مقالات

 

عدالت و مظلومیت کو سلام

سید علی ہاشم عابدی

علمائے اخلاق نے بیان فرمایا کہ جس طرح انسان کے ظاھری اعضاء ہوتے ھیں اسی طرح باطنی اعضا بھی ھوتے ھیں۔ ظاھری اعضا کو "خَلق" اور باطنی کو "خُلق" کهتے ھیں۔
ظاھر کے ذریعہ شخص کی معرفت ھوتی ھے اور باطن کے ذریعہ شخصیت سمجھ میں آتی ھے۔ مثلا امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کا نام علی۔ آپ کے والد حضرت ابوطالب، والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد، بھای طالب، عقیل و جعفر سلام اللہ علیہم وغیرہ اس طرح کی شناخت کو شخص کی شناخت کھتے ھیں۔ لیکن جب انسان معارف علوی کے اقیانوس میں غوطہ لگاتا ھے اور اپنے ظرف کے مطابق آپ کی سیرت، کردار، رفتار و اخلاق کی معرفت حاصل کرتا ھے تو یہ آپ کی شخصیت کی معرفت ھوتی ھے۔
اسلام کی عملی شخصیت حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات ھے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ قرآن کریم ٹھیوری ھے اور اس کلام کا پریکٹکل و عملی نمونہ آپ کی ذات والا صفات ھے۔
جس طرح قرآن صرف تلاوت کے لئے نھیں بلکہ غور و فکر، تفکر و تدبر کی دعوت دیتا ھے اگرچہ اکثر افراد صرف تلاوت کی حد تک ھی محدود ھیں اسی طرح آپ کی سیرت و کردار دعوت عمل دیتی ھے۔ اگرچہ اکثر صرف نام پہ ھی اکتفاء کرتے ھیں۔ شائد اسی لئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی وصیت میں فرمایا "میرا ارادہ ھے میں اپنے جد بزرگوار اور والد ماجد (امام) علی بن ابی طالب (علیھما السلام) کی سیرت پر چلوں اور اسے زندہ کروں۔
جس سیرت و کردار کو اسلام نے بتایا تھا افسوس بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ لوگوں نے اسے بھلا دیا مثلا قرآن کریم نے فرمایا "انّ اکرمکم عندالله اتقاکم" تم میں کرامت والا وھی ھے جس کے پاس تقوی زیادہ ھو۔ اور اسی حکم الھی کی وضاحت کرتے ھوئے آنحضرت نے فرمایا گورے کو کالے پر کوی فضیلت نھیں اور نہ ھی کالے کو گورے پر بلکہ فضیلت تقوی و علم سے ھوتی ھے۔ یا مدینہ پھنچتے ھی آنحضرت نے مھاجر و انصار کے تعصب کو ختم کرتے ھوئے آپس میں اخوت و بھای چارگی قائم فرمائی۔ لیکن آنحضرت کے بعد جھاں اسلام کی اور بھت سی تعلیمات کو بھلا دیا گیا وھیں یہ تعلیم بھی عمدا طاق نسیاں کا شکار ھوگئ۔ اب جس سماج میں انصار و مھاجر کا فرق و تعصب اپنے شباب پہ ھو۔ جھاں تعصب قبیلہ کو پروان چڑھایا جائے اور یہ کھا جائے کہ رسالت و خلافت ایک ھی قبیلہ یعنی بنی ھاشم میں ھونا اچھا نھیں تو ایسے عالم میں امیرالمومنین امام علی علیہ السلام جیسی عظیم حقیقی اسلامی ذات سماج میں ھوتے ھوئے بھی اپنے کو تنھا و اکیلا محسوس کرے گی۔ اور یھی مولا کی عظیم مظلومیت ھے کہ آپ تنھا ھوگئے۔
لیکن یہ یاد رھے کہ انسان اگر خدا کے ساتھ ھو اور اسکی نظر میں صرف خوشنودی معبود ھو تو اگر پوری دنیا بھی اس کے خلاف ھو جائے تو اس کا کوی کچھ بگاڑ نھیں سکتا۔
شھید اول رہ نے ذکر فرمایا کہ شیعہ وھی ھے جو امیرالمومنین علی علیہ السلام کی پیروی کرے۔ آج بھی بلکہ قیامت تک آپ کی شخصیت لوگوں کو تفکر و تدبر اور عمل کی دعوتِ عام دیتی ھے۔ ھم اس مختصر تحریر میں صرف دو گوشے کی جانب اشارہ کر رھے ھیں۔
🌹شجاعت و جهاد فی سبیل الله: امیرالمومنین علیہ السلام نے ابتدائے اعلان اسلام سے اللہ کی راہ میں شجاعت و جواں مردی سے جھاد فرمایا۔ مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ کی حفاظت فرمائی، شعب ابی طالب میں آپ کا بے نظیر ایثار، شب ھجرت میں ایسی قربانی کہ خود معبود نے ملائکہ پہ فخر فرمایا۔ مدینہ منورہ میں ۸۰ جنگیں آپ کے ایثار و جھاد و شجاعت کی روشن مثال ھیں۔ یعنی جب کوی اسلام و رسول اسلام کی مدد کے لئے نھیں رھا تب بھی آپ میدان جھاد میں ثابت قدم رھے اور جنگ کے مغلوب نقشہ کو غالب میں بدل دیا۔ آپ کی شجاعت زباں زد خاص و عام تھی اور ھے۔ لیکن یہ نکتہ فراموش نہ ھو کہ آپ نے جھاد اصغر کے میدان میں صرف نقشہ نھیں بدلا بلکہ جھاد اکبر کے میدان میں بھی ایسا نقشہ بدلا کہ کافر و مشرک اذھان مسلمان و مومن ھو گئے۔ یعنی آپ افکار میں تبدیلی لائے۔ جس عرب کے نزدیک پانی و شراب میں کوی فرق نھیں تھا اسے علم ھو گیا کہ پانی مفید ھے۔ شراب مضر ھے۔ پانی حلال ھے۔ شراب حرام ھے۔ یا اسی طرح بیٹی، بیوی و ماں میں فرق ھے جب کہ کافر نظر سب کو صرف ایک عورت ھی سمجھ رھی تھی۔
🌹دنیا سے بے رغبتی: عام طور سے انسان دنیا کی لالچ میں اس قدر غرق ھوتا ھے کہ وہ آخرت کو بھول جاتا ھے کہ آخرت بھی کوی چیز ھے۔ اسلام نے لوگوں کو آخرت کی جانب رغبت دلای اور دنیا سے بے رغبتی کی تعلیم دی۔ بلکہ اسلام کا نظریہ دنیا و آخرت کے سلسلہ میں یہ ھے کہ دنیا وسیلہ ھے اور آخرت مقصد۔ انسان کو چاھئئے کہ دنیا کے ذریعہ اپنی آخرت سنوارے۔ حضرت امیرالمومنین علیه السلام نے متعدد مقامات پہ لوگوں کو دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی آرزو کی تعلیم فرمائی اور جب آپ جنگ جمل کے بعد کوفہ تشریف لائے تو یھی فرمایا کہ میں تمھارے سلسلہ میں دنیا کی آرزو و تمنا کے بارے میں ڈرتا ھوں۔ ایک مقام پہ آپ نے چینٹی کو دیکھا کہ اس کے منھ میں گندم کا ایکننھا سا ٹکڑا ھے تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے پوری دنیا کی حکومت اس شرط پہ دی جائے کہ اس چینٹی کے منھ سے گندم کا یہ ننھا سا ٹکڑا چھین لوں تو خدا کی قسم میں ایسا نھیں کروں گا۔ دنیا کو مخاطب کر کے فرمایا "غری غیری" ائے دنیا میرے علاوہ کو دھوکہ دے تو مجھے دھوکہ نھیں دے سکتی۔ حضرت امیرالمومنین علیه السلام تقریبا آدهی دنیا پہ یعنی آج کے پچاس یا اس سے زیادہ ممالک پر تنھا حاکم تھے لیکن اس کے باوجود مملکت کے فقیرترین انسان جیسی زندگی بسر فرمای۔ اس چار برس اور کچھ ماہ کی ظاھری حکومت کے زمانہ میں صرف چار بار وہ بھی بقرعید کے دن گوشت تناول فرمایا کہ اس دن ھر انسان کو گوشت میسر ھو گا۔ تاریخ آدم و عالم میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و امیرالمومنین علیہ السلام کے علاوہ کیا کوی ایسا عادل حاکم تصور کیا جا سکتا ھے؟؟ نھیں ھرگز نھیں۔
لھذا ضرورت اس بات کی ھے کہ شخص امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ آپ کی شخصیت کو بھی دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ دنیا ایسے کمالات و فضائل سے تشنہ ھے۔ اور جیسا کہ سلطان عرب و عجم حضرت ابوالحسن امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا۔ خدا اس بندہ پہ رحمت نازل فرمائے جو میرے امر کو زندہ کرتا ھے۔ راوی نے پوچھا کہ مولا آپ کے امر کو کیسے زندہ کیا جائے گا؟ فرمایا۔ میرے علوم کو سیکھے اور دوسروں کو سکھائے کیوں کہ جب لوگ ھمارے کلام کے محاسن کو سنیں گے تو ھماری پیروی کریں گے۔
اس حدیث میں امام عالی مقام نے شخص نھیں بلکہ شخصیت پہ تاکید فرمائی۔
مقالات کی طرف جائیے