|
جناب خدیجہ ؑ؛ ایک مثالی خاتون |
سعید حسن جونپوری |
ملیکةُ العرب، محسنہ اسلام … جیسے القاب سماعت سے جیسے ہی ٹکڑاتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں ایک ایسی ذات کے فضائل و مناقب اور صفات حمیدہ کی بازگشت ہونے لگتی ہے جس کے متعلق رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم!خدا نے ان سے بہتر مجھے عطا نہیں فرمایا ، خدیجہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ کفر اختیار کررہے تھے ، اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ میری تکذیب کررہے تھے ، انہوں نے اس وقت اپنا مال میرے حوالے کیا جس وقت لوگ مجھے محروم کررہے تھے ، خدا نے ان کے ذریعہ میری نسل قرار دی…"۔(تذکرۃ الخواص، کشف الغمہ) رسول اکرم(ص)یہ فقرات کیوں نہ بیان فرمائیں ؛ اس لئے کہ رسول ؐ کے چہرے ے کی مسکان کا نام ہے خدیجہؑ–– رسولؐ کے دل کے سکون کا نام ہے خدیجہؑ–– شریک کار رسالت کا نام ہے خدیجہؑ––– جنت جس کی مشتاق ہو اس کا نام ہے خدیجہ –––جناب خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا ایک ایسی خاتون ہیں جن کی نظیر اسلام میں ڈھونڈھے نہیں ملتی ۔ جس وقت عرب کے سارے خاندان اپنی بیٹیوں کی شادی عرب کے دولتمند گھرانے میں کرنا چاہتے تھے اس وقت جناب خدیجہ نے اس شخص سے شادی کا ارادہ کیا جس کے پاس مال دنیا میں سے کچھ بھی نہیں تھا، ہم بس سنتے چلے آرہے ہیں کہ جناب خدیجہ نے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی راہ میں اپنی ساری دولت قربان کردی لیکن صحیح اور دقیق اندازہ لگانا دشوار ہے کہ شہزادی عرب نے کتنی دولت خرچ کی ۔ تاریخ میں کہیں بھی یہ نہیں ہے کہ جناب خدیجہ نے یہ کہا ہو کہ ٹھیک ہے آپ راہ اسلام میں دولت خرچ کریں مگر ٹھوڑی اپنے لیے بچا لیں تاکہ اس رقم سےہم تجارت کرسکیں یا وہ رقم ہمارے بچوں کے کام آسکے۔کہیں بھی ضعیف سے ضعیف روایت بھی نہیں ملتی کہ ملیکة العرب نے رسولؐ سے ایسا کچھ کہا ہو، اس بی بی کےپاس بظاہر تو کوئی منصب نہیں ہے مگر اسلام میں جتنے بھی صاحب منصب ہیں ان سب کا سرچشمہ آپ ہی کی ذات والا صفات ہے، اسی لئے آپ کو ام الائمہ بھی کہاجاتاہے ، آپ نے امام علیؑ کو بھی ماں کی طرح پالا ہے ۔ رہتی دنیا تک کوئی عورت جناب خدیجہؑ کی طرح نہیں ہوسکتی اس لئے کہ جناب خدیجہ ؑکی زندگی کا ایک دور ایسا ہے جس میں غم و اندوہ کا کوئی تصور ہی نہیں،جس میں آرام و آسائش کا ہر سامان موجود ہے–– دوسرا شادی کے بعد کا دور ہے جس میں آپ نے اپنی ساری دولت اسلام کے نام پر خرچ کردی اور ظاہری سکون و آرام سے محروم ہوگئیں ۔یہ بات کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ عرب کی ملیکہ جس کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ اتنی دولت تھی ، اتنی بڑی تجارت کرنے والی تھیں کہ ان کے الفاظ سے اس وقت کے شیئر مارکٹ کا بھاو اوپر نیچے ہوتا تھا۔ آج وہ دن آگیا کہ شعب ابوطالبؑ میں فاقہ میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ ہاں! اگر جناب خدیجہؑ ملیکہ ہیں تو شہزادی مظلومہ بھی ہیں جن کی چوکھٹ پر بھیک مانگ مانگ کر عرب کے فقیر امیر ہو گئے ،کوئی سوچ بھی نہیں سکتا وہی ملکہ جب اس دنیا سے جا رہی ہے تو اس سے غریب کوئی نظر نہیں آرہا ہے ۔ شہزادی عرب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہابعثت کے دسویں برس میں١٠ / رمضان المبارک کواس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئیں،وفات سے کچھ دیر قبل جب رسول اکرم ؐ بیت الشرف میں داخل ہوئے تو شہزادی عرب نے وصیت کرنا شروع کیا ؛خدا کی قسم!حضرت خدیجہ ؑکی عظمت و فضیلت کے ادراک کے لئے یہی جملہ کافی ہے کہ آپ نے تین وصیتیں کیں جن میں سے ایک یہ تھی : "اے اللہ کے رسولؐ!مجھے معاف کردیجئے ؛ اس لئے کہ میں اُس طرح سے آپ کی خدمت نہ کر سکی جس طرح خدمت کرنے کا حق تھا"۔ یہ سن کر آنحضرت نے فرمایا: آپ نے اپنے ہر فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دیا ،آپ نے میرے لیے بہت زیادہ مصیبتیں برداشت کیں،آپ نے اپنی ساری دولت مجھے دے دی ؛ خدا کی قسم!مثل خدیجہ کوئی نہیں۔
|
مقالات کی طرف جائیے |
|