|
خدا پرستی اور انسانی مساوات ؛امام رضا علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
دین اسلام ایک ابدی اور آفاقی دین ہے ، یہ دنیا کے تمام ادیان پر غالب ہے اور اس کا چرچہ دنیا کے گوشہ و کنار میں موجود ہے ، لوگ جیسے جیسے اس دین مبین کے احکامات و فرامین سے آشنا ہورہے ہیں ، ویسے ویسے اس کے گرویدہ ہوتے جارہے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دین میں انسانی مساوات کا بڑا خوبصورت اور قابل قدر خاکہ پیش کیاگیاہے ، دوسرے ادیان کی طرح اس دین میں چھوٹے بڑے اور کالے گورے کا امتیازنہیں ہے ، اس دین میں نہ مالداروں کو غریبوں پر فوقیت دی گئی ہے اور نہ ہی عورتوں کو مردوں سے پست اور حقیر سمجھا گیاہے بلکہ اس دین کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد سبھی برابر ہیں ، کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں ہے ، اس میں برتری کا ذریعہ تقویٰ اور عمل صالح ہے ، اگر تقویٰ ہے تو غریب ہوکر بھی مالداروں سے بڑا ہے اور اگر تقویٰ اور عمل صالح نہیں ہے تو مالدار ہوکر بھی غریبوں سے پست ہے ۔ انسانی مساوات کی حقیقت کو امام رضا علیہ السلام نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیاہے اور اس کا سرچشمہ خداوندعالم کی وحدانیت کو قرار دے کر اس بات کی صراحت کی ہے کہ اسلام میں ہر چیز کی بازگشت خدا وندعالم کی ذات کی طرف ہے ۔ چنانچہ عبداللہ بن صلت کا بیان ہے کہ میں خراسان کے ایک سفر میں امام ابوالحسن علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے ہمراہ تھا ، ایک دن انہوں نے سب کو دسترخوان پر بلایا ، ان کے سیاہ و سفید پوست غلام بھی آئے اور سبھی دسترخوان پر بیٹھ گئے ، میں نے ان سے عرض کی : میری جان قربان ، کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ان لوگوں کے لئے ایک الگ دسترخوان چن دیاجائے ؟ فقال : مہ ان الرب تبارک و تعالی واحد والام واحدة والاب واحد والجزاء بالاعمال "امام نے فرمایا: خاموش رہو ! سب کا خدا ایک ہے ، ماں ایک ہے ، باپ ایک ہے ( لہذا یہ افتراق اور دوگانگی کیوں ؟)اور ہر شخص کا اجر و ثواب اس کے کردار سے وابستہ ہے ''۔(١)
حدیث کی وضاحت انسانی اخوت و مساوات تمام انسان دوست ، مصلح اور معاشرے کے فلاح و بہودی کے لئے فکر مند افراد کی آرزو رہی ہے ، تمام انبیاء اور خدا کی طرف سے منتخب نمائندے اس سلسلے میں پیش قدم رہے ۔ یہ بات اگر سبھی کے فکر و نظر میں استوار ہوگئی اور اپنی واقعی منزلت کی حامل ہوگئی تو انسانی معاشرے کے بہت سے دردوں کا علاج ہوجائے گا ۔ دوگانگی ، مالکیت و عدم مالکیت ، نزاع و اختلاف ، پیشرفتہ و پسماندہ معاشرہ ، پہلی ، دوسری اور تیسری دنیا جیسی بہت سے عدم مساوات کی باتوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور سبھی خدائی اصول پر یقین رکھتے ہوئے یہ محسوس کریں گے کہ وہ ایک گھرانے اور خانوادے میں زندگی بسر کرتے ہیں ، تمام انسان ہر رنگ و نسل اور ہر زمین میں بھائی اور برابر ہیں ۔ زیر نظر حکمت رضوی میں اسی بات کو بیان کیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں تمام انسانوں کے متعلق '' الٰہی خانوادے '' کی تعبیر بہت زیادہ استعمال ہوئی ہے ، اس میں انسانی برابری کی تعلیم دی گئی ہے ؛ چنانچہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کا ارشاد گرامی ہے: ''تمام مخلوقات خدا کی عیال (خانوادہ ) ہیں لہذا ان میں خدائے بزرگ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو خدا کی عیال کے لئے زیادہ مہربان اور بخشش کرنے والا ہو''۔(۲) خدا کے دین میں تمام انسانوں کی ماں ایک خاتون اور سبھی کا باپ ایک انسان ہے اور سب کا پروردگار اور خالق ایک یعنی خداوندعالم ہے ،یہ عقیدہ و یقین انسان کے قلب و نظر میں راسخ ہوجائے تو پورے کرۂ ارض پر مساوات و برابری کا بول بالا ہوگا اور انسان کے درمیان ایسی فکر رائج ہوجائے گی کہ پھر ایک انسان کا درد تمام انسانوں کا درد محسوب ہوگا اور تمام تر اقتصادی ، اجتماعی ، ثقافتی اور سیاسی اختلافات ختم ہوکر رہ جائیں گے۔ امام رضا علیہ السلام کے کلام بلاغت نظام کے آخری حصے میں شاید اس بات کی طرف اشارہ کیاگیاہو کہ بعض سرزمینوں اور انسانوں کے درمیان جو امتیازات رائج ہیں، وہ اس دنیا میں برتری اور امتیاز کا موجب نہیں ہوسکتے اس لئے کہ یہ امتیازات اس زندگی میں افتراق اور دوگانگی کا موجب نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ تقویٰ جیسا عمل اور معنوی اقدار بھی آخرت اور دوسری دنیا میں امتیاز کا موجب ہیں ، اس دنیا میں ہر شخص اور ہر ملت چاہے وہ کسی بھی درجہ و منزلت کا حامل ہو ، وہ ان ملتوں اور لوگوں سے مساوی ہیں جو ان سے کم درجہ کے حامل ہیں ، انہیں ایک دوسرے پر کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے۔ یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ امام کے کلام میں ہر طرح کی امتیاز طلبی اور برتری جوئی کی نفی کی نسبت عقیدۂ توحید سے دی گئی ہے ؛ امام نے فرمایا : مہ ان الرب واحد'' خاموش رہو ، بے شک سب کا خدا ایک ہے ''۔یعنی اگر اس بات کا عقیدہ اور ایمان ہو کہ خدا ایک ہے ، تمام لوگ اس کے بندے اور مخلوق ہیں اور وہ عادل مطلق اور بے پناہ مہربان اپنی تمام مخلوقات کو ایک نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے درمیان کسی طرح کے امتیاز اور برابری کا قائل نہیں تو پھر کسی طرح کا افتراق ، دوگانگی اور امتیازنہیں رہے گا ۔ اب اس تناظر میں ان ملکوں اور انسانوں پر ایک نظر ڈالئے جو خود کو حضرت عیسیٰ کا پیروکار اور خدا پرست سمجھتے ہیں ، وہ کس طرح عہد حاضر میں یکہ تازی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، دوسرے انسانوں اور معاشروں کو کالعدم سمجھتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ تسلط آمیز اور متکبرانہ رویہ اختیار کرتے ہیں یہاں تک کہ علم و فن کے میدان میں بھی دوگانگی اور افتراق کا رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ یہ طریقہ خدا پر ایمان اور انبیاء کی پیروی کے منافی ہے ، حیرت تو ان کے مذہبی رہنمائوں پر ہوتی ہے جو ان تمام تر بے راہ رویوں پر خاموش بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ وہ ایسی باتوں کو اور ہوا دے رہے ہیں ۔!
حوالہ جات ١۔ اصول کافی ج٨ ص ٢٣٠ ۲۔بحار الانوار ج٩٦ ص ١١٨
|
مقالات کی طرف جائیے |
|