|
شیعہ امامیہ تحریف قرآن کے قائل نہیں ہوسکتے |
|
تحریف قرآن کی وضاحت کرتے ہوئے علماء اور محققین اور مکاتب فکر حضرات نے کہاہے کہ تحریف قرآن کے مسئلہ کو علوم قرآن کے مسائل میں مرکزیت حاصل ہے، لہذا تحریف قرآن کے موضوع پر ہی مکمل کتابیں تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں ،لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریف قرآن کے اقسام اور اس کے بارے میں مکاتب فکر کے نظریات کی طرف فقط اشارہ کرنے پر اکتفاء کروں گا۔ تحریف قرآن کو علماء اورمکاتب فکر نے تین قسموں میں تقسیم کیاہے : ١۔ تحریف زیادی۔ ٢۔ تحریف کمی۔ ٣۔ تحریف تبدیلی۔ الف: تحریف اضافی و زیادی: یعنی جو قرآن آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجود ہے اس کی کچھ آیات پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ قرآن کریم میں سے نہیں ہیں بلکہ بعد میں اضافہ کیا گیاہے، ایسی تحریف کے مسلمانوں میں سے فقط دو گروہ قائل ہوئے ہیں۔ ١۔عجاردہ: یعنی وہ لوگ جو عبدالکریم عجرد کی پیروکار ہیں جن کا عقیدہ یہ ہے کہ سورہ مبارکہ یوسف قرآن کا جزء نہ تھا بلکہ بعد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ٢۔ابن مسعود کی طرف بھی اس تحریف کی نسبت دی گئی ہے کہ وہ معتقد ہے کہ سورہ معوذتین کو قرآن کا جزء نہیں سمجھتے ہیں۔ ایسے نظریے کو تمام مسلمان باالاتفاق باطل سمجھتے ہیں اور صحیح نہ ہونے کو ضروریات دین اسلام میں سے قرار دیتے ہیں۔ ب: تحریف کمی: یعنی جو قرآن ہمارے درمیان موجود ہے اس میں کچھ آیات یا کچھ الفاظ اس قرآن سے حذف اورکم کئے گئے ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کی گئی تھی۔ ایسی تحریف کے اہل تسنن کے کچھ علما ء قائل ہوئے ہیں جبکہ ہمارئے علماء کاموقف من البدوی الی الان یہ رہا ہے کہ ایسی تحریف قرآن میں واقع نہیں ہوئی ہے۔ چنانچہ فضل بن شاذان کو امامیہ کے قرن سوم کے مصنفین اور علماء میں سے شمار کیا جاتاہے فرمایا قرآن کی کسی ایات اور الفاظ مین کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ موجودہ قرآن عین وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کیا گیا ہے۔ استاد محترم الحاج دکتر محمدی کی دو جلد کتابیں تحریف قرآن کے بارے میں اور الحاج حضرت آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی کا ایک تحقیقی مقالہ جس کا ترجمہ راقم الحروف کے ہاتھوں اردو میں ہو چکا ہے اور شناخت قرآن ص ٧٧ جیسی گرانبہا کتابیں مزید معلوما ت کیلئے بہت زیادہ مناسب ہیں رجوع کیجیے۔ ج: تحریف جابجائی:یعنی کسی کلمہ اور لفظ میں یا ترکیبات اور اعراب میں تبدیل کا لانا ،ایسی تبدیلی واقع ہونے کے قائلین بہت ہیں، اور جن روایات سے بظاہر ایسی تحریف واقع ہونا سمجھ میں آتا ہے ان کو امامیہ کے مخالف دیگر فرق مسلمین سے منسوب کئے ہےں۔ ٣۔محمد بن علی بن بابویہ قمی جو شیخ صدوق کے لقب سے معروف و مشہور ہیں اور جہان تشیع میں چوتھی صدی کے عظیم اورنامور عالم سمجھے جاتے ہیں، اپنی رسالہ الاعتقادات میں فرمایاہے۔ قرآن کے بارے میں شیعہ امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جو قر آن آج ہمارے پاس موجود ہے ، یہ ہو بہو وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) پرنازل کیا گیا تھا ، جس میں کوئی کمی اور اضافہ نہیں ہوا ہے،لہذاجو لوگ قرآن میں کمی اور پیشی واقع ہونے کا نظریہ ،امامیہ مذہب سے منسوب کرتے ہیں وہ جھوٹ ہے ۔ ٤۔ مرحوم علی بن الحسین موسوی جو سید مرتضی علم الہدی کے لقب سے معروف ہیں ،شیعہ امامیہ کے عظیم علماء و مجتہدین میں ایک ہیں ،انہوں نے فرمایا: جس طرح کائنات میں موجودات اورواقعات و حوادث کا رونما ہونا یقینی ہے اسی طرح قرآن مجید بھی ہم تک کسی قسم کی کمی اور بیشی کے بغیر پہونچنے پر یقینی ہے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کی حفاظت کے لئے مسلمانوں اور اصحاب کیلئے شدت کے ساتھ تاکید کے علاوہ بہت بڑا اہتمام بھی کیا تھا اور سید مرتضی نے اپنی گفتگو کے آخر میں فرمایا ہے کہ جو لوگ امامیہ مذہب سے منسلک ہیں اور جولوگ مذہب اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں ان میںسے فقط حشویہ ایسی تحریف کے قائل ہوئے ہیں جن کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ جتنی روایات سے ایسی تحریف کے ہونے پر استدلال کیا گیا ہے وہ تمام ضعیف السند ہیں۔ (١) ٥۔ مرحوم شیخ الطائفہ نے فرمایا: قرآن میں ایسی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے، اور جتنی روایات ایسی تحریف واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے و ہ تمام ضعیف السند ہے جس سے تحریف قرآن کو ثابت کرنا لا علمی کا نتیجہ ہے لہذا ہل تشیع کی نظر میں صحیح نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی کمی اور پیشی واقع نہیں ہے۔ (٢) ٦۔ مرحوم الحاج طبرسی عظیم مفسر قرآن نے فرمایا: قرآ ن میں اضافہ نہ ہونے پر امامیہ کا اجماع ہے لیکن کمی واقع ہونے پر اجماع تو نہیں ہے مگر صحیح نظریہ یہ ہے کہ جس طرح قرآ ن میں اضافہ نہیں ہوا ہے اسی طرح کمی بھی نہیں ہوئی ہے۔(٣) ٧۔ ابن طاووس نے کہا : شیعہ امامیہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں لہذا ان لوگوں پر تعجب ہے کہ جن کا عقیدہ یہ ہو کہ موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے ہی جمع آوری کا حکم دیا ہے اس کے باوجود آیات کی بارے میں اہل مکہ و بصرہ و کوفہ و مدینہ کے مابین اختلاف ہونے کو نقل کریں اورکہتے ہیںکہ کچھ کی نظر میں بسم اللہ آیات میں سے ایک آیت نہیں ہے کسی کی نظر میں آیات میں سے ایک ہے جبکہ دوسری طرف سے تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں، یہ دو باتیں تضاد ہیں قابل جمع نہیں ہیں! (4) ٨۔ مرحوم ملا محسن فیض کاشانی نے کہا جو روایات اور احادیث تحریف پر دلالت کرتی ہیں وہ در حقیقت کتاب الہی کے مخالف ہے ۔(5) ٩۔ مرحوم شیخ بہائی نے کہا کہ ہمارے نزدیک صحیح نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے، لہذا جو لوگ آیت مبلّغ وغیرہ میں کچھ کلمات حذف ہونے کے قائل ہے و ہ نظریہ ہمارئے نزدیک صحیح نہیں ہے۔(6) ١٠۔ مرحوم شیخ محمد بن حسن صاحب و سایل الشیعہ نے کہا جو لوگ آئمہ معصومین (ع) سے منقول روایات اور احادیث کی تحقیق کرینگے تو اس کو علم حاصل ہوجاتا ہے کہ قرآن ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچا ہے جس میں کسی قسم کی تحریف کا احتمال دینا غلط ہے۔(7) ١١۔ کاشف الغطاء کتاب اصل الشیعہ میں فرمایا قرآن میں کسی قسم کی تحریف اور کمی و بیشی واقع نہیں ہوئی ہے لہذا ایسا نظریہ جو تحریف واقع ہونے پر مشتمل ہے، اہل تشیع سے نسبت دینا بہتان اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔(8) مرحوم علامہ طباطبائی نے سورہ حجر کے آیہ ٩ کی تفسیر میں فرمایا:(قرآن زندہ و حیات جاویدانی کا حامل ہے اس میں موت او ر فراموشی اضافہ اور کمی یا کسی قسم کی تبدیلی کی راہ ہی نہیں ہے) ان کے علاوہ شیخ مفید کوجو قرن سوم ہجری کے علماء میں سے شمار کئے جاتے ہیں قاضی نوراللہ شوشتری، شہشہانی بلاغی ، شیخ انصاری دیگر اکثر علماء امامیہ ایسی تحریف نہ ہونے کے قائل ہو ئے ہیں کیونکہ شیعہ امامیہ کے عقیدے کی بنا پر ہرگز ایسی تحریف کے قائل نہیں ہو سکتے ، کیونکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن اور عترت اہلبیت دو ایسے مرجع اور ماوی ہیں جو اللہ کی طرف سے بشر کی نجات کا ذریعہ ہیں اگر قرآن جیسے مرجع و مأوی میں کمی اور اضافے ہونے کے قائل ہو جائیں تو'' انی تارک فی الثقلین کتاب اللہ و عتری ''کا عقیدہ غلط ہو جاتا ہے،و ہ قرآن انسان کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے؟ جس میں کمی اور اضافے کا احتمال دیا جاسکتاہے۔ لہذا سورہ حجر آیت ٩ سورہ فصلت آیہ ٤١،١٢ سورہ بقرہ آیت ٢ ،سورہ سجدہ ایت ٣٢ ، حدیث ثقلین اور دیگر روایات متواترہ کے علاوہ عقل کی رو سے تحریف کمی و زیادی کے قائل نہیں ہو سکتے رجوع کیجئے۔(9) البتہ ہم نے گذشتہ مباحث میں علماء اور محققین کے کلام کو نقل کرتے ہوئے تحریف کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے: ١۔ تحریف کمی ٢۔ تحریف زیادی ٣۔ تحریف تبدیلی جبکہ یہ تینوں قسمیں تحریف لفظی کے اقسام ہیں لہذا تحریف کو ابتدائی مرحلہ میں اس طرح تقسیم کرنا چاہیے کہ ایک تحریف معنوی دوسری تحریف لفظی اس کے اقسام کمی ،زیادتی ،تبدیلی ہیں۔ تحریف لفظی میں سے تحریف کمی و زیادی کے بارئے میں دلیل عقلی اور نقلی کی روشنی میں واضح ہواکہ اس کے قائل نہیں ہو سکتے ، لیکن تحریف تبدیلی یعنی آیات کے الفاظ اورسورے جابجا قرار دینا یا مختلف اعراب سے اس کی قرائت کرنا یہ یقینا واقع ہو ئی ہے ،لیکن یہ حقیقت میں تحریف نہیں ہے کیونکہ آئمہ معصومین نے ایسی قرائت کی تائید کی ہے اور ایسی تبدیلی میں فلسفہ نزول قرآن کے ساتھ کوئی ٹکراو بھی نہیں ہے۔ لہذا تحریف قرآن سے فقط تحریف کمی اور زیادی سمجھ میں آتی ہے کچھ علماء اور محققین نے تحقیق کے بغیر ایسی تحریف کو امامیہ مذہب سے منسوب کرنا سوای بہتان اور جھوٹ کے کچھ نہیں ہے،کیونکہ ہمارے تمام علماء کا( چاہے متقدمین میں سے ہوں، یا متاخرین میں سے) عقیدہ یہ ہے کہ ایسی تحریف کے ہرگز قائل نہیں ہو سکتے ۔ چنانچہ بہت سے علماء کانام پہلے ذکر کیاگیا ان کے علاوہ افراد ذیل نے صاف لفظوں میں تحریف کے نظریہ کو باطل قرار دیاہے ، ابن ادریس ،کما ل الدین ،الکاشفی ،شیخ ابو الفیض، شیخ الاسلام ،محمد بن الحسین ، صدر الدین ، محمد بن ابراہیم الشیرازی، علامہ ، نورالدین محمد بن مرتضی ، محمد بن محمد رضا مشہدی، شیخ عبداللہ شبر، سیدحسین الکوہ کمری، محقق تبریزی، سید محمد مہدی میر محمدی، شیخ حسن زین الدین، حضرت امام خمینی رحمۃاللہ کے علاوہ اس دور کے علوم قرآن کے تمام محققین قرآن میں تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں رجوع کیجئے۔(10) لیکن جو لوگ قرآ ن میں کمی واقع ہونے کے قائل ہیں ان کے کچھ استدلال ہیں جس کا خاکہ درجہ ذیل ہے: ١۔ اگر قرآن میں تحریف نہ ہوتی تو ابن مسعود اور ابی بن کعب کے مصحف میں اختلاف نہیں ہوناچاہیے تھا جبکہ ان کے مصاحف کے ساٹھ موارد میں اختلاف ہے۔ ٢۔ اگر کسی چیز کے اجزاء متفرق اورمختلف ہوں اور اس کی جمع آوری ابو بکر کے زمان میں وقع ہوئی تو اسکا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی جزء اور حصے میں کمی اور تبدیلی آچکی ہوگی۔ ٣۔ حضرت علی (ع) کا قوم سے بایکاٹ کرکے قرآن کی جمع آوری کیلئے سینہ بہ تن ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآ ن میں تحریف ہوئی ہے۔ ٤۔ بہت ساری روایات کامضمون ایسا ہے کہ گذشتہ امتوں کے ہو بہو وقائع اور حوادث اس امت میں بھی رونماہوگئے ، یہ تحریف واقع ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ٥۔ احادیث اور روایات اہل سنت او رشیعہ امامیہ کے اسناد سے کثیر تعداد میں نقل کیا گیا ہے،جن سے تحریف قرآن سمجھ میںآتا ہے ۔ حتی بعض محدثین نے ایک ہزار ایک سو بائیس احادیث بتائی ہیں، جس کا مضمون قرآن میں کمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے اسی لئے بعض علماء ،تحریف پر دلالت کرنے والی احادیث میں تواتر اجمالی کے قائل ہوئے ہیں۔ لیکن تواتر اجمالی کا دعوی ایسا دعوی ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے شاید تواتر اجمالی کا دعوی احادیث کی تعداد زیادہ نظر آنے کی وجہ سے کی ہو جبکہ ان روایات کے سند سے چشم پوشی کرکے مضمون کو کڑی نظر سے غور کریں تو ان کا مضمون مطالب ذیل پر مشتمل ہوتے ہوئے نظر آتا ہے۔ الف: کچھ روایات قرآن میں لحن اور دیگر لہجے کے حوالے سے مختلف اور متعدد ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ ب: کچھ دستہ روایات قرآن میں کوئی کلمہ اضافہ یا حذف یاتبدیل ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ج: بعضی روایات موجودہ قرآن میں کچھ سورتیں اور آیات اضافہ ہونے کی خبر دیتی ہیں۔ د: کچھ روایات قرآن کی بعض آیات شیطان(نعوذ باللہ) کے القاأات میں ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ر: کچھ روایات قرآن میں تحریف اورکمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ھ: کچھ روایات بعض کلمات اور الفاظ قرآن میں، زمانے کے حکمرانوں نے تبدیل لانے کی خبر دیتی ہے ۔ جبکہ محققین نے تواتر کو فقط دو قسموں میں تقسیم کیا ہے: ١۔ لفظی۔ ٢۔معنوی۔ صرف مرحوم آخوند خراسانی اور ان کے بعد والے محققین نے تواتر کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے: (١) تواتر لفظی (٢) تواتر معنوی (٣) تواتر اجمالی اور مرحوم آقای نائینی نے مرحوم آخوند خراسانی کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: تواتر کو تین قسموں میں تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ تواتر اجمالی وہی تواتر معنوی ہے اس کے مقابل کوئی تیسری قسم نہیں ہے، لہذا پہلا جواب یہ ہے کہ تواتر اجمالی کا نظریہ علماء متاخرین کے ایک گروہ کا نظریہ ہے ۔ ثانیا: اگر تواتر اجمالی کا نظریہ قبول بھی کریںتو روایات کے مضامین ایک مطلب کی طرف اشارہ نہیں کرتی ہیں بلکہ روایات کچھ مختلف ومتباین مطالب کی طرف اشارہ کرتی ہیں جبکہ تواتر اجمالی اس کو کہا جاتاہے جو بہت ساری رویات الفاظ اور تعابیر کے حوالے سے مختلف ہوں، لیکن تمام کے تمام ایک ہی مطلب کی طرف اشارہ کریں۔(11) لہذا ایسی روایات میں تواتر کا دعوی کرنا نا انصافی کے سوا کچھ نہیں ہے، جب ہم نے تواتر کے دعوے کو باطل قرار دیا تو ایسی روایات خبر احاد بن جاتی ہیں جس کو کسی مسئلہ پر دلیل قرار دینے میں شرایط ذیل لازم ہیں: ١ ۔ سند کے حوالے سے تمام روات موثق ہوں۔ ٢۔ صدور کے حوالے سے تقیہ وغیرہ کا احتمال نہ ہو۔ ٣۔ مضمون کے حوالے سے کوئی اشکال اورخلاف عقل وقرآن نہ ہو۔ جبکہ مذکورہ روایات میں سے کسی ایک کی سند علم رجال کے اصول و ضوابط کے مطابق معتبر نہ ہونے کے باوجود مضمون کے حوالے سے روایات صحیح السند اور نص قرآن کریم اور عقل کے مخالف ہے۔ لہذا ایسی روایات کو معصومین کے دستور کے مطابق دور پھینکنا چاہیے اور ایسی روایات کی بنا پر تحریف قرآن کے قائلین کو چاہیے علم اصول علم الرجال ،فقہ الحدیث، فقہ اللغۃ، اور دیگر بنیادی تعلیمات اسلامی کو بخوبی یاد کریں، فقط ایک دو اصطلاح یاد کرکے پورے مسلمانوں کے ضمیر کو مجروح کرنا دور حاضر کی تحقیقات کے منافی ہونے کے علاوہ بہت ہی نا انصافی ہے،اور انکے باقی ادلے قابل جواب نہیں ہے لہذا ہزاروں شیعہ امامیہ اور اہل سنت کے محققین عربی ، فارسی ، انگلش، اردو ،اور دیگر زبانوں پر قرآن میں تحریف نہ ہونے کے موضوع پر تحقیقی مقالات اور کتابیں لکھی ہیں رجوع کریں۔ تحریف معنوی کا اجمالی خاکہ: چنانچہ ذکر کیاگیا کہ تحریف کو محققین نے دو قسموں میں تقسیم کیاہے: الف۔ تحریف لفظی :کہ اس کی وضاحت سے ہم فارغ ہوگئے۔ ب۔ تحریف معنوی: یعنی کسی لفظ اور آیت سے ایسا معنی ارادہ کرنا جو اہل زبان اور عربی دان کی نظر میں معمول اور رائج نہیں ہے،چاہے اس کا سبب کمی ہو، یا اضافی ، یا مخصوص جگے کا تبادلہ اور دیگر عوامل اور اسباب ہوں۔(12) تحریف معنوی کی ایسی تعریف میں ہر وہ تفاسیر بھی شامل ہیں جو بظاہر کلام کے ظہور سے ہماہنگ نہیں ہے۔ لہذا علوم قرآن کے ماہرین نے تفاسیر قرآن کو دو قسموں میں تقسیم کیاہے: الف: تفسیر بالرّای ب: تفسیر غیر بالراّی تفسیر بالرای یعنی آیات کو مفسر اپنے آرای حدسیہ کے مطابق تفسیر کرنا چاہے تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط کے ہماہنگ اور موافق ہو یا مخالف جیسے اس دور میں بہت سے لوگ کسی اصول و ضوابط کے بغیر سامعین کو قائل کرنے کی خاطریا مقالہ نویسی مقالے کی تزین کے واسطے آیات کا ایک ٹکڑا یاایک جملہ جو آیت کے ابتدا اور انتہا سے ہٹ کر فقط ایسے جملے کو بیان کرتا ہے جوبظاہر خطیب اور مقالہ نویس کے اہداف کے مطابق نظر آتا ہے ،جبکہ اس جملے کے آغاز اورانتہاء کو لایاجائے توآیت کا معنی اور مفہوم کچھ اورنظر آتاہے لہذا آیات قرآنی کو تفسیر کرنے کیلئے پوری آیات پر احاطہ علمی ہونے کے علاوہ شان نزول اور اس کی تفسیر کے بارے میں آئمہ سے منقول روایات اور صاحب نظر حضرات کی تفسیر کامطالعہ کرنے کے بعد تفسیرکرنا چاہیے۔ تفسیر بالرای کو حکم شرعی کی رو سے دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں: (١)تفسیر بالراّی جایز (٢) تفسیر بالراّی غیر جائز اگر کوئی شخص برسوں سال آیات عظام کے سامنے زانو ے ادب تہہ کرتے ہوئے حوزہ میں تعلیمات اسلامی کے حصول کیلئے پوری ایک عمر تلمذ کرتے ہوئے تفسیر کے ماہرین سے تفسیر کے اصول و ضوابط لے چکے ہو ں تو اس کی روشنی میں آیات کی تفسیر اپنے آرای حدسیہ کے مطابق بیان کریں، تو ایسی تفسیر بلا اشکال جائز ہے،جیسے علامہ طباطبائی، طبرسی، آیت اللہ خوئی، صدر المتالہین، حضرت استاد محترم عارف زمان زہد و تقوی کا مجسم مفسر قرآن آیۃاللہ جوادی آملی ،فیض کاشانی،عبد اللہ شبر،حضرت استاد آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ، حضرت حجۃالاسلام قرائتی صاحب تفسیر الفرقان کہ انہیں حضرات نے سالوں سال حضرات آیات عظام کی شاگردی اور تلمذ کرنے کے بعد اپنے آرای حدسیہ اور اجتہاد کے مطابق تفسیر کرنے کو تفسیر بالراّی کہا جاتا ہے، لیکن ایسی تفسیر ان روایات اور احادیث کے دائرہ سے خارج ہے جو تفسیر بالرای کی حرمت اور مذمت پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ یہ لوگ صاحب نظر ہیں تمام تعلیمات اسلامی کے اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں، فقہ اللغہ، فقہ الحدیث ، فلسفہ اور منطق علم اصول اور فقہ کے قواعد و ضوابط روایات اور آیات کی روشنی میں اپنا نظریہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسے مفسرین کی نہ فقط مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کی اخلاقی اور دینی فرائض میں سے اہم ترین فریضہ ہے کہ قرآن کریم جو اللہ کی طرف سے بشر کی ہدایت کے لئے آیا ہے، اس کی اس طرح تفسیر کریں تا کہ لوگ قرآن کو سمجھیں اور ہدایت پائیں، کیونکہ قرآن ہدایت کی خاطر آیا ہے، اس کا افہام اور تفہیم کرنا ہر دور میں فرض ہے،جو تفسیر کے بغیر ناممکن ہے ۔ تفسیر بالرّای غیر مجاز: یعنی قرآن کے الفاظ اور آیات کی اس طرح تفسیر کرنا جو اپنے خیالات اور گما ن کے مطابق ہے، جس پر کوئی دلیل عقلی اور نقلی موجود نہیں ہے خود اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے صاحب نظر بھی نہیں ہے، ایسی تفسیر کے جواز اور حرمت کے بارے میں دو نظریے ہیں۔ ١۔ ایسی تفسیر حرام ہے کیونکہ سورہ اعراف آیت ٢٣ اور سورہ بقرہ آیت ١٦٩ اور سورہ اسراء آیت ٣٦ کی روشنی میں کسی بات اور نظریہ کو علم و یقین اور دلیل کے بغیر فقط خیالات اور گمانوں کی بناء پر پیش کرناحرام ہے کہ جس کی مذمت اور حرمت آیات قرآنی کے علاوہ روایات صحیح السند اور معتبرہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے . رجوع کیجئے۔(13)''لہذا من فسر القرآن برایہ فلیتبواء مقعدہ فی النار'' سے مراد ایسی تفسیر ہے۔ اور ہمارے دور میں بغیر پڑھے اور دینی مراکز میں تربیت علمی اور اخلاقی پائے بغیر فقط اسکولز اور کالج یا یونیورسٹی یا بغیر پڑھے لکھے مقررین کی کیسٹوں سے یاد کرکے تفسیر کرنے والے مقررین اور مقالہ نویس حضرات کی تفسیر جو معمولا بغیر اصول وضوابط کی تفسیرہوتی ہے، اس تفسیر کے زمرے میں داخل ہے ایسی تفسیرنہ فقط مذہب تشیع کی توہین کاباعث اور شریعت میں حرام ہے بلکہ سیدھا سادہ ایمان رکھنے والے مسلمانوں کو لوٹنے کا ذریعہ بھی ہے، تاریخ اسلام میں ایسے مفسرین کا نام بھرا ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے ایسے مفسرین کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ''من فسّر القرآن برأیہ ان اصاب لم یؤجر و ان اخطاء فلیتبوا مقعدہ من النار '' ''اگر کوئی شخص اپنے خیال کے مطابق قرآن کی تفسیر کرے اگرچہ واقع کے مطابق بھی ہو پھر بھی کوئی ثواب نہیں دیا جاتا ہے لیکن اگر واقع کے خلاف آئے تو اس کو جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے۔(14) کیونکہ شیعہ امامیہ کے مفسرین نے ہر دور میں تفسیر قرآن کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت امام صادق کے علاوہ دیگر آئمہ کے کلام کی رو سے کیاہے ،نہ اپنا خیال اور گمان چونکہ آئمہ نے بارہا فرمایا:'' نحن مفسروا القرآن'''' ہم سے ہی قرآن کے بارے میں سوال کرو،ہم ہی قرآن کے مفسر ہیں،نیز دور حاضر میں کچھ لوگ خطیب زمان مثالی مقرر کی حیثیت سے یاپروفیسرز یا ڈاکٹر ز یا ماسٹرز اور ٹیچرز کی سند لیکر دینی مراکز اور حوزہ علمیہ میں تربیت پائے بغیر اور تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط یاد کئے بغیر قرآن کی تفسیر میں سرگرم ہیں ایسے لوگوں کی دو قسمیں ہیں: ١۔ ایسے لوگوں میں کچھ اس طرح کے ہیں کہ وہ دوسرے مفسرین کے نظریے کو نقل کرتے ہیں نہ اپنا خیال اور گمان ، اس میں نہ کوئی مذمت ہے اور نہ حرام ، کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ تربیت یافتہ مفسرین اور مجتہدین کے نظریہ کو نقل کرنا تفسیر بالرّای نہیں ہے۔ ٢۔ ایسے لوگوں میں کچھ اس طر ح کے ہیں کہ وہ دوسرے مفسرین کے نظریہ سے ہٹ کر اپنے خیال کے مطابق آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایسے لوگ نہ فقط مفسر نہیں ہیں بلکہ مذہب اورکتاب و سنت کی توہین کے مترادف ہے، بیشک وہ پڑھے لکھے ہونے کی حیثیت سے قابل احترام ہیں،لیکن تفسیر قرآن کرنا ان کا کام نہیں ہے ، لہذا جو لوگ تعلیمات اسلامی کے بنیادی اصول و ضوابط کو سکھائے بغیرفقط پڑھے اور لکھے ہونے کی حیثیت سے قرآن کی تفسیر کریں تو کتاب و سنت کی توہین کا باعث ہے ، جسکی سزا ہماری فقہی کتابوں میں بحث حدود و التعزیرات میں مجتہدین نے مفصل بیان کی ہے، رجوع کیجئے۔(15) نیز ایسی تفسیر کی مذمت اور حرمت پر اہل السنت کے محدثین اور محققین نے اپنی کتابوں میں حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے متعدد روایات کو نقل کی ہے، رجوع کیجئے.(16) ٢۔ تفسیر بالراّی کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کی ہر تفسیر جایز ہے چاہے تفسیر کے بنیادی اصول و ضوابط اور شرایط کے مطابق ہویا نہ ہو بلکہ اپنے خیالات اور رأی حدسیہ و اجتہاد کے مطابق ہو،پھر بھی جائز ہے ، کیونکہ اللہ نے سورہ محمد آیت ٢٤ میں سورہ ص آیت ٢٩ میں قرآن کے بارے میں تدبیر و تفکر کرنے کا حکم دیا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اپنے اجتہاد اور خیالات کے مطابق بھی قرآن کی تفسیر کرنا چاہئے۔ لیکن اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے قرآن کو انسان کی ہدایت اور نجات کےلئے نازل کیا۔ جو سیکھنے کی صورت میں ہر انسان چاہے ذہن کے حوالہ سے ذہین ہو یا نہ ہو سمجھ سکتے ہیں،نیز ہر اہل زبان آیات محکم کو بخوبی سمجھ سکتا ہے جس کو سمجھنے کے لئے اجتہاد اور اخبار حدسیہ خیالات پردازی کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ پورے قرآن میں تین مطلب کی اشارہ کیا گیا ہے: (الف)اخلاقیات (ب)اعتقادات (ج) احکامات۔ انہی میں سے فقط ان آیات میں اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے جو احکام شریعہ کو بیان کرتی ہیں، وہ بھی قرآن میں بہت محدود ہیں کہ جن پر مجتہدین نے آیات الاحکام کے نام پر کتابیں لکھی ہیں جس میں فقط پانچ سو آیات بیا ن ہوئی ہیں ان میں بیشک اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا اجتہاد ساٹھ سال اسلامی تعلیمات حاصل کرنے، سولہ موضوعات پر صاحب نظر ہونے کے بعد دلیل شرعی اور عقلی کی روشنی میں ہوتاہے نہ گمان اور خیالات اور استحسان و قیاس کی رو سے ایسا اجتہاد نہ فقط جائز ہے ،بلکہ بہت سے مجتہدین کی نظر میں ایسا اجتہاد واجب کفائی ہے، کچھ دیگر مجتہدین کی نظر میں واجب عینی ہے،چنانچہ حضرت آیت اللہ مرحوم نائینی کی نظر میں احکامات میں قدرت اور استطاعت کی صورت میں اجتہاد کرنا واجب عینی ہے، نیز جن آیات میں قرآن کے متعلق تدبر اور تفکر کرنے کا حکم دیا ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے خیالات اور گمان کے مطابق قرآن کی تفسیر کریں . اور جو بھی اچھا سمجھیں اللہ سے منسوب کریں بلکہ آیات قرآنی میں تدبر اور تفکر کا مقصد یہ ہے کہ قرآن دیگر کتب کی مانند نہیں ہے، جو ظاہری عبارات اور الفاظ کو پڑھیں اور فورا حکم کریں ، لہذا حقیقت میں کڑی نظر سے غور کریں تو آیات تدبر و تفکر سے تفسیر بالرّای کا جائز نہ ہونا سمجھا جاتا ہے نہ جائزہونا۔ (٢)ان کی دوسری دلیل :یہ ہے کہ اگر تفسیر بالرّای جائز نہ ہوتو احکام کو تعطیل کرنا لازم آتا ہے کیونکہ آیات کی تفسیر نہ کرنے کی صورت میں احکام مجہول رہ جاتے ہیں جس سے انسان احکام الہی کو انجام نہیں دے سکتا لیکن اس دلیل کا جواب علوم قرآن کے ماہرین نے اس طرح دیا ہے کہ تمام علما اور بہت سے مجتہدین کا عقیدہ یہ ہے کہ باب اجتہاد زمان غیبت میں مفتوح ہے مجتہدین کا نظریہ زمان غیبت میں مقلدین پر حجت اور واجب العمل ہے، چاہے ان کا نظریہ واقع کے مطابق آئے یا نہ آئے واقع کے مطابق آنے کی صورت میں دو ثواب دیا جاتا ہے جبکہ خطا اور اشتباہ کی صورت میں اس پر عقاب نہیں کیا جاتا ہے لہذا احکام پر عمل کرنے کیلئے تفسیر بالرای کرنے کی ضرورت غلط ہے کیونکہ احکام کو انجام دینے میں مجتہدین کے فتوی کی ضرورت ہے نہ اینکہ خیالات اور گمان کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کی ضرورت (17) ٣)تیسری دلیل: ایسی تفسیر کے قائلین نے بہت سی احادیث اور روایات کو نقل کیاہے جوآیات کی تفسیر میں اصحاب کے درمیان اختلاف ہونے کو بیان کرتی ہے ، جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصحاب قرآن کی تفسیر اپنے اجتہاد اور آراء حدسیہ کے مطابق کرتے تھے ورنہ اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا ، لہذا اصحاب میں سے کوئی ناروا تفسیر کرتا تو دوسرے اصحاب اس کو شدت سے منع کرتے تھے، نیز ہم جانتے ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے پورے قرآن کی تفسیر نہیں کی تھی(18) لیکن اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ ایسی دلیل دو مطلب پر مشتمل ہے : ١) اصحاب تفسیر کرتے تھے اور اس میں اختلاف بھی ہو چکا تھا۔ ٢) حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے پورے قرآن کی تفسیر نہیں کی تھی۔ اصحاب کا تفسیر کرنا اور اس میں اختلاف ہونے کا لازمہ تفسیر بارای کا جواز نہیں ہے ،کیونکہ ان کا اختلاف دو قسم کا ہے: الف: اختلاف عملی ۔ ب: اختلاف استعماری۔ بسا اوقات علماء کے درمیان اختلاف ہونے کا سبب زمانے کے ظالم حکمرانی کی پالیسی ہے جس کی بنا اگر کوئی تفسیر کرے یا کوئی بات اسلام سے منسوب کرے تو وہ یقینا قابل مذمت اور ممنوع ہے۔ لیکن بسا اوقات اختلاف کا سبب محققین اور مفسرین کا فہم و درک ہے اس کے بارئے میں چنانچہ پہلے بھی بیان کیا گیا اگر کوئی شخص اپنے اجتہاد کے مطابق علمی اصول و ضوابط کی روشنی میں برسوں سال مجتہدین کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد تفسیر کرے تو اس کے جواز میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کیونکہ یہ تفسیر بالرای جائز ہے، ایسی تفسیر تفسیربالرای غیر مجاز میں شامل نہیں ہے، لیکن اگر کسی نے تفسیر اپنے بالرای اور اجتہاد کی روشنی میں بغیر کسی اصول و ضوابط اور حوزہ علمیہ میں سالوں سال تلمذ کئے بغیر حزبی اور سیاسی اورمادی اہداف کے حصول کی خاطر خیالات اور گمان کی بنا پر تفسیر کی توایسی تفسیر غیر مجاز ہے، اور تفسیر بالرای حرام ہے لہذا شاید اصحاب کی تفسیر میں اختلاف ہونے کا سبب علمی اصول و ضوابط ہو نہ خیالات اور سست!۔ اور ان کے دوسرے مطلب کا جواب یہ ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے ٹھیک ہے تمام قرآن کی تفسیر نہیں کی ، لیکن تفسیر کرنے کے اصول و ضوابط کو یقینا بیان کیاہے، اور جو لوگ مکتب جعفری سے منسلک ہیں ان کی نظر میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی تفسیر اور امام جعفر صادق کی تفسیر میں ان کے عقیدہ کی بنا پر کوئی فرق نہیں ہے، لہذا جو اہل بیت کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کا جانشین نہیں مانتے ان کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی تفسیر نہ کرنے کی صورت میں اصحاب کی تفسیر اور نظریہ کی توجیہ اور توضیح کرنی پڑتی ہے۔ چوتھی دلیل: حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے کچھ اصحاب کے حق میں دعا کی ہے:'' اللہم فقّہ فی الدین و علمہ التاویل'' (19) ''پالنے والے ابن عباس کو دین میں سمجھ دار بنائے اور تاویل کو سمجھائے'' حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے اس جملہ دعائیہ میں تأویل سے مراد اپنے نظریہ کے مطابق تفسیر کرنااور توضیح دیناہے لہذا تفسیر بالرای جائز ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس جملے کوکسی ایسے اصحاب کی شان اور حق میں فرماتے جو تفسیر کے اصول و ضوابط سے واقف نہ تھے یا حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں زانوے تلمذ نہ کرنے والے اصحاب ہوتے تو ایسا احتمال دیا جاسکتا تھا۔ جبکہ ابن عباس تاریخ اسلام میں مفسر اور قاری قرآن کے لقب سے معروف ہیں، ثانیا جملہ دعائیہ سے اس مطلب کو ثابت کرنا نا انصافی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے اللہ سے دعا کی پالنے والے ان کو تاویل قرآن سے نوازے، تاویل قرآن اور تفسیر قرآن میں زمین و آسمان کا فرق ہے انشاء اللہ بعد میں ان کا فرق بھی بیان کرینگے، لغۃ اور اصطلاح کے حوالے سے دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں ، ان کے درمیان عام و خاص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے لہذا اسے تفسیر بالرای کا جواز ثابت کرنا اسلامی تعلیمات کے اصول و ضوابط سے آگاہ نہ ہونے کا مترادف ہے۔ پانچویں دلیل: ابی جحیفہ سے بخاری نے صحیح بخاری باب جہل میں روایت کی ہے کہ ابی جحیفہ نے کہا میں نے حضرت علی (ع) سے پوچھا کیا قرآن کے علاوہ کوئی وحی ہے ؟ اما م علی (ع) نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شکافت کیا اور نطفہ سے انسان بنایا، ہم سوی قرآن جو اللہ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کیا نہیں جانتے ، اس روایت کا جواب یہ ہے کہ تفسیر بالرای کے قائلین نے اس روایت کے کس جملے سے استدلال کیاہے، معلوم نہیں ہے کیا قرآن کے علاوہ کوئی وحی نہ ہونے کا لازمہ قرآن میںتفسیر بالرّای کا جواز ہے؟ کیا امام علی جیسے اصحاب کے فہم و درک کو تفسیر بالراّی کہا جاتا ہے؟ اگر اس کو تفسیر بالرای کہا جائے تو اول و دوم کے فہم و دردک کو کیا کہناچاہیے؟ جو قیاس اور استحسان کو رواج دینے میں پیشا پیش تھے، انہیں لوگوں نے اپنی بات کی تائید کے لئے غزالی کی بات کو نقل کیاہے، غزالی نے کہا، تاویل قرآن میں سماع کی شرط قرار دینا غلط ہے بلکہ ہر ایک کو اپنے فہم و درک کے اعتبار سے قرآن سے استنباط کرنا چاہیے. (20) لیکن اس تائید کا جواب یہ ہے کہ غزالی کی کیا حیثیت ہے کہ اس کی بات کو تفسیر بالرای کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے تائید قرار دیں کیا وہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین ہیں کیا وہ صحابی رسول (ص)خدا ہیں ،کیا وہ تابعین میں سے ہیں، ایسے افراد تاریخ میں بہت ہیں جو اجتہاد درمقابل نص کے شکار ہوئے ہیںکہ جس کو تمام مسلمانوں کے عقیدہ کی بنا پر حرام سمجھا جاتا ہے رجوع کیجئے۔(21) لہذا کوئی ٹھوس دلیل نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ تفسیر بالرای جو کسی اصول وضوابط کے بغیر خطیب یا مفکر کی حیثیت سے بغیر کسی تحقیق اور تحصیل علوم دینی کے فقط مادی اہداف اوراغراض ومقاصد کی بنا پر کرنا حرام ہے جس کو شریعت اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے''من فسّر القرآن برأیہ فیتبوا مقعدہ فی النار''(22) ''اگر کوئی بغیر کسی اصول و ضوابط کے اپنے خیالات کے مطابق قرآن کی تفسیر کرے تو اس کی جایگاہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے'' تفسیر قرآن کرنے کے لئے برسوں سال تعلیمات اسلامی کی تحصیل کرنے کی ضرورت ہے ، آئمہ معصومین (ع) نے آیات کی کیسی تفسیر کی ہے اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ علامہ طباطبائی، صدر المتالہین، مرحوم حضرت ایت اللہ خوئی، فیض کاشانی، وغیرہ جیسے افراد کی نظر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، یعنی تفسیر قرآن کرنے کے لئے ،سولہ موضوعات پر صاحب نظر ہونے کی ضرورت ہے ایک دو کیسٹوں یا روزناموں کا مطالعہ کرنے سے مفسر قرآن نہیں بن سکتا ہے ، ایسی تفسیر سننا اور کرنا دونوں حرام ہے۔ اگرچہ حکم واقعی اور مقصود الہی کے مطابق بھی آئے کیونکہ ایسی تفسیر خیالات اور قیاس و گمان اور استحسان کی روشنی میں کی گئی ہے کہ جس کو شریعت میں منع کیا گیا ہے، چاہے ڈاکٹر اور پروفیسر ہوں یا نہ، چنانچہ ہمارے دور میں اسلام اور کتاب و سنت کی نابودی کے لئے ایسے مفسرین کو استعمار کی مدد اور تعاون سے ذرائع ابلاغ اور جریدوں میں مشہور کیا جارہا ہے تاکہ اپنے اہداف کے حصول کے وقت کام آئے۔ مأخذ تفسیر کی وضاحت: زمانے کی تیز رفتاری اور حالات کی تبدیلی کے پیش نظر ضروری ہے کہ قرآن کریم کو ہر زمانے کے لوگوں کے فہم و درک کے مطابق تفسیر کریں، تاکہ قرآن کے فیوضات اور کلام الہی سے ہر ایک بہرہ مند ہو سکے لیکن تفسیر قرآن کے لئے چنانچہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے مکمل ایک اصول و ضوابط کا ہونا ضروری ہے ،جس کے بغیر کی ہوئی تفسیر کو تفسیر بالرای کہا جاتا ہے،جس کو شریعت اسلام میں ممنوع قرار دیا ہے، لہذا تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط میں سے اہم ترین اصول و ضوابط تفسیر کا مأخذ اور مصادر کہا جاتا ہے جن سے آگاہ ہونا لازم اور ضروری ہے اس کا خلاصہ درجہ ذیل ہے۔ ١) قرآن کی تفسیر قرآن کی رو سے۔ ٢)قرآن کی تفسیر سنت کی رو سے۔ ٣) قرآن کی تفسیر عقل کی رو سے۔ اگر کوئی عالم با عمل قرآن کی تفسیر کرنا چاہے تو اسے چاہیے آیات کی تفسیر کا سرچشمہ قرآن اور عقل و سنت قرار دے اور ان تینوں کی روشنی میں تفسیر کرنا بھی فلسفہ، منطق اور ادبیات کے علاوہ دیگر مقدماتی علوم کوصحیح طریقے سے سیکھنے اوریاد کرنے پر متوقف ہے یعنی قرآن کی تفسیر کے لئے ان علوم کو سیکھنے کی ضرورت ہے جو ایک مجتہد کے لئے سیکھنا لازم ہے، اور انشاء اللہ بعد میں ان علوم کا نام بھی ذکر کرینگے۔ لہذا دور حاضر میں حوزہ علمیہ کے حالات اور دینی مدارس اور طالب علموں کے حالات کے پیش نظر مفسر قرآن اور مجتہد اعلم کا پیدا کرنا بہت مشکل ہے جب کہ ہر دور میں علماء اورمحققین نے زمانے کے تمام خرافات اور اعتراضات سے اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے آئے ہیں،شاید اس کی وجہ ہماری کوتاہی اور سستی کے علاوہ کچھ نہ ہو لہذا قارئین محترم سے بیداری غفلت اور کو تاہی سے دوری کی درخواست کرتا ہے، تاکہ مذہب اور اسلام پر آنے والے بے بنیاد اعتراضات اور خرافات سے مذہب اور اسلام کو بچا سکے، چنانچہ مرحوم علامہ طباطبائی جیسے علماء بھی تاریخ تشیع میں ناشناختہ گذرے ہیں کہ برسوں سال فکر اور زحمت اٹھانے کے بعد تفسیر قرآن لکھنا سب سے زیادہ اہم قرار دیا،اور فرمایا ہر سال قرآن کی جدید سے جدید تفسیر کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ لوگ قرآن کو سمجھیں اور خرافات و توہمات سے عقائداسلام اورمذہب کی حفاظت کر سکیں۔ شرایط تفسیر قرآن: قرآن واحد کتاب ہے جو اہل زبان بھی عام و عادی کلام کی طرح سنتے ہیں لیکن نہیں سمجھ سکتے ہیں اسی سے تفسیر قرآن کی اہمیت کا اندازہ بخوبی کرسکتے ہیں تفسیر قرآن کرنے کے لئے اس کو سمجھنے کی خاطرکئی علوم پر مہارت حاصل کرنے کے علاوہ تفسیر کرنے کی مخصوص نہج اور روش سے بھی بخوبی اگاہ ہونے کی ضرورت ہے لہذا وہ علوم جو مفسر قرآن کے لئے سیکھنااوریاد کرنالازم ہے وہ درجہ ذیل ہیں: ١)علم لغت ٢)علم صرف ٣)علم اشتقاق ٤)علم نحو و اعراب ٥)علم معانی بیان ٦) علم قرائت ٧) علم کلام و اصول عقائد ٨) علم اصول الفقہ ٩)علم اسباب نزول ١٠) علم روایات ١١) علم تاریخ ١٢) فقہی مسائل کہ جن کاتذکرہ قرآن میں ہوا ہے اس پر بھی علم ہونا چاہے ، ان تما م علوم کو سیکھنے کے بعد تفسیر قرآن کے لئے اہم ترین شرط خلوص نیت ہے ، خلوص نیت کے بغیر تفسیرقرآن ناقص رہے گی، کیونکہ ہر وہ کام جو خلوص نیت سے انجام پاتا ہے وہ یقینا اللہ تبارک و تعالی کی نظر میں قابل قبول ہے۔ تاریخ تفسیر قرآن کی وضاحت: ہم تفسیر قران کے حوالے سے زمانے کو تین قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں: ١)زمان معصومین ۔ ٢) زمان اصحاب۔ ٣) زمان تابعین و ما بعد الی زماننا ہذا۔ معصومین کے دور میں قرآن کے متعلق دو بنیادی کا م انجام پائے تھے: الف) قرآن کریم کو جس طرح اللہ کی طرف سے نازل ہوا تھا اسی طرح عین وہی الفاظ اور کلمات کسی قسم کی کمی کے بغیر لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنا۔ ب) اس زمانے کے لوگوں کے فہم و درک کی حیثیت سے لوگوں کو حقائق قرآ ن سے با خبر کرنا لہذا خود قرآن کریم صاف لفظوں میں بیان کرتا ہے . کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) قرآن کریم کے سب سے پہلے مفسر ہیں''سورہ نحل آیت ٤٤ میں اس طرح کی تفسیر موجود ہے ''و النزلنا الیک الذکر لتبین للناس''اس مطلب کو ثابت کرنے کی خاطر قرآن کریم کے ماہرین اور محققین نے اپنی گرانبہا کتابوں میں بہت ساری احادیث اور آیات کی طرف اشارہ فرمایا ہے رجوع کرسکتے ہیں۔(23) ابن خلدون کا کہنا ہے کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس کی فصاحت و بلاغت اور مفردات کے معانی لغوی سے ہر اہل زبان با خبر تھے لیکن جملے اور حقایق قرآن اور ناسخ و منسوخ اوردیگر مسائل کے حوالے سے قرآن ہر کس و ناکس کے فہم و درک سے بالاتر تھا لہذا حضرت پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کو ایسے مطالب اور آیت کی حقیقت کی تفسیر کرتے تھے۔ عین اسی طرح کی باتیںا بو الفتوح رازی سیوطی وغیرہ نے بھی کی ہیں،رجوع کریں۔ حتی بعضی احادیث میں اس طرح کے الفاظ موجود ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے نہ فقط لوگوں کو قرآن کی تفسیر سے آگاہ فرمایا بلکہ ہر آیت کی تفسیر کرنے کے ساتھ ساتھ تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط اور نہج و روش کی طرف بھی لوگوں کے ذہنوں کومبذول فرمایا تاکہ لوگوں کو تفسیر بالرای سے بچا سکیں،رجوع کریں۔(24)نیز از نظر عقل بھی پہلا مفسر حضرت پیغمبر اکرم (ص) ہی کوہونا چاہیے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی ذمہ داری ہی یہی تھی کہ لوگوں کو معارف اسلامی اوراحکام الہی سے باخبر کریں اس کا لازمی نتیجہ قرآن کی تفسیر اور توضیح ہے کیونکہ ہر انسان کی ذہانت اورفہم و درک یکسان نہ ہونے کے باوجود ہر کلیات اور جزئیات، کنایات اور اشارات کو بغیر کسی تفسیر کے درک نہیں کرسکتے ہیں۔ دوسرے مفسر قرآن: حضرت علی علیہ السلام ہیں، جو ہر وقت معارف اسلامی اور دستور الہی کے محافظ کی حیثیت سے آغاز وحی سے اختتام وحی تک حضرت پیغمبر اکرم کے شانہ بہ شانہ قرآن کی تفسیر اور حفاظت کرتے رہے ہیں اہل سنت بھی آپ کو مفسر قرآن اور برجستہ اصحاب رسول میں سے شمار کرتے ہیں۔عطا بن ابی ریاح نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا''أکان فی اصحاب محمد (ص)العلم من علی قال لا واللہ لا اعلمہ.'' کیا حضرت رسولؐ کے اصحاب میں حضرت علی (ع) سے عالم تر کوئی ہے آپ نے فرمایا خدا کی قسم اس سے عالم تر کوئی نہیں ہے۔(25) یا دوسری حدیث میں آنحضرت نے فرمایا:'' علی مع القرآن و القرآن مع علی''(26) '' علی (ع)قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی (ع) کے ساتھ ہے'' نیز ابن مسعود سے روایت کی گئی ہے: ان القرآن أنزل علی سبعۃ احرف ما منہا حرف الا و لہ ظہر و بطن وا ن علی بن ابی طالب عندہ منہ الظاہر والباطن.(27) تحقیق قرآن کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے انہیں حروف میں سے ہر ایک کا ظاہر و باطن بھی ہوا کرتا ہے اور حضرت علی (ع) ہی اس کے باطن اور ظاہر سے آگاہ ہیں۔ جناب ذہبی نے اپنی گرانبہا التفسیر میں فرمایا: کان علی رضی اللہ عنہ بحری فی العلم..''حضرت علی (ع)علم کے در یاتھے'' (28) نیز ابن عباس نے کہا'' ما اخذت من تفسیر القرآن فعن علی ابن ابی طالب''(29)'جو کچھ میں نے قرآن کی تفسیر کی ہے وہ حضرت علی (ع) سے دریافت کی ہے'' لہذا تفسیر قرآن ،تاویل قرآن، ناسخ و منسوخ ،عام و خاص ، مطلق و مقید ، محکمات و متشابہات اور حروف مقطعات یعنی حقائق قرآن من البدوی الی ختم حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد حضرت علی (ع) ہی جانتے تھے انہیں سے ہی تفسیر کے اصول و ضوابط کو لینا چاہیے ان کے اصول و ضوابط سے ہٹ کر،کی ہوئی تفسیر جتنے اچھے الفاظ اور حسن سلوک پر مشتمل ہو تفسیربالرای کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ان کے بعد مرحلہ سوم میں مفسرین قرآن آئمہ معصومین علیہم السلام شمار کئے جاتے ہیں، اگر چہ نزول قرآن کے وقت یا حیات طیبہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کو درک نہ بھی کیا ہو، کیونکہ یہ حضرات جس طرح حضرت پیغمبر اکرم (ص)حجت خدا اور اللہ کی طرف سے رسول اور نبی تھے، اس طرح وہ ان کے جانشین اور وصی ہیں، وصی عین موصی کی ذمہ داری اور تکالیف کو انجام دینے کے لئے ہی منصوب کئے گئے ہیں چنانچہ حضرت امام محمد باقر یا امام جعفر صادق سے منقول احادیث اور روایات سے بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ آئمہ معصومین (ع) ہر دور میں زمانے کے ظالم حکمرانوں سے سینہ بہ تن ہو کر قرآن کی تفسیر اور وضاحت کرتے رہے لہذا آج جب علماء اور محققین در منثور یا المنار جیسی تفاسیر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آئمہ معصومین نے قرآن کی تفسیر کرنے میں کتنی سنگین اور مشکل دشواریوں سے مقابلہ کیا ہے ،رجوع کیجئے۔(30) اصحاب میں سے جو مفسر قرآن تھے: اصحاب میں سے جو مفسر قرآن ہے ان کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: الف) اصحاب رسول میں سے مفسر قرآن۔ ب) دیگر آئمہ معصومین (ع) کے اصحاب میں سے جو مفسر قرآن ہیں۔ ١) عبداللہ ابن عباس: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے چچا ذاد بھائی تھے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے وقت ان کی عمر ١٣ سال بتا ئی جاتی ہے آپ بچپنے سے ہی حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ہوتے تھے لہذا اصحاب رسول (ص) میں سے شمار کیا جاتا ہے ، حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا:''اللہم علّمہ الحکمۃ''(31)''پروردگارا اس کو دین میں فقیہ بنا ئے اور اس کو تاویل یعنی تفسیر قرآن سے نوازے''حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے آپ کو اپنی آغوش میں لیاتھا اور فرمایا کرتے تھے : ''اللہم فقہہ فی الدین و انتشر منہ'' (32)''پروردگارا اس کو دین میں فقیہ بنا اور دین کی نشر و اشاعت کرنے کی توفیق عطا فرما'' لہذا علوم قرآن میں آپ کی شخصیت اور مقام و منزلت کا اندازہ ایسے القاب سے بخوبی ہوسکتاہے کہ ابن عباس کو ترجمان القرآن ،فارس القرآ ن ، احبر الامۃ، بحر الامۃ، رئیس المفسرین ، شیخ المفسرین سے یاد کیاجاتاہے۔(33) اگر چہ بہت سارے محققین اور مفکرین نے آپ کو حضرت امام علی (ع) کے شاگردوں اور اصحاب میں سے شمار کیاہے۔ لہذا جناب ذہبی نے اپنی گرانبہا کتاب میں نقل کیا ہے:ما اخذت من تفسیر القرآن فعن علی ابن ابی طالب''(34) ''جو کچھ میں نے تفسیر قران کی ہے وہ حضرت علی ابن ابی طالب سے دریافت کی ہے، اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی (ع) نے ہی ان کو تفسیر کے اصول و ضوابط سے آگاہ کرایا تھا۔ لیکن ابن عباس کا اصحاب رسولؐ میں سے ہو جانا اور حضرت علی (ع) کے شاگردوں میں سے شمار کئے جانے میں کوئی تضاد اور ٹکراو نہیں پایا جاتا ہے ،ہم اس کو اصحاب رسول (ص) کے مفسر ین میں سے شمار کرسکتے ہیں۔ ٢۔ عبدا للہ ابن مسعود :آپ سے تفسیر قرآن کے بارئے میں بہت زیادہ احادیث منقول ہیں آپ حافظ قرآن تھے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے خاص الخاص اصحاب میں سے شمار کیا جاتا ہے حتی بعض محققین نے اپنی کتابوںمیںلکھا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) عبد اللہ ابن مسعود کی زبان سے قرآن کی تلاوت کی سماعت کو پسند کرتے تھے ۔(35) مفکرین اورمحققین ان کو ان گیارہ افراد میں سے قرار دیتے ہیں جو خاندان اہل بیت سے دوستی اور محبت کر نے میں معروف اور مشہور تھے ،آپ تفسیر قرآن اور علم قرائت میںبہت زیادہ معلومات کے حامل تھے ،حتی کچھ محققین آپ کو اسلامی مفسرین میں سے اہم مفسر سمجھتے ہیں،اور تابعین کے زمانے میں کوفہ کے مفسرین کے اصول وضوابط اور پایہ گذاری ،تفسیر ابن مسعود بتا یا گیا ہے ۔ ٣۔ ابی ابن کعب: آپ احباریہود میںسے تھے جب آپ مسلمان ہوئے تو کاتبین وحی قرار پایا ، آپ اصحاب کے دور میں مشہور ومعروف مفسر قرآن سے یاد کرتے تھے آپ قدیم یہودی کتابوںسے آگاہ تھے ،لہذا آپکی عظمت اوراہمیت دوسرئے مفسرین کی بہ نسبت زیادہ ہے ،جناب طبرسی علیہ الرحمۃ جیسے مفسر قرآن نے اپنی تفسیر میںہر مطلب پر ابی ابن کعب کے نظریے اوراحادیث سے استدلال کیا ہے۔ ٤۔ جابر بن عبد اللہ انصاری : اصحاب کے دور میں مشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک جابربن عبد ا للہ انصاری ہیں ،جناب ابی الخیر نے اپنی کتاب طبقات المفسرین میں اس کو مفسرین کے پہلے طبقہ میںشمار کیا ہے ،آپ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ١٨ جنگوں میں شرکت کی اور جنگ صفین میں آپ نے اصحاب علی (ع) کی حیثیت سے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا آپ پیغمبر اکرم (ص) کے طویل العمر اصحاب میںسے تھے امام محمد باقر کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کا سلام عرض کیا ، جناب عطیہ تابعین کے مفسرین میں سے تھے ،روایت کی ہے جب امام حسین کی شہادت کے بعد جابر نے حضرت کی زیارت کوآنا چاہا تو عطیہ بھی آپکے ہمراہ تھے آپکی شخصیت رجال اوردرایہ جیسے موضوعات پر لکھی ہوئی کتابوں میںواضح الفاظ میں بیان ہوئی ہے آپ ٩٤سال کی عمر میں دنیا سے رخصت کر گئے ۔(36) ٥۔زیدبن ثابت :اصحاب کے دور میںمشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک تھے آپ پیغمبر ؐ کے دور میں کاتبین وحی میں سے ایک تھے ، آپ مدینہ منورہ میں قضاوت اور فتوی وعلم قرائت سے لوگوں کو سیراب کرتے رہے جب ابو بکر کا دور شروع ہوا تو زیدبن ثابت کوقرآن کی جمع آوری کا حکم دیا ،نیز دور عثمانی میں عثمان بھی قرآن کو زیدبن ثابت کی قرآت کے مطابق قرأت کرنے کی تائید کی ۔ حتی ابن عباس علوم قرآن اور مفسر قرآن کے ماہر ہونے کے باوجود زید بن ثابت کے دولت سرا جاتے تھے تاکہ مزید علم قرآن سے فیضیاب ہوسکیں۔ ٦۔میثم تمار :جبیر وغیرہ کو بھی اصحاب رسول (ص) کے مفسرین میں سے قرار دیا ہے لہذا اختصار کے پیش نظر انہی چند مفسرین کے نام لینے پر اکتفاء کروں گا ۔ تابعین کے دور میںمعروف مفسرین : ١۔ سعید بن جبیر :تابعین کے مشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی تفسیر کے اصول وضوابط کو جناب ابن عباس سے لیا تھا ،ابن خلکان نے اس کی تفسیر کے اصول وضوابط ابن عباس سے لینے کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا وہ تابعین کے دور میں بہت ہی معروف اوربر جستہ مفسرشمار ہوتے تھے ۔(37) سبحان ثوری کے کہنے کے مطابق تفسیر قرآن کوچار ہستیوں سے لینا چاہیے ،سعید بن جبیر ، مجاہد ،مکرمہ ،ضحاک ۔(38)جناب سعید بن جبیر حجاج بن یوسف کی اذیت اورسختی میں شہادت پر فائز ہوئے ۔ ٢۔مجاہد بن جبر مکی : آپکی کنیت ابو الجاج تھی ابن عباس کے شاگردوں میںسے ممتاز شاگرد تھے اپنی تفسیر کے اصول وضوابط کو حضرت علی -اور ابن عباس سے لیتے تھے اہل سنت کے مفسرین بھی آپکی خاص اہمیت کے قائل ہیں ۔(39) ٣۔عکرمہ:تابعین کے مشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک عکرمہ کوبتایا جاتا ہے ،جنہوں نے اپنی تفسیر کے اصول اورنہج کو حضرت علی (ع) اورجناب ابن عباس سے لیا تھا مرحوم محدث قمی نے لکھا ہے کہ عکرمہ شیعہ امامیہ کے مفسرین میں سے نہیں ہیں(40) حتی بعض محققین کے نظریے کی بناء پر وہ خوارج میں سے تھے ،(41) اس بات کی تائید کے طور پر امام محمدباقر سے یہ روایت ہے ،ایک دن آپکی خدمت میں عکرمہ کے احتضار اور موت کی حالت کاتذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا اس تک میری رسائی ہوتی تو میں اس کو جہنم کی آگ سے نجات دیتا ۔(42) ٤۔عطا بن ابی ربح مکی :آپ مکہ کے نامور ومشہور مفسرین میں سے ایک تھے چنانچہ خود نے کہا ہے کہ میں نے اصحاب میں سے ستر نفر کو درک کیا ہے ، قنادہ نے کہا کہ عطاء بن ابی رباح اپنے دور میں معارف اسلامی اوردینی معلومات کے حوالے سے بے مثال تھے چنانچہ ذھبی نے لکھا ہے کہ جب لوگ دینی مسائل اورمعارف اسلامی کے متعلق رجوع کرتے تھے تو ابن عباس نے کہا اہل مکہ عطاء بن رباح کے ہوتے ہوئے مجھ سے کیوںرجوع کرتے ہیں ؟(43) آپ کو تفسیر کے موضوع پر قدیم ترین مصنفین میں سے شمار کیاجاتا ہے ، اورانہوں نے اپنے تفسیر کے اصول اور قواعد کو ابن عباس سے لیا تھے ۔ ٥۔ طاووس بن کیسان یمانی :شیخ طوسی اورصاحب روضات نے اس کو اصحاب امام سجاد میںسے قراردیاہے ،اوربعض محققین اس کوشیعہ امامیہ مانتے ہیں جبکہ دیگر مفکرین اورمحققین نے انہیں اہل سنت کے مفسرین میںسے قرار دیا ہے، اور آپ نے اصحاب رسول (ص) میں سے پچاس نفر کو درک کیا تھا ،آپ کی سب سے زیادہ ابن عباس سے آمد ورفت تھی ، لہذا انہوں نے تفسیر کے طرزاورقواعد کو ابن عباس سے لیا ہے۔ صفحات کے دامن میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک دور کے مفسرین کی تفصیلی گفتگو سے پر ہیز کرتے ہوئے فقط فہرست وار خلاصہ کو بیان کریں گے تاکہ قارئین محترم کو آسانی ہو جائے۔ ......................................................................... حواشی: (1)مجمع لبیان ج١ ص١٥ (2)مقدمہ تفسیر تبیان (3)مجمع البیان ج١ ص١٥ (4)سعد السعود ص ١٤٤ (5)تفسیر صافی،ج١ ص٥١ (6)الاء الرحمن ص٢٦ (7)اظہار الحق،ج٢،ص١٢٩ (8)کشف الغطائ،ص٢٩٩ (9)شناخت قرآن ص٧٨، حریم قرآن کا دفاع ص١٩، سعد السعود ص١٩٣، سلامت القرآن من التحریف،ج١ ص٢٨، الذخیرہ فی علم الکتاب ص٣٦١) (10) سلامت القران من التحریف ج١ ص٣٠، تہذیب الاصول ج٢ ص١٥٦٢، معالم الاصول ص ١٤٧، الفصول المہمہ ، ص١٦٦) (11)فضائل قرآن،ص١٦١، تذکرہ الحفاظ ص٤١٧ (12)فضائل القرآن ص١٦١، سلامت القرآن من التحریف،ج١ص١٠٣، تذکرۃ الحفاظ،ص٤١٧، محاضرات الادباء ،ج٢،ص٤٣٥، البیان فی تفسیر القرآن،ج١،ص٢١١) (13)اصول کافی ،باب الاالرّی والمقاییس ، اصول کی مفصل کتابیں جیسے رسائل شیخ بحث ظواہر وغیرہ۔ (14)بحار الانوار،ج٩٢،ص١١) (15)شرایع الاسلام ج٢کتاب حدود و التعزیرات، مسالک ج٧ کتاب حدود و التعزیرات، وسائل الشیعہ ج١٨، مراجع وقت کے رسالہ عملیہ وغیرہ ) (16)سنن ترمذی، سنن بیہقی، صحیح بخاری، صحیح مسلم) (17)شناخت قرآن،ص٢٠٦ (18)شناخت قرآن، ص٢٠٧ (19)شناخت قرآن ص٢٠٧ (20)احیاء العلوم،ص١٨١) (21)مقدمہ مرأۃ العقول ج١ علامہ عسکری) (22)شناخت قرآن ص٢٠٩ا (23)روض الجنان،ج١،ابو الفتوح رازی، الاتقان ج٢، جلال الدین سیوطی، ابن خلدون مقدمہ، طبرسی مجمع البیان،ج١۔ (24)الاتقان ج٢ ص٢٩٦و روض الجنان ج١ص٥٣ (25)ذہبی التفسیر ج١ ص٧٩ (26)کنز العمال ج٢ص ٢٠١ (27)الاتقان ج٢ ص١٨٧ (28)التفسیر التفسیر ج١ص٨٩ (29)التفسیر التفسیر ج١ص٨٩) (30)در منثور، المنار، صافی (31)التفسیر التفسیر ج١ ص٦٨ (32)سفینۃ البحار ج٢ ص ١٥٤ (33)مقدمہ تفسیر مال مراغی) (34)التفسیر التفسیر ج١ ص٨٩ (35)سفینۃ البحار ج ٢ ،ص ٣٧ (36)اسد الغابۃ ج ١ ص ٢٥٨ (37)وقیات الاعیان ج ١ص٣٦٣ (38)الاتقان ج ٢ص ٣٢٣ (39)ذھبی التفسیرالتفسیر ج ١ ص١٠٦ (40)سفینۃ البحار ج٢،ص ٢١٦) (41)مذاہب التفسیر الاسلامی ص٩٦) (42)سفینۃ البحار ج ٢ ص ٢١٦ (44)ذھبی التفسیر التفسیر ج ١ص ١١٣) نوٹ: زیر مقالہ ادارہ التنزیل لاہور کے مدیر نے عنایت فرمایا ، شکریہ کے ساتھ سائٹ پر اپلوڈ کیاگیا ۔
|
مقالات کی طرف جائیے |
|