مقالات

 

غدیر خم

علامہ مفتی جعفر حسینؒ

پیغمبر اسلامؐ فریضہ حج سے فارغ ہونے کے بعد جب مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو کم وبیش ایک لاکھ کا مجمع آپ کے ہمرکاب تھا جو مختلف شہر اور بستیوں سے سمٹ کر جمع ہوگیا تھا اور اب فرض سے سکبار ہو کر خوش خوش اپنے گھر کو پلٹ رہا تھا ۔کچھ مدینہ پہنچ کر الگ ہونے والے تھے اور کچھ لوگوں کو راستہ ہی سے علیٰحدہ ہو جانا تھا ... جوں جوں ان کی بستیاں قریب آتی جا رہی تھیں ان کی رفتار تیز ہو رہی تھی، کچھ لوگ شادان و فرحان آگے بڑھ گئے اور افتاں و خیزاں چلے آرہے تھے۔ غرض قافلہ رواں دواں تھا کہ مقام جحفہ کے تین میل کے فاصلہ پرایک پرخار وادی میں جو غدیر خم کہلاتی تھی انھیں ٹھہرجانے کا حکم دیا گیا ۔یہ حکم اچانک اور ناگہانی تھا کہ لوگ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کہ یہاں منزل کیسی کیونکہ یہ جگہ نہ تو قافلوں کے اترنے کے لئے موزوں تھی نہ گرمی سے بچنے کا کوئی سامان تھا اور نہ دھوپ سے بچاو کے لئے سایہ اور نہ ادھر سے گزرتے ہوئے عربوں کے کسی کارواں کو یہاں منزل کرتے دیکھا گیاتھا۔
اس کارواں کا روکنے کا مقصد یہ تھا کہ پیغمبراکرمؐ مسلمانوں کو اللہ کے ایک اہم فیصلہ سے اگاہ کرنا چاہتے تھے اور اس کے عمومی اعلان کے لئے مناسب موقع و محل کے منتظر تھے اور اس سے مناسب تر کوئی اور موقع نہ ہوسکتا تھا۔کیونکہ چند منٹ بعد یہ مجمع متفرق و پراگندہ ہونے والا تھا اور پھر اتنی عظیم جمیعت کے یکجا ہونے کی بظاہر صورت نظر نہ آتی تھی ۔عالم اسلام کے ہر کونے اور ہر خطے کے لوگ جمع تھے اور ان کے منتشر ہونے سے پہلے یہ حکم ان کے گوش گزار کر دینا ضروری تھا پھر اس صحرائے بے آب و گیاہ میں کارواں کو روک لینے میں یہ مصلحت بھی کارفرما ہو سکتی ہے ۔آنحضرتؐ نے اس کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لئے ایسی جگہ منتخب کی جو کبھی قافلوں کی جائیگا ہ نہ رہی تھی تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ یہاں ٹھہرنے کا مقصد آرام و استراحت نہیں ہے بلکہ معاملے کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ خواہ کتنی زحمت و تکلیف کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے اس جلتے ہوئے میدان میں چلتے ہوئے کارواں کو روک لیا جائے اور سب کو فیصلہ خداوندی سے آگاہ کر دیا جائے اور وہ فیصلہ آنحضرت ۖکی نیابت و جانشینی کے متعلق ہے۔
اس سے بیشتر دعوت ذوالعشیرہ کے ایک محدود دائرہ میں غزوہ تبوک و تبلیغ سورۂ براة کے موقع پر پیغمبرۖ کی زبان سے مختلف پیراوں اور اشاروںکنایوں میں ایسے کلمات سنے جا چکے ہیں جن سے ایک انصاف پسند اور غیر جانب دار انسان یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور تھا کہ ہو نہ ہو پیغمبرعلی کو اپنا جانشین مقررکرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ لوگوں کی زبانیں خواہ مخواہ علی کے خلاف شکوہ ریزرہتی ہیں اور ان کے معمولی منصب پربھی ان کی دلی کدورتیں چہرے پر کھلی جاتی ہیں ۔ وہ بھلا اسے کیوں کر ٹھنڈے دل سے گوارا کریں گے۔ اور اسے عملی جامہ پہننے دیں گے پیغمبر اکرم ۖبھی ان چیزوں سے خالی الذہن نہ تھے وہ بعض چہروں کے اتار چڑھاؤ سے ان کی دلی کیفیتوں کو بھانپ رہے تھے اور ان کے حرکات و سکنات سے ان کے ارادوں کو سمجھ رہے تھے کہ یہ مخالفت کئے بغیرنہیں رہیں گے اور یہ ہر ممکن روڑے اٹکائیں گے اس لئے مزاج شناسِ قدرت یہ چاہتا تھا کہ قدرت کی طرف سے ان لوگوں کے شر سے تحفظ کا ذمہ لیا جائے تو پھر اس کا عمومی اعلان کیا جائے چنانچہ اللہ کی طرف سے تحفظ کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اس مقام پر یہ آیت نازل ہوئی:
یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ و اللہ یعصمک من الناس۔
اے رسول تمہارے پروردگار کی طرف سے جو حکم تم پر اتارا گیا ہے اسے پہنچا دو او ر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تم نے کوئی پیغام پہونچایا ہی نہیں اور اللہ ہر حال میں تمہیں لوگوں کے شر سے بچائے گا۔
علامہ قاضی شوکانی تحریر فرماتے ہیں:
عن ابی سعید الخدری قال نزلت ہذہ الایة یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک علی رسول اللہ یوم غدیر خم فی علی ابن ابی طالب۔(١)
ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آیہ یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک غدیر خم میں علی ابن ابی طالب کے بارے میں رسول اللہ پر نازل ہوئی۔
اس تہدید آمیز حکم کے بعد تاخیر کی گنجایٔش نہ تھی۔پیغمبر اکرمۖ سواری سے اترے ساتھ والے بھی اتر پڑے ۔حی علی خیر العمل کی آواز پر آگے بڑھ جانے والے پلٹے اور پیچھے رہ جانے والے تیزی سے آگے بڑھے اور تمام مجمع سمٹ کر یکجا ہو گیا ۔دو پہر کا وقت باد سموم کے جھلسادینے والے جھونکے جلتا ہوا ریگستان آفتاب کی تمازت اور گرمی کی شدت چند ببول کے درختوں کے علاوہ نہ کہیں سبزہ نہ کہیں سایہ ۔صحابہ نے عبائیں کندھوں سے اتار کر پیروں کے گرد لپٹ لیں اور اس جلتی ہوئی زمین پر ہمہ تن گوش بن کر بیٹھ گئے۔آنحضرتۖ نے اونٹوں کے کجاوے جمع کر کے ببول کے دو درختوں کے درمیان ایک منبر تیار کروایا اور زیب عرشہ منبر ہوئے۔ زید ابن ارقم کہتے ہیں:
قام رسول اللہ یوما نینا خطیبا بماء یدعیٰ خما بین مکة و المدینة فحمد اللہ و اثنیٰ علیہ و وعظ و ذکر ثم قال اما بعد الا ایھا الناس فانما انا بشر یوشک ان یاتی رسول ربی فاجیب و انا تارک فیکم الثقلین اولھما کتاب اللہ فیہ الھدیٰ و النور فخذوا بکتاب و استمسکوا فعث علیٰ کتاب اللہ و رغب فیہ ثم قال و اھل بیتی اذکر کم اللہ فی اھل بیتی اذکر کم اللہ فی اھل بیتی اذکر کم اللہ فی اھل بیتی ۔(٢)
پیغمبر اکرم ۖمکہ اور مدینہ کے درمیان اس تالاب پر جو خم کہلاتا تھا خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثناء اور پند تذکیر کے بعد فرمایا اے لوگوں میں ایک بشر ہی تو ہوں وہ وقت دور نہیں ہے کہ میرے پرودگار کی طرف سے پیغامبر آئے اور میں اس آواز پر لبیک کہوں میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ایک اللہ کی کتاب جس میںنور و ہدایت ہے لہذا کتاب خدا کو مضبوطی سے پکڑو اور اس سے وابستہ رہو۔آپ نے کتاب خدا سے تمسک پر زور دیا اور اس کی طرف رغبت دلائی پھر فرمایا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں تمہیں اہلبیت کے بارے میں اللہ کی بات یاد دلاتا ہوں میں تمہیں اہلبیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں۔
ان تمہیدی کلمات کے بعد تین مرتبہ بلند آواز سے فرمایا الست اولی بکم منکم بانفسکم'' کیا میں تم پر خودتم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا سب نے ہم آواز ہو کر کہا اللھم بلی بے شک ایسا ہی ہے اپنی اولویت و حاکمیت کا اقرار لینے کے بعد حضرت علیؑ کو بغلوں میں ہاتھ دے کر اوپر اٹھایا اور فرمایا:
یا ایھا الناس ان اللہ مولای و انا مولی المومنین و انا اولیٰ بھم من انفسھم فمن کنت مولاہ فھٰذا مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ۔(٣)
اے لوگوں اللہ میرا مولا ہے اور میں تمام لوگوں کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں سے زیادہ ان پر حاکم و متصرف ہوں ۔ یاد رکھو کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ بھی مولا ہیں خدایا اسے دوست رکھ جو انہیں دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو انہیں دشمن رکھے۔
ابن عبد البر نے تحریر کیا ہے ۔قال یوم غدیر خم من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم و ال من والاہ و عاد من عاداہ۔(٤)
پیغمبر ۖ نے غدیر خم کے دن فرمایا جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔اے اللہ جو انہیں دوست رکھے تو اسے دوست رکھ اور جو انہیں دشمن رکھے تو اسے دشمن رکھ۔
اس اعلان کے بعد آنحضرت فراز منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز ظہر با جماعت ادا کی ۔نماز سے فارغ ہو کر اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ گروہ در گروہ علی کے خیمہ میں جائیں اور اس منصب رفیع پر فائز ہونے کی مبارکباد دیں۔ چنانچہ صحابہ نے تبریک و تہنیت کے کلمات کہے۔امہات المومنین اور دوسری خواتین نے بھی اظہار مسرت کرتے ہوئے مبارک باد دی اور حضرت عمر کے الفاظ تہنیت تو اب تک کتب تاریخ و حدیث میں موجود ہیں اور وہ یہ ہیں۔
ھنیا لک یابن ابی طالب اصبحت امسیت مولی کل مومن و مومنة ۔ (٥)
مبارک ہو اے فرزند ابو طالب آپ تو ہر مومن و مومنہ کے مولا ہو گئے۔
ادھر مبارک بادیوں کا سلسلہ جاری تھا ادھر جبرئیل نے اتر کر تکمیل دین و اتمام حجت کا روح پرور مژدہ سنا یا:الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا۔
آج میں نے تمہارے دین کو ہر لحاظ سے کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔
واقعہ غدیر خم متواتر و مسلم اور شکوک و شبہات سے بالاتر ہے اس میں تاویلات سے تو کام لیا جاتا رہا لیکن اصل واقعہ کو جھٹلایا نہ جا سکا اور نہ الفاظ حدیث کی صحت سے انکار کیا جا سکا کیوں کہ اس حدیث کے کثرت طرف سے نظر کرنے کے بعد وہی شخص انکار کرسکتا ہے جو مشاہدات و بدیہیات کے انکار کا عادی ہو۔
علم الہدیٰ سید مرتضی نے فرمایا ہے کہ واقعہ غدیر کا انکار چاند سورج اور ستاروں کے انکار کے برابر ہے۔علامہ تصبلی نے کہا ہے کہ اگر واقعہ غدیر یقینی نہیں ہے تو پھر د ین کی کوئی بات یقینی نہیں ہے ۔فریقین کے علماء و محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ پیغمبر ۖ نے ایک عظیم اجتماع کے اندر اپنی حاکمیت و الویت کا اقرار لینے کے بعد فرمایاکہ جو مجھے اپنا مولا سمجھتا ہے وہ علی کو بھی اپنا مولا سمجھے مگر لفظ مولا کا حسب پسند معنی پہنا کر حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل رکھنے کی کوشش کی گئی اس لئے کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جاتا کہ اس حدیث کی رد سے جو حیثیت رسول ۖکی امت سے ہے وہی حیثیت علی کی ہے تو سقیفہ بنی ساعدہ کی کارروائی کا کوئی جواز نہ رہتا۔چنانچہ کبھی یہ کہا گیا اس کے معنی دوست کے ہیں اور کبھی یہ کہا گیا ہے کہ اس کے معنی ناصر و مدد گار کے ہیں لیکن سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایک جھلستے ہوئے صحراء میں ہزاروں کے مجمع کو جو اپنے گھروں میں پہنچنے کے لئے بے چین تھا سمیٹا جب کہ کارواں کا ایک حصہ پیچھے رہ گیا تھا اور اگلا ریلا تین میل آگے حجفہ کے حدود تک پہنچ چکا تھا۔کانٹوں کو سمیٹ کر جلتی زمین پر بیٹھنے کی جگہ بنانا پالانوں کو جمع کر کے منبر نصب کرنا اور پیغمبر ۖکا اپنے حاکم و اولی باالتصرف ہونے کا اقرار لینا کیا صرف یہ بتانے کے لئے تھا کہ جس کا میں دوست ہوں اس کا علی دوست ہے یا جس کا میں مدد گار ہوں اس کا علی مدد گار ہے کوئی بھی صاحب عقل و دانش یہ باور نہیں کرے گا کہ یہ اہتمام محض اتنی سی بات کے لئے تھا کیا ان لوگوں سے علی کی رسول اللہ ۖسے دوستی و وابستگی مخفی تھی یا اوائل عمر سے اسلام و اہل اسلام کی نصرت میں علی کے کارنامے ڈھکے چھپے ہوئے اور کسی تعارف کے محتاج تھے یا اللہ کا ارشاد۔
المومنون و المومنات بعضھم اولیاء بعضمومنین کیا مرد اور کیا عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
اس دوستی کے اظہار کے لئے کافی نہیں تھا اور کیا پیغمبر ۖ انپی حاکمانہ حیثیت منوائے بغیر اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکتے تھے ۔ بلاشبہ دوست و ناصر کے معنی مراد لینے سے یہ تمام چیزیںبے معنی و بے مدعا ہو کر رہ جائیں گی۔اور پھر اس پر بھی نظر ڈالئے کہ پیغمبر کو نصرت و دوستی کے اعلان سے کیا خطرہ ہو سکتا تھا کہ قدرت کو یہ کہنا پڑا واللہ یعصمک من الناساللہ تمہیں لوگوں کے شر سے بچائے رکھے گا اور پھر یہ خطرہ بیرونی خطرہ بھی نہیں ہو سکتا اس لئے کہ تمام بیرونی خطروں کا انسداد کیا جا چکا تھا۔اب اگر تھا تو اندرونی خطرہ تھا اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا تھا جب پیغمبر کا اعلان ایک طبقہ کے سیاسی مصالح سے متصادم ہوتا اور ظاہر ہے کہ دوستی و نصرت کا اعلان تو خطرہ کو دعوت نہ دے سکتا تھا۔
یہ تمام قرائن و شواہد اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس مقام پر مولا کے معنی حاکم و متصرف کے ہیں۔ اور جس طرح آنحضرت ۖکی ولایت و حاکمیت کا اقرار ضروری ہے اس طرح علی کی ولایت کا اقرار بھی لازمی ہے اور حضرت عمر نے مبارک باد پیش کی تو کچھ سمجھ کر ہی پیش کی ہو گی۔ اگر جنبہ داری سے ہٹ کر انصاف و حق پسندی سے کام لیا جائے تو اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ یہ اعلان اسی اعلان کی صدائے باز گشت تھا جو واقعہ غدیر سے بیس برس قبل دعوت عشیرہ کے ایک محدود حلقہ میںکیا گیا تھا کہ ان ھذا اخی و وصی و خلیفتی فیکم فاسمعوا لہ و اطیعوا(٦)یہ میرا بھائی میرا ولی عہد اور میرا جانشین ہے اس کی سنو اور مانو ۔
بہر حال اس اعلان سے نہ صرف مسئلہ خلافت واضح ہو جاتا ہے بلکہ پیغمبر ۖ کی تمام تبلیغات و تعلیمات میں اس مسئلہ کی اہمیت اور بنیادی حیثیت بھی واضح ہو جاتی ہے ۔اگرچہ پیغمبر اکرم ۖ نے بعثت سے ہجرت تک اور ہجرت سے حجة الوداع تک ان تمام احکام کی تبلیغ کو جو وقتا فوقتا آپ پر نازل ہوتے رہے اور مسلمان ہر ہر حکم پر عمل کرتے رہے۔ چنانچہ وہ نمازیں پڑھتے روزے رکھتے اور جہاد میں شریک ہوتے تھے اور حج کے موقع پر جوق در جوق ادائے حج کے لئے بھی جمع ہو گئے تھے۔ مگر آیت قرآنی و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ اگر تم نے یہ نہ کیا تو گویا تم نے کوئی پیغام پہنچایا ہی نہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آخری تبلیغ کے بغیر تمام احکام کی تبلیغ نا تمام تھی حالانکہ اللہ نے کسی حکم کی تبلیغ کو دوسرے حکم کی تبلیغ پر موقوف نہیں رکھا مگر یہاں پیغمبر ۖکی تیس سالہ تبلیغ کو صرف اس تبلیغ پر منحصر کیا گیا ہے۔ اس طرح کی اگر یہ تبلیغ نہ ہوتی تو دین نا تمام رہ جاتا اور کار رسالت پایہ تکمیل کو نہ پہنچتا ۔
اس سے دو چیزوں کا ثبوت ملتا ہے: ایک تو یہ کہ اس حکم کی حیثیت اسلام میں اصل و اساس کی ہے اور دوسرے اعمال و احکام کی حیثیت فرع کی ہے اور جس طرح بنیاد کے بغیر دیواروں میں استحکام نہیں آتا اورجڑ کے بغیر شاخیں نہیں پھلتی پھولتیں اس طرح اس آخری تبلیغ کے بغیر رسالت کو اگر اصول میں شمار کیا جاتا ہے تو جسے تکملہ تبلیغ رسالت قرار دیا گیا ہے اسے بھی اصول میں داخل ہونا چاہیے اور دوسرے یہ کہ جب اس امر کے نہ پہنچانے کے نتیجہ میں تمام احکام کا پہنچانا نہ پہنچانے کے برابر ہو جاتا ہے تو اس امر کے نہ ماننے کی صورت میں ان تمام احکام کو سیکھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا کیا بے نتیجہ ثابت نہ ہو گا۔

حوالہ جات:
١۔فتح الغذیر ج٣،ص٥٧۔
۲۔صحیح مسلم ج٢،ص٢٧٩۔
٣۔صواعق محرقہ ص١٤۔
٤۔استیعاب ج٢،ص٤٦١۔
٥۔مسند احمد جنبل ج٤،ص٢٨١۔
٦۔تاریخ کامل ج٢،ص٤٢۔

ماخوذ از مجلہ تنظیم المکاتب مطبوعہ ۱۴۱۰ہجری
مقالات کی طرف جائیے