مقالات

 

واقعہ غدیر کا اثر خود مولائے کائنات پر

علامہ سید محمد شاکر نقوی امروہویؒ

بہت سخت اور بہت پیچیدہ اور بہت مشکل سوال ہے کہ خود مولائے کائنات پر غدیر کے تاثرأت کیا تھے ۔کیوں؟ اس لئے کہ غدیر کی صحیح نوعیت خود ہمارے فکری حلقوں میں ایک جیسی نہیں ہے۔
اس لئے مولائے کائنات کی شخصیت کے لئے ہر مکتب فکر کے نظریات جدا گانہ ہیں ۔ا س لئے کہ تاریخ نے آل محمدؐ کے صرف کلیات اور وہ بھی نامکمل درج کئے ہیں اور دشمن آل رسولؐ کی جزئیات اور وہ بھی مفصل اپنائے ہیں اس لئے ہم کسی بھی تاریخی انبار سے راست راست حوالے پیش نہیں کر سکتے کہ غدیر کا رد عمل مولیٰ پر کیا رہا ۔ہاں البتہ صورتحال کے حلقہ میں مختلف واقعات سے جو نتیجہ بر آمد ہوتا ہے اس کی نشان دہی کر سکتے ہیں ۔
بیشک اگر مولائے کائنات میں شہرت پسندی کا جذبہ ہوتا تو البتہ اٹھتے بیٹھتے ہر شخص پر اپنے نئے منصب کی دھونس ڈالنے کی کوشش کرتے جو یقیناً لوگو ں کو گراں گذرتی تب وہ گرانی یقینًا تاریخ کے صفحات پر آجاتی کیونکہ پھر وہ مخالفین کے جزئیا ت میں شامل ہو جاتی۔
ہمارے خیال میں یہ مسئلہ تب بھی حل ہو سکے گا جب ہم پہلے خود اسلام کا نظریہ تحریک بلکہ منشاء تحریک طے کر یں کہ کیا ہے؟یعنی اسلام کیا چاہتا ہے رسالت یا حکومت' ظاہر ہے اگر منشاء اسلام رسالت ہے تو حکومت کی حیثیت صفر قرار پائے گی اور اگر اسلام کا منشاء حکومت ہے تو پھر پوری دینیات ثانوی خانہ میں رکھنا پڑے گا ۔دوسروں لفظوں میں یوں سمجھئے کہ اسلام کے نزدیک یا حکومت برائے شریعت ہے یا شریعت برائے حکومت بس یہ دو راہاایسے نازک موڑ سے شروع ہوتا ہے کہ اس کو لوگوں نے اپنی اپنی عقل کے مطابق اپنایا ہے اور یہ لازمی بات ہے ۔یہ نظریہ اپنانے والے کبھی کسی ایک مقام پر مل نہیں سکتے کیونکہ کہ یہ دونوں راہیں ایک دوسرے کی ضد ہیں بہرحال مسلمانوں نے اپنی اپنی پسند سے ایک ایک راہ اختیار کرلی اور عام طور پر یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اسلام کا منشاء صرف حکومت ہے ۔اس کے مقابلے میں یہ نظریہ کہ اسلام صرف شریعت چاہتا ہے اس کو اختیار کرنے والے چند گنے چنے لوگ رہ گئے۔
اب ظاہر ہے ان دونوں راستوں میں ہر راہ پر چلنے والے افرادرسول اسلام کو اس نظریہ سے دیکھیں گے جس نظریہ کو انھوں نے اختیار کیا ہے ۔یعنی اسلام حکومت چاہتا ہے تو حضورۖ کا سراپا ایک حاکم وقت کی شکل میں تیار ہوگا اور اگر اسلام نظام شریعت کا طالب ہے تو پھر حضور ۖ کی ذات خاتم المرسلین کی شان کے ساتھ ذہن نشین ہوگی چنانچہ دنیائے تاریخ نے حضور ۖ کا سراپا جو پیش کیا ہے وہ بلکل حاکمانہ شان سے پیش کیا ہے اس مثال کو سامنے رکھ کر غدیر کا مطلب اور اس کے تقاضے کچھ اور ہو جاتے ہیں اور خاتم المرسلین کے رشتہ سے غدیر کا منشاء اور اس کی ذمہ داریا ں کچھ اور ہو جاتی ہیں کہ امیرالمومنین کی تاثرات کی تلاش ان دونوں نگاہوں سے ہم کو علیٰحدہ علیٰحدہ نتیجہ پر پہو نچائے گی حکومت کے تقاضے امیرالمومنین میں کچھ اور چیزیں تلاش کریں گے اور شریعت کے تقاضے امیرالمومنین کے اندر کچھ اورڈھونڈنا چاہیں گے ۔
آیئے پہلے دونوں قسم کے تقاضوں کے متعلق علیٰحدہ علیٰحدہ خیالی تصویر تیار کر کے دیکھی جائے اور تاریخ میں اس تصویر کو تلاش کیا جائے کہ کون سی تصویر تاریخ کی اپنی تصویر ہے بس اس کے بعد یہ بات بھی خود بخود مولائے کائنات ہی کے طرزعمل سے طے ہوجائے گی کہ اسلام حکومت چاہتا ہے یا شریعت! ۔
ہمارے خیال سے پہلے اسلام بمعنی حکومت کے اعتبار سے غدیر کی حیثیت ملاحظہ کر لی جائے چنانچہ آپ خود محسوس کر لیں گے کہ اسلام بمعنی حکومت کے لحاظ سے غدیر کی حیثیت رسم ولی عہدی قرار پاتی ہے اس رسم کی ادائیگی کا نفسیاتی ردعمل ولی عہدی پریعنی جس کو حکومت کا جانشین بنایا جا رہا ہے اس پر کیا ہوتا ہے ! ہم سب کے سامنے ولی عہدوں کی پوری تاریخ موجود ہے، مستقبل کے متعلق اپنی ترقی کی راہیں تلاش کرنے والے کس طرح نئے ولی عہدکو اپنے حلقہ میں لے لیتے ہیں گویا نئی کیبنیٹ کی داغ بیل شروع ہو جا تی ہے ولی عہدی کا علیٰحدہ دربار لگنے لگتا ہے اور اتنے ہی عرصہ میں اہل سیاست اپنی اپنی کرسی اور اپنا اپنا مقام درست ک لیتے ہیں اس کی مسلسل مثالیں صرف دور اموی اور دور عباسی میں محدود نہیں بلکہ آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔لہذا واقعہ غدیر کے بعد اصول طور سے امیرالمومنین کے یہاں بھی یہ تمام باتیں تلاش کرناپڑیںگی اوردیکھنا ہوگا کہ غدیر کی رسم ادا ہو جانے کے بعد کیا کیا ہوگا ۔لوگ مولائے کائنات کس طرح سے ملے اور مولائے کائنات لوگوں سے کس جذبہ سے ملے ۔مولیٰ کے گرد حلقہ احباب اکٹھا ہوا کہ نہیں ہوا۔ آپ کے گرد منڈلانے والے پیدا ہوئے کہ نہیں ہوئے نجی نششتوں کا دربار لگا کہ نہیں لگا آئندہ کے لئے منصوبہ بندیاں موضوع کلام بنیں کہ نہیں بنیں ظاہر ہے کہ جب بھی کسی کہ ساتھ کوئی واقعہ پیش ہوتاہے جب بھی کوئی اجتماعی سلوک برپا کیا جاتا ہے تو اس کا ردعمل قول وفعل پر ضرور ہوتا ہے اگر کچھ بھی نہ مانا جائے تو کم از کم چہرے کا اتار چڑھاؤ کسی سے چھپایا نہیں جاسکتا ۔توکیا مسلمان کے پاس کوئی تاریخ ہے کہ جس میں مولائے کائنات کے اس ردعمل کا ذکر مل جائے یا نقشہ کشی اس میں موجود ہو جس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاسکے کہ علی پر غدیر کا اثر کیا ہوگا ۔اچھا اسی تصویر کا دوسرے رخ سے جائزہ لیجئے یعنی اسلام کا نظریہ تحریک حکومت نہیں بلکہ شریعت قرار دے لیجئے تو اس لحاظ سے غدیر کی حیثیت جشن ولی عہدی کے بجائے اعلان بعثت کی طرح اعلان منصب یا تعمیل اذا فرغت فانصب قرار پائے گی جشن فتح میں صاحب منصب کے جذبات بالکل ویسے ہوں گے جیسے وقت بعثت خود حضور اکرم ۖکے جذبات تھے اور اگر گردوپیش جمع ہونے والے اور قسم کے ہوں گے تونششت وبر خاست کے اندازبھی کچھ اور ہوں گے ۔آ ئندہ منصوبوں کے لئے موضوع کلام اور طرح کا ہوگا ۔اصحاب کا طریقہ فکر سوچنے کا ڈھنگ اور ہوگا روز وشب کی مصروفیات اور طرح کی ہونگی ۔فائدہ نقصان کی کسوٹی حاکمیت کے بجائے خالص شریعت اور للہیت ہوگی ۔آئیے اب ذرا مولائے کائنات کے دونو ں محفلوں کا میر بزم بنا کر دیکھا جائے اس وقت تاریخ کا ہر ورق پکارتا نظر آئے گاکہ علی یہاں نہیں بلکہ وہاں ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہدوں کہ اسی بات سے خود اس کا فیصلہ ہو جائے گا کہ اسلام کا نظریہ تحریک حکومت ہے یا شریعت چنانچہ اس تمہید کے ساتھ جب ہم غدیر کی طرف پلٹتے ہیں تو لوازمات غدیر کچھ شاہانہ رسموں سے ملتے جلتے نظر آنے لگتے ہیں چلتا ہوا قافلہ روکاجاتاہے منبر کا انتظام کیا جاتا ہے مجمع کو متوجہ کیا جاتا ہے اور امیرالمومنین کی کو مولیٰ کی حیثیت سے پیش کر دیا جاتا ہے مبارکبادی کے لئے خیمہ نصب کیا جاتا ہے فردافردا رسم تہنیت ادا کی جاتی ہے ۔مبارکبادی دی جاتی ہیں ،قصائد پڑھے جاتے ہیں یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک شہنشاہ وقت اپنے بعد تخت شاہی کا انتظام کر رہا ہے لیکن جب اس کے بعد پلٹ کر امیرالمومنین کے رخ انور پر نظر پڑتی ہے توایسا سادہ اورصاف و شفاف نظر آتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ظاہر ہے کہ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب احساسات اور تاثرات اس پوری کارروائی سے مختلف ہو ں یا پھر ہم غلط سمجھ رہے ہوں۔ہمارا یہ دعویٰ کہ مولائے کائنات کا چہرہ بالکل صاف ستھرا شفاف تھااس بنا پر ہے کہ مجمع میں ایسے لوگ موجود تھے جو علی کے ہر نشیب و فراز پرنگاہیں مرکوز کئے تھے ان کی نگاہیں وہ تھیں جو عمر بن عبدود کے سر کو امام علی کے ہاتھو ں پر دیکھ کر فورا ہی علی کی خراماں روی کی طرف مڑ چکی تھیں جنھیں علی کی ذرا سی فاتحانہ رمق بھی برداشت نہ ہوئی اور بارگاہ حق میں اس کو غرور اور تکبر سے تعبیر کرنے لگیں ظاہر ہے کہ غدیر کے احتمالات کا قہر ی ردعمل بھی رفتار و گفتار پر نمایا ں ہوا ہوگا اورنقاد نگاہوں نے علی کو اپنا نقطہ ٔارتکازبنا لیا ہوگا ایسے میں اگر ذرا بھی چہرے میں تبدیلی کے آثارنظر آتے تو حاسدانہ تقاضے رسول اسلام ۖ سے شکایت کرنے پر مجبور کر دیتے، تاریخ کی خاموشی اس کا ثبوت ہے کہ علی کے خلاف کسی کے لئے انگشت نمائی کا موقع فراہم نہ ہوسکا جسکے دوسرے معنی یہ ہیں کہ علی سے دنیا کو جس رد عمل کہ توقع تھی وہ ردعمل ظاہر نہ ہو سکا ۔اس کے کھلے ہوئے معنی یہ ہیں کہ علی کی نظر میں غدیر کی حیثیت وہ نہیں تھی جو حیثیت دنیا نے سمجھ رکھی تھی ورنہ چہرہ جو دل کا ترجمان ہے اور خود مولائے کائنات نے فرمایا ہے کہ ما اضمر احد شیئا الاظھر فی فلسات لسانہ و صفحات و جھہ جب بھی کسی نے کسی چیز کو دل میں چھپانا چاہا وہ بے ساختہ زبان سے اور چہرے کے انداز سے ظاہر ہو جاتی ہے لہذا اگر غدیرشاہانہ اقتدار کی منتقلی کا نام ہوتا تو مولا لاکھ اظہار مسرت نہ فرماتے پھر بھی چہرے کی تابناکی کا طور ہی کچھ اور ہوتا کیونکہ انسان غم میں آنسوئوں کو روک سکتا ہے گریہ و زاری پر قابو حاصل سکتا ہے لیکن اس کا چہرہ مسکراتا ہوا بشاش ہر گز نہیں رہ سکتا اسی طرح کسی مسرت انگیز واقعہ کے موقع پر خوشی کے آنسوں تو بہاے جا سکتے ہیں مگر مغموم نظر نہیں آسکتا ۔تنقیح کا خلاصہ یہ ہے کہ غدیر حکومت کی نیابت نہیں بلکہ شریعت کی نیابت تھی ۔
اس موقع پر یہ سوال سامنے آسکتا ہے کہ پھر امیرالمومنین کو اور بھی زیادہ اظہارے مسرت فرماناچاہئیے تھا کیونکہ شریعت حقہ کا ذمہ دار انہ منصب عطا کیا جارہا تھا اس کے جواب کے سلسلے میں ہمیں عالی ظرف سے اور کم ظرف سے ہٹ کر سنجیدہ مزاجی بردباری اور کم وزنی سے قطع نظر تاریخ کے ٢٣قبک والے حالات و واقعات سے جوڑ ملا کر دیکھنا ہوگا کیا دعوت ذوالعشیرہ کا اعزاز کم منزل والا تھا اور کیا دعوت ذوالعشیرہ کا اعلان وصایت آج کا اعلان ولایت سے مختلف تھا ۔کیا اظہار مسرت کے اعتبار سے ایک دوسرے میں کچھ فرق ہے ؟ تو پھر ہم وہاں یہ دیکھتے ہیں کہ مولائے کائنا ت نہ اظہار غرور فرماتے ہیں نہ تمکنت کا پتہ ہے اس کے بر خلا ف اس منصب کی وجہ سے عائد شدہ ذمہ داریوں میں کھو جاتے ہیں اور فورا ہی حفاظت رسول ۖ کا کام شروع کر دیتے ہیں یا مثلا سورہ دھر کا نزول انما ولیکم اللہ کا نزول انما یرید اللہ کا نزول یہ کیا کم اظہارمسرت کی منزلیں تھیں لیکن ہمیں کہیں بھی مولائے کائنات فخر و اظہار فخر فرماتے نظر نہیں آتے تو پھر بھلا غدیر کے موقع پروہ کون سی نئی بات حاصل ہوئی جس پر مولائے کائنات اپنی سابقہ روش چھوڑ دیتے۔
قرآنی مدح وثنا سے کہیں زیادہ واضح اور تفصیلی مدح وثنازبان رسالت پر نظر آتی ہے لیکن کسی نے مولائے کائنات کو فخر سے جھومتے ہوئے نہیں دیکھاتو غدیر میں بھلا کیا اثر لیتے خصوصاً جبکہ یہ بات صرف عقیدہ نہیں بلکہ عین ایمان ہے کہ مولائے کائنات عالم ما کان وما یکون تھے انہیں اچھی طرح علم تھا کہ میرے اصل فضائل اور میری اصل قدر و قیمت جو اللہ اور رسول ۖ کے نزدیک ہے یہ ظاہر شدہ فضیلتیں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں جنہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ میرے لئے جو کچھ کہا جارہا ہے اور جو کچھ کیا جا رہا ہے اس کا نتیجہ کس شکل میں سامنے آنے ولاہے پھر اس تمام باتوں کے ساتھ ساتھ یہ امر سب سے زیادہ اثر انداز تھا کہ سب کچھ جو ہو رہا ہے وہ ایک کھلا الارم ہے فراق رسول ۖکا یعنی اب میرے مربی اور سرپرست وہ پشت پناہ وہ ملجاو ماوٰی ابدی سفر پر مائل ہو چکا ہے اور اب اس کے بعد خون کا دریا اور آگ کاطوفان ،خوف اور ہر اس کا زلزلہ ہی زلزلہ ہے پھر ایسے بھیانک ماحول میں اسلام کی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کے لئے بھرے مجمع میں حاضری یا یوں کہا جائے کہ اس اہم ترین معاہدہ ،حفاظت کے لئے لاکھو ں مسلمان کی گواہی کا انتظام اب نفسیات کے ماہرین خود فیصلہ کر کے بتائیں کہ ایسے محل وموقع پر تأثراتی ردعمل کیسا ہونا چاہیئے تھا ۔ آنکھوں کا طور طریقہ کیسا ہونا چائیے تھا آواز پر اس کا اثر کیسا ہونا چاہیئے تھا لب و لہجہ پر اس کا کیا اثر ہونا چاہیئے تھا تب خود بخود یہ عقدہ کھل جائے گا کہ علی کے ساتھ ساتھ تاریخ کیوں خاموش ہے اتنی ہزاروں مبارکبادیں ہوئیں لیکن کوئی علی کی مسکراہت کا حوالہ نہیں دیتا ۔مدینہ پہنچے تو وہاں بھی نہ کوئی ذکرہے نہ چر چہ ہے نہ تذکرہ ہے حتیٰ کہ شریک زندگی جس سے میدان احد کی خون الودہ تلوار فخریہ انداز میں دھونے کی سفارش کی جاسکتی ہے اس وقت ایک دوسرے سے کوئی کچھ نہیں کہہ رہا ہے ۔ اس بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ جانثار حقیقت شناس اصحاب بوذر وہ سلمان بھی دم بخود ہیں ورنہ یہ علی کے متوالے خوشی میں کھو جاتے ۔یہ باتیں اس بات کا ثبوت ہے کہ مولائے کائنات پر غدیر کا جو اثر تھا وہ اتنا شدید اور اتنا گہرا اور اتنا پیچیدہ تھا جس کا اندازہ لگانا بشری طاقت سے ممکن نہیں ہاں اگر تھوڑا بہت قیاس کر کے تأ ثرات کا خاکہ بنانا ہی ہو تو دور خلافت کی تمام پیچیدگیوں اور زندگی کی تمام مصیبتوں اورخالق نہج الباغہ کے حکیمانہ عرفانی خطبوں کے پس منظرمیں ١٩رمضان کی صبح کو سجدۂ خالق میں ضربت کے بعد فزت برب الکعبہ کی پیہم تکرار کے آئینہ میں ا میرالمومنین کے چہرے کے تأثرات قائم کئے جا سکتے ہیں ۔وہ تأثرات کیا تھے... کیسے تھے...یہ تو بس وہی اللہ ہی بتا سکتا ہے کہ جس نے کہ اس تأثر بھرے چہرہ پر نظر کرنا عبادت قرار دیاہے۔

ماخوذ ازمجلہ تنظیم المکاتب مطبوعہ ۱۴۱۰ہجری
مقالات کی طرف جائیے