|
خطبہ غدیر |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
اہمیت و فضیلت،موضوعات اور اسناد و منابع
تمہید کسی کلام کا آخری حصہ یعنی نتیجہ کلام بہت اہم ہوتاہے ، کسی شخصیت کی حیثیت کے تعین میں اس کے آخری زمانہ کے اعمال و عقائد کا اہم کردار ہوتاہے ، دیکھا یہی جاتاہے کہ انجام بخیر ہوا یا نہیں ۔ اسی طرح کسی کی زندگی کے آخری حصہ کی گفتگو پوری زندگی کے کارناموں کا نچوڑ ہوتی ہے ، پوری حیات کا خلاصہ وہ کلمات ہوتے ہیں جو انسان آخری زمانہ میں ادا کرتاہے ، وصیت کی اہمیت صرف اسی لئے ہے کہ وہ آخری گفتگو اور مرنے والے کی خواہشات کی مکمل آئینہ دار ہوتی ہے ۔یہ تو عام انسان کا معاملہ ہے لیکن اگر کوئی ایسی ذات گرامی ہو جس کے سر پر رسالت کا تاج رکھا ہو اور زبان پر وحی کا پہرہ ہو تو ایسی ذات کے آخری زمانہ کی سرگرمیاں ، گفتگو اور بات چیت بہت ہی قابل توجہ ہوگی، اس گفتگو کا تعلق پوری امت مسلمہ سے ہوگا۔ آنحضرتؐ نے اس اہم ترین پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی عمررواں کے آخری سال میں حج سے واپس آتے ہوئے غدیر خم نامی جگہ پر اعلان ولایت امیر المومنینؑ سے پہلے انتہائی مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حقائق و معارف کا سمندر موجزن ہے ۔
خطبہ کی آفاقی حیثیت یہ خطبہ اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد خطبہ ہے ،زمانی و مکانی اعتبار سے تجزیہ کریں یا اس کے موضوعات کا تحلیلی جائزہ لیں یا پھر مجمع کی نوعیت پر تحقیقی نظر ڈالیں ہر اعتبار سے یہ خطبہ انتہائی منفرد نظر آئے گا ۔ذرا ملاحظہ فرمائیے :گھنے درختوں کے سائے میں ایک پالان شتر کا منبر ہے ، جس پر خاتم الانبیاء ،اولین و آخرین کا لافانی خطیب رہتی دنیا تک کی انسانیت کو منشور عطا فرما رہاہے ،عقیدہ و عمل ، اخلاق و معاشرت ،سیاست و ثقافت کے معیار و اقدار کا جنچا تلا نقطہ ارتکاز ––– مہر نیم روز کی جھلسادینے والی تپش اور تیز شعاعوںمیں یہ اعلان لوگوں کے قلب و دماغ میں تحلیل ہورہاہے ۔ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زیادہ اصحاب رسول کا مجمع ہے،خوش قسمتی سے یہ سبھی حاجی بھی ہیں۔رسولؐ کی رفاقت میں جو حج انہیں نصیب ہوا ہے، اب کبھی کسی کو نصیب نہ ہوگا ،گرمی کی شدت سے تمام لوگ اپنی ردائیں نیچے رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں،کچھ بے چینی میں پہلو بدل رہے ہیں۔ ایسے منفرد ماحول اور منفرد مجمع میں آنحضرتؐ نے حکم پروردگار سے اعلان ولایت"من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" کو لوگوں کے قلب و دماغ میں راسخ کرنے کے لئے خطبہ ارشاد فرمایا ۔
خطبہ کے موضوعات پر ایک نظر اس مفصل خطبے میں آنحضرتؐ نے بہت سے مطالب بیان فرمائے ہیں جنہیں مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا جا سکتاہے : ١۔ حمد و ثنائے الٰہی(تقریباً 110/جملے) ٢۔ ولایت کے متعلق خدا کا خصوصی حکم ٣۔ امامت و ولایت کا باقاعدہ اعلان ٤۔ امیر المومنین کا تعارف(قرآنی آیات سے استناد کرتے ہوئے تقریباً 50/جملے) ٥۔ مسئلہ امامت کی تاکید 6۔ ثقلین کے عنوان سے قرآن و اہل بیتؑ کا تعارف 7۔ منافقین کی عہد شکنی 8۔ اہل بیتؑ کے دوست و دشمن 9۔ حضرت مہدی ( عج ) کا تعارف 10۔ بیعت کی پیش کش 11۔ فروعات دین 12۔ قانونی بیعت یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ خطبہ غدیر کا محور و مرکز "بارہ اماموں کی امامت و ولایت ہے "۔اسی لئے آنحضرتؐ نے ہر موضوع سے متعلق گفتگو کرتے وقت اس اہم موضوع پر ضرور روشنی ڈالی ہے اور اسے خطبہ کا محور قرار دیاہے۔اس کے علاوہ آنحضرت نے اس خطبہ میں حضرت علیؑ کے لئے چالیس مرتبہ امیر المومنین کے نام کی تصریح فرمائی ہے نیز دس مرتبہ ائمہ معصومین اور حضرت مہدی(عج) کے لئے چار مرتبہ امام زمانہ کے نام کی تصریح کر کے آپ کی حکومت کے متعلق بیس جملے ارشاد فرمائے ہیں۔ قرآن کی آیتوں کے استعمال کے اعتبار سے بھی یہ خطبہ ایک خاص امتیاز کا حامل ہے ، اس میں تقریباً ٥٠ آیتیں استعمال ہوئی ہیں ،ظاہر ہے کہ ایک خطبہ میں پچاس آیتیں استعمال کرکے اس کی وضاحت اور تفسیر بیان کرنا ،پھر اس کے ذیل میں بعض دینی احکامات پر روشنی ڈالنا کسی بھی صاحب نظر سے اس کی اہمیت و و قعت پوشیدہ نہیں ہے ۔
خطبہ کے اسناد و مدارک اس خطبہ کو سب سے پہلے مستقل صورت میں شیعہ عالم ، استاد علم نحو " خلیل بن احمد فراہیدی" نے اپنی کتاب '' جزء فیہ خطبة النبی یوم الغد یر '' میں نقل کیاہے۔ پھر اس سلسلے میں متعدد کتابیں تالیف کی گئیں،اس خطبہ کے مکمل متن کو معتبر شیعہ منابع میں متصل اسناد کے ساتھ دیکھا جاسکتاہے، یہ کتابیں فی الحال کتب خانوں میں موجود ہیں اور ان میں سے بعض متعدد مرتبہ شائع بھی ہوچکی ہیں ۔جن شیعہ کتابوں میں اس خطبہ کو مفصل طریقہ سے نقل کیاگیا ہے وہ یہ ہیں : روضۃ الواعظین، الاحتجاج، الیقین ، نزہۃ الکرام و بستان العوام ، الاقبال ، العدد القویہ ، التحصین، الصراط المستقیم ، نہج الایمان۔ آئیے ذرا متذکرہ کتابوں کا سرسری جائزہ لیاجائے : • کتاب"روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین"کے مؤلف حضرت فتال نیشاپوری ہیں ، یہ پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے علمائے شیعہ میں شمار کئے جاتے ہیں،پورا نام "محمد بن حسن بن علی بن احمد بن علی فتال نیشاپوری ہے ، ابن فتال اور ابن فارس کے نام سے مشہور ہیں ، ان کی کنیت ابو جعفر ہے۔ ان کی دو کتابوں کو کافی شہر ت حاصل ہوئی ۔ روضۃ الواعظین اور التنویر فی معانی التفسیر۔ روضۃ الواعظین رسول اکرمؐ اور اہل بیتؑ کی تاریخ زندگی پر مشتمل ہے جس میں کل 96/مجالس ہیں ۔ علماء اور بزرگان دین نے ہمیشہ اس کتاب کو اہمیت دی ہے اور اس سے استفادہ کیاہے ، علامہ مجلسی کی بحار الانوار کے اہم منابع میں روضہ الواعظین کا شمار ہوتاہے ۔ • کتاب "الاحتجاج علی اھل للجاج "؛علماء کے درمیان "الاحتجاج" کے نام سے مشہور ہے ۔یہ عربی زبان میں ایک کلامی کتاب ہے ، جس کے مؤلف ابو منصور احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی ہیں جن کا شمار چھٹی صدی ہجری کے علماء میں ہوتاہے۔ اس کتاب میں رسول اکرمؐ، ائمہ طاہرین ؑ اور بعض بزرگان دین کے ان احتجاجات و استدلالات کو جمع کیاگیاہے جو انہوں نے اپنے مخالفین سے کئے تھے ۔ اس کتاب کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اس کی متعدد شرحین کی گئی ہیں اور متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے ۔ • کتاب"الیقین باختصاص مولانا علی بامرۃ المومنین"کے مؤلف سید رضی الدین علی بن موسی بن جعفر بن طاوؤس ہیں جو سید بن طاوؤس کے نام سے مشہور ہیں ۔ کتاب کے مؤلف نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ تاریخی اور روائی شواہد کے ذریعہ اس بات کو ثابت کریں کہ لقب "امیر المومنین " حضرت علی علیہ السلام سے مختص ہے اور اس میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں ہے۔ • کتاب"نزہۃ الکرام و بستان العوام "یہ کتاب فارسی میں ہے ، جس کا موضوع رسول اکرمؐ اور ان کے بعد کی امامت ہے ، اس میں ائمہ طاہرینؑ کے احتجاجات اور ان کی زندگی کے بعض کرامات و واقعات کو بھی تحریر کیاگیاہے ، اس کے مؤلف محمد بن حسین رازی ہیں، انہوں نے اپنی اس کتاب میں 60/ابواب کے تحت ائمہ معصومین ؑ خاص طور سے امیر المومنینؑ کی امامت کو ثابت کیاہے۔ • کتاب "الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنۃ "۔ یہ اقبال الاعمال کے نام سے مشہور ہے ، اس کے مؤلف علی بن موسیٰ بن طاوؤس حلی ہیں ، کتاب کے نام سے معلوم ہوتاہے کہ یہ اعمال کی کتاب ہے ، مؤلف نے اس میں پورے سال کے اعمال اور ائمہ کی زیارتوں کو بڑے سلیقہ سے جمع کیاہے ۔ • کتاب"العدد القویہ لدفع المخاوف الیومیہ"؛ یہ کتاب بھی عربی زبان میں ہے ، اس کے مؤلف علامہ حلی کے بھائی علی بن یوسف بن مطہر حلی ہیں ، ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے علماء میں ان کا شمار ہوتاہے ، اس کتاب کا موضوع بھی سال و ماہ کی دعائیں اور زیارتیں ہیں ، یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے لیکن سردست اس کی صرف دوسری جلد دستیاب ہے ، علمائے اعلام نے مؤلف کی بڑی تجلیل کی ہے ۔ • کتاب "الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم "اس کے مؤلف علی بن یونس نباطی بیاضی ہیں ، ائمہ طاہرینؑ کی امامت کے اثبات کے سلسلے میں یہ کتاب تحریر کی ۔ • کتاب "نہج الایمان"تالیف: زین الدین علی بن یوسف بن جبیر ، مؤلف نے اپنی کتاب کو 48/فصلوں میں مرتب کیاہے اور امامت و ولایت کی بعض آیات و احادیث سے استناد کرکے امیر المومنین حضرت علیؑ کے بعض فضائل و مناقب کو قلبند کیاہے ؛ آقا بزرگ تہرانی نے الذریعہ کی چوبیسویں جلد میں اس کتاب کا تذکرہ کیاہے۔ مذکورہ کتابوں میں مندرجہ ذیل تین طرق سے خطبہ غدیر کو نقل کیاگیاہے : ١۔ امام محمد باقر علیہ السلام؛امام کے طریق سے شیخ ابن فتال نیشاپوری ، ابو منصور طبرسی، سید ابن طائووس اور محمد بن حسین رازی نے معتبر سندوں کے ذریعہ اس خطبہ کو نقل کیاہے ۔(٢) 2۔ زید بن ارقم ؛اس طریق سے علی بن یوسف حلی ، سید ابن طاؤوس ، علی بن یونس بیاضی اور تالی بن حسین بن جبر نے طبری کی کتاب الولایة کے حوالے سے اس خطبہ کو نقل کیاہے۔(3) 3۔حذیفہ بن یمان ؛ سید ابن طاؤوس نے متصل اسناد کے ذریعہ اسے نقل کیاہے۔(4) علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں ، شیخ حرعاملی نے اثبات الہدیٰ میں ، سید بحرانی نے کشف المہم اور تمام علمائے متاخر نے آخر الذکر مآخذ کے ذریعہ مفصل خطبہ غدیر کو نقل کیاہے ۔(5)اور اس طرح علمائے تشیع کے ذریعہ یہ عظیم خطبہ تحریف و دست درازی سے محفوظ رہا اور ہمارے ہاتھوں میں پہنچا ہے ۔ توجہ:بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ مفصل خطبہ مخالفین کی کس کتاب میں نقل ہوا ہے ؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہمیں اس بات کی توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ مخالفین اس خطبہ کو بطور کامل نقل کریں گے اس لئے کہ وہ چودہ صدیوں سے اس خطبہ کے مفاد و مفہوم کی مخالفت کررہے ہیں لہذا جس کی مخالفت کررہے ہیں اس کے نقل و انتشار سے وہ بہر حال اجتناب کریں گے۔پھر یہ کہ یہ ہماری میراث ہے ، ہمارے لئے عظیم سرمایہ ہے اس لئے ہمیں اس خطبہ کو اپنی اہم اور معتبر کتابوں میں تلاش کرنا چاہئے مخالفین کی کتابوں میں نہیں ۔ اس کے باوجود یہ بات پیش نظر رہے کہ عہد حاضر کے ایک محقق حجۃ الاسلام تقدمی معصومی نے "نور الامیر فی تثبیت خطبۃ الغدیر" نامی کتاب تحریر کی ہے جس میں اس مفصل خطبہ کے اہم جملوں کو اہل سنت کی کتابوں سے مستند کیاہے اور ہر جملہ کے کئی کئی حوالجات نقل کئے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ خطبہ پراگندہ طور پر علمائے اہل سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ آخر میں دعا ہے کہ خدایا! ہمیں اس عظیم خطبہ سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کی توفیق کرامت فرما ، آمین۔
حوالجات ١۔ الذریعہ ، آقا تہرانی ج٥ ص ١٠١نمبر ٤١٨ ٢۔ روضة الواعظین ج١ ص ٨٩؛ الاحتجاج طبرسی ج١ ص ٦٦؛ الیقین ، ابن طائووس ص ٣٤٣؛ نزہة الکرام و بستان العوام ج١ ص ١٨٦ 3۔ التحصین ، ابن طائووس ص ٥٧٨باب٢٩؛ الصراط المستقیم ، بیاضی ج١ ص ٣٠١؛ نہج الایمان ، ابن جبر ص٩٢ 4۔اقبال الاعمال ، سید بن طائووس ص ٤٥٦؛ بحار الانوار ، علامہ مجلسی ج٣٧ص ١٢٧۔١٣١ 5۔بحارالانوار ، علامہ مجلسی ج37 ص 201بہ بعد؛ کشف المہم ، سید بحڑانی ص190؛ اثبات الہدی،حرعاملی ج2 ص 114
|
مقالات کی طرف جائیے |
|