلہ بنی امیہ سے ہوتا ہوا بنی عباس تک اور اس کے بھی اگے تک چلا گیا ۔غدیر کے ردعمل کی بات یہ ہے کہ اس نوزائیدہ عوامی خلافت جو خدا اور رسول ۖ کے احکام اور ان کی قطعی مخالفت میں قائم کی گئی تھی اس کا مرکزی مقا م تبدیل ہوتا رہا خلفاء مختلف نسلوں کے آتے اور جاتے رہے مگر محمد وآل محمد ۖسے عداوت و نفرت پر جس خلافت کو قائم کیا گیا تھا یہ عنصر اس خلافت میں ہمیشہ غلب رہا بلکہ جیسے جیسے سلسلہ خلافت اگے بڑھتا رہا مزاج خلافت میں مزید تندی اور تیزی آتی چلی گئی ۔یہی وجہ ہے کہ غدیری خلافت کے حقیقی 'واقعی 'اصلی اور معصوم ہادیوں کی زندگیاں ان خلفاء کے ہاتھوں ختم ہوئیں جو خدا اور رسولۖ کی مرضی کے علی الرغم قائم شدہ خلافت کے تخت و تاج کے مالک ہوئے . غدیری خلافت ہمیشہ سقیفائی خلافت کے ہاتھوں ستائی گئی قیدی بنائی گئی اور قتل کی گئی .یہ آپ کے سوچنے اور پھر فیصلہ کرنے کی بات ہے کہ ظلم و ستم کا یہ تسلسل اور پھر تلوار یہ زہر کے ذریعہ نبی اکرم ۖکی معصوم اولادوں کا قتل مسلمان سلاطین و مسلمان خلفاء کے ہاتھوں تاریخی حادثہ ہے یاسقیفائی منصوبہ ؟ آج بھی زبان وقلم کے ذریعہ طاقت اور قوت کے ذریعہ اور تحریر و تقریر کے ذریعہ غدیری مسلمان پر ہونے والی زیادتیاں اور غدیری اقلیت پر ہونے والے ظلم و ستم کے متعلق بھی غور کیجئے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ یہ سب کچھ تاریخی حادثہ ہے یاسقیفائی منصوبہ ؟ مالک بن نویرہ پر ''مدینہ سرکار '' کی طرف سے زکوٰة نہ دینے کا الزام لگا کر واجب القتل گردانا گیا جو آدمی صرف زکوٰة کا انکار کر دے وہ کافر قرار پاجائے اور جو افراد یاجماعت احکام خدا واعلان رسولۖ خدا کی مخالف کرکے ان کے خلفاء اور معصوم اولادوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ،قید و بند کی صعوبتوں اور اذیتوں میں مبتلا کرے اور تلوار یا زہر سے ان کی زندگی کا خاتمہ کر دے اور سب نہ صرف مسلمان شمار کئے جائیں بلکہ انھیں اس کا بھی اختیار دیدیا جائیکہ وہ غدیری مسلمانوں کو صحن حرم میں قتل کر دیں .ارض مقدس حرم کو ان کے خون سے رنگین کر یں اور پھر فتویٰ دیا جائے کہ یہ سب کافر ہیں .یہ سب کچھ تاریخی حادثہ ہے یاسقیفائی منصوبہ ؟ میں صرف ایک ہی بات جانتا ہوں کہ سب کچھ غدیر کا شدید ردعمل ہے ج وچودہ سو سال سے جاری ہے کسی حادثہ میں اتنی طاقت نہیں ہوتی جو صدیوںجاری رہے یہ بات صرف منصوبہ میں پائی جاتی ہے حضرت علی کی مخالفت میں مرسل اعظم ۖ کے قتل کا جو منصوبہ چودہ سو سال پہلے بنا تھا اسی منصوبہ پر آج تک عمل در آمد ہو رہا ہے ۔ نیاز فتح پوری ہوں،مولانا شاہ ولی اللہ ہوںیا مامون الرشید یہ حضرات حق کو جانتے بھی تھے پہچانتے بھی تھے مگر مانتے نہ تھے ۔اسلام کی اولین جماعت سے زیادہ ان حقائق اور معارف کو کون جانتا ہوگا ان حضرات نے تو اپنی انکھوں سے سارے منا ظر دیکھے تھے مگر کیا حق کو مانتے بھی تھے ؟ اگر حق کو مانتے ہوتے تو اسلام کی تاریخ آج کسی اور نہج پرمرتب ہوتی اسلامی تاریخ کے صفحات محمد وآل محمدۖ کے خون سے نم نہ ہوتے ۔ نہ اسلام کی تاریخ میں فاطمہ زہرا بنت محمد مصطفےٰ ۖ کا مرثیہ ہوتا ' نہ معصوم علی کا صیحہ ہوتا ' نہ کربلا کا المناک اور خونچکاں المیہ ہوتا .نادان قاتل وکلا ء وفاداروں کے خون کے داغ کو کیچڑ سمجھ کر تاویلات کے پانی سے دھونے کی کوشش کر رہے ہیں . نا سمجھ علماء خون ناحق کے تاریخی تھالوں پر اپنے لمبے لمبے دامن پھیلا کر پوشیدہ رکھنے کی سعی ناکام کر رہے ہیں انہیں خبر نہیں کہ اس کوشش میں خود ان کے دامن خون سے رنگین ہو رہے ہیں ۔
بشکریہ تحفہ عید غدیر ، مصنف مولانا کرار حسین مرحوم
|
مقالات کی طرف جائیے |
|