|
اصحاب حسینی کے سلسلے میں دس اہم نکات |
حجۃ الاسلام محمد پور امینی/ترجمہ: سید حیدر عباس رض |
پہلا نکتہ: ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی رکاب میں جام شہادت نوش فرمانے والے باپ بیٹوں کے اسامی گرامی مندرجہ ذیل ہیں: ١۔جناب علی ابن حسین علیہ السلام (علی اکبر) ٢۔جناب عبد اللہ ابن حسین علیہ السلام (علی اصغر) ٣۔جناب عمرو ابن جنادہ ٤۔جناب عبد اللہ ابن یزید ابن ثُبیط عبدی۔ ٥۔جناب مُجمع ابن عائذ۔ ٦۔جناب عبد الرحمان ابن مسعود۔ کربلا ئے معلی میں درجۂ شہادت پر فائز ہونے والے اصحاب حسینی میں ایک شہید ایسے بھی تھے جن کے والد ماجدنے کوفہ میں شہادت پائی یعنی جناب محمد ابن عبد اللہ،جناب مسلم کے بیٹے۔جناب مسلم ابن عقیل نے کوفہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔ کربلائے معلی میں رکاب امام حسین علیہ السلام میں شہادت کے درجہ پر فائز ہونے والوں میں ایک شہید ایسے بھی ہیں جن کے والد بزرگوارنے جنگ صفین میں رکاب امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام میںجام شہادت نوش فرمایا۔جن کا نام عمار ابن حسّان طائی تھا۔جناب عمار ابن حسّان طائی نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی نصرت میں جام شہادت نوش فرمایا جبکہ آپ کے والد ماجد نے جنگ صفین میں یہ سعادت حاصل کی . دوسرا نکتہ: کربلا کے حادثہ میں امام حسین علیہ السلام کے بعد رہ جانے والوں میں دو امام تھے: الف: امام زین العابدین علیہ السلام ؛ آپ کی ولادت٣٨ ہجری میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ ایران کے بادشاہ یزدگرد کی دخترنیک اختر تھیں ۔امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے (آپ کی خواہش پر) آپ کا نام تبدیل کر کے شہر بانو قرار دیا تھا ۔ امام سجاد علیہ السلام میدان کربلا میں ہونے والی جنگ کے موقع پر تیئس سالہ جوان تھے۔ ان دنوں آپ شدید مریض تھے۔عصر عاشورا، بعد شہادت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام جب شمر اس خیمہ میں در آیا جس میں امام عالی مقام تھے ،اور اس ملعون نے آپ کو قتل کرنے کے لئے تلوار کھینچی تو جناب زینب علیا مقام بیمار امام کی سپر بن گئیں،کچھ نہ کر سکنے کی صورت میںشمر ملعون نے خیموں میں آگ لگانا شروع کیا ۔ میدان کربلا سے اسیروں کے قافلہ کی ہمراہی امام سجاد علیہ السلام کاحصہ تھی ۔آپ فرماتے تھے:''جب کربلا کے میدان میں ہم پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹے اور میرے بابا نیز آپ کے بیٹے،بھائی اور دیگر اعزاء و اصحاب درجۂ شہادت پر فائز ہوئے اور ہمیں اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کر کے کوفہ کی جانب لے جانے لگے ،تب میں نے شہداء کے لاشوں پر نگاہ ڈالی کہ کس طرح اس جلتی اور تپتی ریت پر پڑی ہوئی تھیں اور کوئی انہیں دفن کرنے والا نہ تھا! ۔یہ منظر میرے لئے بے حد شاق تھا ،جسے برداشت کرنا میرے لئے نہایت دشوار تھا ۔ میری حالت غیر ہوگئی جس سے میں موت کے دہانہ تک پہنچ چکا تھا''۔ ب: امام محمد باقر علیہ السلام ؛آپ کی ولادت ٥٧ ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ آپ کی والدہ ٔ ماجدہ جناب فاطمہ بنت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام تھیں ۔حادثۂ عاشور کے موقع پر آپ کی عمر مبارک تین سال چند ماہ تھی ۔امام نے اسراء اہل حرم کے ساتھ کوفہ وشام کا سفر طے کیا ۔آپ خاندان عصمت وطہارت کے ساتھ شام میں ہونے والی زیادتیوں کا اس انداز میں تذکرہ فرماتے ہیں :''ہم بارہ کمسن بچے تھے،اس حال میں کہ ہمارے ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے اور ہمارے درمیان جناب علی ابن حسین علیہ السلام تھے؛ ہمیں یزید کے دربار میں حاضر کیا گیا ۔رسی کا ایک سِرا مخدرات عصمت وطہارت تک پہنچتا تھا جنہیں ایک ہی رسی میں باندھا گیا تھا ،اور اس حال میں دربار میں لایا گیا کہ امام حسین علیہ السلام کا سر بریدہ یزید کے سامنے طشت میں رکھا ہوا تھا ۔جس کی خوشبو نے پوری فضا معطر کر رکھی تھی ''۔ تیسرا نکتہ: حادثۂ عاشورا میں شہادت پانے والے بعض شہداء کا شمار اصحاب پیغمبر اعظم ۖ میں ہوتا ہے ۔جنہوں نے پر شکوہ طور پر اس تاریخی حماسہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جیسے جناب انس ابن حرث کاہلی،جناب حبیب ابن مظاہر اسدی،جناب حرث ابن نبھان، جناب عبد الرحمان ابن عبد رب انصاری خزرجی،جناب عبد اللہ ابن یقطر حمیری، جناب عمار ابن ابی سلامہ دالانی،جناب مسلم ابن عوسجہ اسدی اور جناب ہانی ابن عروة مرادی۔ چوتھا نکتہ: امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونے والے بعض کوفیوں کا سلسلہ ظہر عاشور تک جاری رہا ۔ان میں سے بعض ابن سعد کے سامنے امام عالی مقام کے ذریعہ پیش کی جانے والی درخواست کا منفی جواب ملنے کے بعد ملحق ہوئے اور بعض دوسرے لوگ شب عاشور کی تاریک فضا میں امام سے متصل ہوئے اور اسی طرح لشکر حر کے بعض سپاہی آپ سے ملحق ہوئے ۔بطور خلاصہ جو بات قابل بیان ہے وہ یہ کہ مذکورہ شمع امامت کے پروانوں کی آمد کا عروج شب عاشور قابل دید تھا کہ رات کی تارکی میں ابن سعد کے لشکر سے جدا ہو کرتنہا یا پھر دو دو افراد کی صورت میں امام سے ملحق ہو رہے تھے اور یہ سلسلہ روز عاشور تک جاری و ساری رہا ۔ سماوی کے بقول ان کی تعداد تیس تک پہنچتی ہے ۔ پانچواں نکتہ: سرزمین کربلا پر جام شہادت نوش کرنے والے نو افراد ایسے ہیں جن کی مائیں خیمہ گاہ سے نظارہ کر رہی تھیں جن کے اسامی حسب ذیل ہیں : ١۔ جناب عبد اللہ ابن حسین علیہ السلام (جناب علی اصغر) کہ آپ کی والدہ ماجدہ جناب رباب ،اپنے لخت جگر کی شہادت کا منظر اپنی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں ٢۔ جناب عون ابن عبد اللہ ابن جعفرکہ آپ کی والدہ ماجدہ جناب زینب سلام اللہ علیہا آپ کی شہادت کا مشاہدہ فرمارہی تھیں ٣۔ جناب قاسم ابن حسن علیہ السلام کہ آپ کی والدہ ٔ گرامی جناب رملہ آپ کو شہید ہوتادیکھ رہی تھیں ۔ ٤۔ جناب عبد اللہ ابن حسن کہ جن کی والدہ( شلیل بجلی کی بیٹی تھیں) اپنے بیٹے کی شہادت کا منظر دیکھ رہی تھیں ۔ ٥۔ جناب عبد اللہ ابن مسلم کہ جن کی والدہ جناب رقیہ بنت امیر المؤمنین علیہ السلام آپ کی شہادت کا منظر دیکھ رہی تھیں ۔ ٦۔ جناب محمد ابن ابو سعید ابن عقیل کہ جن کی والدہ پریشانی کے عالم میںستون خیمہ سے ٹیک لگا کر آپ کو دیکھ رہی تھیں اور لقیط یا ہانی نامی ملعون نے آپ کوآپ کی ماں کے سامنے شہادت سے ہمکنار کیا۔ ٧۔ جناب عمرو ابن جنادہ کہ جن کی والدہ نے انہیں جنگ کا حکم دیا اور آپ کی شہادت کے منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ ٨۔ جناب عبد اللہ کلبی کہ ابن طاؤس کے مطابق آپ کی والدہ آپ کو جنگ کا شوق دلا رہی تھیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں ۔ چھٹا نکتہ: جن سات شہداء کے لاشہ پر ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام میدان کربلا میں حاضر ہوئے ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں : الف:جناب مسلم ابن عوسجہ:آپ کی شہادت کے وقت مولا حسین علیہ السلام، جناب حبیب ابن مظاہر کے ساتھ آپ کے سرہانے پہنچ کر فرماتے ہیں :''رحمک اللہ یا مسلم...''۔ ب: جناب حر ابن یزید ریاحی:جب آپ نے جام شہادت نوش فرمایا ،آقا حسین علیہ السلام آپ کے جنازہ پر حاضر ہوکر فرماتے ہیں :''أنت حرّ کما سمّتک امُّک...''۔ ج: جناب واضح رومی:جب آپ کی شہادت واقع ہوتی ہے ،امام عالی مقام پاپیادہ آپ کے سرہانے پہنچتے ہیں، اپنی آغوش میں لیتے ہیں اور اپنے رخسار آپ کے رخسار پر رکھتے ہیں ۔ د: جناب جون ابن حوی:جب آپ جیسے سیاہ فام، با وفا ساتھی اور صحابی کی شہادت ہوتی ہے ،امام حسین علیہ السلام آپ کے جنازہ پر پہنچ کر فرماتے ہیں : ''اللھمّ بیض وجھہ''۔ ھ: جناب عباس ابن علی علیہ السلام: جب آپ شہادت کے عظیم درجہ پر فائز ہوئے ، حضرت امام حسین علیہ السلام پا پیادہ آپ تک پہنچے،آپ کے پاس بیٹھ کر مولا حسین نے فرمایا:''الآن انکسر ظھری ''۔ و: جناب علی اکبر علیہ السلام:جب آپ نے جام شہادت نوش فرمایا،امام عالی مقام پا پیادہ آپ کے جنازے پر حاضر ہوکر فرماتے ہیں :''علیٰ الدنیا بعدک العفا''۔ ز: جناب قاسم ابن حسن علیہ السلام: آپ کی شہادت کے بعد مولا حسین پا پیادہ آپ تک پہنچ کر فرماتے ہیں :''بُعداً لقومِِ قَتلوک''۔ ساتواں نکتہ: حادثۂ عاشورا میں ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی رکاب میں ایک خاتون بھی درجۂ شہادت پر فائز ہوئیں۔ جن کا نام نامی جناب ام وہب نمری قاسطی تھا ۔ جو جناب عبد اللہ ابن عمیر کلبی کی زوجہ تھیں۔ یہ عظیم المرتبت خاتون اپنے شہید کے جنازہ پر حاضر ہوکر فرماتی ہیں :''اس خدا سے میرا سوال ہے جس نے تجھے جنت نصیب کی،مجھے بھی تیرے جوار میں جگہ مرحمت فرمائے ۔اسی اثناء میں شمر ملعون کے رستم نامی غلام نے گرز کی ضرب سے آپ کو شہیدکردیا ''۔ آٹھواں نکتہ: حماسۂ کربلا میں بھی خاندان بنی ہاشم کا وجود قابل رشک تھا ، ٦١ .ھ میں پیش آنے والے اس عظیم حادثہ میں ہاشمی گھرانے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد کے سلسلہ میں متعدد اقوال بیان ہوئے ہیں،جن میں مشہور ترین قول اٹھارہ افراد اور زیادہ سے زیادہ ستائیس شہدا کا تذکرہ ہوا ہے ۔ ان شہداء میں زیادہ ترامیرالمؤمنین علیہ السلام کے فرزند تھے۔جناب جعفر طیار کے خاندان سے بھی چار افراد کربلا میں شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے۔حادثۂ عاشورا میں ممتاز کردار ادا کرنے والوں میں جناب عقیل کا خاندان قابل ذکر ہے۔یہاں تک کہ ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام نے انہیں استقامت و پائیداری کے ساتھ صبر کی تلقین فرمائی اور جنت کی بشارت سنائی ۔آپ فرماتے ہیں :''صبراً آل عقیل انّ موعدکم الجنّة''۔ نواں نکتہ: ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے اصحاب و انصار میں سے تین افرادکے اعضاء بدن اس عظیم معرکہ میں تن سے جدا ہوئے جن کے اسامی حسب ذیل ہیں : الف: جناب عباس ابن علی علیہ السلام : پہلے آپ کا داہنا ہاتھ قلم کیا گیا، پھر بایاں ہاتھ اور اس کے بعد سر اقدس جدا کیا گیا۔ ب:جناب علی اکبر علیہ السلام:آپ کے سر اقدس پر شمشیر کی ضربت لگی، اس کے بعد جسم نازنین ٹکڑے ٹکڑے ہوئے۔ ج: جناب عبد الرحمان ابن عمیر :سالم و یسار نامی دشمنوں سے آپ کی جنگ ہوئی ۔ پہلے آپ کا داہنا ہاتھ، اس کے بعد پنڈلی اور آخر کار آپ کا سر بدن سے جدا کر کے امام حسین علیہ السلام کی جانب پھینکا گیا۔ دسواں نکتہ: میدان کربلا میں جام شہادت نوش کرنے کے بعد،تمام کے تمام عاشقان ویاوران ِابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے سروں کو بدن سے جدا کیا گیا جنہیں اسیران اہل حرم کے ہمراہ (کوفہ اور شام میں)لے جایاگیا۔سوائے شیر خوار جناب عبد اللہ ابن حسین علیہ السلام کا سر مبارک کہ حضرت حسین علیہ السلام نے آپ کی شہادت کے بعد ذوالفقار سے ننھی سی قبر کھود کر آپ کے جسم نازنین کو اس کے حوالہ کر دیا تھا (البتہ ایک روایت کے مطابق،جناب علی اصغر کا سر بھی لے جایا گیا''ادارہ'')۔ اسی طرح جناب حر ریاحی کا سربلند وسرفراز سر کہ جسے بنی تمیم نے بدن سے جدا کرنے کی مخالفت کی تھی اور آپ کے لاشہ کو اٹھالیا گیا تھا ۔
|
مقالات کی طرف جائیے |
|