مقالات

 

ولایت سے تمسک کا مفہوم، امام خمینیؒ کی نظر

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

روایتوں میں عید غدیر کے دن جن اعمال و اوراد کی زیادہ سے زیادہ تاکید کی گئی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ آج کے دن اس ذکر کا ورد کیاجائے :
الحمد للہ الذی جعلنا من المتمسکین بولایة امیر المومنین و اھل بیتہعلیہم السلام '' تمام تعریفیں اس خدا سے مخصوص ہیں جس نے ہمیں امیر المومنین اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کی ولایت سے وابستہ اور متمسک قرار دیاہے ''۔
امیر المومنین کی ولایت سے تمسک کا مطلب کیاہے ...؟ کیا تمسک کا مطلب یہی ہے کہ ہم اس جملہ کو دہرا کر آگے بڑھ جائیں؟حالانکہ امیر المومنین کی ولایت سے تمسک کا حکم جس دن دیاگیا ہے اس دن ولایت اپنے واقعی مفہوم کے ساتھ جلوہ گر تھی ، اس تمسک سے تمسک بہ محبت مراد نہیں ہے اس لئے کہ یہاں محبت سے تمسک کا معنی آشکار ہی نہیں ہورہاہے ۔امیر المومنین کی ولایت سے تمسک کا مطلب یہ ہے کہ حضرت امیر جس اجتماعی اور حقیقی عدالت کو نافذ کرنے پر قادر تھے گر چہ ہمارے اندر اسے نافذ کرنے اور رائج کرنے کی قدرت نہیں ہے لیکن پھر بھی چونکہ اس عدالت کا ایک نمونہ خارج میں موجود ہے لہذا ہم حتی المقدور اسے رائج کرنے کی کوشش کریں،یہ ہے مقام ولایت سے تمسک کا مطلب ۔اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ہم مقام ولایت کے سایہ میں زندگی بسر کریں ، وہ مقام ولایت جس سے مسلمانوں پر حکومت اور مسلمانوں کے امور وابستہ ہیں؛ یعنی اگر حکومت تشکیل دی جائے تو اس حکومت کا ولایت امیر المومنین سے تمسک یہ ہے کہ جس عدالت کو امیر المومنین نافذ کرتے تھے اس کو یہ حکومت حتی المقدور نافذ کرے ۔ صرف یہ کہہ دینا کہ ہم امیر المومنین کی ولایت سے متمسک ہیں ، کافی نہیں ہے بلکہ یہ تمسک نہیں ہے ؛ہاں!جب کسی حکومت نے اپنی حکومت کے نفاذ میں امیر المومنین علیہ السلام کو اسوہ اور نمونہ قرار دیا ہے تو اسے ان امور کو نافذ اور رائج کرنا چاہئے جنہیں امیر المومنین نے نافذ کیاہے تب کہیں جاکر امیر المومنین کی ولایت سے تمسک صادق آئے گا ۔اگریہ اسوہ اور نمونہ نہیں ہے تو وہ ہزار مرتبہ بھی کہتا رہے کہ ہم امیر المومنین سے تمسک کرنے والے ہیں تو جھوٹ بول رہاہے اور کچھ نہیں ....۔
جو لوگ اس دعا کے فقروں کو دہراتے اور پڑھتے ہیں انہیں بھی اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ امیر المومنین کی ولایت سے تمسک یہ ہے کہ ان کے مقاصد کی پیروی کی جائے ۔
صرف یہ کہنا کہ ہم حضرت علی کے شیعہ ہیں اور امیر المومنین کی ولایت سے وابستہ اور منسلک ہیں ، یہ کافی نہیں ہے اور یہ مراد بھی نہیں ہے ، یہ امور لفظی نہیں ہیں ، یہ صرف الفاظ کی ادائیگی سے متحقق نہیں ہوں گے ؛ یہ عملی امور ہیں ، یہ سب ایک حکمت عملی کے تحت ہیں ۔ جو لوگ امیر المومنین کے حقیقی شیعہ ہونے کے دعویدار ہیں انہیں چاہئے کہ قول و فعل ، تحریر و تقریر بلکہ تمام چیزوں میں ان کی پیروی کریں ۔اگر یہ پیروی نہیں ہے اور پھر بھی ہم کہیں کہ ہم امیر المومنین کے شیعہ ہیں تو یہ صرف گزاف گوئی ہے اور طلاقت لسانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔

ماخوذ از : برساحل غدیر ، رسول عارفیان ص١٣۔١٤
مقالات کی طرف جائیے