|
ضابطہ غلو و تقصیر |
مولانا مرزا عسکری حسین |
مقدمہ: انسان کی زندگی کا دار و مدار اس کے عقائد اور ان اصولوں پر ہوتا ہے جو اس کی فکری بنیادوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ انسان کا رویہ ، رفتار و گفتار اس کے عقیدہ کا آئینہ ہوتے ہیں۔ لہذا اعتقادی بنیادوں کا صحیح اور مستحکم ہونا ضروری ہے کیونکہ عقیدہ کی کمزوری ، انسان کی زندگی میں دین کو کمزور اور سست بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ علیہم السلام نے اپنی تعلیمات میں عقائد کی تصحیح و تحفظ کی بیش از حد تاکید کی ہے۔ اصول دین کا دلیل و برہان کے ساتھ ثابت ہونا ضروری ہےتا کہ انسان عقائد میں انحراف سے دوچار نہ ہو ۔ اصول دین کی صحیح معرفت نہ ہونے کے سبب انسان خدا اورغیر خدا کے صفات میں خطا کر سکتا ہے، مخلوق میں خدا یا خدا کا مثل و شبیہ بنانے لگتا ہے اور یا پھر برعکس انسانی کمالات و اختیارات میں شبہہ کا شکار ہوکر ممکنہ کمالات کا منکر ہوجا تا ہے۔ چنانچہ مخلوق کو خدائی کا درجہ دینے اور یا پھر برگزیدہ انسانوں کے ممکنہ کمالات کے انکار کو اصطلاح میں ’’ غلو‘‘ و ’’تقصیر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دین و شریعت کی نگاہ میں ’’غلو‘‘ یا’’ تقصیر‘‘ دونوں ہی ممنوع اور دائرہ دین سے باہر نکلنے کا سبب ہوتے ہیں۔ لہذا ایک صاحبان ایمان انسان پر لازمی ہوتا ہے کہ اعتقادات کو صحیح معیار کے ساتھ حاصل کرے تا کہ دین میں انحراف و گجروی کا شکار نہ ہوجائے۔ ’’ ضابطہ غلو و تقصیر ‘‘ کے عنوان سے سر دست مضمون میں اسی موضوع کی مختصر تحقیق کی جائے گی ۔ انسان کمالات کی کن حدوں کو طے کر سکتا ہے اور وہ کون سے ایسے کمالات ہیں جن میں انسان، اللہ کے صفات کا مظہر ہونے کے باوجود بھی ذات باری حق کا شریک و مثل نہیں ہوسکتا؟یعنی ان تمام کمالات و فضائل کے باوجود بندگی کی حدوں سے باہر نہیں نکلے گا ؟ نیز غلو و تقصیر کی حد اور مصادیق کیا ہیں؟ وغیرہ جیسے موضوعات کا مختصر جائزہ لیا جائے گا۔ ایک اور وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ گرچہ عنوان کے اعتبار سے مضمون عام ہے اور مجموعی طور پر جس امام یا معصوم علیہمالسلام کے بارے میں غلو یا تقصیر ہو وہ مضمون کا حصہ بنے گا لیکن اس مضمون میں توجہ کا محور صرف مولائے کائنات ؑ کی ذات والا صفات ہوگی کیونکہ ہر دور میں اور خاص کر عصر حاضر میں جو لوگ موضوع امامت میں غلو یا تقصیر کا شکار ہوئے ہیں ان کا سبب محض مولائے کائنات کی ذات و الاصفات کی صحیح کا نہ ہونا ہے۔ البتہ موضوع کی وسعت کے پیش نظر تمام مسائل پر تفصیلی تحقیق اس مضمون کی حدوں سے باہر ہے لہذا مضمون کی حد تک ہی مسائل کی مختصر تبیین و تشریح کی جائے گی،تفصیل کے لئے تاریخی منابع کی جانب مراجعہ کیا جا سکتا ہے۔
کلیدی کلمات:اہل بیت ؑ، غلو ، تقصیر، مظہر ، حلول، اصول دین، انحراف
غلو و تقصیر کا مفہوم و تعریف غلو :کسی شئے میں حد سے بڑھ جانا غلو کہلاتا ہے (خلیل بن احمد فراہیدی، کتاب العین، جلد 4،ص446) اصطلاح میں غلو کے متعدد مصادیق بیان کئے جاتے ہیں جو ذیل میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں: دینی عقائد میں معین حد سے تجاوز کر جانا غلو ہے غلو یعنی: 1: محمد ص وآل محمد ع خدا ہیں یا خدا کے (ذات و صفات یا افعال میں )شریک ہیں 2: چودہ معصومین علیہم السلام رب ہیں یا حضرت علیؑ رب ہیں 3: آئمہ ؑ نبی ہیں 4: اللہ ان کے جسم میں داخل ہو گیا ھے 5: وہ وحی یا الھی وسیلے کے بغیر غیب کا علم رکھتے ہیں 6: نجات کے لئے ان کی معرفت اور محبت کافی ہے اطاعت اور عبادت کی ضرورت نہیں ہے۔ 7: اللہ نے نظام کائنات انکے سپرد کر دیا ہے اب اللہ سے کوئی مطلب نہیں وہی خلق کرتے ہیں رزق دیتے ہیں زندگی اور موت دیتے ہیں 8: معصومینؑ بشری پہلو کے حامل نہیں ہوتے۔
تقصیر:لغت میں تقصیر کم کرنے، کوتاہی کرنے ، سستی و کاہلی برتنے اور جرم و گناہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے. ( قاموس قرآن ج ۶ ، ص ۹ ) اصطلاح میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی شان و منزلت کو کم کرنا، ان کی عصمت ، اللہ کی جانب سے منصوص و منتخب ہونے، علم غیب و علم لدنی کے مالک ہونے امامت کے باب میں ان کی فضیلت و برتری کے انکار کو تقصیر کہتے ہیں۔ چنانچہ شیخ مفید کہتے ہیں:(اہل بیت ؑ )ان ذوات مقدسہ کے متعلق انکے حقیقی مقام و منزلت سے کم عقیدہ رکھنا "جیسے وہ کافی سارے دینی احکام سے ناواقف تھے اور اگر انکو الہام نہ ہوتا تو وہ اپنے گمان شخصی کی بنیاد پر بیان کرتے ،یہ تقصیر کی مثالیں ہیں۔(تصحیح الاتقادات الشیعہ ص، ۱۳۶) غلو و تقصیر کا محور :مندرجہ بالا مثالوں اور تعریف سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ غلو و تقصیر کے باب محور و مرکزیت اہل بیت ؑ کو حاصل ہے۔ یعنی غالی وہ شخص کہلائے گا جو اہل بیتؑ کو ان کے رتبہ سے بڑھا کر ربوبیت اور خدائی کی حدوں سے ملا دے۔ اسی طرح مقصر بھی وہ شخص کہلائے گا جو اہل بیت ؑ کو ان کے اس ربتہ سے کم سمجھے جو اللہ نے انہیں عطا کیا ہے۔ لہذا دونوں ہی اعتبار سے حد وسط اور اعتدال کا لحاظ ضروری ہے۔ نہ انہیں ان کے رتبہ سے بڑھانا صحیح ہے اور نہ ہی ان کے رتبہ کو کم کر درست ہوگا۔ چنانچہ علم و عمد کے ساتھ دونوں ہی کام کفر و الحاد کے مساوی ہے۔ البتہ بسا اوقات عمد و سہو میں غلط فہمی کے سبب بعض لوگ افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں اور جو غالی نہیں ہے اسے غالی یا پھر جو مقصر نہیں ہے اسے مقصر ٹھرا دیتے ہیں جیسا کہ آج یہ ایک رائج عمل بن چکا ہے معاشرہ میں نمایاں طور پر ہم دونوں کی نظیریں دیکھ سکتے ہیں۔ لہذا موضوع اور اس کے مصادیق کی صحیح شناخت ضروری ہے تا کہ بےجا الزام تراشیوں سے معاشرہ محفوظ رہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ دور ائمہ ؑ میں اور آج بھی اکثر وہ لوگ جو غلو یا تقصیر کا شکار ہوئے یا ہوتے ہیں وہ ان میں علم و عمد کے ساتھ ان افکار کو اپنانے والے بہت کم ہوا کرتے تھے اور آج بھی ان کی تعداد کم ہی ہے۔ اکثر لوگوں کا غلو یا تقصیر ان کے جہل و لاعلمی کے سبب ہوتا ہے۔ بلکہ استقراء گرچہ بہت محدود دائرہ کا ہے ، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جن لوگوں کو غالی کہا جاتا ہے وہ در اصل غالی نہیں ہیں بلکہ اہل بیتؑ اور خاص کر امام علی علیہ السلام کو مقام تنزیہ میں ایسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں جن سے غلو کا احساس ہوتا ہے۔ بطور مثال جو لوگ ائمہؑ کی ولادت کے لئے ’’نزول‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، یقینا اس لفظ کے اس استعمال کے ذریعہ وہ امامؑ کے مخلوق ہونے کا انکار تو نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں وہ اس لفظ کے سہارے سے خالق و خدا ثابت کرسکتے ہیں۔ بلکہ ہم عام انسانوں کی ولادت اور ائمہؑ کی ولادت میں فرق ہے اور ولادت کے بعد امام سے متعدد معجزات نمایاں ہوتے ہیں جو کہ عام انسان کی ولادت میں نہیں ہوتا، لہذا مقام تنزیہ میں وہ ایسا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ البتہ ان کا یہ استعمال ناخواستہ اور لاعلمی کے سبب ہے اور محض تنزیہ ہے جسے ان لوگوں نے نزول کا نام دیا ہے۔ چنانچہ وہ لوگ جو اس اصطلاح میں ان کے ہم فکر نہیں ہیں انہیں وہ بزعم خود مقصر اور مقام امامؑ میں تنقیص کے قائل ہونے کی نسبت دیتے ہیں۔ جبکہ نہ اس اصطلاح کے ذریعہ یہ لوگ غالی ہوں گے اور نہ ہی اس کے انکار کرنے والوں کو مقصر کہا جاسکتا ہے بلکہ حد اکثر یہ ایک لفظی اختلاف و مغالطہ ہےجس کی صحیح تشخیص سے معاشرہ میں موجود رخنوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔
مظہر اور حلول میں فرق: غلو و تقصیر کے باب میں چند اصطلاحیں ہیں جن کی صحیح وضاحت کئے بغیر موضوع کی تشنگی دور نہیں ہوسکتی۔ منجملہ مظہر و حلول ہے۔ اکثر لوگ ان دو لفظوں اور ان کے مصادیق کو صحیح نہ پہچاننے کے سبب غلطی کا شکار ہوتے ہیں۔ مظہر : مظہر کے اصلی حروف ’’ظ‘‘ ’ ہ‘ اور ’ر‘ ہیں ’’ظہر‘‘ یعنی نمایاں ہوا اس کا مصدر ہے ’’ ظہر‘‘۔ ’’مظہر ‘‘ ’م‘ اور ’ہ‘ پر زبر کے ساتھ اسم مکان بنتا ہےجس کا مطلب ہے ظاہر ہونے کاوسیلہ اور محل و مکان۔ یعنی وہ چیز جس میں یا جس کے ذریعہ کوئی دوسری چیز ظاہر اور نمایاں ہو۔ ’’ و مَظْهَرُ الشَّيء، كَمْقَعدٍ: مَحَلُ ظُهُورِه‘‘کسی چیز کا مظہر یعنی اس کے ظاہر ہونے کا محل ۔ اصطلاح میں مظہر اس ذات کو کہتے ہیں جو اپنے کردار و عمل میں اللہ کے صفات کو نمایاں کرے۔ ائمہؑ کو اس معنی میں اللہ کے صفات کا مظہر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے کردار و عمل کے ذریعہ اللہ کے صفات و کمالات کو نمایاں کیا ہے۔ علماء اخلاق و عرفان اور علم کلام کے ماہر شیعہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان جس قدر اخلاق و کردار کی پاکیزگی اپنے اندر لائے گا، اس کا وجود اللہ کے صفات و کمالات کا آئینہ بنتا جائے گا۔ اس سلسلہ میں متعدد قرآنی آیات اور روایات بھی گواہ ہیں کہ انسان اپنے کردار کے ذریعہ اللہ کے صفات کا آئینہ بن سکتا ہے چنانچہ سورہ ص میں ارشاد ہے:’’و نفخت فیه من روحی ‘‘ (ص ۷۲) میں نے اس میں (جناب آدم کے پتلے میں ) اپنی روح پھونکی، سورہ فصلت میں ارشاد ہوتا ہے:’’ سنریهم آیاتنا فی الافاق و فی انفسهم ‘‘ ’ میں اپنی نشانیاں دکھائوں گا آسمانوں میں اور خود ان کے اندر۔۔۔ ‘( فصلت ۵۳)۔ مذکورہ آیتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خود انسان کا وجود اللہ کی نشانی بن سکتا ہے۔چاہے نشانی خدا کی ذات کی ہو یا اس کے صفات کی ہو۔ بنابرایں انسان اللہ کے صفات و کمالات کا آئینہ بن سکتا ہے البتہ شرط یہ ہے کہ انسان کا نفس گناہوں کی آلودگی اور برائیوں سے پاک رہے۔ لہذا اللہ کے صفات کا بعض انسانوں میں نمایاں ہونا کوئی امر محال یا غیر ممکن عمل نہیں ہے اور نہ ہی اسے غلو یا عقیدہ میں شرک و الحاد سے تعبیر کیا جائےگا بلکہ قرآنی تعلیمات و ہدایات کی ترجمانی ہوگی۔ حلول :حلول کے اصلی حروف ’’ ح ل ل‘‘’’ حل ‘‘ ’’ لام ‘‘پر تشدید کے ساتھ یعنی کسی چیز کا کہیں اترنا یا داخل ہونا۔ (تاج العروس ج ۱۴ ص ۱۶۲) اصطلاح میں حلول یعنی خدا کا بندوں کے جسم میں نمایاں اور داخل ہونا۔ یعنی خود خدا بندوں کے جسم میں داخل ہوگیا ہے۔ چنانچہ تمام شیعہ علماء اور متکلمین کا اتفاق ہے کہ حلول غیر ممکن اور ایک غلط و فاسد عقیدہ ہے جس کا اسلام سے کوئی سر و کار نہیں ہے۔ (اللوامع الالہیہ فی المباحث الکلامیہ، ج۱، ص۱۵۹)، (نہجالحق و کشف الصدق، ج۱، ص۵۸)مزید بر آں مظہراورحلول کے درمیان فرق کی شناخت ائمہ ع کو اوصاف خدا کا مظہر و آئنہ سمجھنے والوں پر حلول کا الزام نہ لگایا جاسکے۔
غالی و مقصر کا انجام: غلو و تقصیر دونوں ہی انحراف اور دین سے دوری ہے۔ لہذا غالی ملحد و کافر اور مقصر اگر جان بوجھ کر کوتاہی اور تقصیر کرے تو وہ بھی دین سے خارج ہوگا۔ روایات کے مطابق ائمہؑ نے مقصرین سے زیادہ غالیوں پر لعنت بھیجی ہے کیونکہ غلو اصل میں اللہ کی ربوبیت و توحید کا انکار ہے۔ اس سلسلہ میں غالیوں اور غلوکے برخلاف ائمہ ع کا رویہ بہترین گواہ ہے۔ ائمہ ؑ نے ذرہ برابر بھی ان سے متعلق نرمی نہیں برتی اور نہ ہی گوشہ نرم کا اظہار کیا۔ چنانچہ مولائے کائناتؑ کے دور خلافت میں جب کچھ لوگوں نے آپ کے متعلق کہا:’’ ....فَقَالُوا أَنْتَ إِلَهُنَا وَ خَالِقُنَا وَ رَازِقُنَا وَ مِنْكَ مَبْدَؤُنَا وَ إِلَيْكَ مَعَادُنَا... ‘‘ (دعائم الإسلام ؛ ج1 ؛ ص48) تو مولائے کائنات نے ایک خندق میں آگ جلانے کا حکم دیااور پھر ان سے توبہ کرنے کو کہا ، جب انہوں نے توبہ سے انکار کیا اور اپنے منحرف نظریات پر قائم رہے تو مولا نے اسی خندق میں انہیں جلا کر خاک کردیا۔ (دعائم الإسلام ؛ ج1 ؛ ص48) ۔ ایک دوسرے مقام پر امام علی ع فرماتے ہیں’’اللهم انى برئ من الغلاة کبراءة عیسى بن مریم من النصارى اللهم اخذ لهم ابداً ولاتنصر منهم احداً. ‘‘ خدایا میں غالیوں سے اسی طرح بری ہوں جس طرح عیسی ابن مریم نے نصرانیوں سے برائت حاصل کی تھی، بار الہا ! انہیں ذلیل و خوار کر اور ہر گرز ان کی مدد نہ فرما۔ (بحار الانوار ج ۲۵ ص ۲۶۶)۔ البتہ واضح رہے کہ اس قسم کی روایات میں جن لوگوں سے امام علیؑ نے برائت و بے زاری کا اظہار کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے توحید اور الوہیت کی حدوں کو توڑا ہے۔ یعنی امام علیؑ کو ربوبیت کا درجہ دیا ہے۔ چنانچہ ایسی فکر جس دور میں بھی ہو وہ امام ؑکی برائت و بے زاری کا مصداق ہوگی۔ نظم ہو یا نثر جس تحریر و تقریر میں ایسی باتیں ہوں جس میں امام علی ؑ کی خالقیت و ربوبیت کا اظہار ہو اور خدا کی خدا کا عملی انکار ہو تو وہ امام ؑ کی اس برائت کی مصداق اور اس میں شامل ہوگی۔ غلو اور غالیوں کا سلسلہ تمام اماموں کے ادوار میں رہا ہے اور اماموں ؑ نے ا ن کے خلاف اپنا موقف نمایاں اور واضح رکھا اور ان سے اظہار برائت کرتے رہے۔ فرقہ منصوریہ کا بانی ابو منصور عجلی اماموں ؑ کی نبوت کا قائل تھا۔ امام صادق ؑنے تین مقام پر اس پر لعنت بھیجی ہے اور اس سے اظہار برائت کیا۔ غلو اس قدر خطر ناک ہے کہ امام صادق ؑنے اپنے شیعوں کو خاص ہدایت دی ہے کہ اپنے بچوں کو غالیوں کے شر محفوظ رکھو چنانچہ آپ ع فرماتے ہیں: ’’احذروا على شبابکم الغلاة لایفسدوهم فان الغلاة شرّ خلق الله یصغرون عظمة الله ویدّعون الربوبیة لعباد الله. ‘‘ اپنے جوانوں کو غالیوں کے شر سے دور رکھو، غالی بدترین خلائق ہیں ، وہ اللہ کی عظمت کو کم کرکے اللہ کے بندوں کے لئے خدائی کا دعوا کرتے ہیں۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے امام فرماتے ہیں: ’’۔۔۔ ثم قال: الینا یرجع الغالى فلانقبله وبنا یلحق المقصّر فنقبله. فقیل له کیف ذلک یابن رسول الله؟قال: لانّ الغالى قد اعتاد ترک الصلاة والزکاة والصیام والحج فلایقدر على ترک عادته وعلى الرجوع الى طاعة الله وان المقصر اذا عرف عمل فأطاع ‘‘ اگر ہمارے پاس غالی آئے تو ہم اسے قبول نہیں کریں جبکہ اگر کوئی مقصر آتا ہے تو ہم اسے معاف کر سکتے ہیں۔ سائل نے سوال کیا فرزند رسول ص ایسا کیوں؟ امام نے فرمایا: کیونکہ غالی نماز ، زکات، روزہ حج کے ترک کرنے کا عادی ہوچکا ہوتا ہے چنانچہ اپنے عقیدہ سے پلٹنے کے بعد بھی اس کی عادت برقرار رہے گی لیکن مقصر اگر ہماری حقیقت جان لے تو وہ ہمارا تابع دار ہوسکتا ہے۔(بحار الانوار ج ۲۵ ص ۲۶۵) مذکورہ حدیث میں امامؑ نے غالی و مقصر کے درمیان ایک فرق بھی واضح کردیا کہ مقصر کی ہدایت ممکن ہے لیکن غالی کی ہدایت کا امکان کم ہوتا ہے۔ البتہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مقصرین اور ائمہ ؑ کی امامت، ان کے علم غیب وغیرہ کے منکرین سے متعلق گوشہ نرم رکھا جائے گا بلکہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ غالی واجب القتل ہے لیکن مقصر اگر امامت کے علاوہ دین کے دیگر اصولوں کو مانتا ہو اور اماموں سے بغض و دشمنی نہ رکھتا ہو تو وہ واجب القتل نہیں ہوگا۔ لیکن اگر دین کے دیگر اصولوں کا بھی منکر ہو اور یا پھر ائمہؑ سے بغض و عداوت رکھتا ہو تو وہ بھی مہدور الدم اور دین سے خارج ہوگا، جیسا خوارج و نواصب و غیرہ۔ ضابطہ غلو و تقصیر :غلو و تقصیر کا علمی معیار اور ضابطہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اہل بیت پیغمبرﷺ کو اللہ کے عطا کردہ مقام سے ادنی سمجھے تو وہ مقصر ہوگا اس کے برخلاف اگر کوئی اماموں کو دائرہ بندگی سے خارج کر کے انہیں خدا کہے تو وہ غالی ہوگا۔متعدد روایات میں ائمہؑ نے ضابطہ و معیار بیان کیا ہے۔ چنانچہ مولائے کائناتؑ فرماتے ہیں:’’إياكم والغلو فينا ، قولوا إنا عبيد مربوبون ، وقولوا في فضلنا ما شئتم ‘‘ ( خصال صدوق، ص ۶۱۴) ہم (اہل بیت )میں غلو سے پرہیز کرو، ہمیں اللہ کا بندہ کہو اور پھر جو بھی ہماری فضیلت میں کہنا چاہتے ہو کہو۔ یا پھر کتاب مشارق انوار الیقین فی فضل امیر المومنین ؑ، ص ۱۰۵ ، میں حافظ برسی رجب بن محمد نقل کرتے ہیں:’’ نزّهونا عن الربوبية و ارفعوا عنّا حظوظ البشرية‘‘ ہمیں ربوبیت سے منزہ اور بشری حدوں سے مافوق رکھو۔ لہذا مولائے کائنات کی مذکورہ حدیث کے مطابق غالی صرف وہ شخص ہے جو اہل بیت ؑ کوخدا ئی کا درجہ دے یا ان میں موجود فضائل و کمالات کو خدا کے مقابل میں یا خدا کے شریک کے عنوان سے اور یا پھر یہ ک کہے کہ اللہ نے اپنے اختیارات اور امور انہیں دے دئے ہیں اور وہ اپنے کمالات میں مستقل ہیں۔ یہ تمام عقائد و نظریات کفر و الحاد اور غلو کا مصداق ہیں۔ اس کے مقابل میں اگر کوئی شخص اہل بیت ع کی امامت، علم غیب، منصوص من اللہ ہونے ،اللہ کی جانب سے عطا کردہ اختیارات و فضائل ، دنیا و آخرت میں شفاعت، توسل وغیرہ اس طرح کے مسلمات میں سےکسی ایک کا بھی انکار یا ان میں شک کرے تو وہ مقصر کہلائے گا۔ دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ غلو و تقصیر کا تعلق اصول دین سے ہے۔ فروع دین میں غلو و تقصیر کا تصور غلط ہے۔ کوئی صاحب نظر مجتہد، احتیاط پر عمل کرنے والا یا پھر کسی صاحب نظر مرجع کی تقلید کرنے والا اپنے اجتہاد، احتیاط اور یا پھر تقلید کے مطابق عمل کرنے کی صورت میں ہرگز غالی یا مقصر نہیں کہلایا جاسکتا۔ بطور مثال عیدین اور نماز استسقاء کے علاوہ اکثر فقہاء کے فتاوی کے مطابق مستحب نمازوں میں جماعت نہیں ہوسکتی، لیکن اگر کسی مجتہد نے اپنے اجتہاد و تحقیق سے یہ ثابت کیا کہ عید غدیر کی نماز جماعت سے پڑھی جا سکتی ہے تو وہ غالی نہیں کہلائے گا۔ اسی طرح اس کے برعکس اگر کوئی عمل فروعات میں سے ہو اور اکثر فقہاء یا فقہاء کا ایک طبقہ اس کی اجازت دیتا ہواور کوئی صاحب نظر فقیہ انکے خلاف نظریہ رکھتاہو تو اسے مقصر نہیں کہا جاسکتا۔ بطور مثال تطبیر اور قمہ زنی کے سلسلہ میں معاصر فقہاء کی ایک جماعت نے اجازت دی اور یا پھر سکوت کیا جبکہ انکے مقابل میں بعض دیگر فقہاء نے منع کیا تو منع کرنے والے فقہاء یا پھر ان کے فتوے پر عمل کرنے والے لوگوں کو مقصر یا ائمہؑ کی فضیلت و ان کی عزاء کا منکر نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ اپنے تمام شرائط کے ساتھ اجتہاد کے بعد کوئی صاحب نظر فقیہ کوئی نظریہ اختیار کرے تو اسے مقصر ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔
فقہی حد شکنی اگر کوئی شخص عقیدہ کے باب میں خدا کی وحدانیت ، رسول کی رسالت، ائمہؑ کی امامت اور دیگر اصول دین پر صحیح اعتقاد رکھتا ہو اور اس کا ایمان و عقیدہ پختہ و سالم ہو اور فروع دین میں صاحب رائے و اجتہاد ہو لیکن بعض مسائل میں دیگرفقہاء سے مختلف رائے رکھتا ہو، خاص کر اس کی رائے عوامی نظریات و جذبات کے خلاف ہو تو اس کے اس اختلافی نظریہ کے سبب اسے مقصر یا منکر فضائل اہل بیت ؑ نہیں کہا جائے گا۔ عصر حاضر میں اکثر وہ لوگ جنہیں بعض لوگوں نے مقصر اور منکر عزاء یا فضائل اہل بیتؑ یا خاص کر امام علی علیہ السلام کی فضیلت و برتری کا منکر کہا جبکہ وہ امام علیؑ کی امامت کے بھی قائل ہیں، ان کے فضائل کا بھی انکار نہیں کرتے بس بعض جزوی مسائل میں بعض مصلحتوں کے پیش نظر دیگر فقہاء سے اختلاف رائے رکھتے ہیں اور ان کی رائے عوامی معیارات کے خلاف بھی ہو تو ان کے اس اختلاف رائے کے سبب انہیں مقصر یا دیگر توہین آمیز القاب سے یاد کرناجہل و نادانی اور فقہی حد شکنی ہوگی۔ چنانچہ ایسے صاحب نظر مجتہدین پر لعنتیں اور ناسزگوئی شرعا حرام اور تعلیمات ائمہ ؑ کے خلاف ہے۔ وہ لوگ جو ائمہؑ کی امامت کے قائل ہوں، ان کے فضائل و کمالات کا انکار نہ کرتے ہوں اور نہ ہی ان کی شان میں کوئی گستاخی کرتے ہوں، انہیں مقصر یا اس طرح کے دیگر نازیبا القاب سے منسوب کرنا غلط و نادرست ہے۔ اس سلسلہ میں اور بھی قابل ملاحظہ نکات ہیں جنکے لئے مزید تفصیل طلب تحریر درکار ہے۔لہذا مضمون کے اختصار کےپیش نظر صرف انہیں مطالب پر اکتفا کیا جا رہا ہے ۔
تلخیص: مذکورہ معروضہ کا خلاصہ یہ ہے کہ غلو و تقصیر ایک مبتلا بہ اور دیرینہ مسئلہ ہے اور عصر حاضر ہی نہیں بلکہ ائمہؑ کے زمانہ میں بھی اس قسم کے فاسد عقائد پائے جاتے تھے۔ غلو اماموں کو انسانی حدوں سے نکال کر ربوبیت کا درجہ دینے کو کہتے ہیں جبکہ تقصیر یعنی اہل بیت ع کو اللہ کی جانب سے حاصل مقامات و فضائل کے انکار کا نام ہے۔ غلو و تقصیر دونوں ہی دین میں انحراف ہے لیکن غالی کافر ہے جبکہ مقصر اگر ناصبی یا خارجی نہ ہو اور اہل بیت ع کی شان میں ناسزاگوئی نہ کرتا ہو تو کافر نہیں کہلائے گا۔ البتہ غالی یا مقصر کون ہے؟ اس کا تعین اہل علم و صاحبان نظر علماء و دانشور حضرات ہی کر سکتے ہیں ہر خاص و عام کو کسی کو غالی یا مقصر کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ غالی دین سے خارج ہیں اورمقصر اگر عمد و ہٹ دھرمی کا شکار ہوتو وہ بھی دین سے خارج ہے۔ لیکن غالیوں اور مقصروں میں مقایسہ کی صورت میں ائمہؑ نے مقصروں سے زیادہ غالیوں سے نفرت و برائت کا اظہار کیا ہے۔ بارگاہ خدا میں دعا ہے کہ اللہ اس مختصر اور پراکند کاوش کو قبول کرے اور اپنی بارگاہ میں باعث اجر قرار دے۔ اور سب کو غلو و تقصیر کی لعنت سے محفوظ فرمائے۔۔٭…٭…٭
(ماہنامہ اصلاح، امیرالمومنینؑ نمبر۱۴۴۰ھ)
|
مقالات کی طرف جائیے |
|