مقالات

 

زیارت امام حسین علیہ السلام؛ روایات کی روشنی میں

قاسم علی بنارسی

انسان کے بہترین اعمال میں سے ایک بافضیلت عمل، ائمہ علیہم السلام کی زندگی میں ان کی زیارت اوروفات و شہادت کے بعد ان کے مقدس قبور کی زیارت کرنا ہے۔ اگر زیارت کی بنیاد حقیقی عشق و محبت ہو تو اس کے بہت فوائد ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ یہ زیارت اسلامی ہادی و رہنما کی معرفت اور ان کی اس محبت و مودت میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے جسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا اجر قرار دیا گیا ہے۔
ائمہ علیہم السلام کی زیارت انسان کے اندر کمالات تک رسائی اور بافضیلت بننے کا زمینہ فراہم کرتی ہے جس کے باعث انسان مکرّم اور صاحب فضیلت بن جاتا ہے۔ زیارت، ائمہ علیہم السلام کے نام کو زندہ رکھنے کا ذریعہ ہے جس کے نتیجہ میں آج اسلام اور قرآن زندہ ہیں، کیونکہ ائمہ کی سیرت، ان کا کردار اور کے اقوال قرآن مجید کی ترجمانی کرتے ہیں، اور یہی حقیقی اور واقعی مفسر قرآن و اسلام ہیں۔
حسن بن علی وشا نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا: اگر کوئی شخص کسی امام کی زیارت کرے تو اسے کیا اجر ملے گا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: ''لَہُ مِثلُ مَن اَتیٰ قَبرَ اَبی عبد اللہ قال،: قُلتُ وَماَ لِمَن زاَرَ قَبرَ اَبِی عبداللہِ قاَلَ الجَنَّةُ وَاللہ''
''وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے قبر امام حسین کی زیارت کی ہو۔ میں نے پوچھا: امام حسین کی زیارت کا ثواب کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ! امام حسین کی زیارت کا اجر جنت ہے۔'' (١)
قابل غور بات یہ ہے کہ اس روایت میں ہر امام کی زیارت کا اجر و ثواب، امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا اجر و ثواب بتایا گیاہے، اور یہ جملہ خود امام حسین کی زیارت کی عظمت کو بیان کر رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کی زیارت کو تمام ائمہ کی زیارت کا محور قرار دیا گیا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے متعلق روایتوں میں بہت زیادہ تاکید اور سفارش کی گئی ہے۔ یہاں ان میں سے بعض روایات کو ذکر کیا جا رہا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :''یاَ بنَ عبّاس! مَن زاَرَہُ عاَرِفاً بِحَقِّہِ کَتَبَ اللہُ لَہُ ثوابَ اَلفَ حَجَّةٍ و اَلفَ عُمرَةٍ اَلاَ وَمَن زاَرَہُ فقد زاَرَنِی وَ مَن زاَرَنِی فَکَاَنَّماَ قَد زاَرَ اللہَ وَ حَقُّ الزّائرِ علی اللہِ اَن لاَ یُعَذِّبَہُ بِالنَّار''
''اے ابن عباس! جو شخص حسین کی ان کے حق کی معرفت کے ساتھ زیارت کرے تو خداوند عالم اس کے لئے ہزار حج اور ہزار عمرہ کا ثواب لکھتا ہے، آگاہ ہو جائو! جس نے اس کی (حسین ) زیارت کی، گویا اس نے میری زیارت کی، اور جس نے میری زیارت کی گویا اس نے خدا کی زیارت کی اور خدا پر زائر کا حق یہ ہے کہ اسے آگ کے ذریعہ عذاب میں مبتلا نہ کرے، (یعنی جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے۔)'' (٢)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''اِنَّ لِزَوّاَرِ الحسینِ بنِ علیٍّ یومَ القیامَةِ فَضلاً علی النّاسِ قُلتُ وَماَ فَضلُہُم قاَلَ یَدخُلوُنَ الجَنَّةَ قَبلَ النَّاسِ بِاَربَعینَ عاَماً وَساَئِرالنّاَسِ فی الحِساَبِ وَالمَوقَف''
''یقینا قیامت کے دن امام حسین کے زائروں کو لوگوں پر برتری حاصل ہوگی۔ میں نے پوچھا: انہیں کیا برتری حاصل ہوگی؟ آپ نے فرمایا: امام حسین کے زائر لوگوں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے جبکہ دوسرے لوگ ابھی حساب و کتاب میں مشغول ہوں گے۔'' (٣)
شیخ طوسی نے کتاب مصباح المتہجد میں محمد بن اسماعیل بن بزیع سے، انہوں نے صالح بن عقبہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص عاشور کے روز حسین بن علی کی زیارت کرے اور ان کی قبر پر بیٹھ کر گریہ کرے تو قیامت کے دن خدا وند عالم اس کو دو ہزار حج، دو ہزار عمرہ اور دو ہزار جہاد کا ثواب عطا کرے گا۔ اور وہ بھی وہ حج،عمرہ اور جہاد جو رسول اکرم ۖ اور ائمہ طاہرین کی رکاب میں انجام دئے گئے ہوں۔
راوی کہتا ہے : میں نے عرض کی: میری جان آپ پر فدا ہو، وہ آدمی جو کسی دوسرے شہر یا ملک میں رہتا ہے اور اس دن قبر حسین پر نہیں پہنچ سکتا وہ کیا کرے؟
امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: اگر ایسا ہو تو صحرا یا اپنے گھر کی چھت پر جائے اور امام حسین کی قبر کی جانب اشارہ کر کے سلام کرے اور ان کے قاتلوں پر لعنت بھیجے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اس عمل کو ظہر سے پہلے انجام دے ، ان کی مصیبت میں گریہ و زاری کرے اور اگر کسی کا ڈر نہ ہوتو اپنے خاندان والوں کو بھی ان پر رونے کا حکم دے اور اپنے گھر میں مجلس عزا برپا کرے نیز سید الشہدا کو یاد کر کے ایک دوسرے کو تعزیت پیش کریں، میں ضمانت دیتا ہوں کہ جو شخص اس عمل کو انجام دے گا تو خدا یہ تمام ثواب اسے بھی عطا کرے گا (اس شخص کی طرح جو امام کی قبر پر حاضر ہو کر زیارت کرتا ہے۔)
راوی نے عرض کیا کہ ہم ایک دوسرے کو تعزیت کیسے پیش کریں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: ''أعظم اللہ أجورنا بمصابنا بالحسین علیہ السلام و جعلنا و ایاکم من الطالبین بثارہ مع ولیہ الامام المہدی من آل محمد علیہم السلام''
''یعنی خدا امام حسین کی عزاداری میں ہمارے اجر میں اضافہ کرے اور ہمیں اور آپ کو ان کے خون کا انتقام لینے والوں میں سے امام مھدی کے ساتھ قرار دے۔''
اس کے بعد فرمایا: اس دن کسی کام کے لئے اپنے گھر سے باہر نہ جائو، یہ دن نحس ہے اور اس دن کسی مومن کی حاجت پوری نہیں ہوتی اور اگر پوری ہو بھی تو اس میں برکت نہیں ہو گی۔
تم میں سے کوئی بھی اپنے گھر میں کچھ بھی ذخیرہ نہ کرے اگر ایسا کیا تو اس میں برکت نہیں ہو گی اگر کوئی اس دستور پر عمل پیرا ہو گا تو اسے ایسے ہزار حج، ہزار عمرہ اور ہزار جہاد کا ثواب ملے گا جو رسول خدا ۖ کی رکاب میں انجام دئے جاتے ہیں، اور ابتدائے خلقت سے اب تک جتنے بھی نبی، رسول اور ان کے وصی راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں اسے ان کا بھی ثواب ملے گا۔

امام حسین کے زائرین کی فضیلت
امام حسین علیہ السلام کے زواّر خدا کے پاس امام صادق علیہ السلام کی امانت ہیں ، امام صادق علیہ السلام نے متعدد مرتبہ فرمایا ہے:
''اللہم انّی اِستَودِعُکَ تلک الابدانِ حتّی تُوافیہم علی الحوضِ عندَ العطش''
''خدایا! میں امام حسین کے زواّر کے پیکروں کو تیرے سپرد کرتا ہوں تاکہ روز تشنگی تو انہیں حوض کوثر سے سیراب کرے۔'' (٤)
سیف تمار امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
''زائرُ الحسینِ مُشَفِّع یوم القیامةِ لِمِاةِ رجلٍ کلہم قد وجب لہم النار''
''روز قیامت زائر حسین ایسے سو افراد کی شفاعت کرنے والا ہوگا کہ جن پر جہنم واجب ہوگی۔'' (٥)
یا دوسری روایت میں نقل ہوا ہے کہ ہاتف غیبی امام حسین کے زواّر کو آواز دے گا: ''خُذُوا بِیَدِ مَن اَحبَبتُم وَادخُلُوہُ الجنّةَ''
''اے زائران حسین ! اس شخص کا ہاتھ پکڑ لو جس کو تم دوست رکھتے ہو اور جنت میں داخل ہو جائو۔'' (٦)
اسی طرح بہت سی روایتوں میں مذکور ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب حد و شمار سے باہر ہے اس لئے کہ روایتوں میں ہے :''لَو یَعلَمُ النّاسُ ماَ فی زیارةِ الحسینِ مِنَ الفَضل لِماَتوُا شَوقاً و تَقَطَّعَت اَنفُسَہُم علیہا مَرّات''
''اگر لوگ زیارت امام حسین کی فضیلت و اجرسے آگاہ ہو جائیں تو شوق میں اپنی جان دے دیں....'' (٧)

جابر قبر حسین کے پہلے زائر
امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے متعلق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے پناہ تاکید اور سفارش کی وجہ سے جابر بن عبداللہ انصاری جو نابینا تھے اس ظلم و جور کی شدت میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیسویں دن چند افراد کے ہمراہ کربلائے معلی پہنچے۔
''عطیہ عوفی سے نقل ہے کہ میں جابر بن عبداللہ انصاری کے ہمراہ امام حسین کی قبر کی زیارت کے لئے نکلا، جب ہم کربلا پہنچے تو جابر بن عبداللہ انصاری فرات کے کنارے گئے، غسل کیا اور ایک چادر مُحرم کی طرح اپنے دوش پر ڈالی، اس کے بعد اپنے آپ کو بہترین خوشبو سے معطّر کیا اور ہر ایک قدم پر ذکر خدا بجا لاتے رہے،یہاں تک کہ امام حسین کی قبر مطہر پر پہنچے اور مجھ سے کہا: میرے ہاتھ کو قبر مبارک پر رکھ دو! جیسے ہی میں نے ان کا ہاتھ قبر مطہر پر رکھا جابر کو غش آگیا، جب میں نے ان کے چہرہ پر پانی چھڑکا تو انہیں ہوش آیا، اور اس وقت انہوں نے تین مرتبہ یہ نعرہ بلند کیا: یا حسین ! یا حسین ! یاحسین ! اس کے بعد کہا:''حبیب لا یُجیبُ حَبیبَہُ''''ایک حبیب اپنے حبیب کا جواب نہیں دیتا''
پھرکہتے ہیں: کس کے جواب کی تمنّا کرتے ہو؟ حسین تو خاک و خون میں غلطاں ہیں،ان کے بدن اور سر میں جدائی کر دی گئی ہے۔ اس کے بعد فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بہترین پیغمبر ۖ کے بہترین فرزند ہیں، آپ سرچشمۂ ہدایت و تقویٰ کے فرزند ہیں اور آپ اصحاب کساء کی پانچویں فرد ہیں۔
اس کے بعد تمام شہداء کو سلام کیا:
''السلام علیکم ایّھا الارواحُ الّتی حلّت بفناء الحسین و اناخت بِرَحلہ...''''اے ارواح! تم پر سلام ہو جو حسین کے جوار میں آرام کر رہی ہیں'' اس کے بعد اس جملہ کا اضافہ کیا کہ ہم بھی آپ کے ثواب میں شریک ہیں۔
عطیہ کا بیان ہے کہ میں نے پوچھا: ہم نے تو کچھ نہیں کیا! جبکہ یہ لوگ شہید ہوئے ہیں! ہم کیسے ان کے ثواب میں شریک ہو سکتے ہیں؟جابر نے کہا: اے عطیہ! میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا: ''مَن اَحَبَّ قوماً حُشِرَ مَعَھُم وَ مَن اَحَبَّ عَملَ قومٍ اُشرِکَ فی عَمَلِہِم''
''جو شخص کسی گروہ کو دوست رکھتا ہے وہ اسی گروہ کے ساتھ محشور ہوگا اور جو شخص کسی گروہ کے عمل کو دوست رکھتا ہے وہ اس گروہ کے عمل میں شریک ہے۔'' (٨)

قافلۂ اہل حرم
شام سے رہائی کے بعد اہل حرم کے قافلہ نے جس وقت مدینہ کی طرف ہجرت کی تو یہ قافلہ عراق و مدینہ کے دوراہے پر پہنچا، قافلہ والوں نے قافلہ سالار سے خواہش ظاہر کی کہ انہیں کربلا لے جایا جائے تو اس نے قافلہ کا رخ کربلا کی طرف موڑ دیا، جب یہ قافلہ کربلا پہنچا تو دیکھا جابر بن عبداللہ انصاری بنی ہاشم کے چند افراد کے ہمراہ امام حسین کی زیارت کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں۔ جیسے ہی اہل حرم قبر حسین کے قریب پہنچے چیخ مار کر رونا شروع کر دیا ، گریہ و زاری اور آہ و فغاں کی صدائیں زمین کربلا میں گونج اٹھیں جس کی وجہ سے اطراف کے گائوں کی عورتیں بھی ان کے ساتھ نالہ و فریاد کرنے لگیں۔ (٩)
اسی وقت زینب کبریٰ عورتوں کے مجمع میں آئیں اور ایک دردناک اور دلخراش لہجہ میں یہ کہتی ہوئی بیہوش ہو گئیں: ''وَا اخاہُ! وا حسیناہُ وا حبیب رسول اللہ وابن مکّة و مِنیٰ! وابن فاطمة الزہرائ! وابن علی المرتضیٰ! آہٍ ثمّ آہٍ''
پھر ام کلثوم اپنے رخساروں پر طمانچے مارتے ہوئے فرماتی ہیں: آج کا دن ایسا ہے کہ جیسے نانا رسول خدا ۖ، بابا علی مرتضیٰ اور اماں فاطمہ زہراء اس دنیا سے رخصت ہوئی ہیں۔ (١٠)

حوالہ جات
١۔ مستدرک الوسائل، مرزا حسین نوری، ج١٠، ص١٨٣، ح١١٨٠٠؛
٢۔ مستدرک الوسائل، ج١٠، ص٢٧٦، ح١٢٠٠٩؛
٣۔ کامل الزیارات، ابن قولویہ، ص١٣٧؛
٤۔ کامل الزیارات، ص١١٦؛
٥۔ کامل الزیارات، ص١٦٥؛
٦۔ کامل الزیارات، ص١٦٦؛
٧۔ کامل الزیارات، ص١٤٢؛
٨۔ بحارالانوار، ض٦٥، ص١٣٠، ح٣١؛
٩۔ الملہوف، سید بن طائوس، قم، انتشارات داوری، ص٥٢٥۔٥٢٧؛
١٠۔ الدمعة الساکبة، محمد باقر بہبہائی، ج٥، ص١٦٢)
مقالات کی طرف جائیے