|
شب قدر کی عظمت |
قاسم علی بنارسی |
شب قدر کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ خداوند عالم نے مکمل ایک سورہ اس کی شان میں نازل کیا ہے، یہ وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل اور اس شب کے اعمال ہزار مہینوں کے اعمال سے بہتر ہیں، اسی رات قرآن مجید کا نزول ہوا جس میں ملائکہ اور روح جو سب سے عظیم ملک ہے پروردگار کے حکم سے امام زمانہ ؑ کی خدمت میں نازل ہوتے ہیں اور پورے سال کے مقدر شدہ امور آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبۂ شعبانیہ میں شب قدر کی عظمت و اہمیت کے سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’قَد جاءَكُم شَهرُ رَمَضانَ؛ شَهرٌ مُبارَكٌ...فيهِ لَيلَةُ القَدرِ خَيرٌ مِن ألفِ شَهرٍ، مَن حُرِمَها فَقَد حُرِمَ‘‘ ماہ رمضان تمہارے پاس آ چکا ہے جو برکتوں والا مہینہ ہے۔۔۔ جس میں شب قدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، محروم ہے وہ شخص جو اس رات محروم رہ جائے۔ اس رات کی عظمت اس قدر ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے اس وسیع و عریض علم کے باوجود آیات کے نزول سے پہلے اس کی عظمت سے واقف نہیں تھے خداوندعالم فرماتا ہے: ’’وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ‘‘ تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے، اس کے بعد بلافاصلہ کہتا ہے: ’’لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‘‘ شب قدر ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اگر ہزار مہینوں کو تقسیم کیا جائے تو 83 سال 4 مہینے ہوتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے کہ عدد سے مراد کثرت ہے یا تعداد، اس سے صرف نظر، واقعاً یہ کتنی باعظمت رات ہے جو ایک پربرکت طولانی عمر کے برابر قدر و قیمت رکھتی ہے، اگر انسان اس کی عظمت کو سمجھ لے تو ایک ہی شب میں ۸۳ سال کا سفر طے کر سکتا ہے۔ بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے لباسِ جنگ زیب تن کررکھا تھا ، اور ہزار ماہ تک اسے نہ اتا را ، وہ ہمیشہ جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول ( یا آمادہ) رہتا تھا ، پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب و انصار نے تعجب کیا، اور آرزو کی کہ کاش اس قسم کی فضیلت و افتخار انہیں بھی میسر آئے تو اوپروالی آیات نازل ہوئیں اور بیان کیاکہ شب قدر ہزار ماہ سے افضل ہے‘‘ ایک اور حدیث میں آیاہے کہ: ’’ پیغمبرؐ نے بنی اسرائیل کے چار ایسے افراد کا ذکر کیا جنہوں نے 80 سال بغیر معصیت کئے خدا کی عبادت کی تھی، اصحاب نے آرزو کی کہ کاش وہ بھی اس قسم کی توفیق حاصل کرتے تو اس سلسلہ میں اوپر والی آیات نازل ہوئیں‘‘ درحقیقت شب قدر اﷲ رب العزت کی جانب سے امت محمدؐ کی بخشش و مغفرت کا ایک بہانہ ہے، جس قدر اخلاص و محنت اور للٰہیت کے ساتھ اس ’’شبِ قدر‘‘ میں عبادت و بندگی اور دعا و مناجات کی جائے اس قدر اجر و انعام میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اس رات کی عبادت نصیب ہو جائے اور آسمانوں پر ان کی بخشش و مغفرت کے فیصلے کر دیے جائیں، اور کتنے بد نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے رمضان المبارک جیسا مغفرت کا مہینہ معصیت و نافرمانی اور غفلت میں گزارنے کے بعد اب شب قدر سے بھی محروم رہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شب قدر سے محروم رہنے والے شخص کو خیر سے محروم اور حقیقی محروم قرار دیا ہے۔
منابع : ۔ تہذیب الاحکام، ج 4، ص 152، حدیث 422 ۔ تفسیر درالمنثور، ج 6، ص 371 ۔ تفسیر درالمنثور، ج 6، ص 371
|
مقالات کی طرف جائیے |
|