مقالات

 

غدیر کا ردّ عمل

رئیس الواعظین مولانا سید کرار حسین واعظؒ

ادبی حلقوں میں نیاز فتح پور ی کی ادارت میں نکلنے والے رسالہ’’نگار‘‘کی بڑی اہمیت تھی ہر چند کہ ’’نگار‘‘ خالص ادبی رسالہ تھا لیکن مذہبی نوک جھوک اور چھیڑ چھاڑ اس کا پیدائشی مسلک تھا اسی لیے خالص مذہبی ذوق رکھنے والے حضرات کے زیرمطالعہ بھی رہا کرتا تھا لوگوں کو اس کی تازہ اشاعت کا شدت سے انتظار رہتا تھا ۔یہ نیاز فتح پوری کا ادارتی و صحافتی فن تھا جس نے ’’ نگار‘‘ کو ادبی و مذہبی دونو ں دنیا ؤں میں مقبول رسالہ بنا دیا تھا ۔ چنانچہ’’نگار‘‘ میں کسی پنڈت ’’ہر نام‘‘نے اپنے ایک مضمون کے ذریعہ مسلمانوں کی دکھتی رگ (مسئلہ خلافت)کو چھیڑ دیا ِ۔بس پھر کیا تھا پورے ہندوستان میں زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے لگے۔صاحبان تحقیق ،ارباب ذوق اور پرورش لوح و قلم کرنے والے اصحاب میدان میں آ گئے۔
غدیر اور سقیفہ کا کوئی گوشہ یا حاشیہ ایسا نہ تھا جو سامنے نہ آیا ہو اور آخر میں نیاز فتح پوری نے غدیری صاحبان قلم کے حق میں اپنا فیصلہ سنا یا حالانکہ خود نیاز فتح پوری عقیدہ اور مسلک کے لحاظ سے خالص سقیفائی مسلمان تھے ۔ بعد میں یہ پوری تفصیلی بحث ہندو پاک میں کتا بی شکل میں شائع کی گئی ۔صاحبان ذوق سلیم کے لیے یہ خاصے کی چیز ہے ۔نیاز فتح پوری نے غدیری صاحبان قلم کے حق میں اپنا فیصلہ اس لیے دیا کہ عقل و منطق کی روشنی میں خلافت بلا فصل علی بن ابی طالب علیہ السلام ایک ثابت شدہ حقیقت کے عنوان سے ہر دور میں جانی اور پہچانی گئی ہے ضداور ہٹ کا علاج تو لقمان کے پاس بھی نہیں تھا تو ہمارے اور آپ کے پاس کوئی نسخہ صحت کہاں سے آسکتا ہے ۔ایک غدیری قلم جو لکھ سکتا ہے وہ ساری سچائیاں سقیفائی وکیلوں نے خود تسلیم کی ہیں۔ محدث دہلوی شاہ ولی اللہ صاحب جو محدث دہلوی شاہ عبدالعزیز صاحب کے والد محترم ہیں ازالة الخفاء مقصد اول میں تسلیم کرتے ہیں کہ:
جس طرح نبوت حاصل کرنے سے نہیں مل جا تی ا ور نہ خود سے کوئی نبی بنتا ہے اسی طرح خلافت بھی ہے نہ کوئی شخص خود خلیفہ بن سکتا ہے اور نہ کسی کے خلیفہ بنا نے سے کوئی خلیفہ بن سکتا ہے ۔نبوت کی طرح سے یہ بھی خدا ہی کے اختیار کا مسئلہ ہے وہی جس کو چاہتا ہے خلیفہ بناتا ہے اور وہی بر حق خلیفہ ہوتا ہے ...عقلی دلیلوں سے ہمیں یقین ہے کہ آنحضرت نے اپنا خلیفہ خود ہی مقرر فرما دیا تھا اور اس کی اطاعت واجب کر دی تھی... . آنحضرتؐ جب سفر پر تشریف لے جاتے تھے تو کسی نہ کسی کو مدینہ کا حاکم ضرور بنا تے تھے ۔ تو جب آپ دنیا چھوڑ رہے تھے تو خلافت کاانتظام کیوں نہ کرتے ؟ امت کو پراگندہ اورمنتشر ہونے کے لیے چھوڑ جانا محال تھا اگربعثت نبوت کی غرض و غایت پرغور کیا جائے تو امت کو بغیر کسی ہادی اور امام اور خلیفہ کے چھوڑجا نا قطعاًخلاف عقل اور غرض بعثت کے خلاف ماننا پڑے گا اور یہ بات شان رسالت کے قطعاًمنافی ہے کہ آں حضرت کہتے کچھ اور کرتے کچھ آنحضرت جیسے مدبٔر حکیم اورمشفق و مہربان کے بارے میں کیا عقل اس بات کو تسلیم کرسکتی ہے کہ وہ اپنی امت کو ہلاکت اور گمراہی کہ حوالے کر دیں اور اس کو جہنم سے بچانے کی کوئی فکر نہ کریں ۔
کوئی بھی انسان ہمیں بتائے کہ جو بھی شاہ صاحب نے فرمایا ہے کوئی غدیری مسلمان ایک حرف بھی اس سے زیادہ بول سکتا ہے ۔ہمیں تو ایسا محسو س ہوتا ہے کہ ہندوستان کے ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ نے کسی غدیری مسلمان کا قلم سنبھال لیا ان کے سر میں کسی غدیری مسلمان کا دماغ جگہ پا گیا ۔ ورنہ خالص غدیری بیان دینے کے لیے ان کے سینہ میں اتنا بڑا دل کہاں سے آگیا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ علامہ شبلی اور دوسرے سقیفائی علماء کرام نے اس بیان کو پڑھا نہیں۔خود ان کے فرزند شاہ عبدالعزیز صاحب تحفہ اثنا عشریہ نے پڑھا تھا یا نہیں اور میں یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ اس غدیری بیان کے بعد شاہ صاحب سقیفائی کیسے رہ گئے ؟
قرآن کا بیان
قرآن مجید بھی اس بات کا علان کرتا ہے کہ نبوت' امامت یا خلافت کا اختیار بندوں کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔بندے نہ خودسے نبی'امام یا خلیفہ بن سکتے ہیں اور نہ کسی کو بنا سکتے ہیں ۔وماکان المؤمن ولاالمؤمنہ اذا قضی اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالامبنیا۔یعنی جب اللہ اور اس کے رسول کسی بات کو طے کر دیں تو پھر کسی مومن یا مومنہ کو اس کا اختیا ر نہیں کہ وہ اپنے امور کے لئے کسی اور کا انتخاب کریں اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرتے ہیں وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں ۔
١۔جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کا انتخاب ہو گیا اور اپنی تبلیغی زندگی میں سرکار مرسل ا عظم ۖ نے متعدد بار اس علان کو بھی فرمادیا تو سقیفہ کی کاروائی کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ کھلی ہوئی ہدایت تھی یا کھلی ہوئی گمراہی ؟

دعوت ذوالعشیرہ
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی خلافت بلا فصل پہلااعلان مرسل اعظم ۖ نے دعوت ذوالعشیرہ میں اپنی نبوت کے اعلان و اظہا ر کے ساتھ فرمایا تھا دعوت ذوالعشیرہ میں تقریر کرتے ہوئے حضور مرسل اعظم ۖ نے فرمایا :اے بنی عبدالمطلب !میں تمہارے پاس دین و دنیا کی نیکی لایا ہوں اور مجھے اس با ت کا حکم دیا گیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اس کی طرف دعوت دوں ۔ کون ہے جواس کام میں میر ا بوجھ بٹائے ؟ تا کہ وہ میرا بھائی و صی اور خلیفہ ہو ۔آنحضرت کے سوال کا کسی نے جواب نہیں دیا ۔ کمسنی کے باوجو دحضرت علی نے فرمایا ۔ یا رسول اللہ بوجھ بٹانے کے لئے میں حاضر ہوں یہ سن کر آنحضرتۖ نے حضرت علی کی گردن پر دست شفقت رکھ کر فرمایاائے لوگوں ! تم لوگوں میں علی میرا بھائی 'وصی اور میرا خلیفہ ہے ۔تم سب اس کا حکم سنو اور اطاعت کرو یہ سنتے ہی مجمع قہقہ لگا کر اٹھ کھڑا ہوا اور جناب ابوطالب سے کہنے لگا ''علی کی اطاعت و فرما برداری کرو '' ۔
دعوت ذوالعشیرہ کی اس کاروائی کی پوری تفصیل جس میں آنحضرت نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی وصایت اور خلافت کا پہلا اعلان اپنی نبوت کے ساتھ فر مایا علماء سقیفہ کی کتابوں میں موجود ہے طبری' ابن اثیر کی کامل' ابوالفدا کی تاریخ البشر' ملا علی کی کنزل العمال 'نبوی کی محالم التنزیل 'بیہقی کی دلائل النبوة 'سیوطی کی جمع الجوامع' حاکم کی مستدرک ' نسائی کی خصائص ' احمد کی مسند ۔ البتہ صاحب البدایة والنہا یہ نے کاروایی دعوت ذوالعشیرہ کی تفصیل لکھنے سے گریز کیا اور نہایت بخل سے اس لیے کام لیا کی وہ اپنی طینت اور سرشت سے مجبور تھے اعلان خلافت کا لکھنا ان کے مزاج پر بار تھا ۔اور اب تو آہستہ آہستہ سارے سقیفائی علماء کو ہوش آنے لگا ہے کہ دعوت ذوالعشیرہ کی کاروایی سے اعلان خلافت علی کا تذکرہ نکال دینا چائیے ۔ چنانچہ صاحب البدایة والنہا یہ کی حرکت مذبوحی کی نقل اب دوسروں نے غالباً طے شدہ پروگرام کے تحت شروع کر دی ہے ۔آغاز کار میں صاحب البدایة والنہا یہ ممکن ہے اس راہ میں اکیلے رہے ہوں جنھوں نے اعلان خلافت علی بن ابی طالب کو چھپانے کے لیے '' فقال ان ھذا اخی ووصی و خلیفتی فیکم فاسمعوا لہ و اطیعوا'' رسول ۖاللہ نے فرمایا یہ علی میرا بھائی 'وصی اور میرے خلیفہ ہیں تم لوگو کے درمیان لہذا تم ان کے احکام کو سنو اور ان کی اطاعت کرو کا فقرہ ہضم کر گئے ۔ فقال کذا و کذا اور رسول ۖاللہ نے اس اس طرح فرمایا '' لکھ کر تاریخی دیانتداری کا ثبوت صفحہ قرطا س پر چھوڑ گئے اور اب اس راہ پر قافلے چل پڑے طبری کی تاریخ المرسل و الموک میں یہ فقرہ موجود ہے لیکن اب جو نئے اڈیشن آرہے ہیں اس میں ختم رسالت کا اعلان خلات علی والا فقرہ اڑا کر وہی کذا کذا کر دیا گیا ہے اور اسی لیے مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اپنی کتا ب '' المرتضی'' میں اس پورے واقعہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ جہاں تک انکار واقعہ خلافت کا تعلق ہے تو اس شرافت وعزت کا مظاہرہ چودہ سو سال پہلے سے کیا جا رہا ہے جب جلسہ خلافت میں موجود رہنے والوں اور مسلسل تین دن تک مبارک باد دینے والوںاور بیعت خلافت کرنے والوں نے انکار کر دیا تو اب ہمیں نہ کسی انکار پر حیرت ہوتی ہے نہ تعجب البتہ خوشی اور بے انتہا مسرت اس بات کی ہے کہ جس حقیقت کو تخت و تاج نے مصلحت و سیاست کے دبیز پردوں میں چھپانا چاہا مگر وہ نہ چھپ سکی جس اعلان امامت و خلافت کو علماء و فقہا ء نے جبہ و د ستارسے پوشیدہ کر نا چاہا وہ سورج سے زیادہ روشن ہو کر رہی ۔دعوت ذوالعشیرہ سے میدان غدیر تک جس امات و خلافت علی کا مسلسل اعلان و اشتہار ہوتا رہا جس کو صدیوں نے کذب و افتراء کے ذریعہ چھپانا چاہا لہ الحمد و الشکر کہ وہ اعلان آج ہزاروں مسجد وں کے گلدستھائے اذان سے بلند ہو کر فضائے بسیط میں گونج رہا ہے ۔البتہ اس اصلی حقیقی اور واقعی خلافت کے بالمقابل جو نقلی 'مصنوعی نظام قائم کیا گیا تھا وہ اللہ اورامتداد زمانہ کے ہاتھوں زور بروز اپنی موت آپ ہی مرتا جا رہا ہے ۔ اس نظام خلافت کا لاشہ عقیدتوں کے کاندھوں پر دو گذ زمین کے تلا ش میں ہے.
حضور مرسل اعظم ۖنے اپنی تبلیغی زندگی میں مسلسل علی بن ابی طالب کی وزارت ،امامت ، وصایت او ر خلافت کااعلان فرمایا مثال کے طور پر ۔
١۔امام حنبل نے مسند میںِ میر علی ہمدانی نے مودةالقربی میں، ابن مخازلی شافعی نے مناقب میں دیلمی نے فرروس میں الفاظ کی مقداری کمی اور زیادتی کے ساتھ لکھا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا : میں اور علی آدم کی پیدائش سے چودہ سوسال پہلے ایک نور سے پیدا کئے گئے .......یہا ں تک کہ عبدالمطلب کی صلب میں آکر ایک دوسرے سے جدا ہو ئے ۔ ''ففی النبوة و فی علی الخلافت '' مجھ میں نبوت اور علی کے حصہ میں خلافت آئی۔
٢۔بہیقی ،خوارزمی اور ابن مغازل نے مناقب میں لکھا ہے'' لا ینبغی ان اذھب الا و انت خلیفتی و انت اولی بالمومنین من بعدی'یہ ممکن نہیں ہے کہ میں دنیا سے چلا جاؤ ںاور تم میرے بعد خلیفہ اور مومنین کے حاکم نہ ہو ۔
٣۔محمد بن یوسف شافعی نے اپنی کتاب کفایة الطالب میں ابوذر غفاری سے روایت کی ہے کہ آنحضرتۖ نے اشاد فرمایا ترد علی الحوض رایةعلی امیرالمومنین و امام الغرالمجلین و الخلیفة من بعدیکوثر کے کنارے میرے نورانی چہرہ اور ہاتھ والوں کے سردار اور میرے بعد میرے خلیفہ علی کا علم آئے گا .
٤۔سید علی ہمدانی مودة القربی میں آنحضرت ۖ کا ارشاد تحریر فرماتے ہیں کہ آپ ۖ نے فرمایا ھو خلیفتی و وزیری ٰیعنی علی میرے خلیفہ اور وزیر ہیں ۔
٥۔عقد مواخات کے سلسلہ میں یہی سید علی ہمدانی لکھتے ہیں آنحضرتۖ نے فرمایا ھذا علی اخی فی الدنیا والاخرةو خلیفتی فی اہلی و وصی فی امتی ...''یہ علی دنیا اور اخرت میں میرا بھائی میرے اہلبیت میں سے میرا خلیفہ اور میری امت میں میرا وصی ہیں ''۔
٦۔راغب اصفہانی نے محاضرات میں لکھا ہے کہ آنحضرتۖ نے ارشاد فرمایا ان خلیلی و وزیری و خلیفتی و خیر من ترک بعدی یقضی دینی و ینجزموعدی علی بن ابی طالب میرا دوست ' وزیر 'خلیفہ اور بہترین انسان جن کو میں اپنے بعد چھوڑتا ہوں جو میرے قرض کو ادا کریں گے اور میرے وعدہ پورے کریں گے وہ علی بن ابی طالب ہیں ۔
٧۔ ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اور امام احمد حنبل نے اپنی مسند میں ذرا اختلاف الفاظ کے ساتھ لکھا ہے حضرت علی سے ارشاد فرمایا آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا انت اخی و وصی و خلیفتی و قاضی دینی ۔اے علی تم میرے بھائی ' وصی 'خلیفہ اور میرے قرض کو ادا کرنے والے ہو ۔
٨۔ حافظ ابو جعفر محمد بن جریر طبری اپنی کتاب الولایة میں غدیر کے خطبہ کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں آنحضرتؐ نے مجمع صحابہ و حجاج سے ارشاد فرمایاقد امرنی جبرئیل عن ربی اقوم فی ھذا المشہد واعلم کل ابیض و اسود ان علی بن ابی طالب اخی و وصی و خلیفتی والامام بعدی جبرئیل نے میرے پروردگار کا حکم مجھ تک پہونچایا ہے کہ میں اس جگہ ٹھہرجاؤں اور تمام گوروں اور کالوں کو بتادوںکہ علی بن ابی طالب میرے بھائی میرے خلیفہ میرے وصی اور میرے بعد امام ہیں ۔
ّّّآنحضرتؐ نے پھر ارشاد فرمایا یا معاشرالناس ذلک فان اللہ قد نصب لکم ولیا واماما و فرض طاعتہ علی کل احد ماض حکمہ جائز قولہ ملعون من خالفہ مرحوم من صدقہ ۔اے لوگو ! خدانے تم علی کو ولی (حاکم) اور امام بنایا ہے اور ان کی اطاعت تم سب پر فرداً فرداً واجب گردانی ہے ۔ان کا حکم نافذ العمل ہے ۔ان کا ہر قول صحیح ہے ۔ان کی مخالفت کر نے والے سے رحمت خدا دور ہے ااور رحمت خدا ان کے شامل حال ہے جو ان کی تصدیق کرے ۔
٩۔ابوالموئد موفق الدین خوارزمی نے فضائل امیرالمومنین میں لکھا ہے کہ شب معراج آنحضرت ۖ سے اللہ تعالی نے فرمایا . اخترت لک علیا فاتخذہ لنفسک و خلیفتہ و وصیا. میں نے تمہارے لئے علی کو منتخب کیا ان کو تمہارا خلیفہ اور وصی قرار دیتا ہوں ۔
١٠۔ امام احمد نے اپنے مسند میں اور سیدعلی ہمدانی نے مودتی القربی میں لکھا ہے کہ آنحضرت ۖ نے ارشاد فرمایا یا علی انت تبئرذمتی وانت خلیفتی علی امتی ائے علی تم میری طرف دے برأت ذمہ کرو گے اور تم میری امت پر میرے خلیفہ ہو ۔
''مشتے نمونہ از خروارے'' کے طور پر چند حدیثیں نقل کردی گئیں ۔ اندازہ کیجئے جس بات کو چھیپانے کی کوشش کی گئی .جس اعلان خلافت پر پردا ڈالنے کی سعی ناکام کی گئی اور جس امر حق کو مٹانے کی انتھک کوشیش کی گئیں وہ بات انھین کے علماء کے قلم سے حیطہ تحریر میں آگیئں اس خلافت کا اقرار انھیں کی جماعت کے افراد کر رہے ہیں اور وہ امر حق ''درد '' بن کر سینہء تاریخ میں آج تک محفوظ ہے ۔

تاریخ کا منفرد اعلان !
وہ کون سا لفط ہے جومرسل اعظم ۖنے اس سلسلہ میں استعمال نہیں فرمایا . وہ کون سا انداز ہے جسے سرکارخاتم الانبیا ئۖ نے اختیار نہیں فرمایا . اپنی جانشینی اور نیابت کے لئے وہ کون سا طریقہ ہے جسے مرسل اعظم ۖنے نظرانداز فرمایا یہا ں تک کہ غدیرے خم کے میدان میں اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر فرمایا من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ . تمام حاضرین کو حکم دیا کہ علی کو امیرالمومنین کہہ کر سلام کریں اور ان کو مبارکباد دیں یہاں تک کہ امہات المومنین اور دوسری عورتوں کو بھی اس امر پر مامور فرمایا کہ اسی طرح وہ لوگ حضرت علی کو سلام کریں اور تہنیت و مبارکباد پیش کریں ۔ اور یہ سلسلہ تین شب و روز تک جاری رہا اول من بائع ذالک الیوم علیاًکان عمر ثم ابابکر ثم عثمان ثم طلحةثم زبیرکانوابایعون ثلاثةایام متواترة۔اس روز سب سے پہلے حضرت علی کی جس نے بیعت کی وہ حضرت عمرتھے ان کے بعد یکے بعد دیگرے حضرت ابوبکر پھر حضرت عثمان پھر حضرت طلحہ اور ان کے بعد حضرت زبیر نے بیعت کی اور یہ حضرات تین روز تک حضرت علی کی بیعت کرتے رہے ۔ جس عنوان ،اندازا،شان، طریقے اور جس طرح مسلسل ،متواتر،پیہم دعوت ذوالعشیرہ سے غدیر تک حضرت علی کی امامت ، خلافت، وزارت ، وصایت اور ولی عہدی کا اعلان ہوتا رہا دین اور دنیا کی تاریخ میں کسی کے لئے اتنا انتظام و اہتمام نہیں کیا گیا .اس کے بعد بھی قرآن مجید کے فرمان کے مطابق امت اگر ضلال مبین کا راستہ اختیار کرتی ہے تو اس حرماں نصبی ،شومئی قسمت اور مقدر کی خرابی کا کوئی علاج نہیں ہے ۔شرم و غیرت کو بالائے طاق رکھ کر آج لوگ یہی کہتے ہیں کہ چونکہ کچھ لوگو کو حضرت علی سے کدورت تھی اس لئے آنحضرتؐ نے لوگوں سے تاکید فرمائی کہ وہ لوگ حضرت علی کو دوست رکھیں .اس کا تو کھلا ہوا مطلب ہے کہ جن لوگو کو حکم بیعت دیا گیا اور جنھوں نے بڑھ چڑھ کر اظہار مسرت کیا اور مبارکباد دی یہ لوگ حضرت علی کو دشمن رکھتے تھے حتی کہ ازواج رسول اور مومنین کی عورتیں بھی حضرت علی کو دوشمن رکھتی تھیں ؟اگر اس غیرعاقلانہ بات کو تسلیم کر لیا جائے تو خدا کے فرمان تبلیغ او ر اعلان پر اصرارکے بعد تکمیل اسلام کی سند ،مرسل اعظم کے اہتمام بلیغ کی توجیہ کیا ہو سکتی ہے ؟ سید علی ہمدانی اپنی کتاب مودةالقربی میں لکھتے ہیں مجمع صحابہ میں اکثر حضرت عمر نے اقرار فرمایا ہے کہ نصب رسول اللہ علیا ً علما یعنی رسول اللہ نے حضرت علی علیہ السلام کو سردار اور رہنمائے قوم کی حیثیت سے مجمع عام میں مقرر فرمایا اور ان کی مولائیت کا اعلان فرمایا اور اعلان غدیر کے بعدفرمایا اللھم انت شھیدی علیہم خدا وندا تو ان لوگوں پر گواہ ہے . یعنی میں نے اپنی تبلیغی زندگی کا اہم ترین اعلان کر دیا .ان واضح اور روشن حقائق اور معارف کے باوجود اگر کوئی حضرت علی کی خلافت اور امامت کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کو اختیار ہے خود آنحضرت ۖکی رسالت و نبوت ہی کو لوگوں نے کب تسلیم کرلیا تھا جو حضرت علی کی خلافت کو تسلیم کر لیں گے جب منکرین نبوت و رسالت مذہب کو نہ مٹا سکے تو منکرین امامت و خلافت دین کا کیا بگاڑ لیں گے ؟

مخالفت کی وجہ!
عقل اور فکر و منطق کو غرق دریائے استعاب جو چیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسی واضح 'روشن 'بدیہی اور کھلی ہوئی حقیقت کے خلاف اقدام بغاوت کیوں کیا گیا ۔وہ محرکات و عوامل اور کون سے اسباب تھے جن کے پیش نظر اتنا خطرناک اور بھیانک اقدام کیا گیا ؟ علماء سقیفہ میں تنہا ''حجة الاسلام ''ابو حامد غزالی نے اپنی سر العالمین میں لکھا ہے کہ اسفرت الحجہ وجھھاواجمع الجماھیرعلی متن الحدیث عن خطبة یوم غدیرخم باتفاق الجمیع و ھویقول من کنت مولاہ فعلی مولاہ فقال عمر بخ بخ لک یا اباالحسن قد اصبحت مولای و مولی کل مومن و مومنة۔ھذا تسلیم و رضی و تحکیم حجت تما م اور دلیل و براہان کا چہرہ روشن ہو گیا اور اعلان روز غدیر خم پر لوگوں کا اتفاق اور اجماع ہو گیا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں ۔فوراً حضرت عمر نے فرمایا مبارک ہو اے ابوا لحسن(علی) کہ اپ میرے اور ہر مومن اور مومنہ کے سردار و حاکم (مولا)ہوگئے ۔یعنی فرمانے رسولۖ کو تسلیم کر لیا اس اعلان پر راضی ہو ئے اور اس کو بر ضا و رغبت قبول کر لیا ۔
امام غزالی اس کے بعد اس سبب پر روشنی ڈالتے ہیں جس کے باعث اعلان غدیر کی مخالفت اور حکم خدا اور رسولۖ سے بغاوت کی گئی وہ لکھتے ہیں کہ ثم ہذا غلب الہوی لحب الریاسنہ و حمل عمود الخلافہ و عقودالنبودوخفقان الہوی فی قعقةالرایات واشتباک اژدھام الخیول و فتح الامصار سقاہم کاس الہوی فعادرا الی الخلاف الاول فنبذوہ دراء ظہورہم واشتروا بد ثمناقلیلا فبئس ما یشترون۔ ان تمام حقائق کے بعد لوگوں پر ہوی و ہوس کا غلبہ اور نفس امارہ کا تسلط ہو گیا ۔ ریاست وحکومت کی چاہ پیدہ ہوئی قصر خلافت کی خواہش حکومت کی لالچ اور پرچم کشائی کی آرزو پیدا ہوئی مسروری کا خیال اور قیادت و امارت کی تمنا چٹکیا ں لینے لگی ۔دماغوں میں فتوحات کا سودا سما گیا ۔نشئہ اقتدار کی شراب پی کر اپنے قدیم مشروب اور پرانے مسلک پر واپس چلے گئے احکام خدا اور رسو ل کو بھلا دیا دین کو فروخت کر کے دینا خرید لی یقیناً بہت برا اور گھاٹے کا سودا کیا ۔
یہ ہے اعلان غدیر کی مخالف کی اصل وجہ جس پر امام غزالی نے اچھی روشنی ڈالی ہے .انسان سے کچھ بعید بھی نہیں ہے اس دنیا میں اس طرح کی سودا بازی کی گرم بازار زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے کیا نمرود ' فرعون ' ہامان 'قارون'شداداور بلعم با عور انسان نہ تھے کیا ان سبھوں کو اپنی حقیقت معلوم نہ تھی اور کیا ان دعویٰ خدائی پر لبیک کہنے والوں نے لبیک کی آوازیں نہ بلند کیں ۔اس دنیا میں ہمیشہ یہی تماشا ہوا کیا ہے اور قیامت تک یہ دنیا تماشا گاہ بنی رہے گی ۔قصور تو ان فقروں کا ہے جو کوئلے کو ہیرا اور ہیرے کو کوئیلا سمجھ بیٹھے ۔کیا جناب موسیٰ کی چالیس روزہ غیبت کے بعد ان کے جانشین جناب ہارون مبتلائے آفات اور گرفتار مصائب نہیں ہوئے اور ان کی پوری قوم جناب موسیٰ کی ہدایتوں کو بھلا کر سامری کے دام تزدیر میں گرفتار ہو کر گمراہ نہیں ہو گئی ؟
...
بقیہ دوسری قسط میں ملاحظہ کریں (شکریہ)
مقالات کی طرف جائیے