|
یوم عاشورا اور عزاداری |
سید عابد رضانوشاد رضوی |
(قرآن و سیرت رسول کی روشنی میں عزاداری کی اہمیت اور اس سلسلے میں ڈاکٹر موسیٰ موسوی کے اعتراضات کے جوابات)
آنسو ترجمان محبت ہے، آنسوعشق اور سوزش دل کی دلیل ہے ، آنسو کبھی فراق محبوب کا نتیجہ ہوتا ہے تو کبھی وصال محبوب کا ، یعنی کبھی غم کی وجہ سے حلقۂ چشم میں نمودار ہوتا ہے تو کبھی خوشی کے نتیجہ میں صحن چشم میں رقص کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ بہر حال محبوب جتنامحترم و مقدس ہوگا یقینااس کے فراق میں بہنے والا آنسو بھی اتنا ہی مقدس ہوگا ۔ آنسو کا عزاداری سے بہت گہرا رابطہ ہے اس لئے کہ جیسے ہی ذہن میں عزاداری کا تصور آتا ہے اسکے ساتھ ہی آنسو کی تصویر بھی سامنے آجاتی ہے یعنی آنسو اور عزاداری ایک دوسرے کا لازمہ ہیں۔ عزاداری اور سوگواری ایک ایسا انسانی امر ہے جو تمام قوموں کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ ہر فرد ،ہر گروہ اور ہر قوم دردناک اور جانسوز حوادث و مصائب پیش آنے کی صورت میں اپنی تسلی ، روحی سکون اور تمام غموں کے مداوا کی خاطر مخصوص آداب کے ساتھ رسم عزاداری برپا کرتی ہے ۔ اگرچہ اسکے انعقاد کے طور طریقہ میں قوموں اور تہذیبوںکے درمیان کم و بیش فرق پایا جاتا ہے لیکن کسی عزیز کے فراق میں اظہار غم کرنے پر سب کا اتفاق ہے ۔ محمد و آل محمد(ص) کے شیعہ بھی معصومین اور بالاخص شہید راہ انسانیت ، سید الشہداء ، کشتہ کربلا حضرت امام حسینؑ کی یاد میں عزاداری برپا کرتے ہیں ۔ امام حسین اور شہدائے کربلا کی یاد میں عزاداری برپا کرنا صرف شیعوں ہی سے مخصوص نہیں بلکہ کثیر تعداد میں غیر شیعہ قومیں بھی یا تو مستقل طور پر عزاداری برپا کرتی ہیں یا پھر شیعوں کی عزاداری میں ہی شرکت کرتی ہیں ۔ اس پر آشوب زمانے میں ہر طرف سے مذہب تشیع پر مختلف طریقوں سے حملے کئے جارہے ہیں اور ڈاکٹر موسوی جیسے، اسلام دشمن عناصر کے ہاتھوں بکے ہوئے افراد ،شیعیت کے مذہبی مظاہر و شعائر کو مٹانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں ۔ عزاداری سید الشہدائ جو مذہب تشیع کے اہم ترین شعائر میں سے ہے اور جس نے دنیا کے تمام مذاہب و ادیان کو اپنی طرف جذب کر رکھا ہے ، اس زمانہ میں سب سے زیادہ مورد حملہ قرار پارہی ہے ۔ احمد بن تیمیہ ، محمد بن عبد الوہاب ، احمد کسروی ،علی محمد باب اور ایسے ہی کچھ دیگر افراد نے پوری کوشش کی کہ ان مراسم و شعائر کی قدرواہمیت ختم ہوجائے ۔ کبھی کہا کہ گریہ و زاری اور سینہ زنی عیسائیوں کی ایجاد ہے ، کبھی کہا کہ مجالس عزا اور اس سے مربوط دیگر مراسم کو صوفیوں نے رائج کیا ہے ۔ ڈاکٹر موسوی نے نیا اتہام یہ لگایا کہ حسینی جلوسوں کی مالی امدا د برطانوی حکومت کرتی ہے ۔ بہر حال اس طرح کے بے شمار تہمتیں عزاداری شہید کربلا کو نابود کرنے کے لئے لگائی گئیں لیکن بحمد اللہ ان تمام اسلام دشمن عناصر کے ہاتھوں بکے ہوئے افراد کی سازشیں ہمیشہ نقش بر آب ہوئیں ہیں اور ہوتی رہیں گی ۔انشاء اللہ عزاداری اور امام حسینؑ پر گریہ حضرت آدم کے زمانہ سے حضرت خاتم المرسلین (ص) کے زمانہ تک اور حضور اکرم (ص)اور ائمہ معصومین کے زمانہ سے آج تک برقرار ہے اور برقرار رہے گا اور انشا ء اللہ لمحہ بہ لمحہ اسکی وسعت، عظمت، اور شان و شوکت میں اضافہ ہوتا رہے گا ۔ آئیے اب ہم عزاداری کے بارے میں اسلام کے موقف کو دیکھیں تاکہ متلاشیان حق و حقیقت کے لئے مشعل راہ بن سکے اور ساتھ ہی تمام شبہات و اوہام کی ظلمتیں نور ہدایت کے ذریعہ زائل ہوجائیں ۔
عزاداری قرآن کی روشنی میں بہت سے افر اد کے اذہان میں شاید یہ سوال موجود ہو کہ احکام و معارف کی جامع کتاب قرآن مجید میں عزاداری کا ذکر ہوا ہے یا نہیں ؟ اور اگر ذکر ہوا ہے تو اسکی موافقت میں یا مخالفت میں ؟ کیا قرآن کریم میں کوئی ایسا قرینہ یا کوئی ایسا واقعہ موجود ہے جو عزاداری کے جوازیا رجحان پر دلیل ہو ؟ قرآن کریم میں ایسی کئی آیات موجود ہیں جو عزاداری کے شرعی جواز کوواضح طور پر بیان کررہی ہیں لیکن نمایاں اور واضح ترین آیات جو عزاداری و سوگواری کو ثا بت کررہی ہیں وہ سورۂ یوسف کی آیات ہیں جن میں حضرت یوسف کے فراق کے بعد حضرت یعقوب کی حالت کو بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت یوسف کے فراق میں حضرت یعقوب کے بے پناہ حزن اور شدید گریہ کو قرآن کریم اس طرح بیان کر رہا ہے : (وَتَوَلَّی عَنْہُمْ وَقَالَ یَاَسَفَی عَلَی یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیم قَالُوا تَاﷲِ تَفْتَُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا َوْ تَکُونَ مِنْ الْہَالِکِینَ قَالَ ِنَّمَا َشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی ِلَی اﷲِ وََعْلَمُ مِنْ اﷲِ مَا لاَتَعْلَمُونَ )(١) ''یعقوب نے اپنے بیٹوں سے منہ پھیر لیا اور کہا یوسف کے فراق کا افسوس ہے اور انکی آنکھیں غم کی وجہ سے سفید ہوگئیں پھر بھی وہ تحمل سے کام لیتے رہے فرزندان یعقوب نے کہا:آپ اسقدر یوسف کو یاد کررہے ہیں کہ نزدیک ہے بیمار ہوجائیں یا مرجائیں ۔ یعقوب نے کہا اپنے غم و اندوہ کا شکوہ میں فقط اپنے خدا سے کروں گا جو اللہ کی عطاسے میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے '' اہل سنت کے مشہور محقق اور عالم دین جناب عمر عبد السلام گریہ و زاری اور عزاداری کے جواز کو قرآن مجید کی نظر سے آشکار اور بالکل درست جانتے ہیں اور اسکو ذکر شدہ آیات سے ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں '' قرآن کریم اور سنت متواترہ میں کسی کے فراق میں گریہ کرنے کے بارے میں بہت سے آشکار شواہد موجود ہیں اور قرآن کریم میں جو اس بارے میں واضح ترین آیت وارد ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا یوسف کے فراق میں یعقوب کی حالت کو اس طرح بیان کررہا ہے '' (پھر انہوں نے یہی مذکور ہ آیات ذکر کی ہیں) ۔(٢) ان آیات میں حضرت یعقوب کا طولانی گریہ انکی زندگی کی ایک اہم خصوصیت کے عنوان سے بیان ہوا ہے ۔ روایات میں بھی انکے گریہ کو انکی اچھی صفت کے طور پر ذکر کیا گیاہے ۔ سنی عالم دین علامہ زمخشری روایت کرتے ہیں کہ حضرت یوسف نے حضرت جبرئیل سے اپنے والد بزرگوار کے گریہ کی مدت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ حضرت یعقوب نے ستر( ٧٠)سال گریہ کیا پھر انکے گریہ کی جزاکے بارے میں سوال کیا تو جواب دیا کہ انکا گریہ ستر شہیدوں کی جزا کے برابر ہے ۔(٣( یعقوب اپنے فرزند یوسف کے فراق میں شب و روز گریہ کرتے تھے اور اس قدر روتے تھے کہ نابینا ہوگئے ۔ یوسف کے لئے آتش عشق اس قدر شعلہ ور ہوچکی تھی کہ قرآن کے مطابق حضرت یعقوب کو حضرت یوسف کی بو استشمام کرنے میں دوریاں حائل نہیں ہوتی تھیں۔ حضرت یعقوب جیسا عظیم پیغمبر اگر کسی وہابی حکومت میں ہوتا تو اسکے بارے میں کس طرح قضاوت کی جاتی ؟ ابن تیمیہ اور ڈاکٹر موسوی جیسے افراد انکے لئے کیسا فتویٰ جاری کرتے ؟ یقیناً یہ تمام مفسد اور اسلام دشمن لوگ انھیں مشرکین میں شمار کرتے ہوئے سزائے موت سنا دیتے ۔کیونکہ جن کا ہدف ہی یہ ہو کہ دین خدا زمین پر باقی نہ رہے اسکوکسی پیغمبر یا خدا کے برگزیدہ فرد کا کیا پاس و لحاظ ہوگا۔ اسی لئے تویہ لوگ پیغمبر کو جائز الخطا اور غیر معصوم بتا کر انکے قول ،فعل اور انکی پوری شریعت کو مشکوک بتانا چاہتے ہیں ۔ بہر حال قرآن کی نظر سے گریہ و زاری بالکل ثابت ہے اوراس میںکسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ مذکورہ آیات و روایات سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ غم و اندوہ اور گریہ و زاری کتنا ہی طولانی ہوجائے کوئی مانع نہیں رکھتا بلکہ جائز اور مثبت عمل شمار کیا جاتا ہے ۔ عزاداری کے بارے میں قرآن میں وارد شدہ آیات و روایات سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ مجالس عزا اور عزاداری کو بر پا کرنا نہ صرف یہ کہ قرآن سے مخالفت نہیں رکھتا بلکہ شعائر الہٰی ،مودت اہل بیت اور ظلم و ستم سے مقابلہ کرنے کے مصادیق میں سے بہترین مصداق ہے جسکی طرف قرآنی آیات اشارہ کرتی ہیں ۔ (٤(
عزاداری سیرت رسول(ص) کی روشنی میں سنت پیغمبر اسلام (ص)احکام و شریعت کی شناخت کے لئے دوسرا منبع ہے ۔ قرآن کریم نے بھی اسکی وضاحت کردی ہے : مَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا (٥( "رسول (ص) جوتمہیں دے دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اسے ترک کردو"۔ پھر ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے : لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اﷲِ اُسْوَة حَسَنَة ''بتحقیق تمہارے لئے رسول اللہ بہترین اسوۂ عمل ہیں '' ۔ اسکے علاوہ ایک مقام پر رسول(ص) کی تمام رفتار، گفتار اور کردار کو خدا اپنی طرف نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے : وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی ِنْ ہُوَا ِلاَّ وَحْی یُوحَی ٰ ''رسول(ص) اپنی ہوا و ہوس سے کلام نہیں کرتے بلکہ جوکہتے ہیں وہ وحی منزَل ہوا کرتی ہے '' تمام فرزندان توحید رسول اکرم (ص) کے قول و فعل کو شعار زندگی اور سرمشق حیات تسلیم کرتے ہیں لہٰذا عزاداری کے مسئلے میں بھی ہمیں یہ دیکھنا لازم ہے کہ نبی اکرم (ص) نے مجالس گریہ و زاری اور عزاداری سے روکا ہے یا خود عمل کر کے یا امر فرماکر اسکے جواز و رجحان کو ثابت کیا ہے ؟ شیعہ اور سنی کتابوں میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جن میں رسول(ص) نے خود عزاداری کی ہے یا اسکا حکم فرمایا ہے ۔ ہم اس مقام پر معتبر سنی کتابوں سے صرف چند روایات و واقعات کو نقل کررہے ہیں : ١۔حضرت رقیہ کی وفات کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے جنازہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تم ہمارے نیک اسلاف سے جا ملی ۔ عثمان بن مظعون کہتے ہیں کہ وہاں عورتیں گریہ کرنے لگیں تو عمر بن خطاب نے انھیں تازیانہ مارنا شروع کیا تاکہ وہ گریہ کرنے سے باز رہیں تو پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے دست مبارک سے عمر کو پکڑا اور کہا اے عمر ! انکو انکے حال پر چھوڑ دو اور فرمایا شیطان سے بچو اور جان لو کہ جب بھی چشم و دل روئے تو وہ خدا کی طرف سے رحمت ہے ۔ عثمان بن مظعون کہتے ہیں جناب فاطمہ زہرا قبر رقیہ پر رورہی تھیں اور رسول اکرم (ص)اپنے دامن سے انکے آنسوؤں کو خشک کررہے تھے ۔(٦) ٢۔سید الشہدا جناب حمزہ کی شہادت کے بعد رسول خدا (ص) مدینہ میں آئے تو انصار کے گھروں سے عورتوں کے رونے اور نوحہ کرنے کی آوازیں آرہی تھیں جو اپنے شہیدوں پر رو رہی تھیں تو آپ کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے بھر گئیں پھر آپ (ص)نے فرمایا :میرے چچا حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں ہے پھر کچھ عورتیں آئیں اور انہوں نے جناب حمزہ کے لئے عزاداری کی ۔ (٧) واقدی لکھتے ہیں حادثۂ احد کے بعد جناب حمزہ کی بہن صفیہ رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور جب وہ روتی تھیں تو آنحضرت(ص) بھی روتے تھے اور جب وہ تیز آواز سے روتی تھیںتو پیغمبر اکرم(ص) بھی بلند آواز سے روتے تھے اور اسی طرح جب بھی جناب فاطمہ گریہ کرتی تھیں تو آپ بھی گریہ کرتے تھے۔ (٨) حضرت حمزہ پر رسول (ص) کے گریہ کرنے کی مختلف روایات انکے علاوہ بھی بہت سی کتب اہل سنت میں موجود ہیں ۔(٩) ٣۔پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی مادر گرامی کی قبر کی زیارت کی اور بہت روئے یہاں تک کہ آپ کے اصحاب بھی رونے لگے ۔(١٠) ٤۔نبی اکرم(ص) اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر زار و قطارر وئے اور رونے کو رحمت سے تعبیر کیا ۔(١١) ٥۔ جب پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت جعفر طیار کی غزوہ موتہ میں شہادت کی خبر سنی تو آپ بہت روئے ۔(١٢) ٦۔نبی اکرم (ص)نے اپنے صحابی عثمان بن مظعون کی وفات پر گریہ کیا ۔ (١٣) ٧۔پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے صحابی سعد بن خولہ کی وفات پر مرثیہ پڑھا ۔(١٤)
امام حسین کے لئے رسول (ص)اور اصحاب رسول (ص)کی عزاداری مظلوم کربلا کی مظلومیت پرصرف انکی شہادت کے بعد سے عزاداری شروع نہیں ہوئی ہے بلکہ عزائے امام حسین قدیم زمانہ سے ہوتی آرہی ہے ۔ آدم سے لیکر خاتم(ص) تک سبھی نے ان پر گریہ کیا ہے اور عزائے مظلوم کربلا برپا کی ہے ۔ لہٰذا ہم اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے اس مقام پر صرف چند روایات کو معتبر سنی کتابوں سے نقل کررہے ہیں جن میں یہ صریحاً ذکر ہے کہ رسول اکرم (ص)اور صحابہ نے امام حسین پر گریہ کیا ہے ۔ ١۔حضرت عائشہ کہتی ہیں '' ایک روز جبرئیل رسول خدا(ص)پر وحی لیکر نازل ہوئے اسی اثناء میں حسین پیغمبر (ص)کے پاس آئے اور انکے جسم پر سوار ہوکر کھیلنے لگے ۔ جبرئیل نے کہا : اے محمد ! بہت جلد آپکی امت میں فتنہ اٹھے گا اور آپ کے اس فرزند کو آپ کے بعد قتل کردیا جائیگا ۔ پھر جبرئیل نے ہاتھ اٹھایا اور حضور(ص) کو سفید مٹی دی اور عرض کیاآپ کا بیٹا اسی سر زمین پر مارا جائیگا ۔ اس جگہ کا نام ''طف ''ہے پھر جبرئیل چلے گئے ۔ رسول اکرم(ص) مٹی کو ہاتھ میں لیکر روتے ہوئے ایک جگہ تشریف لے گئے جہاں ابو بکر ،عمر ، علی، حذیفہ ،عمار، ابو ذر موجود تھے اور آپ(ص) نے فرمایا : جبرئیل نے مجھکوخبر دی ہے کہ میرے بیٹے حسین کو میرے بعد طف نامی سر زمین پر قتل کردیا جائیگا اور اس خاک کو مجھے دیا ہے جس میں جائے شہادت اور اسکی قبر ہوگی ۔ (١٥) اسکے علاوہ بہت سی روایات موجود ہیں جو امام حسین پر رسول اکرم (ص)کے گریہ کی حکایت کرتی ہیں اور کتب اہل سنت ایسی روایتوں سے بھری ہوئی ہیں جنکو خوف طول کی وجہ سے بیان نہیں کیا جارہا ہے بلکہ فقط بعض حوالے بیان کئے جارہے ہیں تاکہ تفصیل کے خواہاں حضرات رجوع کرسکیں ملاحظہ ہوں : مستدرک حاکم ٣ ١٧٦، تاریخ ابن عساکر، حدیث ٦٣١ ، فصول المہمة ١٤٥، کنز العمال ١٢٣١٢، خصائص کبری ١٢٥٢، مجمع الزوائد ١٧٩٩ ، صواعق محرقہ ١١٥، مقتل خوارزمی٨٨١، ذخائر العقبیٰ١١٩باب ٩،مستدرک حاکم ج٣،ص١٧٦ کنز العمال حدیث ٢٤٣٠٠،المصنف ابن ابی شیبة ٦٩٧٢ ، سنن ابن ماجة ٥١٨٢ ، تاریخ ابن کثیر ١٩٩٨، طبقات ابن سعد ٢٦٩ وغیرہ … ٢۔حافظ ابو یعلی زینب بنت جحش سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی ہیں : ایک دن رسول خدا(ص) میرے گھر میں موجود تھے ۔ امام حسین جنھوں نے ابھی ابھی چلنا سیکھا تھا وہ بھی موجود تھے ۔ آپ رسول خدا(ص) کے حجرہ میں وارد ہوئے تو میں نے انکو پکڑ لیا تو حضور(ص) نے فرمایا : اسے چھوڑ دو ، میں نے انکو چھوڑدیا پھر حضور(ص) نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگے درحالیکہ حسین کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے تھے جب بھی آپ رکوع میں جاتے تو حسین کو زمین پر رکھ دیتے ۔ نماز کے بعد آپ بیٹھ گئے اور رونے لگے جب یہ ماجرا تمام ہوا تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! آج میں نے ایسی چیز دیکھی جسکا میں نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا ۔ آپ نے فرمایا: جبرئیل نے آکر مجھے خبر دی ہے کہ میری امت اس بچہ کو قتل کردے گی ۔ میں نے جبرئیل سے کہا کہ مجھے اس خاک کو دکھاؤ تو جبرئیل میرے لئے سرخ رنگ کی خاک لے کر آئے ۔ (١٦) ٣۔ابن عباس کہتے ہیں کہ وہ لوگ حضرت علی کے ساتھ جنگ صفین میں سر زمین نینوا سے گذررہے تھے کہ آ پ نے فرمایا : اے ابن عباس ! اس سر زمین کو پہچانتے ہو؟ میں نے عرض کی نہیں اے امیر المؤمنین !فرمایا : اگر تم میری طرح اس زمین کو پہچانتے ہوتے تو یہاں سے نہ گذرتے مگر یہ کہ میری طرح گریہ کرتے ۔ پھر آپ نے رونا شروع کیا اور اتنا روئے کہ آپ کی ڈاڑھی آنسووں سے تر ہوگئی اور آپ کے سینہ تک آنسو پہو نچ گئے ۔ ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ رونے لگے اور آپ فرماتے تھے ہمیں آل ابو سفیان اور آل حرب جیسے شیطانی گروہ اور کفر کے سرپرستوں سے کیا مطلب ہے ۔پھر آپ نے فرمایا : اے ابا عبد اللہ ! صبر سے کام لینا اور استقامت کرنا یہ کہہ کر آپ بہت روئے اور ہم لوگ بھی انکے ساتھ روئے یہاں تک کہ آپ منہ کے بل زمین پر گرپڑے اور بیہوش ہوگئے اور کچھ مدت بعد ہوش میں آئے ۔ (١٧) ٤۔سبط ابن جوزی لکھتے ہیں : امام حسین کی شہادت کے بعد حضرت ابن عباس ہمیشہ روتے رہتے تھے یہاں تک کہ نابینا ہوگئے ۔(١٨ ) ٥۔ ابن ابی الدنیا نقل کرتے ہیں کہ زید ابن ارقم، ابن زیاد (لعنة) کے پاس کھڑے ہوئے تھے ،انہوں نے اس سے کہا اے ابن زیاد ! چھڑی کو حسین کے لب و دندان سے اٹھا لے قسم خدا کی بارہا میں نے دیکھا ہے کہ رسول خدا (ص)ان لبوں کا بوسہ لیا کرتے تھے یہ کہہ کر آپ نے رونا شروع کردیا ۔(١٩) ٦۔ابن حجر روایت کرتے ہیں کہ جب سر امام حسین، ابن زیاد کے پاس آیا تو اس نے سر مبارک کو ایک طشت میں رکھا پھر وہ آپ کی ناک اوردندان مبارک کی ایک چھڑی سے بے حرمتی کرنے لگا اور کہہ رہا تھا کہ اس سے اچھا نہیں دیکھا تھا ۔ اس جلسہ میں انس ابن مالک بھی تھے جب انہوں نے یہ ماجرا دیکھا تو رونے لگے اور کہا کہ کوئی بھی حسین سے زیادہ رسول(ص) سے مشابہ نہیں ہے ۔(٢٠) ٧۔ ام المؤمنین ام سلمہ نے خواب میں دیکھا کہ رسول خدا(ص) نے انکو امام حسین کی شہادت کی خبر دی آپ خواب سے بیدار ہوئیں اور گریہ کرنے لگیں اور فرمانے لگیں اے عبد المطلب کے بیٹو ! آئو میرے ساتھ گریہ کرو رسول خدا(ص) کا نواسہ شہید کردیا گیا ہے اس لئے کہ میں نے رسول خدا(ص) کو خواب میں دیکھا ہے کہ انکا چہرہ غبار آلود تھا اور کہہ رہے تھے کہ میرا نواسہ اور اسکے اہل بیت قتل کردئیے گئے۔(٢١( مذکورہ دلائل سے واضح ہوجاتا ہے کہ کسی کی وفات پر گریہ کرنا حقیقتاً جائز ہے اولیاء اللہ پر رونا بالخصوص امام حسین پر رونا رجحان رکھتا ہے ، یہ سنت رسول (ص)ہے اور عزاداری امام حسین رسول(ص) کے علاوہ حضرت علی اور صحابہ کرام نے بھی کی ہے ۔ ہم ڈاکٹر موسوی سے سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ رسول اکرم(ص)حضرت علی اور صحابہ کرام کو امام حسین کی عزاداری برپا کرنے کے جرم میں سزا دے سکتے ہیں ؟! عزاداری امام حسین کے بارے میں ابھی تک جو بیان ہوا ان ہی میں ڈاکٹر موسوی کے بہت سے شبہات کے جوابات موجود ہیں لیکن بعض اعتراضات کے جوابات کو ہم اس مقام پر بیان کرنا لازم سمجھتے ہیں ۔
شبہات کے جوابات پہلا شبہ:ڈاکٹر موسی موسوی اپنی کتاب مسلک اعتدال (ترجمہ الشیعة و التصحیح) میں صفحہ ١٢٩پرلکھتے ہیں کہ ائمہ کی طرف منسوب بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ جو حسین پر رویا یا رلایا اس پر جنت واجب ہوگی ۔معاذ اللہ کہ کسی امام کے منھ سے ایسا کلام نکلا ہو '' جواب: عزاداری امام حسینؑ کے ثواب اور اسکی جزا کے بارے میں مذکورہ حدیث ہی نہیں بلکہ اس طرح کی بے شمار حدیثیں وارد ہوئی ہیں اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے اسلئے کہ : ١۔ان میں سے بہت سی حدیثیں بالکل صحیح و معتبر ہیں ۔ ٢۔ بعض احادیث میں امام حسین کے حق کی معرفت اور شناخت کی شرط لگی ہوئی ہے یعنی اگر امام حسین پر گریہ کرنا انکے حق کی معرفت کے ساتھ ہے تو جنت واجب ہے اس لئے کہ جب عزادار امام مظلوم پر روئے گا تو انکے حق کی شناخت بھی حاصل کرے گا اور اس صورت میں اسکے پاس ایمان بھی ہوگا، اسلام بھی ہوگا زہد، تقویٰ ،ایثار، فداکاری ، وفاداری ، محبت خدا ، شجاعت ، سخاوت ، عزت نفس ، عشق رسول (ص)اور مودت آل رسول و غیرہ سب کچھ ہوگا اور جس کے پاس یہ سب کچھ ہو تو دین اورعقل کے مطابق اسکو جنت ضرور ملے گی۔ ٣۔امام مظلوم نے کربلا کے میدان میں صبر ، شجاعت ، توکل ، مردانگی ، وفا ، ایمان و غیرہ کا مظاہرہ کیا اور ساتھ ہی بڑی سے بڑی مصیبتوں کو برداشت کیا جن کا ہم تصور نہیں کر سکتے تو ان سب صفات کے مقابلہ میں خدا انکے زوّار کو اس طرح کے ثواب و جزا سے ضرور نوازے گا اور یہ بالکل بجا ہے ۔ جس کو اس میں شک ہو اسکو در حقیقت خدا کی عطا پر شک ہے ۔ اس مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے ہم ایک واقعہ نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ملاحظہ ہو : علامہ بحر العلوم سامرا جارہے تھے ۔ راستہ میں وہ امام حسینؑ پر گریہ کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ کس طرح خدا وند عالم نے اس گریہ کے عوض اتنا ثواب قرار دیا ہے ۔ اسی اثناء میں ایک عرب گھوڑے پر سوار آیا اورانکے نزدیک پہو نچ کر سلام کیا پھر سوال کیا کہ سید آپ سوچ میں کیوںڈوبے ہوئے ہیں ؟ اگر کوئی علمی مسئلہ ہے تو فرمائیے شاید میں حل کرسکوں ۔ علامہ بحر العلوم نے کہا کہ میں سوچ رہا تھا کہ کیسے خدا نے امام حسین پر رونے والوں اور انکی زیارت کرنے والوں کے لئے اتنا ثواب معین کیا ہے ؟ مثلاً یہی حدیث کہ زیارت کے لئے زائر امام حسین کے اٹھنے والے ہر قدم کے عوض میں ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب اسکے نامہ اعمال میں لکھ دیا جائیگا یا یہ کہ ان کے لئے ایک قطرۂ اشک کے بدلے اسکے تمام گناہان صغیرہ و کبیرہ معاف کردیئے جائیںگے؟ اس عرب نے کہا :تعجب نہ کریں میں آپ کے لئے ایسی مثال بیان کرتا ہوں کہ آپ کی مشکل حل ہوجائے ۔ ایک سلطان شکار کرتے کرتے اپنے ہمراہیوں سے دور ہوگیا ۔ بھٹکتے بھٹکتے ایک خیمہ کے اندر پہونچا اور اس میں ایک بوڑھی ماں اور بیٹے کو دیکھا ۔ انکے پاس صرف ایک بکری تھی اس کے دودھ کے ذریعہ انکی زندگی چلتی تھی اسکے سوا انکے پاس کچھ نہیں تھا ۔ اس بڑھیا نے اس بکری کو ذبح کردیا اور سلطان کو کھلا دیا وہ بڑھیا اس بادشاہ کو نہیں پہچانتی تھی اور اس عمل کو صرف اس نے مہمان کے اکرام و تعظیم کی وجہ سے انجام دیا تھا ۔ بادشاہ نے رات وہیں گذاری اور دوسرے دن سب کے سامنے اس نے یہ تمام واقعہ نقل کیا اور کہا میں شکار کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور میں بہت بھوکا اور پیاساتھا ، ہوا بہت گرم تھی اس حالت میں میں اس بڑھیا کے خیمہ میں داخل ہوا وہ مجھکو نہیں پہچانتی تھی لیکن اس نے میرے لئے وہ بکری ذبح کردی جو اسکا اور اسکے بیٹے کا پورا سرمایہ تھا اور اسکے دودھ سے انکی زندگی گذرتی تھی ۔ اب تم بتاؤ میں اسکے عوض ان دونوں کو کیا دے سکتا ہوں ؟ کسی نے کہا سو (١٠٠) عدد گوسفند دی جائیں ، کسی نے کہا سو (١٠٠) گوسفند اور سو (١٠٠) اشرفی دی جائیں ، کسی نے کہا فلاں کھیت انکے نام کردیا جائے۔بادشاہ نے کہا جو کچھ دے دوں وہ کم ہے اگر میں اپنی پوری سلطنت اورتاج و تخت دے دوں تو یہ انکا حق ہوگا اسلئے کہ جو کچھ انکے پاس تھا انہوں نے مجھکو دے دیا لہٰذا مجھے بھی چاہئے کہ جو کچھ میرے پاس ہے سب انکو دے دوں ۔ حضرت سید الشہدانے اپنا سب کچھ یعنی مال ، آل ، عیال ، بیٹا ، بھائی ، فرزند، سرو پیکر خدا کی راہ میں قربان کردیا لہٰذا اگر خدا انکے زائرین کو اسقدر ثواب و جزا عنایت کررہا ہے تو تعجب نہیں کرناچاہئے۔(٢٢) دوسرا شبہ:ڈاکٹر موسوی صفحہ ١٣١پر ایک واقعہ نقل کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ'' امام حسین تو زمین و آسمان سے وسیع جنت میں ہیں جہاں ہر طرح کا عیش و آرام بھی موجود ہے اور امام تو وہاں آرام فرما رہے ہیں پھر یہ شیعہ کیوں آج تک ان پر رو رہے ہیں اور ان کا ماتم کر رہے ہیں ''؟ جواب: کچھ ایسا ہی اعتراض کسی غیر منصف شاعر نے اپنے اس شعر میں کیا ہے :
روئیں وہ جو قائل ہیں ممات شہدا کے ہم زندۂ جاوید کا ماتم نہیں کرتے آیت اللہ علی نقی نقن صاحب مرحوم نے جواباً کیا خوب کہا: یعقوب صفت روتے ہیں ہجر شہداء میں یوسف کے برادر کبھی ماتم نہیں کرتے اسی طرح آپ فرماتے ہیں : کیا روؤگے ان پہ جو ہلاک ابدی ہیں کیوں زندۂ جاوید کا ماتم نہیں کرتے بے شک امام مظلوم پر رونے والا اس لئے نہیں روتا کہ وہ جنت میں ہیں، آرام سے ہیں ،زندۂ جاوید ہیں ،ہر گز نہیں بلکہ وہ اس لئے روتا ہے کہ امام فرزند رسول(ص) اور باعظمت شخصیت ہونے کے باوجود بڑی مظلومیت کے ساتھ شہید کئے گئے ۔ رونے والا انکی مظلومیت کو یاد کرکے روتا ہے ۔ مظلومی شبیر پہ ہے گریہ و زاری ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے اعتراض کرنے والے کو سب سے پہلے رسول اکرم (ص)، حضرت علی اور صحابہ کرام پر اعتراض کرنا چاہئے کہ وہ اس وقت بھی حسین پر روئے جب حسین انکی آغوش میں اور انکے درمیان موجود تھے ۔ ظاہر ہے کہ وہ لوگ اگر حسین پر روئے ہیں تو انکی مظلومیت کو یاد کرکے ہی روئے ہیں جیسا کہ ان روایات میں بھی اس بات کا ذکر ہوا ہے جنکو ہم بیان کرچکے ہیں ۔ اگر ہم شیعہ بھی امام حسین پر روتے ہیں تو انکی مظلومی پر گریہ و زاری کرتے ہیں اور اس صورت میں رسول(ص) کی سنت پر بھی عمل کرتے ہیں ۔ تیسرا شبہ:صفحہ ١٣٣ پران کا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ '' امام حسین نے جام شہادت اس لئے نہیں نوش فرمایا کہ لوگ ان پر روئیں اور انھیں ایک ناکام اور مسکین بیچارے کے روپ میں پیش کریںاورہو نا یہ چاہیے کہ امام حسین کی شہادت کی تقریبات میں ایسے تربیتی جلسے منعقد کئے جائیں جن میں رسول(ص) کی سیرت بیان کی جائے آپ کے اہل بیت اور ان صحابہ کے حالات سنائے جائیں جنھوں نے اللہ کی راہ میں جہاد اور قربانی پیش کی اور عمدہ قسم کے اشعار پیش کئے جائیں''۔ جواب: بے شک امام حسین نے صرف اس لئے جام شہادت نوش نہیں کیا کہ لوگ ان پرصرف روئیں بلکہ انکا اصل مقصد صرف اور صرف اسلام کی بقا تھا ۔ انہوں نے اپنا سب کچھ دین خدا کے لئے قربان کیا ہے اور آج تک جو دنیا آپ پررورہی ہے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت موجود ہے یہ سب خداوندعالم کا فضل ہے اس لئے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے : انَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمْ الرَّحْمَانُ وُدًّاً )(٢٣) '' بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا عنقریب خدا ان کے لئے (لوگوں کے دلوں میں ) محبت ڈال دے گا'' امام حسین پر رونے والے سیرت انبیاء بالخصوص سیرت حضرت مصطفے(ص) پر عمل کرتے ہیں اور چونکہ محبت اہل بیت آیہ مؤدت کے مطابق اجر رسالت ہے اور اظہار محبت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ محبوب کی خوشی میں شادماں اور اسکے غم میں مغموم و گریاں رہا جائے لہٰذا ہم اہل بیت علیھم السلام کے غم میں مغموم و گریاں ہو کر اجر رسالت ادا کرتے ہیں جو ہر مسلمان پر واجب ہے ۔ جو اجر رسالت ادا نہ کرے وہ خود کو مسلمان کہنے کا حق نہیں رکھتا ۔ اور انکی یہ بات کہ امام حسین کی شہادت کی تقریبات میں رسول(ص) کی سیرت اور آپ(ص) کے اہل بیت اور انکے اصحاب کے حالات اور کارنامے سنائے جائیں تو بغرض اطلاع ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہماری عزاداری پوری دنیا میں اسی طرح منائی جاتی ہے ۔ ڈا کٹر صا حب نے کسی نئی بات کی پیشکش نہیں کی ہے بلکہ عزا داری ٔامام حسین کے سلسلے میں اپنے جہل کا ثبوت دیا ہے ۔
حوالے: 1۔سورہ یوسف ٨٤۔ ٨٦ 2۔مخالفة الوھابیة للقرآن و السنة ،ص٥٥ 3۔تفسیر کشاف، ج٢، ص٤٩٧و تفسیر کبیر فخر رازی،ج١٨،ص١٩٣ 4۔رجوع کریں بالترتیب سورہ حج ٣٢وسورۂ شوریٰ ٢٣و سورہ نساء ١٤٨ 5۔سورہ حشر ٧ 6۔مخالفة الوہابیة للقرآن و السنة ، ص ٥٧ ، سنن بیہقی کتاب جنائز ،ج٥،ص٤٣٥۔ ٤٣٦، سنن ابن ماجہ باب ٥٣،ص٣٧٢،ط۔دار الفکر 7۔المستدرک حاکم کتاب جنائز ج١،ص ٣٨١، منتخب کنزالعمال ج٢،ص ٤٠، سیرہ حلبیہ ،ج٢ ، ص٢٦٠ 8۔مغازی، ج١،ص٣١٥ 9۔مسند احمد ، ج٢ ، ص ٤٠ ، استیعاب ابن عبد اللہ ، ج١ ،ص٤٢٦و تاریخ طبری ، ج٢ ،ص ٢٧و طبقات ابن سعد،ج٣ ،ص ١١۔و امتاع الاسماع ،ج١ ،ص ١٦٣ 10۔مسند احمد ،ج٢، ص ٤٤١ و صحیح مسلم ، ج٢ ،ص ٦٧١و سنن ابن ماجہ ، ج١ ،ص ٥٠١ 11۔سنن ابن ماجہ کتاب جنائز، ج١ ، ص ٤٧٣و٥٠٧و صحیح بخاری ، ج ١ ، باب ٨٢٨و صحیح مسلم ، کتاب فضا ئل باب رحمت ،ص ٩٤٧،ح٢٣١٥ط۔دار الفکار الدولیة سنن ابن داؤد کتاب جنائز ، ج٣، ص ١٩٣ 12۔طبقات ابن سعد ، ج ٨ ، ص ٢٨٢ ، سیرہ ابن ہشام ، ج٤ ،ص ٢٢ ، مغازی واقدی ، ج٢ ص٧٦٦، اصابة ، ج٢ ، ص ٢٣٨، استیعاب ، ج١ ،ص ٣١٣، اسد الغابة ، ج١ ،ص ٢٤١، تاریخ کامل ، ج ٢ ،ص ٤٢٠ ، صحیح بخاری ، ج ٢ ،ص ٢٠٤ ، سنن بیہقی ، ج٤ ، ص ٧٠ ، البدایة و النہایة ، ج٤ ، ص ٢٨٠ ، انساب الاشراف ، ج٢ ،ص ٤٣ 13۔سنن ترمذی ، ج٣ ، ص ٣١٤و مجمع الزوائد ، ج٣، ص ٢٠و سنن ابی داؤود ، ج٣ ، ص ٢٠١ و سنن ابن ماجہ ، ج١ ، ص ٤٦٨ و فتح الباری ، ج٣ ، ص ١١٥ و جامع الاصول ابن اثیر ، ج١١ ، ص ١٠٥ و مستدرک حاکم ، ج١ ، ص ٣٦١ 14۔ارشادالساری احمد بن محمد باب رثیٰ النبی ، ج٢ ، ص ٤٠٦ 15۔صواعق محرقہ ،١٩٢و مقتل خوارزمی ،ج١ ص ١٥٩ 16۔کنز العمال ٢٢٣٦، مجمع الزوائد ١٨٨٩ 17۔مقتل خوارزمی ١٦٢، کتاب صفین نصر بن مزاحم ٥٨ ، تذکرة الخواص ٢٢٥ 18۔تذکرة الخواص ١٥٢ 19۔اسد الغابة ٢١٢ 20۔الصواعق المحرقہ ١٩٨ 21۔تاریخ ابن اثیر ج ٤ ص ٤٠٥ 22۔العبقری الحسان ، ج١،ص١٩٩۔ 23۔سورہ مریم ٩٦
|
مقالات کی طرف جائیے |
|