|
غدیر کی معنویت |
ڈاکٹر پیام اعظمی |
فلسفہ ختم نبوت: کیاکبھی آپ نے سوچاہے کہ اللہ تبارک اوتعالیٰ نے ہزاروں سال تک جاری رہنے والے رشتۂ نبوت اورسلسلۂ رسالت کواچانک کیوں منقطع کردیا؟ حضرت آدمؑ سے شروع ہونے والانزول وحی کاسلسلہ حضرت محمدمصطفےٰؐ کی ذات گرامی صفات پرہمیشہ ہمیشہ کے لئے کیوں ختم ہوگیا۔؟ کیامادرانسانیت بانجھ ہوچکی تھی اورایساانسان پیداکرنے سے قاصرتھی جوعالم غیب سے رابطہ قائم کرسکے؟ کیازمین کی کوکھ سردہوچکی تھی اورایسافرزندنہیں پیداکرسکتی تھی جوآسمان سے رشتہ جوڑلے؟ کیاشعورانسانی کی نگاہ بصیرت اب اندھی ہوچکی تھی اورلوح محفوظ کامطالعہ کرنے سے قاصرتھی؟ کیااحسن تقویم پرپیداہونے والی انسانیت اپنی سماعت کھوچکی تھی اوراب آسمانی آواز سننے سے معذورتھی کیامسجودملک اب فرشتوں سے گفتگوکرنے کے قابل نہیں رہ گیاتھا؟ اورچوں کہ قدرت کوکوئی ایسافردنہیں مل سکاجونبوت کی ذمہ داریوں کوسنبھال سکے اس لئے اس مقدس سلسلے کوہمیشہ کے لئے بندکردیا۔ اگرایساہے تواس کامطلب اس کے سواکچھ نہیں نکلتاکہ انسانیت عروج کے بجائے زوال کی طرف سفر کررہی تھی، تاریخ کارخ بلندی کے بجائے پستی کی طرف تھااس طرح رفتہ رفتہ سلسلہ رسالت کمزورسے کمزورترہوتاگیا۔ اورآخری ہچکی لے کے ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گیااورپھریہ بھی کہنا پڑے گاکہ سب سے بڑے بنی حضرت آدم تھے پھرنبوت کاقدچھوٹاہوتے ہوتے معدوم ہوگیا۔(معاذاللہ) ظاہرہے کہ یہ تصورقرآن وحدیث عقل وتاریخ کے کھلے ہوئے فیصلے کے خلاف ہے اوراس کافرانہ نظریہ کوکوئی مسلمان ماننے کے لئے تیارنہیں ہے۔ پھردوسراسبب یہ ہوسکتاہے کہ اللہ اپنے بندوں سے اب تک خوش اورراضی تھااس لئے نزول وحی کی برکتوں سے اپنے بندوں کونوازتارہامگراب عہدمحمدی میں ناراض وغضبناک ہوکرباب وحی کوہمیشہ کے لئے بندکرلیااورفرشتوں کوزمین پراترنے کی ممانعت کردی۔لیکن ایساہوتاتوپیغمبرکی زندگی کے آخری دنوں میں تکمیل دین اوراتمام نعمت کے اعلان کے بجائے دین کی ناکامی اورنعمتوں کی واپسی کااعلان ہوتااورامت محمدی کوامت مرحومہ بجائے امت مغضوبہ کاسرٹیفکیٹ عطا کردیاجاتا۔ تیسراسبب یہ ہوسکتاہے کہ انسان وانسانیت اس منزل کمال پرپہونچ چکی تھی جہاں اسے آسمانی ہدایت کی کوئی ضرورت نہیں تھی اورغیبی رہنمائی سے بے نیاز ہوچکی تھی۔ اورجادۂ حیات میں وہ نہ کسی وحی کی محتاج تھی نہ اسے پیغمبروں کی احتیاج تھی۔ اورقدرت نے دیکھا کہ انسان اب اتناشریف ،بے ضرراورمعصوم ہوچکاہے کہ اب وہ نہ قتل وغارت گری پرمائل ہوگانہ استحصال واستعمارکرے گا۔ فسادفکری ومادی کے سارے دروازے بندہوچکے ہیں ۔ شہوانی خواہشات اورحیوانی جذبات کے سارے سرچشمے سوکھ چکے ہیں۔ اب اسے اقتدارکی ہوس ہے نہ حکومت کی اب انسان عمدایاسہوا بھی کوئی غلطی نہیں کرسکتا،انحراف وگمراہی کے خطرات ختم ہوچکے ہیں ۔ لہذاسلسلہ نبوت کوباقی رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانیت نے جب زمین پرقدم رکھاتواسی نوازائیدہ بچے کے مانندتھی جواپنے پاؤں پرکھڑے ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتالہذاضروری تھاکہ وحی کے ذریعے سہارادیاجائے اورفرشتوں کی انگلی تھام کرشعوروادراک کی راہوں پرچلناسیکھے۔ حضرت آدم سے شروع ہوکرحضرت محمدمصطفےٰؐ کی حیات کے ساتھ ختم ہونے والاعہدنبوت دراصل انسانی شعورکی تربیت کازمانہ تھا۔ اورجب تاریخ عہدترقی تک پہونچ گئی۔ شعور انسانی بلوغ کی منزلیں سرکرچکا۔ اور اس میں ترسیل وابلاغ کے مرحلے سرکرلینے کی صلاحیت پیداہوچکی۔۔۔ غیبی حقائق کاادراک آسان ہوگیا،وہ علمی اوردینی ورثے کی حفاظت اوراسے آنے والی نسلوں تک پہونچانے کاطورطریقہ سیکھ گیا۔ ساتھ ہی ساتھ اجتماعی زندگی گوناگوں تبدیلیوں کے بعداس منزل میں داخل ہوگئی جہاں کسی بنیادی تبدیلی کاامکان نہیں رہ گیا۔ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت تک کام آنے والاابدی قانون قرآن حکیم کی شکل میں نازل کرکے نزول وحی کے سلسلے کوہمیشہ کے لئے بندکردیا… اور پیغمبرتمام قابل ادراک غیبی حقائق بیان کرکے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے۔ اور قرآن نے اعلان کردیاکہ'' اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمنتی''۔ لیکن اگرکوئی شعوروادراک کی ترقی، تکمیل دین اوراتمام نعمت کایہ مطلب سمجھتاہے کہ اب انسان ہرطرح کے انحراف وگمراہی کے خطرے سے باہرنکل چکاتھااورانسانوں کاازلی دشمن شیطان واصل جہنم ہوچکاتھا، غلط کاری وغلط فکری کے سارے راستے بندہوچکے تھے ، مسلمانوں کی جماعت انبیاء کی طرح معصوم اورمحفوظ عن الخطاہوچکی تھی اب نہ اسے آسمانی ہدایت کی ضرورت تھی نہ معصوم رہنمائی کی۔ تویہ ٹھیک ایساہی ہے جیسے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اب انسان آنکھوں کے بجائے دانتوں سے دیکھنے لگاتھااورپاؤں کے بجائے سرکے بل دوڑنے لگاتھا، پانی میں سانس لیتاتھااورہواؤں میں تیرتاتھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان عہدنبوت ختم ہونے کے بعدبھی بالکل پہلے ہی جیساانسان تھا،جذبات ونفسیات کی پرپیچ وادیوں میں بھٹکتاہوا۔ بلکہ مادی ایجادات میں اضافے کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہوچکاتھا،سماجی عوامل کی پیچیدگیوں میں اضافے کی وجہ سے گمراہی کاخطرہ اورزیادہ بڑھ گیا تھااندھیروں میں رہنے والے اس انسان کی طرح جس نے چراغ جلاناسیکھ لیاہواورگھروں کوروشن کرنے کے ساتھ انھیں چراغوں سے گھروں کوجلاکے برباد بھی کرسکتاہو۔ جس طرح کل فرعون ونمرود پیداہوئے ٹھیک اسی طرح اب بھی پیداہوسکتے تھے۔بلکہ ماضی کے فرعون ونمرودکے مقابلے میں مستقبل کے فرعون ونمرودکہیں زیادہ بھیانک اوردہشت ناک ہونے والے تھے کیوں کہ استحصال واستخفاف کے ذرائع بہت بڑھ چکے تھے۔ لہذاآج کاانسان کل کے انسان کے مقابلے میں آسمانی ہدایت اورمعصوم رہنمائی کازیادہ محتاج تھا۔ بھیجی وہ چیزجاتی ہے جس کی ضرورت ہواورروکی وہ چیزجاتی ہے جس کی ضرورت ختم ہوچکی ہواب انسان کونزول وحی اورپیغام رسانی کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ اب اسلام کے دامن میں قرآن وحدیث کی شکل میں سب کچھ موجودتھامگراس کی حفاظت اورانسانوں کی ہدایت آج بھی ضروری تھی۔ اگررسالت اورنزول وحی کاسلسلہ اب بھی باقی رہتاتویہ فعل عبث اورتکرار لاحاصل کے مترادف تھا۔ جوشان خداوندی کے خلاف ہے اوراگر خداہدایت وولایت کے سلسلے کوبھی منقطع کردیتاتویہ ظلم تھااورظلم عدل الٰہی کے خلافت ہے ۔
ایک مثالی انسان کی ضرورت لہذاعقل انسانی اس کے علاوہ کوئی دوسرافیصلہ کرنے کے لئے تیار نہیں کہ سلسلہ رسالت کے ٹوٹتے ہی ایک ایسے ہادی اوررہنماکی ضرورت ہے جونبی نہ ہومگرمزاج نبوت کاحامل ہو، پیغمبرنہ ہومگرپیغمبرانہ شعورکامالک ہو، جس کے سینے میں انبیاکادل دھڑکتاہو، جو رسولوں کے داماغ سے سوچتاہو۔ جس پرقرآن نہ نازل ہواہومگراس کی نگاہ بصیرت قرآن کے بین السطورسے گزرکر لوح محفوظ کامطالعہ کرتی ہوجس کی نظریں چہروں کے پردے الٹ کرصلبوں کاجائزہ لیں سکیں، جس کاعلم زمین وآسمان کااحاطہ کیے ہو، جس کی بصارت شہودکے ذریعے غیب کامطالعہ کرتی ہو۔ جوپاڑوں کی طرح ثابت قدم، دریاؤں کی طرح رواں دواں، سمندروں کی طرح پرجوش اورکسی صاف شفاف جھیل کی طرح ٹھہرے ہوئے جذبات کامالک ہوجسے دنیاکی کوئی طاقت نہ خوف زدہ کرسکے نہ اعصابی تناؤ کاشکاربناسکے نہ جذباتی ہیجان میں مبتلاکرسکے جسے خوداپنی ذات پراپنی قوتوں پراپنے ارادوں پراتناقابوحاصل ہوکہ جب چاہے پوری طاقت سے چلائی ہوئی تلوارکودشمن کے سرپرلے جاکے روک لے یہ افورچمکتی تلواروں میں گہری نیندسوجائے۔ جب دشمن پرحملہ کرے توغصہ نہ آئے اورجب غصہ آجائے توحریف کے سینے سے اترجائے۔ جوبیک وقت دنیاکاسب سے بڑاخطیب بھی ہواورحکیم بھی جودنیاکاسب سے بڑامجاہدبھی ہواورعبادت گزاربھی جودنیاکاسب سے بڑاشجاع بھی ہواور جفاکش بھی جودنیاکاسب سے بڑاسخی بھی ہواورکفائت شعاربھی جوصاحب قلم بھی ہو اورصاحب ذوالفقاربھی ہو اورفلسفی بھی اورمنطقی بھی ۔ جواماہر ادبیات بھی ہواورماہرلسانیات بھی جوقرآن کے بتائے ہوئے میعارسیادت کے مطابق سب سے زیادہ قوت جس بھی رکھتاہواوروسعت علم بھی جس پرکتاب نہ اتری ہو مگر راسخون فی العلم اور عندہ علم الکتاب جیسی قرآنی اشاروں کامصداق بھی اورآتیناآل ابراھیم الکتاب والحکمة '' جیساقرآنی اعلان اس کاتعارف کرارہاہوبسم اللہ جیسی چھوٹی سی آیت میں پورے قرآن کی تلاوت کرسکتاہو اور قرآن الفاظ کے سینے میں اترکے مشیت کاراز دار بن جائے۔ جودریاؤں کے دل ہلادینے والاطوفان اورجگرلالہ میں ٹھنڈک پیداکردینے والی شبنم ہو جومحراب عبادات میں آبریشم کی طرح بزم اورمیدان جنگ میںفولادکی طرح سخت ہوجس کی تلواردنیائے کفرمیں قیامت برپاکردے اورجس کی آواز عالم افکارمیں زلزلہ پیداکردے اورجس کے اقوال سیاست کی گرہیں اورجس کی دائیں دلوں کے دروازے کھول دے۔ جواتنابڑاجرکاہوکہ ا سکی تیغ کی جھنکارصدیوں تک فضائے عالم میں گونجتی رہے اوراتنابڑاصابربھی ہواکہ اس کی جان سے زیادہ عزیز شریک حیات کے پہلوکی ہڈیاں توڑدی جائیں اوروہ گھرمیں بیٹھااس کی دردبھری آواز سنتارہے اپنے قوی ہاتھوں میں انبیاء کی میراث سنبھالے ہوئے ۔ صرف یہ سوچ کرکہ اگر میں اٹھاتویہ امانت ضائع ہوجائے گی۔ جواتنی بڑھی سیاسی بصیرت کامالک ہوکہ خود اس کے نبی کی بیوی جب اس سے جنگ کرتووہ اسے شکست بھی دیدے اوراپنے نبی کے ناموس کوبھی مجروح نہ ہونے دے۔ سمندروں کی بھی تھاہ لگ جاتی ہے اوراس کی سرحدیں بھی کہیں نہ کہیں ساحل سے ہم آغوش ہوجاتی ہیں مگروہ مردے بیکراں جس کی کوئی تھاہ نہیں جس کاکوئی کنارہ نہیں جس کاکوئی سرا آج تک نہ مل سکا۔ عقل وخردکے سارے پیمانے بنتے بگڑتے رہے مگراس کے قدوقامت کی پیمائش نہ کرسکے۔ وہ قد آورانسان کہ جب کھڑاہوتوانبیاء کے کاندھے سے کاندھاملائے جب کچھ بولے توایسالگے کہ قرآن آواز دے رہاہے وہ کچھ کہے تومحسوس ہوکہ نبی پکاررہاہے۔ وہ مرد بیکراں جوانسانی ہدایت کے لئے فرشتوں کی مددکامحتاج نہ ہواورنوع بشر کی رہنمائی کے لئے اسے وحی الٰہی کاانتظارنہ کرناپڑے۔
غدیرکی طرف یہ ناممکن ہے کہ اللہ ایسے انسان کوعالم وجودمیں لائے بغیر۔ ایسے مردبیکراں کوذخیرہ کئے بغیر۔ ایسے کردارعظیم کوپیداکئے بغیر۔ اوراس کی ولایت کااعلان کئے بغیر۔ وحی کادروازہ بندکرے اورایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء کی ہدایت کے طولانی سلسلہ کواچانک منقطع کردے۔ انسانیت کے حق میں یہ ٹھیک ویساہی ہے جیسے کوئی کسی انسان کولاکھوں فٹ کی بلندی پرلے جاکے یکبارگی نیچے ڈھکیل د ے جب وہ گرے تواس کی لاش کابھی پتہ نہ چل سکے۔ خدائے رحیم وکریم کااپنے کمزوروناتواں بندوں سے یہ برتائواتنابڑاظلم ہے کہ جس کاتصوربھی بارگاہ الٰہی میں گستاخی ہے۔ آپ کہیں گے کہ ہدایت وولایت ک یاس معیارپرعلیؑ کے علاوہ کوئی پورانہیں اترتا، توبھائی میری طرف سے آپ کواجازت ہے کہ اوصاف حمیدہ کی یہ قبائے ملکوتی اگرکسی دوسرے کے جس پرفٹ ہوجائے توپہنادیجئے مگرللہ آدمی کوکارٹون نہ بنائیے۔ ورنہ آپ اگرکارٹون بنائیں گے توہمیں ہنسی ضرورآئے گی۔ لاینال عھدی الظالمین کامطلب اس کے علاوہ اورکیاہے کہ قدرت کسی راہ چلتے کوپکڑکے نہ بنی بناتی ہے انہ امام۔ الٰہی عہدے نہ پانسہ پھینک کرتقسیم کئے جاتے ہیں نہ قرعہ اندازی کے ذریعہ۔ ''تونہیں اورسہی اورنہیں اورسہی'' کاجمہوری اصول زمین پررائج ہوگاآسمان پرنہیں۔ روزازل خدااگرمسئلہ خلافت کواپنی معصوم مخلوق فرشتوں کی رائے کے حوالے کردیتاتووہ حضرت آدم کاانتخاب کبھی نہ کرتے۔ توپھرآپ کیوں چاہتے ہی خہ قدرت اپنی سنت تبدیل کردے اوراس خلافت وولایت کوہم جیسے خاطی انسانوں کے حوالے کردے جسے وہ ونبوت اوررسالت کے متبادل کے طورپرقائم کررہاتھا۔ اوراتناعظیم انسان جونبی نہ ہوتے ہوئے بھی بارنبوت اٹھانے والاہے۔ کیااچانک پیداہوجائے گا؟ جب کہ ایک معمولی سادرخت بھی برسوں میں اس قابل ہوتاہے کہ اس سے پھل یاپھول حاصل کئے جاسکیں۔ یادرکھئے کہ قدرت ہزاروں سال زمین وآسمان کولاکھوں بارگردش دیتی ہے اورتاریخ زمانے کی سردوگرم وادیوں سے صدیوں تک گزرتی رہتی ہے تب کہیں جاکے مادرانسانیت اس قابل ہوتی ہے کہ اس کی کوکھ سے محمد اورعلی جیسے عظیم انسان پیداہوسکیں۔ یہ قدرت کااتنی دورسے اہتمام وانتظام ہی توہے کہ ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم اپنی بیوی اوراپنے کم سن حضرت اسماعیل کوایک وادیٔ غیرذی زرع میں تنہاچھوڑآتے ہیں اورپھر سوکھاآسمان نئچے پتھریلی زمین تپتی ہوئی سنگلاخ وادیاں نہ آدم نہ آدم زادنہ چرندنہ پرندنہ وحش ونہ طیورنہ گھاس نہ سبزہ نہ خار نہ خس۔ وہاں اللہ نے اس خانوادے کوآباد ہونے کاحکم دیدیاہے۔ ذراسوچئے ایسی جگہ زندگی گزارناجوئے شیرلانے سے بھی زیادہ بڑاکام ہے کہ نہیں۔ اس چھوٹے سے کنبے کواپناایک دن کاآذوقہ حاصل کرنے میں اتنی مشقت وجانفشانی سے ضرورگزرناپڑاتاتھاکہ کسی زرخیزوادی کے رہنے والے اگراتنی محنت بروئے کارلائیں توکم از کم ایک سال رزق فراہم کرلیں۔ آخرایسی جگہ اللہ نے حضرت اسماعیل کوگھربسانے کاحکم کیوں دیاجہاںزندہ رہنا۔ اورسامان زندگی اکٹھاکرناہزاروں جہاد کے برابرتھا۔ صاف ظاہرہے کہ خدائے حکیم وخبیراس طر ح حضرت ابراہیم و اسماعیل کے ذریعے ایک ایسے خاندان کوعالم وجودمیں لارہاہے اورایک ایسی نسل برپاکررہاہے جودنیاکی تمام نسلوں میںسب سے زیادہ شریف ترین سب سے زیادہ مشقت پسندسب سے زیادہ جفاکش سب سے زیادہ صابرو شاکرسب سے زیادہ قوت برداش رکھنے والی اورسب سے زیادہ قربانی وایثارپرکمربستہ ہنیوالی نسل ہو۔ ہرطرح سماجی آلودگیون سے پاک اورمسلسل انحراف کی وجہ سے بگڑے معاشرے سے الگ رکھ کرایک ایسی نسل کی نشوونماکاانتظام کرناجوایسے افرادکوجنم دے سکے جومشرک اوربت پرسی کے خلاف دنیامیں سب سے زیادہ حساس ہوں۔ اورپھرقدرت اصلاب کے ساتھ ارحام پربھی پوری طرح نظررکھے ہوئے دکھائی دیتی ہے حضرت اسماعیل عقدکرتے ہیں اورایک شریک زندگی کوگھرمیں لاتے ہیں کچھ دن بعدحضرت ابراہیم تشریف لے جاتے ہیں وہ خاتون سخت اوربھیانک حالات کی شکایت کرتی ہیں حضرت ابراہیم اسماعیل کوپیغام دیتے ہیں کہ ان سے کہناکہ چوکھٹ تبدیل کردیں۔ حضرت اسماعیل اپنی زوجہ کوطلاق دیکردوسری شادی کرتے ہیں حضرت ابراہیم پھر پہونچتے ہیں اوریہ دوسری خاتون بھی حالات کی شکایت کرتی ہیں حضرت ابراہیم پھروہی پیغام دیتے ہیں کہ اسماعیل سے کہناکہ چوکھٹ تبدیل کردیں حضرت اسماعیل اپنی اس زوجہ کوالگ کردیتے ہیں اورجب وہ خاتون اسماعیل کے گھرمیں آجاتی ہیں توشکایت کے بجائے شکرخداکرتی ہیں اورحالات کی سنگینی کااظہارکرنے کے بجائے اظہاراطمینان کرتی ہیں توجناب ابراہیم اس رشتے کوباقی رہنے کاحکم دے دیتے ہیں۔ ان خواتین کاجنھیں حضرت اسماعیل نے الگ کردیاتھاقصوراس کے علاوہ کچھ نہیں تھاکہ انھوں نے تکلیف کوتکلیف سمجھ مصیبت کومصیبت بتایاتھابس ۔لیکن قدرت کافیصلہ بتارہاہے جو خالق حالات کی سختی پرشکرکے بجائے شکایت کرے وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کے بطن سے وہ مطلوبہ نسل مہیاکی جاسکے جس کی قربانیاں دین کی زندگی کی ضمانت بننے والی ہیں۔ تاریخ نے پوری تفصیلات سے توپردہ نہیں اٹھایاہے مگرقرائن کہتے ہیں کہ قدرت اس نسل شریف کے سلسلے میں اس اہتمام کوآخرتک باقی رکھاہوگا۔ اورجب اصلاب شامخہ اورارحام مطہرہ سے گزرکے یہ نسل اپنے نقطۂ عروج پرپہونچی تووہ مطلوبہ انسانی عالم وجودمیں آہی گیاجسے ہم علی کہتے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ یہ سارااہتمام وجودمحمدی کے لئے تھا۔ تولیجئے آپ کادعویٰ تسلیم مگرآپ میرے اس دعوے کوکیسے رد کریں گے کہ جس استقامت وشجاعت صبرورضاایثاروقربانی ، حکمت وفراست کی ضرورت عہدمحمدی کے بعدپڑنے والے تھی اتنی ضرورت نہ عہدمحمدی میں تھی نہ اس سے پہلے ۔ یعنی محمدکے بعدمحمدکی ضرورت کہیں زیادہ تھی چنانچہ اس شجرطیبہ کی سب سے بلندوبالاشاخ پرتقریبا٣٠ سال کے وقفے سے برابرکے دوپھول کھلے محمداورعلی ۔ محمدکے سلسلہ نبوت کالفظہ اختتام اورعلی تاریخ ولایت کانقطہ آغاز۔ شایدعلامہ اقبال کوتاریخ کی اس حقیقت کااحساس ہوگیاتھاجبھی توانھیں کہناپڑا۔ غریب وسادہ و رنگیں ہے داستان حرم نہایت اس کی حسین ابتداہے اسماعیل مگران کی معرفت کی سانس دشت کربلاہی میں ٹوٹ گئی ورنہ ذرااورآگے بڑھ کے شام وکوفہ کے بازاروں سے گزرتے بغدادکے زندان کی سیرکرتے مشہدکی قتل گاہ کاجائزہ لیتے توآسانی سے کہہ سکتے تھے کہ جس سلسلہ کی ابتدااسماعیل نے کی تھی اس کی انتہاابھی پردہ غیب ہے۔ الغرض آدم ہوں یانوح، ابراہیم ہوں یااسماعیل سب کاسفر غدیرکی طرف تھا۔ سب انسانی شعورکے قافلے کوغدیرکی طرف بڑھارہے تھے۔ سلسلہ نبوت سلسلہ امامت کے لئے مقدمہ کی حیثیت رکھتاہے۔ یعنی سلسلہ رسالت غدیرتک پہونچنے کی تیاری کانام ہے ہرنبی کارخ غدیرکی طرف تھا۔ ہررسول غدیرکی طرف پیش قدمی کررہاتھا۔ تاریخ نبوت ، تاریخ ولایت کوبروئے کارلانے کے لئے زمین ہموارکررہی تھی۔ خود پیغمبرآخرکارخ شروع سے غدیرکی طرف تھاغدیرمسلمانوں کے لئے اچانک ظاہرہونے والے حادثے کانام نہیں ہے سب جانتے تھے کہ پیغمبرکاسفر کس سمت میں جاری ہے اوراللہ کانبی مسلمانوں کاکہاں پہونچاکے رخصت ہونے والاہے۔ دعوت ذوالعشیرہ کوغدیرکامقدمہ نہیں تواورکیاکہاجاسکتاہے جب پیغمبرآغاز ہی میں انجام کی خبردے رہے تھے اورعلی کی خلافت وولایت کااعلان فرمارہے تھے۔ حدیث منزلت غدیرکی تمہیدنہیں تواورکیاہے جب جنگ تبوک میں جاتے ہوئے اللہ کے رسول نے یہ کہہ کے علی کواپناقائم مقام بنایاہے کہ اے علی تمہاری منزلت میرے لئے وہی ہے جوموسیٰ کے لئے ہارون کی تھی۔ ہجرت کی رات غدیرکی دوپہرکاتعارف نہیں تواورکیاتھاجب ختمی مرتبت اپنے پاس رکھی ہوئی امانتیں علی کے حوالے کرکے اپنے بسترپرعلی کوسلاکرمدینے کی طرف سفر کررہے تھے۔ خودکوشہرعلم اورعلی کواس کادروازہ کہنااعلان غدیرکاضمیمہ نہیں تواورکیاہے یعنی پیغمبرمسلمانوں کوبتارہے تھے کہ میرے بعدمیرے لائے ہوئے علوم تک رسائی کاواحدذریعہ ذات علی ہے۔ سورۂ برأت کی پیغام رسانی کی ذمہ داری دوسروں کے بجائے علی کے حوالے کرنا پیغام غدیرکاپیش لفظ نہیں تواورکیاہے کہ گویاپیغمبرنے بتایاکہ قرآنی ترسیل اوابلاغ کامرحلہ میرے بعدعلی ہی سرکرے گا۔ جنگ خیبرمیں علی کوعلم دینے سے پہلے یہ کہناکہ کل اسے علم دوں گا جواللہ ورسول کامحبوب ہے اوراللہ ورسول اس کے محبوب ہیں امت کی فکرکوغدیرکے راسے پرچلانے کی کوشش نہیں تواورکیاہے۔ جنگ خندق میں علی کاکل ایمان کہنااسلامی معاشرے کی مرکزی شخصیت کی نشاندہی نہیں اورکیاہے۔ فاذافرغت فنصب۔ یاایھاالرسول بلغ۔۔۔ جیسے الٰہی احکامات، تاریخ کوغدیرکے نقطہ کمال تک پہونچانے کاحکم نہیں تواورکیاہے۔ ان بے شمار روایات واحادیث وآیات کی کہاں تک تاویل کروگے اورکب تک اس سعی رائیگاں میں اپناوقت بربادکروگے۔ الغرض جب فکراسلامی اورشعورانسانی اوروجدان ایمانی کاقافلہ اس منزل آخرپرپہونچ گیاجسے ہم غدیرکہتے ہیں جس منزل آخرکاخواب ہرنبی نے دیکھاتھاجس کی جانب تاریخ مسلسل پیش رفت کرہی تھی جوحیات محمدی کی منزل مقصودتھی۔ توصدیوں سے جاری رہنے والاانبیائی سفرتمام ہوافرشتگان وحی اپنی خدمات سے سبک دوش ہوئے اورپیغمبرنے ہدایت ورہنمائی کابارعظیم اپنے کاندھوں سے علی کے کاندھوں پرمنتقل کردیا یعنی :۔ غدیرتاریخ نبوت کے نقطۂ اختتام اورتاریخ امامت کے نقطۂ آغاز کانام ہے ۔ غدیرنبیوں کی منزل آخرہے۔ غدیرپیغمبروں کادیکھاہواخواب ہے۔ غدیرانسان وانسانیت کے کمال کی علامت ہے۔ غدیران کفارومشرکین کی دائمی شکست ہے جواسلام کومٹانے کے لئے وفات پیغمبرکاانتظارکررہے تھے۔ غدیرایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء کی کامیابی کی دلیل ہے۔ غدیراسلام کے مستقبل کی حفاظت کااعلان ہے غدیراتمام نعمت کامژدہ اورتکمیل دین کی سندہے۔ غدیرسے پہلے پیغمبرخوف زدہ اورپریشان تھے کہ سلسلہ وحی منقطع ہونے والاہے عہدۂ نبوت ہمیشہ کے لئے ختم کیاجانے والاہے اب کیاہوگااسلام کی حفاظت کیسے ہوگی دین کامستقبل کہاں پناہ لے گا، اورمسلمانوں کوکون ہلاکت سے بچائے گا۔ اسلئے کہ پیغمبرکومعلوم تھاکہ لوگ علی کی قیادت اورولایت کوتسلیم نہیں کریں گے پیچھے اعلانات کے ساتھ یہ آخری اورواضح ترین اعلان بھی ضائع نہ ہوجائے تواللہ نے یاایھاالرسول بلغ۔۔۔ کے حکم کے ساتھ واللہ یعصمک من الناس کہہ کراسلام کے مستقبل کی حفاظت کی ضمانت لے لی۔یعنی اللہ نے پیغمبرکوبتادیاکہ دین کی حفاظت اورامت کوہلاکت سے بچانے کاواحدذریعہ علی کی ولایت کااعلان ہے اکثرمفسرین اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں کہ پیغمبرولایت علی کے اعلان کے نتیجے میں پیداہونے والے فسادسے خوف زدہ تھے۔ یقینایہ مفہوم بھی صحیح ہوگامگرقرآنی بلاغت اس طرف بھی اشارہ کررہی ہے کہ پیغمبرسلسلہ نبوت کے خاتمے کے بعداسلام کے مستقبل سے پریشاں اورغیرمطمئن تھے۔ مگراللہ نے ودعدہ کیاکہ تمہارے پیغام تمہارے مقصداورتمہاری حیات معنوی کی حفاظت ولایت علی کے ذریعہ کی جائے گی اوراگریہ نہ کیاتوگویاکوئی کام انجام نہ دیا۔
کامیاب اعلان سوال یہ پیداہوتاہے کہ غدیرکااعلان کامیاب ہوایاناکام؟ پہلی بات یہ ہے کہ یہ اعلان پیغمبراسلام نے ایسے مناسب ماحول میں ایسے مناسب وقت پراورایسی مناسب جگہ پرفرمایاکہ وہ حیات پیغمبرکاسب سے کامیاب اعلان بن گیااورچنددنوں کے اندراندرچلنے والی ہوائوں کی طرح اورپھیلنے والی سورج کی روشنی کی طرح اکناف واطراف عالم میں پھیل گیا۔ بہ حیثیت اعلان ابلاغ وترسیل کے معیارپرجوکامیاب اس اعلان کوحاصل ہوئی وہ دنیاکے کسی اعلان کوآج تک نہ حاصل ہوسکی۔ دیکھتے ہی دیکھتے صحابہ صحابیات، امہات واہلبیت تابعین واتبع تابعین،شعراء و مورخین ، محدثین ومفسرین ، عوام وخواص سب اس اعلان کی تکرارکرتے نظرآنے لگے اورآج تک ولایت علی کی صدائے بازگشت، زبانوں پر، کتابوں میں، نوک قلم پر، دانشکدوںمیں، خانقاہوں میں ، عبادت خانوں میں، رزم گاہوں میں، مفکرین کی مجلس میں اورقلندروں کی محفل میں مسلسل سنائی دے رہی ہے اوراس اعلان پرپردہ ڈالنے کی طاقت نہ حکومتوں میں باقی تھی نہ سلطنتوں میں ۔ عام طور پرلوگ یہی سمجھتے ہی کہ جب امت نے علی کی ولایت کوتسلیم نہیں کیاتواعلان غدیرناکام ہوگیاچنددن پہلے میراے ایک دوست نے یہی بات مجھ سے کہی جب جش غدیرکاذکرچل رہاتھاموصوف کہنے لگے جشن کیوں منایاجائے جب کہ مسلمانوں نے ولایت کوتسلیم ہی نہیں کیااورخلافت وحکومت پردوسرے لوگوں نے قبضہ کرلیا۔ توی تاریخ ہمارے لئے یوم مسرت کے بجائے یوم غم کی حیثیت رکھتی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ امت نے کیاکیا؟ اصل سوال یہ ہے کہ علی نے کیاکیا؟ امت نے جوکچھ کیااس کی سزادنیامیں بھی مل رہی ہے اورآخرت میں بھی لے گی۔ لیکن اگرعلی نے ولایت کی ذمہ داریاں پوری طرح سنبھال لیں اسلام کوبربادی سے اورامت کوہلاکت سے بچالیاتوپھراعلان غدیرکوناکام کہناخلاف عدل ہی نہیں خلاف منطق بھی ہے اورخلاف عقل بھی ہے۔ اعلان غدیرکی کامیابی کی ذمہ داری پیغمبرنے امت کے کاندھوں پرکب ڈالی تھی؟ اس اعلان کاذمہ دارعلی کی بنایاتھاامت کونہیں ۔ علی غدیرکے بعدتقریبا٣٠سال زندہ رہے اوریہ ٣٠سال اعلان غدیرکی کامیابی کازمانہ ہے۔ اس دورمیں علی نے جس طرح امت کوہلاکت سے اوردین کوفناکے گھاٹ اترجانے سے بچایاہے یہ علی نے جوکارنامے بھی انجام دیئے وہ پیغمبری کارنامے تھے علی کی حیثیت معین ومددگارتھی۔علی کے اقدامات کی قدروقیمت کااندازہ لگاناہے توبعدغدیرحیات علی کامطالعہ کیجئے۔ہمارے ذاکرین نے ہمارے مصنفین نے ہم کوحیات محمدی کے علی سے توروشناسی کرایامگرخودعہدعلی کے علی کے بارے میں بہت کم بتایا۔ کاش خداکسی کوتوفیق دے کہ وہ بعدغدیرکے پہلے علوی کارنامے مذہب علی کے تعارف کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ علی کی اصل ذمہ داریاں توبعدپیغمبرشروع ہوتی ہیں۔ علی نے اعلان غدیرکوکامیابی کی منزل سے کیسے ہمکنارکیااورولایت کاحق کیسے اداکیا؟ یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ علی نے خلفاثلاثہ کاساتھ دیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ علی نے خلفائے ثلاثہ کواپنے ساتھ چلنے پرمجبورکردیاتھا۔ یہ مجبوری ہی کااظہارتھاکہ آواز بلندکی گئی یاعلی اگرآپ نہ ہوتے تومیں ہلاک ہوگیاہوتا۔ کتنی بے بسی ہے اسی جملے میں جیسے کہنے والاکہہ رہاہے کہ ہم توہلاک ہوناچاہتے تھے مگرآپ ہربارہمیں ہلاک ہونے سے بچالیتے ہیں ۔ ہم توصراط مستقیم سے اترکرخلائوں میں چھلانگ لگاناچاہتے ہیں مگرآپ نے ہمیں بچالیتے ہیں۔ ہم توخودکشی کرنے کے لئے تیارہیں مگرآپ ہمارے راستے میں حائل ہوجاتے ہیں ہم اسلام کالبادہ اتارپھیکناچاہتے ہیں مگرآپ مجبورکردیتے ہیں کہ ہم اسے اپنے جس پرڈالے رہیں ہم نے آپ کوولی تسلیم نہیں کیامگرآپ نے ولی ہونے کاحق اداکردیا۔ اس جملے کامفہوم کہنے والے کے ذہن میں کیاتھایہ نہیں معلوم مگریہ حقیقت ہے کہ اگرعلی نہ ہوتے توایک شخص نہیں بلکہ پوری امت ہلاک ہوچکی ہوتی۔ دین ، اسلام ، اخلاق اسلامی اورتمام انبیاء کاگرانبہاورثہ سب کچھ چشم زدن میں فناہوگیاہوتااورعلی نے ان سب کواتنابے بس کردیاتھاکہ وہ حلال کوحلال اور حرام کوحرام کہنے پرمجبورتھے اوراسلام سے خلوص نہ ہونے کے باوجوداسلام کادم بھررہے تھے۔ علی نے جب دیکھاکہ امت ہلاکت کے دہانے پرپہونچنے والی ہے تڑپ کرگھرسے نکل پڑتے تھے اوراپنی بادیانہ فراست سے انھیں بچاتے تھے۔ اللہ علی نے ان کوبھی بچانے کی کوشش کی جنہوں نے پہلوئے فاطمہ کوزخمی کیاتھا۔ بیشک علی نے مسلمانوں کی ولایت کاحق اداکردیا۔ سقیفہ سے نکلنے والی تاریخ کارخ جس طرف تھااس طرف کفر وشرک کی اتھاہ تاریکیوں کے سواکچھ نہ تھامگریہ علی ہی تھے جنہوں نے اس تاریخ کارخ کربلاکی طرف موڑدیااوراس سے راستے سے گزرنے پرمجبورکردیاجوخودنسل علی کی قربان گاہ سے ہوکرگزرتاتھا۔ اس لئے کہ اسلام کی حفاظت کااس کے علاوہ کوئی دوسراراستہ نہ تھا۔ بالآخرعلی کی ٣٠سالہ حیات کے ختم ہوتے ہوتے غدیرنے سقیفہ کوشکست دیدی اورمولائے کائنات نے مسجدکوفہ میں فزت برب الکعبہ کی آواز بلندکرکے غدیرکی دائمی کامیابی کااعلان کردیا۔ آج اسلام کے دامن میں جو کچھ ہے سب غدیرکاصدقہ ہے اورمسلمانوں کے تمام فرقوں کے پاس جتنی اسلامی صداقتیں بچی ہیں سب غدیرکی خیرات ہیں اورہرکلمہ گوغدیرکی بھیک لے کرمسلمان بناہواہے۔ زندہ باداے غدیر پائندہ باداے غدیر
ماخوذ از کتاب غدیر ، مطبوعہ تنظیم المکاتب ۱۴۱۰ہجری
|
مقالات کی طرف جائیے |
|