|
پیام غدیر |
مولانا محمد حسن معروفی |
سن ۱۰ہجری کا یادگار حج ایک لاکھ سے زائد حج کرنے والے ، نبی کریم ؐکی ہمراہی و سربراہی میں مناسک حج بجالائے اور قافلے گھروں کو واپس ہونے لگے ، نبی کریم ؐ کا قافلہ بھی مدینہ کے لئے روانہ ہوا ، درمیان سفر جبرئیل پیغام خدا لے کر پہنچ گئے : رسول ! آپ وہ بات لوگوں تک پہنچا دیجئے جو پہلے آپ کو بتائی جاچکی ہے ۔ نبی کا سفر جاری ہے، جبرئیل امین پھر حکم خدا لے کر آجاتے ہیں: اگر آپ نے اس حکم کو نہیں پہنچایا تو گویا کار رسالت ہی انجام نہیں دیا۔ کیا نبی کریم معاذ اللہ حکم خدا کی خلافت ورزی کی نیت رکھتے تھے ؟ نعوذ باللہ ہرگز نہیں ۔ شاید تعمیل حکم کی اہمیت کی وضاحت اپنی زبان سے نہ کرکے کلام خدا ہی سے چاہتے تھے ۔ ابھی سفر جاری ہے کہ تیسری مرتبہ روح الامین آگئے : اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ اب نبیؐ غدیر خم پہنچ چکے ہیں ، قافلہ کو رکنے کا حکم جاری ہوگیا، آگے چلے جانے والوں کو بلایاگیا ، پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیاجانے لگا، ابھی تک حاجیوں کو کسی قسم کا علم نہیں ہےکہ کیوں روکا جارہاہے ، صرف تعمیل حکم کے لئے حاجیوں کے قافلے ٹھہر تے جارہے ہیں ، یقیناً بے چینی بھی رہی ہوگی کہ کون سی اہم بات ہے جو میدان میں ، شدت کی دھوپ میں اور نہ جانے کتنی دیر کے لئے روکا جارہاہے ، وطن پہنچنے میں تاخیر ہوجائے گی ، ہر حاجی کا خاندان پریشان ہوگا۔ مگر حکم نبی ہے ، قافلہ ٹھہرا ہے ، ظہرین کی جماعت ایک وقت ہوئی ، نبی کریم ؐ کی طرف سے پالان شتر کا منبر بنائے جانے کا حکم ہوا …منبر بن گیا ، نبی خدا بر سرمنبر آئے ، خطبہ کا آغاز فرمایا ، ابتدا میں اللہ کی حمد و ثنا کی ، اس کی عظمت و قدرت کا تذکرہ فرمایا ، اپنی رسالت کی اہمیت و عظمت کو بتاتے ہوئے کہا: خدا میری رسالت سے مجھے اس وقت عہدہ بر آ نہیں سمجھتا جب تک میں اس حکم کو نہ پہنچا دوں جو علیؑ کے بارے میں مجھے پہلے دیاگیاہے ۔ آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ نے علی ؑکو تمہارا ولی اور واجب الاطاعت امام مقرر فرمایا ہے ، علی کی اطاعت مہاجر ، انصار ، عربی عجمی ، کالے ، گورے ، شہری اور دہی سبھی لوگوں پر فرض ہے جو ان کی مخالفت کرے گا وہ ملعون ہے اور اتباع و پیروی کرے گا وہ خدا کی رحمت کا مستحق ہوگا۔قیامت تک امامت اسی کی نسل میں رہے گی ۔ خطبہ کا تسلسل جاری رہا اور ایک مرتبہ حضرت علی ؑکو بلند کرکے فرمایا : ایھا الناس ! یہ علی میرا بھائی، وصی اور جانشین ہے میں جس کا مولا ہوں علی اس کے مولا ہیں ، پروردگار تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے تو اسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے، تو اس کی مدد فرما جو علی کی مدد کرے اور اسے رسوا کر جو اسے رسوا کرنا چاہے ۔اعلان ولایت ہوگیا اب رسم تہنیت ادا باقی ہے ، نبی ؐنے علیؑ کے لئے الگ خیمہ کریاا ، افراد باری باری جاتے ہیں ، علی ؑکو ان کے مولا ہونے کی تہنیت ادا کرتے ہیں ، تاریخ نے کچھ تہنیت دینے والوں کے نام اور الفاظ بھی ثبت کرلئے ہیں ۔اتنے عظیم مجمع کی تہنیت میں تاخیر تو ہوئی اور اتنی تاخیر ہوئی کہ مغربین کی نماز نبی کریم نے ایک ساتھ جماعت سے ادا کی ، مردوں کی تہنیت کا سلسلہ ختم ہوا ، پھر عورتوں نے تہنیت دی اور اب تقریباًایک دن کی تاخیر سے قافلے پھر اپنے اپنے وطن روانہ ہوئے ۔ تاخیر سے قافلوں کا وطن پہنچنا ہی تذکرۂ غدیر کا سبب بن گیا ہوگا ، ہر علاقہ ، ہر خاندان میں اعلان ولایت کے تذکرے ………مگر بہت جلد ہی تذکرے فراموشی میں تبدیل ہوگئے لیکن نادانستہ طورپرنہیں بلکہ دانستہ فراموشی ، خواہشات نفس کے پھندوں میں جکڑے ہوئے لوگوں نے مفاد دنیا کو پیش نظر رکھا، مفاد آخرت کو نہیں ۔جب کہ یہ مسلم ہے کہ جس دن جس نبی نے بھی اپنا وصی مقرر کیا اس دن کو اپنی قوم کے لئے عید کا دن قرار دیا اور خود ہمارے نبی نے ارشاد فرمایا تھا کہ میری امت کی تمام عیدوں میں افضل ترین عید ’’یوم غدیر ‘‘ ہے مگر امت نبی نے عید منانا دور کی بات تذکرے بھی نہ کئے ، اب اس فکر کو فکر بے جا ہی کہاجائے گا کہ اتنے بڑے مجمع میں اعلان ولایت کے بعد اختلاف کیوں ؟ تاریخوں میں تذکرے آگئے ، یہی معجزہ سے کم نہیں ہے ، ہاں! تاریخ میں امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ صاحبان حق کی زبانی یا صاحبان ولا کے زبانی تذکرۂ غدیر کو لکھا گیاہے خود امیر المومنین علی بن ابی طالب ؑنے پہلی مرتبہ شوریٰ کے موقع پر اعلان غدیر کا تذکرہ کیا ، دوسری مرتبہ مسجد النبی میں تیسری خلافت کے زمانہ میں کیا ، اس کے بعد جنگ جمل اور صفین کے موقعہ پر ذکر فرمایا چونکہ مواقع الگ الگ تھے لہذا انداز تذکرہ بھی جداگانہ رہاہے ، کبھی حاضرین سے اعلان غدیر کے ثبوت پر گواہی مانگی ، کبھی صرف واقعہ کا تذکرہ فرمایا، کہیں خاموشی اختیار کرنے والوں کے لئے بدعا کی جس کا اثر بھی ظاہر ہوا ۔ جناب فاطمہ زہرا نے بھی اس واقعہ غدیر کا تذکرہ ، امام حسن مجتبیٰ ، امام حسین ؑاور ان کے اصحاب باوفا نے مختلف مواقع پر مختلف انداز میں تذکرہ غدیر کرتے رہے ہیں ۔ البتہ کسی بات کا تذکرہ جب کسی بات کی دلیل میں ہوتاہے تو وہ تذکرہ دیرپا بھی ہوتاہے ، مذکورہ سارے تذکرے اثبات حق کی دلیل میں ہوئے تھے ۔ تذکرۂ غدیر میں پیام غدیر بھی ہے جس پیام کا نام ہے ’’اطاعت ‘‘ ۔ بڑے خوش نصیب ہیں وہ افراد جنہوں نے اس پیام کو صرف سنا نہیں بلکہ بڑی امانت کے ساتھ دوسروں تک پہنچا دیا : ابوذر، مقداد، سلمان ، میثم ….اس خوش یقینی کی پہنچان ہیں اور بڑے بد نصیب ہیں وہ افراد جنہوں نے سنا مگر اطاعت برداشت نہ کرسکے ، نعمان بن حارث اس بدبختی کی علامت کا نام ہے ۔ اطاعت کیسے کی جائے ، یقیناً ’’ یوم غدیر‘‘ عید ہے ، عید کے دن اظہار مسرت ہونا چاہئے اور جہاں اظہار مسرت و سرور ، لباس و خوشبو ، مصافحہ و معانقہ سے ہوتاہے وہیں عبودیت سے بھی اظہار مسرت ہوتاہے ، امام صادق علیہ السلام سے فرات ابن احنف نے سوال کیاتھا کہ ہمیں روز غدیر کیا کرنا چاہئے ؟ تو آپ نے فرمایا : روز غدیر عبادت، نماز ، شکر خدا کرنا چاہئے تاکہ اللہ نے جو ہماری ولایت کی نعمت سے نوازا ہے تو شکرانہ ہوجائے اور مجھے یہ پسند ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جو غدیر کے دن روزہ رکھے گا اسے اس ایک روزہ کا ثواب ساٹھ ماہ کے روزوں کے برابر ملے گا ۔ روز غدیر صوم و صلاۃ و ٹذکرۂ محمد و آل محمد ؑ سے متعلق بہت روایات ہیں جن کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا شاید بے جا نہ ہو گا کہ ولایت علی بن ابی طالب علیہ السلام’’اعلان غدیر‘‘ ہے اور اعمال ’’ پیام غدیر‘‘ ہے ۔
ماخوذ از مجلہ تنظیم المکاتب مطبوعہ ۱۴۱۰ہجری
|
مقالات کی طرف جائیے |
|