|
امامت امیر المومنین علیہ السلام |
حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابو القاسم خوئیؒ |
ہمارا ایمان ہے کہ رسول اکرمؐ کے بارہ جانشین ہیں جو سب امام برحق ہیں ۔ان میں سب سے پہلے امام جناب امیرا لمومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں۔آپ کی امامت پر بیشمار دلائل ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں : ١)دعوت ذوالعشیرہ : جب یہ آیت نازل ہوئی ''وانذر عشیرتک الاقربین'' اور اپنے رشتہ داروں کو ڈراؤ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؑ کو حکم دیا کہ بنی ہاشم کے لئے ضیافت کا انتظام کرو، اس موقع پر حضور نے حضرت علیؑ کے متعلق ارشاد فرمایا:ھذا اخی ووصیی وخلیفتی بعدی ووارثی فاسمعوالہ واطیعوا’’یعنی یہ میرا بھائی ،میرا وصی اور میرے بعد میرا خلیفہ اور میرا وارث ہے،تم لوگ اس کی باتیں سنو اور اس کی ا طاعت کرو‘‘ ۔ ٢)حدیث غدیر: تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حجة الوداع سے واپسی پر رسول اکرمؐ نے غدیر خم کے مقام پر مسلمانوں کے اجتماع سے مخاطب ہو کر فرمایا''ألست اولی من انفسکم ''یعنی میں کیا تمہاری جانوں سے بھی بہتر و اولیٰ نہیں ہوں ؟اس پر لوگوں نے جواب دیا: ''بلی ٰ''بیشک آپ ہماری جانوں سے بھی بہتر واولیٰ ہیں ۔تب آپ نے فرمایا:''من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ''یعنی جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی بھی مولا ہے ''اس حدیث میں آنحضرت نے پہلے تو لوگوں سے اقرار لیا کہ آپ ان کی جانوں سے بہتر اور اولیٰ ہیں اور پھر حضرت علیؑ کومولائیت میں اپنے برابر قرار دیا ۔اس سے ثابت ہوا کہ حدیث میں لفظ 'مولا'سے مراد اولیٰ ہی ہے لہٰذا حضرت علی مومنوں کی جانوں اور نفسوں سے اولیٰ ہیں اور یہی منصب امامت ہے۔ ٣)حدیث طیر: اس حدیث میں رسول اکرمؐ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ ''اے اللہ اپنے محبوب ترین بندے کومیری طرف بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ مل کر یہ پرندہ کھائے ''اس وقت حضرت علیؑ وہاں پہونچے اور حضور رسالت مآب کے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھانے میں شریک ہوئے۔ یہ حدیث حضرت علیؑ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ خداوند عالم بلااستحقاق ان سے محبت نہیں کرتا اور جب وہ افضل ہیں تو مفضول کو افضل پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ ٤)حدیث منزلت : اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''انت منی بمنزلة ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی ''یعنی اے علی! تم میرے نزدیک ایسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے نزدیک تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔یہ روایت تمام روایتوں میں واضح الثبوت اور صحیح السند ہے چنانچہ شیعہ سنی اکابر علمائے حدیث نے اس بات کاا عتراف کیا ہے کہ جب رسول اکرمؐ غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علیؑ کو مدینہ منورہ میں خلیفہ مقرر فرماگئے اس وقت یہ حدیث ارشاد فرمائی ۔آپ نے اس حدیث کا اعادہ کئی دیگر مواقع پربھی فرمایا۔قرآن مجید اور کتب تواریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے بھائی شریک نبوت اور تبلیغ ورسالت میں ان کے وزیر تھے ۔خداوند عالم نے حضرت ہارون کو حضرت موسیٰ کے لئے قوت بازو بنایاتھا۔اور اگر وہ حضرت موسیٰ کے بعد زندہ رہتے تو ان کے خلیفہ اور امام واجب الاطاعت ہوتے۔رسول اکرمؐ نے یہاں حضرت علیؑ کے لئے و ہ تمام منزلیں ثابت کر دی ہیں جن پر حضرت ہارون فائز تھے اور سوائے نبوت کے کسی سے مستثنیٰ نہیں کیا۔لہٰذا منصب امامت آپ کے لئے بدیہی طور پر ثابت ہے ۔ ٥)آیہ ولایت: سورہ مائدہ کی ٥٥ ویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے:''انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین امنوا الذین یقیمون الصلوٰة ویوتون وھم راکعون ''۔یہ آیہ مبارکہ اس وقت نازل ہوئی جب حضرت علیؑ نے رکوع کی حالت میں ایک سائل کو انگشتری عطا فرمائی ۔چنانچہ سیوطی نے اور علی بن احمد الواحد نیشاپوری نے اسباب النزول میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ خداوند عالم نے ولایت کو اپنی ذات اور رسول اکرم ۖاور رکوع میں زکوٰة دینے والے میں حصر کیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور رسول مقبول کی ولایت کے معنی اولیٰ ہیں اور چونکہ حضرت علی کی ولایت بھی اللہ اور رسول کی ردیف میں مذکور ہے لہٰذا اس کا مطلب بھی اولیٰ ہی ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں دلائل کی ایک طویل فہرست ہے ۔آپ علم و حلم ، شجاعت وسخاوت،عبادت وعدالت ،فصاحت وبلاغت ،زہد و تقوےٰ،سیاست،جہاد اور اسلام میں سبقت وغیرہ کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام پر افضل ہیں اور چونکہ افضل پر غیر افضل کو مقدم کرنا عقلاً قبیح ہے لہٰذا آپ سب پر مقدم ہیں (توضیح المسائل)
نقل از مجلہ اصلاح ولایت امیر المومنین نمبر مطبوعہ ۱۴۱۰ہجری
|
مقالات کی طرف جائیے |
|