مقالات

 

چشمۂ آفتاب

مولانا سید حسن عباس فطرتؒ

ہوایہ کہ دوستوں کے مجمع میں بات چھڑگئی اذان کی اورچونکہ ادھرکچھ دنوں تک یہ ایک سلگتاہواموضوع بھی رہ چکاہے اس لئے اپنا بھی سلسلہ چل نکلا اس لئے اپنے جی میں آگیا کہ ’’ بارے اس کا بھی کچھ بیان ہوجائے‘‘ چنانچہ سلسلہ چل نکلااورمعقول ومنقول کے چپوؤں سے گفتگوکی کشتی لہرانے لگی اورجب حی علیٰ خیرالعمل کاموڑآیااور سامعین کی آنکھوں میں ایک خاص چمک دکھائی دینے لگی تومیں نے بھی لوہاگرم دیکھ بانگ لگائی کہ بھائیو!نمازکی نوبت خانہ یعنی گلدستۂ اذان سے حیّ علیٰ الصلوٰة کے سرورکے ذریعہ نمازکی طرف جلدآنے کی دعوت دی جاتی ہے اورآگے یہی دعوت نمازکی تعریف وتوصیف کے معطر لفافے میں ہوتی ہے پہلافقرہ ہوتاہے حیّ علیٰ الفلاح کااوردوسراحیّ علیٰ خیرالعمل کا۔
اول الذکرفقرے پرتوسارے نمازی متفق ہیں مگردوسرے جملہ پراختلاف پایاجاتاہے کچھ لوگ اسے واجب جان کراداکرتے ہیں توبعض نظراندازکردیتے ہی، ساتھ ہی ایک گروہ دوسرے کوصدیوں سے اس بارے میں مطعون کرتاچلاآیاہے لیکن بہرحال ایک بات توبغیردلیل وحجت کے ثابت ہوجاتی ہے کہ جوفرقہ حیّ علیٰ خیرالعمل کواذان کاجزلاینفک مانتاہے وہ نمازکے خیرعمل ہونے کااعتراف بھی کرتاہے اوراعلان بھی اوراس کے بعداس کے دل کوچیرکرکچھ مزیدمعلوم کرنے کی حاجت نہیں رہ جاتی لیکن جس نے حیّ علیٰ خیرالعمل کو اذان سے نکال دیاہے وہ لاکھ دعویٰ کرے کہ ہم نمازکوبہترین عمل جانتے ہیں مگراس کااعتبارمشکل سے قائم ہوسکے گااوریہی سوال اٹھے گاکہ اگریہ سچے ہیں توپھراذان سے حیّ علیٰ خیرالعمل کونکلالنے کاسبب کیاہے جس کاجزءاذان ہوناعہدرسالت مآب میں ثابت ومحقق ہے ۔ بات سلگتی ہوئی تھی اس لئے واہ واہ سبحان اللہ کازمزمہ ناحق نہ تھامگرمیں نے تیوربدل کر کہے کہ دوستو!اب ایک تلخ بات بھی کہناچاہوں گاخواہ کسی کواچھی لگے یابری اوروہ یہ ہے کہ جوفرقہ حیّ علیٰ خیرالعمل کہہ کرنمازیوں کوپکارتاہے اوراسے اذان کی ریڑھ کی ہڈی سمجھتاہے اس کے یہاں توبہرحال خیرعمل کے تعلق سے دورائے ہرگزنہ ہوناچاہئے توپھراس بحث کومیدان مسابقہ میں کیوں لاکھڑاکردیاگیاہے؟ آخرکیوں؟ اس مسئلہ پرگروہ بندی ہے اورہرایک اپنی بات منوانے کے لئے زمین وآسمان ایک کئے دیتاہے جب کہ سچی بات یہ ہے کہ حیّ علیٰ خیرالعمل پرکامل یقین رکھنے والے گروہ کوآنکھ بندے کرکے بلااختلاف وحجت سرجھکاکرنمازکے خیرعمل ہونے کوتسلیم کرلیناچاہئے۔

کاراون غدیرکاجرس
بہرحال یہ تھاجملہ معترضہ ورنہ درحقیقت بات کویہاں تک پہنچانامنظورتھاکہ حیّ علیٰ خیرالعمل کے فقرہ کواذان سے کیوں ،کب اورکس نے نکالا؟ اب اسے کیاکیجئے گاکہ تاریخ وسیرسے آگاہ لوگوں کاعام خیال یہ ہے کہ نصوص قطعیہ کوبھی موضوع اجتہادبنانے کاسوداجس سرمیں تھااس کارنامے کاسہرابھی اسی کے سرہے البتہ توازن برابرکرنے کے لئے صبح کی اذان میں اس ذات شریف نے ’’الصلوٰة خیرمن النوم‘‘ کااضافہ بھی کیاہے یعنی صرف گھٹایاہی نہیں بڑھایابھی ہے۔بتایاجاتاہے کہ چونکہ ایک موقع پرحیّ علیٰ خیرالعمل نے انقلابی کرداراداکیاتھااورایک تہلکہ خیرواقعہ کانقیب تھااس لئے اس جملہ سے انقلابی نماگروہ کوکدورت ہوگئی اورانھوں نے اپنی بزم سے اس کاچلن ہی نکال دیا۔جی ہاں! غدیرخم کے چوراہے پرآگے بڑھ جانے والوں کوواپس لوٹنے اورپیچھے رہ جانے والوں کوجلدآنے کاحکم پیغمبراکرمؐ کے کہنے پرحیّ علیٰ خیرالعمل کے فقرہ سے دیاگیاتھا۔اوریہ کلمہ بعدمیں کاروان غدیرکاجرس اورپیغمبرکی حیات کے دوسرے اہم ترین انقلابی اقدام کی علامت بن گیاتھااس لئے غدیرکی یادکومحوکرنے کی دیگرمساعی کے ساتھ اس تبلیغی کلمہ کواذان میں بھی نہ رہنے دیاگیا۔اب یہاں میں اپناخیال ظاہرکرنے کاحق استعمال کرتے ہوئے کہتاہوں کہ علی والوں نے اس نقب زنی کوناکام کرنے اورغدیرکی یادکوشب وروزکے ہرموڑپرتازہ رکھنے کے لئے اذان میں نفس رسول کی ولایت کی گواہی کافقرہ رسالت احمدی کی شہادت کے بعدبڑھادیاتاکہ بفحوائے من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ رسول کی رسالت کی گواہی مکمل ومحقق ہوجائے۔ فقہائے امامیہ کاحکم سرآنکھوں پرکہ ہمارے آیات عظام اسے جزء اذان نہیں مانتے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس میں کسی مفتی وفقیہ کوکلام نہ ہوگاکہ اشھدان علی ولی اللہ جزوایمان ہے اورساتھ ہی ساتھ ایمان بالرسول کی کسوٹی بھی۔

عبقات اورالغدیر
تمہیدکچھ طویل ہوگئی مگرمیرے خیال میں غیردلچسپ نہیں رہی ہوگی اس لئے میں ایک ہی جملہ میں اپنے موضوع کواداکردیناچاہتاہوں اووہ یہ کہ حدیث غدیرپیغمبراکرمؐ کی جملہ احادیث میں تائیدوحی کثرت روایت استنادوطرق متعدہ، شہرت وانطیاق ہی نہیں بلکہ ہرلحاظ سے سرتاج کی حیثیت رکھتی ہے جس کی مختصرشرح آگے آئے گی۔ دوسرے لفظوں میں تمام احادیث میں غدیرکادرجہ حق وحقیقت کے لحاظ سے فلک الافلاک جیساہے ۔ صرف یہی ایک مبارک حدیث ہے جسے پیغمبراسلام ؐ نے ایک لاکھ چوبیس ہزاراصحاب کے سامنے مولائے کائنات کودونوں ہاتھوں پربلندکرکے ارشادفرمایا۔ مجمع میں قاریان قرآن،ائمہ حدیث، ازواج رسولؐ، موالی واعجام، قریش واجانب سبھی تھے۔ اوراسے ہرصدی ہجری کے روات، مورخین، محدثین وعلماء نے روایت کیاہے۔ مسلمانوں کی معتبرترین کتب احادیث وسیرمیں اس کااندراج مختلف طریقوں اورراویوں کے توسط سے موجودہے جس کاصحیح صحیح شماربھی آسان نہیں ہے اگرچہ اس میں امام احمدابن حنبل کی مسندکواولیت حاصل ہے مگراس کے علاوہ صحیح مسلم، ترمذی، صحیح ابن داوود نے بھی اسے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے ۔ البتہ اس مسئلہ میں امام بخاری اس سلسلہ میں قابل عفوہیں کیوں کہ ممکن ہے انکوفضیلت علی کی دیگراحادیث اورائمہ اہل بیت کی روایت سے گریزکی طرح غدیرکوبھی حذف کردینے کے لئے استخارہ مساعدرہاہومگرہمارے علامہ بے بدل حضرت سیدحامدحسین لکھنؤی نے اپنی بے مثال تصنیف اورلائف ورک ''عبقات الانوار'' میں حدیث غدیرکوچارجلدوں میں مرتب کرکے منکرین اورمتشککین کی کمرہمیشہ کے لئے توڑدی ہے، امت مسلمہ کے آس بطل جلیل نے اپنے جداعلیٰ کی طرح پتھرپرعلم گاڑاہے اورغدیرکوروایت سے درایت میں بدل دیاہے۔ بہت کم لوگوں کومعلوم ہوگاکہ ضدانقلاب یعنی غدیردشمن گروہ نے اس عظیم کتاب کونابودکرنے کی کچھ کم کوشش نہیں کی مگرخیرکامیابی توکیاہوتی سوبرس بعدنجف اشرف کے علامہ یگانہ حضرت امینی کواللہ نے مخالفوں کے حق میں برق سوزاں بناکے پیداکیا۔ آپ نے''عبقات الانوار'' کے نہج پرایک عظیم کینوس پر''الغدیر'' کی تصنیف شروع کی اورایک نہیں گیارہ مجلدات مرتب کرکے حدیث غدیرکوناقابل تسخیرقلعہ بنادیا۔ اوراب مخالف کے لئے سوائے ہتھیارڈالنے اورصلح کے کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔ ثبوت یہ ہے کہ ''الغدیر'' اور''الامینی'' دونوں کے آگے عالم اسلام کے علماء وصلحاسرجھکاتے ہیں اورہربڑے اسلامی کتب خانے کی زینت''الغدیر'' سے ہے اورسواداعظم سے بیک زبان ''الامینی'' کوعلامہ مانتاہے۔

طریق وسندغدیر
حضرت رسول خداؐ کے خادم خاص جناب انس بن مالک آخری وقت میں نقاب سے چہرہ چھپائے رہتے تھے کیوں؟ اس لئے کہ غدیرخم کے میدان میں موجودہونے کے باوجوداس کی گواہی دینے میں حیلہ حوالہ سے کام لیااورحضرت علی نے ان کوبددعادی توچہرہ مبروص ہوگیا۔ ابن معازلی بزرگان محدثین اسلام میں سے ایک ہیں انھوں نے بسندخودنقل کیاہے کہ ایک دن امیرالمومنین نے منبرپراصحاب کوقسم دی کہ جوبھی غدیرخم کے دن حاضررہاہووہ گواہی دے توصرف بارہ آدمی اٹھے اورگواہی دی کہ پیغمبرؐ نے فرمایاتھا:
من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ اللھم وال من والاہ وعادمن عاداہ۔
حاضرین میں ابوہریرہ، انس بن مالک بھی تھے۔ابن مخازلی نے کتاب مناقب میں لکھاہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اورپیغمبرخداؐ سے سوافرادنے اسے نقل کیاہے اورعلی ابن ابی طالب اس فضیلت میں منفردہیں۔
تیسری صدی ہجری میں ابن عقدہ عجوبہ روزگاربزرگ اہل سنت گزرے ہیں جس کے بارے میں دارقطنی نے لکھاہے کہ اہل کوفہ کااتفاق ہے کہ عبداللہ بن مسعودسے لے کرابن عقدہ کے زمانے تک ان سے بہترحافظ نہ تھا۔ ابن عقدہ نے ایک کتاب حدیث غدیرکی سندمیں لکھی ہے جس کی نشاندہی حضرت امام خمینی نے کشف اسرارمیں کی ہے اورفرمایاہے کہ اس حدیث کوانھوں نے ایک سو اصحاب سے نقل کیاہے جس میں حضرت علی ، حضرت حسن، حضرت حسین ابوبکروعمروعثمان وسلمان وابوذر وعمارمقداد و ابن عباس و ابن مسعودوطلحہ وزبیروعبداللہ بن عمروعدی بن حاتم وحذیفہ وغیرہ شامل تھے اورچندخواتین منجملہ ان کے حضرت فاطمہ زہرابی بی عائشہ ، ام سلمہ، ام ہانی وانس بنت عمیس بھی تھیں۔
شہرۂ آفاق مورخ ومحدث محمدبن جریرطبری متولد٢٢٤ھ۔ جوبلااختلاف جامع علوم وکامل الفنون تھااس نے دوضخیم جلدوں میں طریق حدیث غدیرکوجمع کیاہے اورہمارے بزرگ ومقدس عالم جلیل القدرسیدابن طائوس نے اپنی کتاب''اقبال'' میں حدیث غدیرکے تعلق سے طبری کاذکرکیاہے علامہ سیوطی نے ابوالقاسم حسکانی ،متوفیٰ ٤٧٠ھ. کے علم وکمال کی بیحدتعریف کرنے کے بعدانکی تصنیفات میں ایک کتاب کاذکرکیاہے جس کانام '' دعاء الھداة الیٰ اداء حق الموالات'' ہے اوربتایاہے کہ یہ کتاب حدیث غدیرکی سندمیں ہے۔
مشہورعالم علامہ سجستانی (ابوسعیدبن ناصر)متوفیٰ ٤٧٧ھ.نے بھی ''روایت الحدیث الولایت'' نام کی کتاب تحریرکی ہے اس میں ایک سوبیس اصحاب پیغمبرسے ایک ہزارتین سوسندوں سے حدیث غدیرکونقل کیاہے۔ طبقات شافعیہ میں علامہ سبکی نے لکھاہے کہ غدیرکی سندمیں ایک مشہورکتاب ذہبی کی ہے (شمس الدین محمدبن احمدشافعی)موصوف کے مطابق ذہبی محدث عصروخاتم حفاظ وقائم بامرحدیث وغیرذلک تھے۔
محمدبن علی بن شہر آشوب جوینی، متوفیٰ ٥٨٨ہجری.جواہل لغت کے علماء فحول میں سے ہیں اوران کے علم وتقویٰ کی توصیف سیوطی جیسے محدثین نے کی ہے جوینی کابیان ہے کہ میں نے روایات احادیث غدیرمیں ایک جلدسازکے پاس ایک کتاب دیکھی جس میں لکھاتھاکہ یہ حدیث من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ کی اٹھائیسویں جلدہے اس کے بعدانتیسویں جلدہے۔ جوینی کی علمی جلالت کاپتہ یافعی کی مرأت الجنان کوپڑھنے سے ملتاہے نیشاپورمیں ٤٧٨ھ۔ میں انکی وفات ہوئی انکے چارسو سے زائدشاگردتھے جنھون نے قلم ودوات توڑکرسال بھراپنے استادکاسوگ منایا۔
اہل لغت کے یہاں تواترحدیث غدیرکاذخیرہ اس قدرہے کہ اسے اب تک کوئی ایک جگہ جمع نہیں کرسکاہے اورشیعوں کے پاس جوکچھ ہے اورجتناہے اس کایہاں ذکرمنظوری نہیں ہے ۔ حدیث کے تواتروسندسے قطع نظرآیۂ تبلیغ کے الفاظ اورشان نزول بھی غدیرکے لئے محکم دلیل فراہم کرتی ہے کہ حدیث غدیرکوزمان ومکان دونوں اعتبارسے اللہ تعالیٰ نے قطب تاراجیسی بلندی وچمک عطاکی ہے تاریخ اسلام میں حجة الوداع جس شہرت واہمیت کاحامل ہے وہ اپنی جگہ بے مثال ہے ۔حدیث غدیراسی حج سے فراغت کے بعدغدیرخم کے میدان میں بھری دوپہرمیں لوگوں کوروک کرپڑائوڈال کرکنکرپتھراورکانٹوں سے بھری وادی کوصاف کرواکے تپتی ہوئی زمین پرہزاروں اجل صحابہ کوبیٹھاکرپالان شترکامنبربنواکرپیغمبراکرمۖ نے اس منبرپرجلوہ افروزہوکرطویل خطبہ دینے اوراقراراولویت لینے کے بعدجناب امیر کوہاتھوں پربلندکرکے من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہکہہ کرہی ختم نہیں کیابلکہ ا س کے بعدحضرت علی کوعمامہ سحاب کاتاج پہناکرایک خیمہ میں بٹھایااورتمام حاضرین سے کہاکہ ایک کرکے علی کومبارک باددیں کتب تاریخ میں یہ حدیث التہنہ سے موسوم ہے اوراسے بھی ساتھ علمائے اہل لغت نے نقل کیاہے اوراس ضمن میں حضرت عمرکی مبارک باِدبھی خاصی شہرت رکھتی ہے۔

حدیث غدیرکی انفرادیت
حدیث من کنت مولاہ کی ایک خصوصیت وانفرادیت یہ بھی ہے کہ وہ اسی مقام سے موسوم ہے جہاں آنحضرت نے اسے ارشادفرمایاتھاورنہ احادیث پیغمبرکاعنوان اس کے محتویٰ ومقصدسے مربوط رہتاہے مثلاحدیث سفینہ، حدیث ثقلین، حدیث منزلت، حدیث طیروغیرہ لیکن حدیث من کنت مولاہ حدیث غدیرکہلاتی ہے کیوں کہ غدیرخم میں اسے بیان کیاگیاتھااوریہ دوسری انفرادیت اس سے بڑھ کریہ ہے کہ ١٨ذی الحجہ کی تاریخ اسی حدیث کی وجہ سے اب ''یوم غدیر''کہلاتی ہے فرمایاتھاکہ وہ ذہن انسانی میں جگہ بنالے۔ قول کے ساتھ عمل پھراس کاایک ایک سے اقرارلینا۔ دن دوپہر، چلچلاتی دھوپ، گرمی کی شدت، تپتی زمین، آگ برساتاہواآسمان، خارمغیلاں سے بھراہوابیا بان ، غدیرکاجغرافیائی محل وقوع اوربین الاقوامی گزرگاہ پھرپالان شترکانادروبے مثال منبراوراس پربیٹھ کرطولانی خطبہ کے بعدعلی کاہاتھ پکڑکراٹھانااورمن کنت مولاہ کا اعلان اسی لئے تھاکہ کسی پہلوسے غدیرسے انکارممکن نہ ہواورنہ اسے انسانی نفسیات فراموش کرسکے اوراس طرح اتمام حجت ہوجائے اس کے بعدبھی اگرکوئی حق وحقیقت کالاگوہوتواس کے لئے شیخ سعدی کاطمانچہ موجودہے۔
گرنہ بیندبروزشپرہ چشم
چشمۂ آفتاب راچہ گناہ
کیاکہنااس حدیث عظیم کاکہ جس کے آگے پیچھے آیات کاحصارہے پہلے آیۂ تبلیغ اتری اوربعدمیں آیۂ تکمیل دین اورپھرمنکرین کوان کے عبرتناک انجام کی قیامت تک کی خبردینے کے لئے آیہ ''سال سائل'' اوران سب آیات کے شان نزول پرعلمائے اہل سنت کااتفاق ہے جن میں استادشیخ محمدعبدہ مصری صاحب، تفسیرالمناربھی ہیں۔ اگر’’انّ الامة لاتجتمع علیٰ حظاء‘‘ پرمسلمانوں کاعقیدہ ہے توسنیئے کہ صوم یوم غدیرکی حدیث کے لئے ٤٣علماء نے سنددی ہے اورجب ایساہے توپھرہم فخررازی ، ابن تیمیہ، ابن کثیر، ابن حزم، جیسے اونچے قدوالوں کاشمارشپرہ چشموں میں نہ کریں توکس میں کریں کوئی ہم کوبتائے۔

نقل از کتاب غدیر ، مطبوعہ تنظیم المکاتب ۱۴۱۰ہجری
مقالات کی طرف جائیے