|
امام جعفر صادق(ع)اور ایک عظیم یونیورسٹی کی تاسیس |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
حقیقت یہ ہے کہ حالات کے پیش نظر امام صادق علیہ السلام کو دوسرے ائمہ طاہرین ؑ سے زیادہ اپنے علمی فیوض و برکات کو عام کرنے کا موقع ملا ، امام نے اسی موقع سے استفادہ کرتے ہوئے ایک عظیم اسلامی یونیورسٹی کی تاسیس فرمائی جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی ثقافت کی نشر و اشاعت کے لئے بے حد ضروری بھی تھی ۔اس یونیورسٹی میں امام نے بہترین مفکر ، منتخب فلسفی اور نامور علماء کی تربیت فرمائی ؛ بعض محققین کا کہنا ہے:اس مقام پر اس حقیقت کا بیان کرنا ضروری ہے کہ ترقی پر گامزن ہونے کے لئے اسلامی ثقافت اور عربی مفکر اس یونیورسٹی کے مرہون منت ہیں جس کے عمید و سرپرست حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں ۔ اس عظیم یونیورسٹی کا مرکز مدینۂ منورہ تھا جہاں بیک وقت چارہزار تلامذہ امام صادقعلیہ السلام سے درس حاصل کرتے تھے ؛ صرف چند دنوں میں اس یونیورسٹی نے اتنی شہر ت حاصل کرلی کہ مختلف مقامات سے برجستہ لوگ اس سے کسب فیض کرنے کے لئے آنے لگے ؛ کوفہ ، بصرہ ، واسط ، حجاز ، قم اور مصروغیرہ سے نامور قبائل کے افراد اس درسگاہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے کےلئے آتے تھے ۔ سید محمد صادق نشات کا کہنا ہے: امام جعفرصادق علیہ السلام کا بیت الشرف یزدان کی یونیورسٹی کے مانند تھا جو ہمیشہ علم حدیث ، تفسیر ، حکمت اور کلام کے بڑے بڑے علماء سے چھلکتا رہتا تھا ، اکثر اوقات آپ کے درس میں دو ہزار طلاب حاضر ہوتے تھے اور بعض اوقات چار ہزار مشہور علمائے کرام حاضر ہوتے تھے ۔
عظیم یونیورسٹی کے بعض امتیازات : امام صادق علیہ السلامکی اس عظیم یونیورسٹی کے بعض امتیازات مندرجہ ذیل ہیں : 1۔تخصصی علوم کی تعلیم: امام کی اس یونیورسٹی میں فقہ و اصول کےعلاوہ طب، کیمیا، فیزیک، جغرافی، نجوم، تاریخ و کلام اور اسلامی فلسفہ جیسے علوم کی بھی تعلیم دی جاتی تھی ، آپ کے بعض شاگرد ان میں سے بعض علوم پر ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ 2۔ صحیح علوم کی تعلیم: جس زمانے میں مختلف فرقے انحرافی عقائد و افکار کے ساتھ معاشرہ میں فعالیت انجام دے رہے تھے اس زمانے میں امام صادق علیہ السلام نےصحیح فکری اور تربیتی روشوں کی اساس پر ایک یونیورسٹی کی تاسیس فرمائی ۔ امام کی نظر میں وہی علوم صحیح تھے جو قرآن ، اہل بیت ؑ کی احادیث اور عقل سلیم کی اساس پر استوار ہوں ۔ 3۔ اجتہادومرجعیت: امام صادق علیہ السلام اپنی یونیورسٹی کے شاگردوں کی اس طرح تربیت فرماتے تھے کہ وہ اسلامی منابع و مآخذ(قرآن، حدیث اور عقل) کی جانب رجوع کرکے لوگوں کی مشکلات اور علمی سوالات کا جواب دے سکیں ۔اس کام کے لئے امام کے تلامذہ ، امام سے اسلامی معارف کے کلی اصول کی تعلیم حاصل کرتے تھے اور پھر انہیں اصول کی اساس پر جزئیات کو منطبق کرتے تھے ؛ امام نے اپنے شاگردوں کو صحیح اورجعلی احادیث میں امتیاز پیدا کرنے کے اصول کی تعلیم دی تھی ، آپ نے بتایا تھا کہ اگر کوئی حدیث قرآنی احادیث سے تضاد رکھتی ہو تو اس کے ساتھ کیا کرنا چاہئے ۔ 4۔ علوم کی تدوین و تدریس کی تاکید: امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو اپنے تمام دروس و محاضرات کو تدوین کرنے کی شدت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ کہیں یہ دروس ضائع و برباد نہ ہو جا ئیں ۔چنانچہ ابو بصیر سے مروی ہے کہ میں جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا :"تمہیں لکھنے سے کو ن منع کرتا ہے ؟ بیشک تم اس وقت تک حفظ نہیں کر پاؤگے جب تک نہ لکھ لو ،میرے پاس سے بصرہ والوں کا ایک ایساگروہ گیاہے جو جس چیز کے بارے میں سوال کرتا تھا اس کو لکھتا تھا "۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے علوم تدوین کر نے کا اتنا زیادہ اہتمام کیا کہ اپنے شاگرد جابر بن حیان سے کہا کہ ایسا کاغذ تیار کرو جس کو آگ نہ جلا سکے ،جابر نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وہ کاغذ تیار کیا تو امام نے اس کاغذ پراپنے دست مبارک سے لکھ کر اسے آگ میں ڈالا تو آگ اس کو نہ جلاسکی۔ امامعلیہ السلام اس بے پناہ تشویق و ترغیب کی وجہ سے آپ کے شاگردوں نے بہت سی کتابیں تدوین کیں، صرف امام کی زندگی میں ان کے شاگردوں کے توسط سے 6600/ کتابیں تدوین ہوئی تھیں۔
|
مقالات کی طرف جائیے |
|