مقالات

 

امواج غدیر

مولانا سید عباس رضا چھولسی

افق کے تاریک ماتھے سے سیاہی چھوٹ رہی تھی ، ظلمات کا سینہ چاک ہورہاتھا ، شب کی سانسیں ٹوٹ رہی تھیں ، مشرق میں نور کے سمندر کا کنارہ نظر آرہاتھا، ماہ مبین مسافت شب قطع کرکے آغوش میں پناہ لے چکاتھا ، ہر ستارہ فرقت ماہتاب میں اپنا چراغ گل کرچکاتھا ، صبح کا سہانا وقت تھا، افق مشرق سے اٹھتی ہوئی روشنی اگر ایک طرف ریگستان کو ایک دلفریب منظر بخش رہی تھی تو دوسری طرف ستاروں کی انجمن کو خزاں کا پیغام دے رہی تھی ۔ وہ ماہتاب جو رات بھر ستاروں کی انجمن کی رہبری کر چکاتھا اب اس کے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے ، اس کا چہرہ زرد ہورہاتھا ، اگر ایک طرف افلاک کی بستی سوتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی تو دوسری طرف زمین پر نئی زندگی نمودار ہورہی تھی اور طائران خوش الحان اپنی زبان حال سے لوگوں کو دعوت فکر و نظر دے رہے تھے ، ایسے پرلطف ماحول میں ایک قافلہ تیز رفتاری سے عرب کے ریگستان کو اپنے قدموں سے روندتا ہوا چلا جارہاتھا یا نور حق باطل کی تاریکی کو مٹاتا ہوا عرب کے ریگستان کو روشن و منور کرتاہوا چلا جارہاتھا تاکہ نیر اعظم کے کمال عروج پر پہنچنے سے پہلے ہی ایک فاصلہ طے کیاجاسکے اور اس کی تمازت سے بچا جاسکے ۔
اس قافلہ میں جو مکہ سے چلا آرہاتھا سب ہی حاجی تھے جو حج بیت اللہ سے مشرف ہوکر واپس آرہے تھے ، یا بانی شریعت آخری بار شریعت کی تیسری فرع کو عملی طور پر عوام کے سامنے پیش کرکے آرہے تھے ، یہ حج بانی اسلام کی زندگی کا آخری حج تھا یا سرزمین مکہ نے صاحب معراج کے قدموں کو آخری بار چوما تھا ۔
ایک لاکھ بیس ہزار مسافران حج جو میلوں تک صحرا میں پھیلے ہوئے چل رہے تھے ، اس عظیم قافلہ کے درمیان مرسل اعظمؐ اپنے پیغمبرانہ جاہ و جلال کے ساتھ سرگرم سفر تھے ، جیسے جیسے آفتاب رسالت اپنی منزل کی طرف قدم بڑھا رہاتھا ، ویسے ہی آفتاب حقیقی بھی اپنے عروج کی طرف بڑھ رہاتھا اور شدت حرارت کی وجہ سے فضا گرم ہونے لگی تھی ۔
مسافران حج کے تصور میں ایک طرف تو حج کے مناظر تھے جو یکے بعد دیگرے آجارہے تھے تو دوسری طرف بیتے ہوئے حسین و مقدس لمحات ۔
اب آفتاب اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ چکاتھا اور آفتاب رسالت بھی ایک لق و دق میدان میں پہنچ چکاتھا ۔
عرب کی گرمی، تپتا ہوا صحرا، جلتی ہوئی ریت ، دھوپ کی شدت ، جانگسل ماحول، جہاں چند ببول کے درختوں کے علاوہ کسی سائے دار درخت کا نام و نشان تک نہیں ، نہ لہلہاتا سبزہ ، نہ سر سبز و شاداب درخت ، نہ بہتی ہوئی نہریں ، نہ آبشاروں کا شفاف پانی ، نہ مرغزارہیں ، نہ کسی طرف ہریالی، نہ موسم بہار ۔ بس ایک صحرا ہے جو دور تک پھیلا ہوا ہے ، ایک ریت کا سمندر ہے جو ٹھاٹھیں ماررہاہے اور اس میں دھوپ کی شدت سے چھوٹے چھوٹے ذرے مثل ستاروں کے جگمگارہے ہیں ، یا آسمانی جلوے ہیں جو زمین پر نظر آرہے ہیں ۔ ایک میدان ہے جہاں تاحد نظر ریت ہی ریت دکھائی دے رہاہے اور اس میدان کا نام ’’غدیر‘‘ ہے جو مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کے درمیان واقع ہے اور مقام جحفہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے ۔ غدیر کے لغوی معنی اس گڑھے کے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتاہو اور اسی لئے اس کو غدیر خم کے نام سے موسوم کیاجانے لگا ۔
یہ سن دس ہجری کا واقعہ ہے ، مرضی معبود یہ تھی کہ آفتاب رسالت غروب ہونے سے پہلے اپنے نظام شمسی کے بارہ ستاروں کے ایک سلسلے کو جس کی نشاندہی ’’وعترتی و اھلبیتی ‘‘ سے کی گئی ہے ، ضوفشانی کائنات ایمانی کے لئے اپنا قائم مقام مقرر کرکے اعلان کردے تاکہ لوگ بعد میں گمراہ نہ ہوں ۔ جس طرح آفتاب کے غروب ہونے کے بعد فورا ماہتاب نکل آتاہے اور پوری کائنات میں اپنی ضیا بکھیرنے لگتاہے اسی طرح خدا چاہتاتھا کہ آفتاب رسالت کے غروب ہونے پر فوراً ماہتاب امامت جلوہ گر ہوجائے تاکہ لوگ ظلمت و گمراہی کا شکار نہ ہوں ، جس طرح رسول اپنی حیات طیبہ میں پوری کائنات کو اپنے علم و فضل سے فیضیاب کررہے تھے اسی طرح علی پوری کائنات میں اپنے علم و فضل کی ضیا پاشی کریں اور لوگوں کو ظلمت و گمراہی سے بچائیں ۔
لہذا معبود حقیقی نے اپنے امین خاص کے ذریعہ حکم دیا :
یا ایھا الرسول ’’ اے رسول! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیاجا چکاہے ، اس کو پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو گویا تم نے رسالت کا کوئی کام ہی انجام نہ دیا اور اللہ تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ‘‘۔
آیۂ بلغ میں ’’ ماانزل الیک‘‘ کی لفظیں واضح طو ر پر اعلان کررہی ہیں کہ کوئی ایسی راز کی بات ضرور ہے جس کا علم صرف خدا اور حبیب خدا کو ہے ، مگر بات اتنی عظیم اہمیت کی حامل ہے کہ ’’ مابلغت رسالتہ ‘‘ جیسی لفظیں اللہ اپنے حبیب کے لئے نازل کررہاہے ۔ دماغی تصور کھوج اور تلاش میں غلطاں ہوجاتاہے کہ وہ کونسی ایسی تبلیغ باقی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے سرور کائنات کو زبردست تاکید کی جارہی ہے ، وہ راز کی بات اور وہ اہم حکم غدیر میں ظاہر ہوکررہا اور دنیا سمجھ گئی کہ سب سے اہم کام یہ ہے ۔ لیکن قرآن کے مطابق رسول اللہ ؐنے اس وقت تک اس راز کو افشا نہیں کیا جب تک کہ اللہ نے ’’ واللہ یعصمک من الناس ‘‘ کہہ کر حفاظت رسول کی ذمہ داری نہ لے لی ۔
مرسل اعظمؐ رکے، ساتھی بھی رک گئے، نبوت کے لب اعجاز ملے:
’’ جو آگے بڑھ گئے ہیں انہیں واپس بلالواور جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظار کرو ،میدان صاف کرو اور ایک منبر تیار کرو ، مجھے آخری پیغام پہنچانا ہے‘‘۔
لوگ حیران ہیں ، یا اللہ!گرمی بڑھتی جارہی ہے، دھوپ کی تپش میں اضافہ ہوتا جارہاہے ، حضور قافلے کو اس وقت کیوں ٹھہرا رہے ہیں ؟ مگر حکم رسول کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ، مسلمان پریشان ہیں ، یہ صحرا اور اتنی سخت دھوپ ، جہاں کسی سائے دار درخت کا نام و نشان نہیں ، شدت گرمی ، تپتا ریگستان ، جہاں ہر شخص اپنے قدموں اور چہرے کو جھلسنے سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنی ردائیں لپیٹے ہوئے ہے ، ایسے پر خطر ماحول میں کون ایسا پیغام پہنچانے والے ہیں ۔
لیجئے میدان صاف ہونے لگا ، شاید رسول چاہتے تھے جیسے یہ غدیر کا میدان صاف کررہے ہیں اسی طرح سے ان کے دل بھی بغض علی کی کدورتوں سے صاف ہوجائیں ، صاف دل صحابہ نے دم کے دم میں آنکھوں کو فرش خاک بنادیا اور فرط مسرت سے زمین پر بچھ گئے اور اپنے دلوں کی طرح زمین جلسہ بھی صاف و شفاف اور ہموار و استوار بنادی۔
حکم ہوا :پالان شتر کا منبر بنایا جائے ، اسی جانگسل ماحول میں ایک طرف بلال کی صدائے اذان ،حیات جاوداں کا پیغام دے رہی تھی : حی علی خیر العمل ’’ نیک اور بہترین عمل کی طرف پلٹ آؤ‘‘۔
پالان شتر کا منبر تیار ہوا ، رسول اکرمؐ منبر پر تشریف لے گئے اور ایک فصیح و بلیغ طولانی خطبہ ارشاد فرمایا، اس کے بعد پورے مجمع سے کہا:کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ؟ سب نے کہا:بیشک یارسول اللہ ! آپ ہمارے نفسوں کے مالک ہیں ۔ یہ کہہ کر آفتاب رسالت نے اپنی کرنوں سے ماہتاب امامت کو اشارہ کیا اور جب علی قریب آگئے تو علی کو دونوں ہاتھوں پر بلند کیا اور اتنا بلند کیا کہ سفیدی زیر بغل نمودار ہوگئی اور بلند کرکے فرمایا :
من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ’’ جس کا میں مولاہوں اس کے یہ علی مولا ہیں ‘‘۔
جس معنی میں میں مولا ہوں ، اس معنی میں علی مولاہیں ، جب سے میں مولاہوں تب سے علی مولاہیں ، جب تک میں تمہارا مولارہوں گا تب تک علی تمہارا مولا رہے گا ۔
امام احمد بن حنبل نے مسند میں برا ئ بن عازب صحابی رسول سے روایت کی ہے کہ نبی نے فرمایا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ میں مومنین کے نفسوں سے اولی ہوں ، سب نے اقرار کیا تو علی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا : اللھم من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ پھر حضرت عمر نے مبارکباد دی اور کہا:ھنیئا لک یابن ابی طالب اصبحت و امسیت مولی کل مومن و مومنہ۔
ارجح المطالب میں ہے : برائ بن عازب آیۂ مبارکہ ’’ یاایھا الرسول بلغ ‘‘ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے خطبہ پڑھا اور فرمایا: جس کا میں مولاہوں اس کے علی مولا ہیں ، پس عمر بن خطاب نے حضرت علی ؑسے کہا: بخ بخ یا علی …’’ آفرین ہو اے علی بن ابی طالب کہ تم ہر مومن و مومنہ کے مولا ہوگئے اور اس کے بعد رسول اسلام نے سارے مجمع سے کہا : جاؤ علی کو مبارکباد دو ، علی کو الگ ایک خیمے میں بٹھادیاگیا ، اس موقع پر حسان بن ثابت الانصاری نے قصیدہ بھی کہا ، اس اعلان ولایت مولائے کائنات حضرت علی ؑکے فوراً بعد یہ آیت نازل ہوئی :
الیوم اکملت …’’ اآج میں نےتمہارے دین کو تمہارے لئے کامل کردیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے دین اسلام کو تمہارے لئے پسندیدہ قراردیا ‘‘۔
مرسل اعظم ؐ نے اعلان ولایت علی بن ابی طالب ؑکے لئے جو اہتمام کیا ، اس کا ہر جزو دعوت فکر دیتاہے ، غدیر کا میدان پہلے ہی سے تپ رہاتھا، آسمان سے آگ برس رہی تھی ، ریت کے ذرے دہک رہے تھے ، لوکے تھپیڑے قلب قلب و جگر کو برما رہے تھے لیکن آج جو اعلان ہونے والا تھا ، اس کی اہمیت کے پیش نظر اللہ اور اس کے رسول کا مقصد تھا کہ ہر مسلمان اس اعلان کو سن لے اور عمل کو آنکھوں سے دیکھ لے ۔ دھوپ کی تیزی اور گرمی کی شدت سے نہ تو غنودگی طاری ہوگی اور نہ کان سننے سے معذور ہوں گے ، برائے نام درختوں کا وجود اور ان کا سایہ سکون دے کر نہ تو نیند کا غلبہ ہونے دے گا ، نہ نظروں کو پیغمبر اسلام تک پہنچنے میں حائل ہونے دے گا اور تمام مسلمان اس اعلان کے عینی اور سمعی شاہد ہوں گے ۔
علامہ سیوطی روایت کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد دہن رسالت سے شکریہ کے طور پر یہ کلمات نکلے :
الحمد للہ علی اکمال الدین …’’ تمام تعریفیں ہیں اللہ کے لئے دین کے کامل کرنے پر ، نعمتوں کے تمام ہونے پر ، میری رسالت کی قبولیت پر اور میرے بعد علی کے لئے ولایت پر ‘‘۔
تاریخ اسلام میں واقعہ غدیر خم صدر اسلام ہی سے جملہ علمائے اسلام کے نزدیک مسلمات میں سے ہے ، چنانچہ اس واقعہ کو علمائے اہل سنت اور علمائے شیعہ نے اس کثرت سے نقل کیا ہے کہ حد تواتر کو پہنچ چکا ہے جس میں کسی قسم کے انکار کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے ۔
اگر چہ دشمنان آل محمد ؐ نے فضائل و مناقب آل محمد ؐ کو چھپانے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کردیا ، خصوصا حضرت علی ؑ کے فضائل کے اخفا میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ، پھر بھی اہتمام قدرت کے سبب من جملہ اور فضائل کے ایک واقعہ غدیر بھی مخفی نہ رہ سکا حالانکہ اس اہم اور تاریخ ساز واقعہ پر پردہ ڈالنے کے لئے لاکھوں جتن کئے گئے ، اس کے باوجود جلیل القدر علمائے اہل سنت نے اس واقعہ کو اپنی اپنی تصنیفات میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔
چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی نے تفسیر در منثور اور تاریخ الخلفا میں ، علامہ فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں ، علامہ نیشاپوری نے تفسیر غرائب القرآن میں ، امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ، امام حاکم نے اپنی مستدرک کی جلد سوم میں ، احمد بن حجر حنفی نے صواعق محرقہ میں ، ابن ماجہ نے اپنی سنن میں … خلاصہ یہ کہ آقای امینی نے اس موضوع پر کتاب الغدیر کی گیارہ جلدیں تالیف کی ہیں اور محقق اعظم جناب سید حامد حسین صاحب مرحوم نے اپنی مشہور و معروف عبقات الانوار میں علمائے اہل سنت کے ۱۴۹ ایسے نام دئیے ہیں جنہوں نے واقعہ غدیر کو اپنی تصنیفات میں جگہ دی ہے۔
واقعہ غدیر کو تقریباً چوبیس بزرگ علمائے تاریخ نے اور تقریبا ً ستائس بزرگ علمائے حدیث نے اور دس ماہرین علم کلام نے اپنی اپنی کتب میں جگہ دی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مفسر کے سامنے بھی جب بعض آیات آئی ہیں جو واقعہ غدیر سے وابستہ ہیں تو ان کی تفسیر بیان کرنے میں واقعہ غدیر کو بیان کیاگیا ہے، ماہرین لغت کے سامنے جب لفظ غدیر ، یا خم یا مولیٰ آتا ہے تو اقعہ غدیر خم کی طرف اشارہ کرنے پر وہ مجبور ہوجاتے ہیں ۔
یعنی اس واقعہ کو اس قدر بیان کیاگیا ہے کہ انکار کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے مگر اہل بیت ؑکے دشمنوں نے ہمیشہ یہی چاہا کہ کسی بھی طرح ان کے فضائل چھپ جائیں مگر باہتمام قدرت ، جتنی چھپانے کی کوشش کی فضائل اتنے ہی واضح ہوئے ۔
دنیا کے تیور حضور سرور کائنات کی وفات کے بعد سے ہی بدل گئے تھے اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ کسی بھی طرح اہل بیت ؑکی قدر و منزلت کم ہوجائے ، ان لوگوں میں علما بھی تھے اور عوام بھی اور صحابیٔ رسول بھی ، ان میں سے بعض نے واقعہ غدیر کا سرے ہی سے انکار کیا ، بعض نے ضعیف روایات میں سے بتایا ، اس واقعہ کی مضبوط بنیاد دیکھ کر جب قطعی انکار کی گنجائش نظر نہ آئی تو اس کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ۔ اس طرح صدیاں گزر گئیں اور ہر عہد میں اس قسم کے علما و محدثین اور اصحاب تاریخ پیدا ہوئے جنہوں نے واقعہ غدیر کے بارے میں بالکل وہی راستہ اپنایا جو ان کے پہلے اپنا یا جو ان کے پہلے اپنا چکے تھے لیکن یہ رسالت کی ندائے حق کا اعجاز ہے کہ مسلک اہل بیت ؑ پر چلنے والوں کو چھوڑ کر غیروں میں بھی ایسے صاحب دیانت پیدا ہوئے جنہوں نے ذرا خارجی حالات و کوائف سے دور رہ کر اس واقعہ کی اصلیت اور صداقت کو بیان کیا ہے اور کاٹ چھانٹ کرنے والوں سے بچا کر چودہویں صدی تک اس کو اپنی شکل و صورت میں پیش کیا ہے ۔

ماخوذ از سہ ماہی الغدیر ج۱ شمارہ ۱ مطبوعہ ۱۴۱۰ہجری
مقالات کی طرف جائیے