مقالات

 

انکار غدیر اور عذاب الٰہی

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

امیر المومنین ؑنے رسول خداؐ کی وفات کے بعد متعدد موقعوں پر حدیث غدیر سے احتجاج و استدلال کیااور اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے مجمع میں موجود لوگوں کو قسم دے کر گواہی طلب کی ؛ بہت سے لوگوں نے آپ کے حق پر ہونے کی گواہی دی لیکن بعض لوگوں نے ذاتی مفادات یا دوسرے اسباب و علل کی وجہ سے گواہی دینے سے گریز کیا تو حضرت نے ان کو بدعا دی ؛ چنانچہ علوی نفرین کا فوری اثر یہ ہوا کہ ان میں کوئی سفید داغ میں مبتلا ہوا تو کوئی اندھا ہوگیا ...اس سلسلے میں ایک روایت ملاحظہ فرمائیے :
جمال الدین عطا ء اللہ بن فضل اللہ شیرازی ’’ الاربعین فی مناقب امیر المومنین‘‘میں حدیث غدیر کا تذکرہ کرتے ہوئے زر بن حبیش کی روایت لکھتے ہیں :
''حضرت علی ؑمحل سرا سے برآمد ہوئے تو کچھ سوار تلواریں حمائل کئے ،نقابیں ڈالے،گرد سفر میں اٹےآپ کی خدمت میں آئے اور کہا :السّلام علیک یا امیر المومنین ورحمة اللہ وبرکاتہ السّلام علیک یا مولانا ۔حضرت نے جواب سلام کے بعد فرمایا کہ ان میں اصحاب رسولؐ تنے ہیں؟یہ سن کر بارہ افراد کھڑ ے ہو گئے ۔خالد بن زید،ابوایوب انصاری ،خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین ، قیس بن ثابت بن شماس ،عمار بن یاسر،ابوالہیثم بن تیہان ،ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص،حبیب بن بدیل ورقا۔ان سب نے گواہی دی کہ ہم نے بروز غدیر خم ارشاد رسولؐ سنا ہے: من کنت مولاہ فعلی مولاہ''۔(١)
حضرت علی ؑ نے انس بن مالک اور برّا ٔ بن عاذب سے پوچھا :تم لوگوں کو کھڑے ہو کر گواہی دینے میں کیا رکاوٹ پیش آئی۔تم نے بھی تو ان لوگوں کی طرح یہ حدیث سنی ہے ۔پھر حضرت نے بددعا فرمائی۔ ''اے خدا! اگر ان دونوں نے عنا دمیں یہ گواہی چھپائی ہے تو انھیں اذیت سے دوچار کردے۔'' اس کے بعد برّا ٔ کی حالت یہ تھی کہ جب کوئی ان کے مکان پر خیریت پوچھتا تو جواب دیتے کہ ''اس کے لئے بھلائی کہاں جسے بددعا نے اپنی لپیٹ میںلے لیا ہو۔''اور انس کے دونوںپائوں مبروص ہوگئے تھے۔ان کے متعلق یہ بھی بیان کیاگیا ہے کہ گواہی طلب کرنے پر انھوں نے نسیان کا عذر کیا تھا ۔ حضرت نے بددعا دی کہ خدایا !اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کو ایسی سفیدی سے دوچار کر دے کہ عمامہ بھی نہ چھپاسکے۔اس بد دعا سے ان کے منھ پر برص کے داغ نمایاں ہوگئے تھے اور وہ چھپانے کے لئے چہرے پر نقاب ڈالے رہتے تھے۔(٢)
احمد بن جابر بلاذری نے انساب الاشراف میں لکھا ہے :''حضرت علی ؑنے منبر پر اس شخص کو قسم دی جس نے حدیث غدیر سنی ہے کہ اٹھ کر گواہی دے ۔انس بن مالک ،برّأ بن عاذب اور جریر بن عبداللہ منبر کے نیچے تھے ۔علیؑ نے اپنی قسم کو مکرر بیان فرمایا ۔کسی نے بھی جواب نہیں دیا، اس وقت حضرت نے بددعا کی:خدایا!جو بھی اس گواہی کو جان بوجھ کر چھپائے اسے دنیا سے اس وقت تک نہ اٹھاناجب تک کوئی علامت نہ قراردیدے جس سے وہ پہچان لیا جائے ۔نتیجہ میں انس مبروص ہوگئے،برّأ اندھے ہو گئے ،جریر اسلام کے بعد صحرائے جاہلیت میں سرگشتہ رہے بعد میں ماں کے مکان میں جہنم رسید ہوگئے''۔(۳)
ابن ابی الحدیدلکھتے ہیں :مشہور ہے کہ حضرت علیؑ نے رحبہ کوفہ میں لوگوں کو قسم دی کہ جس نے رسول ؐ کو حجة الوداع سے بازگشت میں فرماتے ہوئے سنا ہے: من کنت مولاہ فعلی مولاہ ،وہ اٹھ کر گواہی دے۔ اکثر لوگوں نے گواہی دی ،بعد میں علی نے انس سے پوچھا :تم بھی تو اس دن موجود تھے،تمھیں کیاہوگیا ہے ؟وہ کہنے لگے کہ امیرالمومنین ! میں بوڑھا ہوں اس لئے زیادہ تر بھول گیا ہوں ۔کم ہی باتیں یاد ہیں۔حضرت نے فرمایا :اگر تم جھوٹ بولتے ہو تو خدا تمھیں ایسی سفیدی(برص ) میںمبتلا کرے گا کہ اس کو تمہاراعمامہ بھی نہ چھپا سکے۔اس بددعا کے نتیجہ میں موصوف قبل مرگ مبروص ہوگئے تھے ۔(۴)
عثمان بن مطرف کہتے ہیں:ایک شخص نے انس بن مالک سے زندگی کے آخری ایام میں حضرت علی کے متعلق سوال کیا ۔انھوں نے جواب دیا:میں نے واقعہ رحبہ کے بعد قسم کھا لی ہے کہ علیؑ کے بارے میں کوئی بھی مجھ سے سوال کرے گاتو میں اسے چھپاؤںگا نہیں، علی بروز قیامت متقین کے امام ہیں ۔بخدا میں نے اسے خود رسول اکرم ؐ کی زبان سے سنا ہے ۔تاریخ ابن عساکر میںمذکور ہے کہ احمد بن صالح عجلی نے کہا :اصحاب رسول میں سے صرف دو ہی مبتلائے عذاب ہوئے :ایک تو معیقب بن ابی فاطمہ دوسی ازدی جو کوڑھی ہوگئے اور دوسرے انس بن مالک جو مبروص ہوئے۔(۵)
یہاں اجمالی طریقے سے ایک واقعہ اور بھی ملاحظہ فرمائیے :خوارزمی نے مناقب بن مردویہ سے اخراج کیا ہے کہ حضرت علیؑ نے ایک شخص سے کسی حدیث کے بارے میں سوال کیا ،اس نے حضرت کو جھٹلایا ، آپ نے فرمایا:تونے میری تکذیب کی۔اس نے جواب دیا :میں نے آپ کی تکذیب نہیں کی ہے ۔ حضرت نے کہا :میں خدا سے دعا کرتا ہوںکہ اگر تو نے میری تکذیب کی ہے تو خدا تجھے اندھا کر دے ۔وہ بولا:دعا کیجئے ۔اس وقت حضرت نے نفرین کی۔اور وہ ابھی رحبہ سے باہر بھی نہیں گیا تھا کہ اندھا ہو گیا ... یہ روایت خواجہ پارسا نے فصل الخطاب میں امام مستغفری کے طریق سے نقل کی ہے ۔(۶)

پیغامات
مذکورہ متعدد واقعات و روایات سے حسب ذیل نتائج برآماد ہوتے ہیں :
۱۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ، رسول اکرمؐ کے بلافصل خلیفہ تھے ۔
۲۔ اظہار حق میں تامل کنرے والا مخالف خدا ہوتاہے ۔
۳۔جھوٹ اور کتمان حق ، قہر خداوندی کا موجب ہے ۔
۴۔غدیر کی بات چھپانے پر حضرت علی ؑ نے بدعا دی اور خداوندعالم نے فوری طور پر عذاب میں مبتلا کیا ، اس سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت علی ؑکا دشمن ، خدا کا دشمن ہے ۔
۵۔ جب دشمنان علیؑ دنیا میں عذاب الٰہی سے محفوظ نہ سکے تو آخر ت میں اس کے عذاب سے کیسے محفوظ رہیں گے ؛ آخرت کا عذاب تو انتہائی شدید اور دردناک ہوگا ۔

حوالہ جات :
١۔الاربعین فی فضائل امیر المومنین ص ٤٢ح١٣
٢۔عبقات الانوار مجلد حدیث غدیر ج١ ص ٢١١ ؛ ج٢ ص ١٣٧
۳۔انساب الاشراف ، بلاذری ج٢ص١٥٦ح١٦٩
۴۔شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید ج١٩ص٢١٧
۵۔تاریخ مدینہ دمشق ، ابن عساکر ج٣ ص ١٧٤
۶۔ مناقب خوارزمی ص ٣٧٨ح٣٩٦
مقالات کی طرف جائیے