|
عظمت معبود، حضرت علی علیہ السلام کی نگاہ میں |
مولانا سید شمشاد حسین رضوی اترولوی |
حالیہ اور ہمیشہ ، استکباری و استعماری سازشوں اور ضمیر فروش و غیر متدین ذاکرین ، خطبا ، علماء ، شعراء اور غالی و اخباری مومنین و مومنات کی ضد و ہٹ دھرمی ، شدت پسندی، کینہ و حسد اور جہالت کے ماحول میں ضروری ہے کہ حضرت امیر المومنین ، مولی الموحدین ، امام المتقین،قائد الغر المحجلین امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی اُن خصوصیات کی طرف توجہ دلائی جائے جہاں مولائے کائنات ؑسب کچھ ہوکر صفات الہیہ کا مظہر ہوکر بھی اپنے معبود کے سامنے اپنے رب کے سامنے ایک بندۂ حقیر اور گڑگڑاتے ہوئے اپنے آقا کے غلام کے مانند مناجات کرتے اور ہاتھ پھیلائے دعا کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور تمام منحرفین اور چند ٹکوں پر بکے لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ اس سلیقہ سے طرز بندگی کرتے ہوئے کسی کو رب یا خالق کہا جا سکتا ہے۔ میں نے یہ طریقہ اس لئے نہیں اپنایا ہے کہ دنیا کے لوگ مجھے کیا کہیں گے یا ان سے مجھے کیا ملے گا بلکہ میرا ہمیشہ یہی اعلان ہے: خدا یا میری عزت کے لئے یہ کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے فخر کے لئے یہ کافی ہے کہ تو میرا رب ہے ۔ مالک تو ویسا ہے جیسا میں چاہتا ہوں ، اب مجھے بھی ویسا ہی بنا دے جیسا تو چاہتا ہے ۔ صفات اضداد سے متصف مولائے کائناتؑ کی ذات اقدس کو اب تک کون پہچان سکا ہے ، جبکہ ان تینوں ذوات مقدسہ ( رب و رسولؐ اور مرتضی ) کی معرفت تینوں کے اندر ہی محدود ہے ۔ ان کو پہچاننے سے پہلے ان کی اولاد کی معرفت تک رسائی مشکل ہے ۔ اولاد کے اصحاب کی معرفت اور ان کے غلاموں کے خدا رسیدہ ہونے اور کمالات و درجات کو صرف پڑھنے ، سُننے اور سمجھنے سے ہی عقل دنگ اور حیران رہ جاتی ہے ، چہ جائیکہ ان کی اصل معرفت کسی عارف باللہ اور سالکِ حقیقی کو دستیاب ہو جائے ۔ ؎ ’’جن کے رُتبے ہیں سوا اُن کو سوا مشکل ہے ‘‘ ۔ دنیائے شیعیت کے عظیم قائد و رہبر اور جمہوری اسلامی ایران کے بانی حضرت آیۃ اللہ العظمی سید روح اللہ الموسوی امام خمینی رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ کس نے علی ؑ کو پہچانا ہے ۔ وہ علی ؑ جو اپنے آپ کو جہنم میں جانے کے لئے تیا ر کرے مگر وہ اپنے رب سے جدائی کو لمحہ بھر کے لئے آمادہ نہیں کرپاتا ‘‘ ۔ ذرا دعائے کمیل میں اس جملہ کو پڑھو تو پتہ چلے کہ حضرت علیؑ صاحب عصمت ہوکر اپنے معبود کی عظمت کا اظہار فرماتےہوئے کیسے عرض کرتے ہیں۔ شب جمعہ سارے علما ئے کرام ، قاری و مداح و ذاکرین اور مومنین مخلصین ’’دعائے کمیل‘‘ پڑھتے ، سنتے اور گریہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر غور کیجئے کہ یہ دعا کن کن چیزوں کو اپنے درمیان سمیٹے ہوئے ہے۔ عظمت معبود ہے عظمت پروردگار ہے، خالق کو پہچنوانا ہے ......۔ جب دس قسم کے واسطوں : ’’اسمائے حسنی ، قوت پروردگار، عظمت و جبروت ، ذات اقدس و سلطنت ، نورانیت اور علم واسع وغیرہ ‘‘ کا حوالہ دیا ہو، پھر اپنا مدعا بیان کیا ہو تو یہ انسان کس طرح اپنے رب کا خالص و مخلص بندہ نہ ہوگا۔بلکہ گمراہوں کی نگاہ میں وہ رب ہو ....العیاذ باللہ!! حضرت علی علیہ السلام جانتے تھے کہ دنیائے غُلو و مبالغہ ہمیں کہاں سے کہاں پہنچانے کی کوشش کرے گی اسی لئے اسی دعا میں جو عاجزانہ انداز اختیار کیا ہے اور معبود کی عظمت و کبریائی کے اظہار کے ساتھ اپنی بندگی کا اعلان کیا ہے، وہ اپنی آپ مثال ہے۔ورنہ یہ کیسے کہتے ::’’خدایا ! میرے ان گناہوں کو بخش دے جن سے عصمتوں کے پردے چاک ہوتے ہیں ، میرے ان گناہوں کو بخش دے جو نزول ِعذاب کا باعث ہوتے ہیں ۔ان گناہوں کو بخش دے جو نعمتوں کو متغیر کر دیا کرتےہیں ۔ان گناہوں کو بخش دے جو دعاؤں کو تیری بارگاہ تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں ۔ ان گناہوں کو بخش دے جو امیدوں کو منقطع کر دیتے ہیں ۔ ان گناہوں کو بخش دے جو نزول ِبلا کا سبب ہوتے ہیں ۔ خدا یا میرے تمام گناہوں اور میری تمام خطاؤں کو بخش دے ۔ ‘‘ ناگوار حالات کے دفع ہونے کا ذکر کرکے پھر تمام اچھائیوں اور کمالات کا حامل ہونے کے باوجود سارے مغروروں اور عُجب کرنے والوں کو یوں دعوت فکر دی اور فرمایا:؛ ’’ کتنی ہی اچھی تعریفیں ہیں جن کا میں اہل نہیں تھااور تونے میرے بارے میں انھیں نشر کیا ہے ‘‘! حکومت تو سارے جہان پر تیری ہی ہے ۔ تو پھر انسان بھاگ کر کہاں جائے گا۔یہ لہجہ کون اختیار کرے گا جو واقعی ایک بندہ اور اپنے آقا کا غلام ہو۔ انسان کتنا مجبور ہے ، اس دعا میں ایک جگہ یو ںگڑگڑاتے ہیں : ’’پروردگارا ! میرے بدن کی کمزوری ، میری جلد کی نرمی اور میرے استخواں کی باریکی پر ’’رحم ‘‘ فرما ۔ ‘‘ ......اے رب تو جانتا ہے کہ میں دنیا کی معمولی بلا اور ادنیٰ ٰ سی سختی کو برداشت نہیں کر سکتا اور میرے لئے اس کی ناگواریاں ناقابل تحمل ہیں جب کہ یہ بلائیں قلیل اور ان کی مدت مختصر ہے ۔تو میں ان آخرت کی بلاؤں کو کس طرح برداشت کروں گا۔جن کی سختیاں عظیم ، جن کی مدت طویل اور جن کا قیام دائمی ہے ۔ جن میں تخفیف کا بھی کوئی امکان نہیں ہے ۔‘‘ رب سے کیسے بات کی جائے، یہ مولائے کائناتؑ اور ان کے پوتے حضرت امام زین العابدین ؑ نے سکھایا ہے۔ ویسے تو سارے ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی دعاؤں کا خزانہ اس مکتب میں موجود ہے ۔ یہ بیش بہا خزانے صرف ہمارے ائمہ نے اس لئے ہمیں عطا کی ہیں تاکہ اپنے مالک کے گُن گائے اور ہمارا چاہنے والاکبھی گمراہ نہ ہو بلکہ ہمیں دیکھے کہ ہم رب سے کیسے مانگتے ہیں اس کی چوکھٹ پر کیسے بھکاری کی طرح کھڑے ہوں ، یہ طریقہ اور ہمارا انداز دیکھو اور سیکھو ۔ اور شاید راہِ خدا کے سالکین و عارفین نے تاکیدا اور مطالب کی اہمیت کے پیش نظر ، یہ لکھنے پر مجبور ہوئے کہ جناب شیخ عباس محدث قمی رضوان اللہ علیہ نے اپنی کتاب معروف ’’مفاتیح الجنان ‘‘ میں دعائے کمیل سے پہلے ’’دعائے صباح‘‘ کو اس لئے لکھا ہے کہ یہ انداز صرف اور صرف حضرت علی علیہ السلام کا ہی ہو سکتا اور کسی کا نہیں۔ چنانچہ مولا علی ؑ کو کوئے رب پر اس طرح تڑپتا اور روتا پائیں گے ؛؛ ’’ خدا یا ہمارے لئے صبح کے دروازوں کو رحمت و فلاح کی کنجیوں سے کھول اور ہمیں ہدایت و صلاح کا بہترین لباس عطا فرما ۔ اپنی عظمت سے ہمارے دلوں میں خشوع و خضوع کے چشمے راسخ فرما دے۔اور اپنی ہیبت سے ہماری آنکھوں سے آنسوؤں کو جاری کر دے ......خدایا اگر تیری رحمت نے بہترین توفیق سے ہمارے کاموں کا آغاز نہ کیا تو ہمیں روشن راستے پر لے جانے والا کون ہوگا ۔ ...... خدا یا میں نے امیدوں کے ہاتھوں ، تیرے باب ِ رحمت کو کھٹکھٹایا ہے اور خواہشات کے مظالم سے بھاگ کر تیری پناہ میں آیا ہوں ۔ میں نے اپنے محبت کی اُنگلیوں سے تیری ریسمان ہدایت کو پکڑ لیا ہے ۔اب میری تمام خطاؤں کو اور لغزشوں کو معاف کردے ۔اور مجھے ہلاکت کی تباہی سے بچا لے ۔ تو میرا سردار ، میرا مولا، میرا معتمد اور میری امیدوں کا مرکز ہے ۔ ‘‘ ’’خدا یا ۔۔۔! اس مسکین کو کس طرح ہٹا دے گا جو گناہوں سے بھاگ کر تیری پناہ میں آیا ہے ۔ اور اس طالب ِ ہدایت کو کیسے نا امید کر دے گا جو دوڑ کر تیری جناب میں آیا ہے ۔ اس پیاسے کو کیسے پلٹا دے گا جو تیری حوض پر سیراب ہونے کے لئے وارد ہوا ہو ۔یقینا یہ ناممکن ہے کہ تیرے دریائے رحمت ، خشک ترین زمینوں پر بھی چھلک رہے ہیں اور تیرا باب کِرم ہر طلبگار کے لئے کھلا ہوا ہے ۔ ‘‘۔۔۔۔!!! الھی قلبی محجوب و نفسی معیوب و عقلی مغلوب ......اِن گڑگڑاتے جملوںکومفاتیح الجنان میں دیکھئے ۔۔۔ترجمہ حاضر ہے اور اپنے مولا کو پہچاننے کے لئے سوچئے اور آگے بڑھئے : : ’’خدا یا میرا دل شرمندہ ہے ۔ میرا نفس معیوب ہے ۔میری عقل مغلوب ہے ۔ میرے خواہشات غالب ہیں ۔ میری اطاعت قلیل اور میری معصیت کثیر ہے ۔ اور میری زبان گناہوں کی اقراری ہے ۔ تو اس کے بعد کیا چارہ ٔ کار ہے ۔ اے عیوب کو چھپانے والے ، اور غیب کے جاننے والے ، اور رنج و غم کو دور کرنے والے ، میرے تمام گناہوں کو حضرت محمدؐ و آل محمد ؐ کی حرمت کے واسطہ سے معاف کر دے۔ اے بخشنے والے ۔ اے غفار ۔ اے معاف کرنے والے ۔،تیری رحمت کا واسطہ، اے سب سے زیادہ مہربانی کرنے والے ۔۔ ‘] وہ عظیم الشان انسان جو ’’ میزان الحق‘‘ ہے اور حضرت ِ حق کے کی خاطر جب اشعار میں گُنگُناتا ہے تو یوں فریادی ہے : ۔۔۔ اے وہ ہستی جو تیرے سوا مجھے پناہ دینے والاکوئی نہیں ۔ میں تیرے عذاب اور عقوبت سے عفو اور بخشش کا طلبگار ہوں میں وہی بندہ ہوں جو اپنے تمام گناہوں کا اقراری ہوں ۔اور تو ہی میرا خدائے بزرگ ، بے نیاز اور بخشنے والا ہے ۔ پس اگر تو نے مجھ پر عذاب کیا ، گناہ تو مجھ سے ہی سرزد ہوا ہے ۔(اس لئے کہ تو عادل ہے) اور اگر تو مجھے بخش دے گا تو بخش دینا کا سزاوار (لائق) تو ہی ہے ۔ ان اشعار کا لب و لہجہ تو مولا ؑ کا ہی ہے ۔ اور اگر کوئی محقق اس سے انکار کرے تو مولا ؑ سے منسوب کا حوالہ کتا ب شریف ::’’ علی ؑ کیست ‘‘ مصنفہ فضل اللہ کمپانی ، مطبوعہ دارالکتاب الاسلامیہ تہران ، ص ۴۵۱ پر دیکھئے ۔ حضرت امام خمینی اعلی اللہ مقامہ نے جس مناجات کو لمحہ با لمحہ ، صبح و شام اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا وہ مناجات شعبانیہ ہے ۔ یہ مناجات بھی خود امیرالمومنین علیہ السلام کی ہے ۔ ورنہ کس کے دہن میں ایسی خاضعانہ زبان ہے جو اس اخلاص سے رب کو پکارے گا : ’’جب میں مناجات کروں تو میری طرف توجہ فرما کہ میں تیری طرف بھاگ کر آیا ہوں اور تیرے ہی سامنے کھڑا ہوں ۔فقیر و مسکین ہوں ،فریادی ہوں اور تیرے ثواب کا امید وار ہوں ۔تو میرے دل کا حال جانتا ہے ۔میری حاجت سے با خبر ہے ۔میرے ضمیر کو پہچانتا ہے ۔اور تجھ سے میرا انجام مخفی نہیں ہے ۔اور جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ بھی تجھے معلوم ہے ۔ اور جو بیان کر رہا ہوں وہ بھی تو جانتا ہے ۔اور عاقبت کے لئے جس چیز کا امید وار ہوں وہ بھی تیرے علم میں ہے ۔ ‘‘] ’’ خدا یا اگر تو محروم کر دے گا تو مجھے کون عطا کرے گا اور اگر تو چھوڑ دے گا تو کون مدد کرے گا۔خدا یا میں تیرے غضب سے اور تیری ناراضگی کے نازل ہونے سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں ۔ مالک ! اگر میں تیری رحمت کا اہل نہیں ہوں تو تو اس بات کا اہل ہے کہ اپنی مہربانی سے مجھ پر کرم کرے۔ خدا یا جیسا کہ میں تیرے سامنے کھڑا ہوں ......خدا یا اگر تو معاف کر دے گا تو تیرے علاوہ اس کا اہل کون ہوگا ‘‘۔ ’’مالک تو نے دنیا میں میرے گناہوں کو چھپایا ہے ۔ تو میں آخرت میں ان کی پردہ پوشی کا اس سے زیادہ محتاج ہوں ۔جب تو نے اپنے نیک بندوں پر ظاہر نہیں کیا ہے تو اب قیامت کے دن منظر عام پر مجھے رُسوا نہ کرنا ۔ خدا یا تیرے کرم نے میری امیدوں کو پھیلا دیا ہے ۔اور تیری معافی میرے عمل سے کہیں زیادہ بہتر ہے ‘‘ ......خدایا میری یہ معذرت اس بندے کی ہے جوقبولیت سے بے نیاز نہیں لہذا عذر کو قبول کر لے ۔اے وہ کریم ترین مالک جس سے ہر خطا کا معذرت کرتا ہے ۔ خدا یا میری حاجتوں کو پلٹانا نہیں ۔میری امید کو نا امید نہ کرنا۔ اور میری آرزؤں کو کو قطع نہ کرنا۔مالک اگر تو مجھے ذلیل کرنا چاہتا تو ہدایت نہ دیتا۔اور اگر رسوا کرنا چاہتا تو تو عافیت نہ دیتا ۔میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ تو میری اس حاجت کو رد کر دے گا۔جس کو مانگنے میں ساری زندگی گذاری ہے ۔ ۔۔خدا یا اگر تو میرے جرم کا مواخذہ کرے گا تو میں تیری معافی کا سوال کروں گا۔اور اگر تو میرے گناہوں کی گرفت لے گا تو میں تیری مغفرت کے بارے میں پوچھوں گا ۔اور اگر تو مجھے جہنم میں داخل کر دے گا تو میں اہل جہنم سے کہوں گا کہ میں تیرا چاہنے والاتھا۔ خدا یا اگر تیری اطاعت کے سامنے میرا عمل چھوٹا ہے تو تیری کرامت کے سامنے میری امید بہت بڑی ہے ۔خدا یا میں تیری بارگاہ سے ناکام اور محروم کس طرح جا سکتا ہوں جب کہ میرا حُسن ِظن تیرے کرم سے یہی تھا کہ تو مجھے نجات دے کر رحمت کے ساتھ مخصوص کر دے گا۔خدا یا میں نے غفلتوں کے عالم میں اپنی زندگی کو گذار دیا ۔ اور تجھ سے دوری کے نشہ میں اپنی جوانی کو برباد کر دیا ہے ۔ ‘‘ ربّ ِ کریم ۔۔!ہم سب کو توفیق دے کہ اپنے مولا ؑ کو اس طرح پہچاننے کی کوشش کریں جیسا وہ چاہتے ہیں ۔ ویسا تو مشکل ہے لیکن سعی ٔپیہم سے تقدیریں بدل جاتی ہیں ۔ تو آئیے مِل جُل کر دعا کریں کہ ائمہ علیہم السلام اور خاص طور سے مولا علی ؑ کی دعا اور مناجات ہی کے ذریعہ رب و معبود کی عظمت کو سمجھیں ۔ آمین
(ماہنامہ اصلاح، امیرالمومنینؑ نمبر۱۴۴۰ھ)
|
مقالات کی طرف جائیے |
|