مقالات

 

انسان کی سماجی اور ذاتی زندگی میں عید فطر کا کردار

سید علی عباس رضوی الہٰ بادی

اسلامی ثقافت میں ماہ شوال کا پہلا دن عید فطر یعنی فطرت کی طرف واپسی کا دن قرار دیا گیا ہے۔اس لئے کہ روزہ دار مسلسل ایک مہینہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرکے اپنے دل و جان کو تمام تر ظاہری و باطنی آلودگیوں سے پاک و صاف کرکے اپنی حقیقی فطرت کی طرف واپس آتاہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام عید کے اسی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ''انما ھو عید لمن قبل اللہ صیامہ و شکرقیامہ و کل یوم لا یعصی اللہ فھو عید''(١) یہ ان لوگوں کی عید ہے کہ جن کے روزوں کو پردردگارعالم نے قبول کر لیا ہو اور جن کی نماز کی ستائش کی ہو اور ہر وہ دن جس میں خدا کی نافرمانی نہ ہو عید کا دن ہے۔
یقینا ترک گناہ اور برائیوں سے دوری کا دن اور شیطانوں پر غلبہ کا دن ہی عید کا دن ہے۔ لغت میں بھی عید فطر اسی معنی میں ہے، عید یعنی پیچھے واپس آنا، فطر یعنی فطرت و طبیعت۔
مسلمان ایک مہینہ خدا کا مہمان رہتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کا باطن پاک و پاکیزہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنی حقیقی شخصیت کو پا لیتا ہے۔ ایک سال کی غفلت و نادانی اور گناہوں میں مبتلا ہو کر انسان اپنی پاک فطرت سے دور ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں خود فراموشی اور خدا فراموشی کا شکار ہو جاتا ہے۔لیکن رمضان المبارک آنے کے بعد مسلمان اس کے روحانی ماحول اور اپنی سعی و کوشش سے ایک نئی زندگی حاصل کرتا ہے کہ جسے ہم خودیابی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔
عید فطر کے دن ایک مسلمان گویا پھر سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ حضرت امیرالمومنین کا ارشاد گرامی ہے کہ شب عیدفطر روزہ دار تمام آلودگی اور برائی سے پاک ہو جاتا ہے اور اپنا کمترین انعام (یعنی پاک و پاکیزہ ہونا) پاتاہے۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں:'' واعلموا عباداللہ ان ادنی ما للصائمین و الصائمات ان ینادیھم ملک فی آخر یوم من شھر رمضان؛ ابشروا عباداللہ! فقد غفر لکم ما سلف من ذنوبکم فانظروا کیف تکونون فیما تستانفون'' (٢) اے خدا کے بندو! جان لو کہ روزہ دار مرد اور عورت کے لئے کمترین انعام یہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخری دن ایک فرشتہ آواز دیتا ہے کہ اے اللہ کے بندو!تمہیں بشارت ہو، خداوند متعال نے تمہارے تمام گزشتہ گناہوں کو بخش دیا ہے لہٰذا دیکھو اس کے بعد تم کس طرح عمل کرتے ہو۔
شیخ مفید تحریر فرماتے ہیں کہ ماہ شوال کا پہلا دن اہل ایمان کے لئے عید اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے قبول ہونے اور گناہوں کے بخشے جانے پر خوش ہیں اور اس لئے کہ خدا نے ان کے گناہوں کو بخش دیا ہے اور ان کے عیبوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ان کو بہترین انعام و اکرام کی بشارت دی ہے اور اس لئے کہ وہ رمضان المبارک میں اپنی دن و رات کی محنت و مشقت کے نتیجے میں چند قدم اپنے پروردگار سے قریب ہو گئے ہیں بہت ہی زیادہ خوش ہیں۔عید کے دن غسل کا مستحب قرار دیا جانا گناہوں سے پاک ہونے کی نشانی ہے۔ عطر لگانا،پاک و پاکیزہ لباس زیب تن کرنا، صحرا میں جاکر زیر آسمان نماز پڑھنا یہ سب خوشی کی نشانیاں ہیں۔ (٣)

عید فطر میں روزہ داروں کے مراتب
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عید فطر کی آمد پر ہر مسلمان خوش ہوتا ہے لیکن اس باعظمت دن سے ہر مسلمان فیض حاصل نہیں کرتا، ہر شخص اپنی معرفت اور ایمان کی حد تک اس سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ اسی جہت سے عارف واصل مرزا جواد آقا ملکی تبریزی قدس سرہ روزہ داروں کو پانچ حصوں میں تقسیم کرتے ہیںاور کم ترین سطح کے بارے میںتحریر فرماتے ہیں: ''روزہ داروں کا ایک گروہ روزہ کی حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے، بھوک و پیاس کی تکلیف برداشت کرتا ہے، دوسرے مبطلات سے پرہیز کرتا ہے اور اپنے اسی عمل کو اطاعت سمجھتا ہے، لیکن اپنے اعضاء و جوارح کو گناہوں سے محفوظ نہیں رکھتا، جھوٹ، غیبت اور تہمت سے اپنی زحمتوں کو برباد کر دیتا ہے۔ خداکے نزدیک ان کی کوئی منزلت نہیں ہوتی مگر یہ کہ یہ لوگ عید کے دن خدا کے فضل کی امید کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر توبہ و استغفار کریں''۔اور بلندترین سطح کے روزہ داروں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ وہ روزہ دار ہیں کہ جو ندائے الٰہی کی لذت میں اپنی بھوک و پیاس اور شب زندہ داری کی تکلیف بھول جاتے ہیں، اشتیاق و بے تابی کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، تیزی کے ساتھ سیر و سلوک کی منزلوں کو طے کر کرتے ہیں اور دل و جان سے رب الارباب کی آواز پرلبیک کہتے ہیں۔
خداوندعالم اپنی بارگاہ میں اس گروہ کے اعمال کو حسن قبولیت سے نوازتا ہے اور انھیں مقام قرب اور مقام ''او ادنیٰ'' عطا کرتا ہے۔

عید فطر اور سماجی و اقتصادی مشکلات کا حل
عید فطر کے سماجی و اقتصادی پہلوؤں میں سے زکات فطرہ ایک اہم عنصر ہے۔ اس کے ذریعے اسلامی معاشرے سے فقر اور دوسری اجتماعی مشکلوں کو دور کیا جاسکتا ہے اور اسے اقتصادی ترقی کی راہ پر لایا جا سکتا ہے۔ غریبوں کی مدد کے علاوہ اسلام میں فطرہ کے دوسرے مصارف ہیں مثلاً زکات فطرہ کی رقم کو مسلمانوں کے سماجی کاموں میں خرچ کرنا، مقروض کا قرض ادا کرنا، اس رقم سے مسجد، مدرسہ، اسکول، پل، راستہ اور اسپتال بنوانا اور مسلمانوں کی دوسری تمامجائز ضرورتوں کا پورا کرنا۔ اسی طرح فطرے کی رقم کو ضعیف الایمان اور ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے کی تقویت کے لئے بھی خرچ کیا جاسکتا ہے۔
زکات فطرہ ادا کرکے اور اس کو ان امور میں خرچ کرکے مسلمان رمضان المبارک میں نماز کے بعد پڑھی جانے والی دعاؤں کے کچھ حصوں پر عمل کرتا ہے اور چونکہ زکات فطرہ کو قصد قربت کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے لہٰذا اسے مادیات کے ذریعے معنویات تک پہونچنے کا ایک راستہ بھی شمار کیا جاتا ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ روزے کا قبول ہونا زکات کے ادا کرنے پر منحصر ہے، کیوں کہ زکات ادا کرنا مادی وابستگی اور خواہشات نفسانی سے جدائی کا اعلان ہے۔
انسان اگر فطرت الہی اور عہد فطری (ألست) کی طرف پلٹنا چاہتا ہے تو اسے مادیات کی زنجیر سے آزاد ہونا پڑے گا، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :''تخففوا تلحقوا'' اپنے کو ہلکا کرو تا کہ (مقصد ) تک پہونچ جاؤ۔(٤) وصال حق کے لئے سنگین وزن اور دنیاوی وابستگی موزوں نہیں ہے، سورۂ اعلی میں ارشارد ہوتا ہے:(قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکَّیٰ وَ ذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّیٰ) یقینا وہ شخص کامیاب ہے جو (زکات ادا کرکے) اپنا تزکیہ کرے اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرے اور نماز پڑھے۔(٥)
اس آیت کا ایک مصداق عید فطر اور زکات فطرہ ہے۔ روایات میں ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عید کے دن مسجد جانے سے قبل فطرہ کو مستحقوں میں تقسیم کر تے تھے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے۔(٦)

عید فطر اور شعائر اسلامی کی تعظیم
خداوندعالم کا ارشاد ہے: (وَ مَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہَ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَیٰ الْقُلُوْبِ) اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیزگاری سے حاصل ہوتی ہے۔ (٧)
عید فطر کی دوسری خصوصیت، شعائر الٰہی کی تعظیم ہے۔ تکبیر، تہلیل، تحمید اور تقدیس کے نعروں سے عید کے دن کو ایک خاص رونق ملتی ہے۔
ایک مسلمان کا فریضہ ہے کہ مختلف راستوں سے توحید کی حیات بخش آواز کو دنیا والوں کے کانوں تک پہونچائے، اس کا ایک راستہ ''مذہبی نعرہ'' ہے۔ حضرت رسول خداۖ فرماتے ہیں: ''زینوا اعیادکم بالتکبیر'' (٨) اپنی عیدوں کو تکبیر سے زینت دو، ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوتا ہے: ''زینوا العیدین بالتھلیل و التکبیر والتحمید والتقدیس''(٩) عیدفطر اور عیدقربان کو لاالہ الا اللہ، اللہ اکبر، الحمد للہ اور سبحان اللہ سے زینت دو۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی ایسا ہی کرتے تھے، آپ عید کے دن نماز کے لئے جب اپنے بیت الشرف سے باہر آتے تھے تو راستے میں بلند آواز سے ''لاالہ الا اللہ'' اور ''اللہ اکبر'' کا نعرہ لگاتے تھے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام عید کے دن نعرۂ تکبیر (اللہ اکبر) لگانے کے بارے میں فرماتے ہیں: ''تکبیر، خدائے متعال کی تعظیم اور ا س کی ہدایتوں اور نعمتوں پر شکر ہے۔ (١٠)

عید فطر اور وحدت مسلمین
عید الفطر کا عظیم اجتماع مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلقات اور ہمدلی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس اجتماع میں مسلمان ایک دوسرے کے نظریات، مشکلات اور پریشانیوں سے آگاہ ہوتے ہیں، اس اجتماع میں بغض و کینہ، دوستی اور ہمدلی میں تبدیل ہوتا ہے، جب مومنین ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں تو اتحاد و ہمدردی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
عیدفطر ایک طرف خدا اور انسان میں معنوی تعلق ہے تو دوسری طرف اپنے ہم نوع کے ساتھ تعلق اور رابطہ بھی ہے۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام عید کے دن کو جشن و سرور و اجتماع اورآپس میں ایک دوسرے کی مدد کا دن جانتے ہیںاور فرماتے ہیں: ''اللھم انا نتوب الیک یوم فطرنا الذی جعلتہ للمومنین عیدا و سرورا و الاھل ملتک مجمعا و محتشدا'' پروردگارا! ہم عید کے دن تیری طرف پلٹ رہے ہیں، وہ دن کہ جس کو تونے اہل ایمان کے لئے عید اور اپنے اہل ملت کے لیے اجتماع و تعاون کا دن قرار دیا ہے۔ (١١)
معاشرے کی معنوی، اقتصادی اور اجتماعی تبدیلی میں عیدفطر کے کردار کے متعلق حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : ''انما جعل یوم الفطر العید، لیکون للمسلمین مجتمعا یجتمعون فیہ و یبرزون للہ عز وجل فیمحد ونہ علی ما منَّ علیہم، فیکون یوم عید و یوم اجتماع و یوم زکات و یوم رغبة و یوم تضرع و...فاحب اللہ عز وجل ان یکون لہم فی ذٰالک مجمع یحمدونہ فیہ و یقد سونہ'' عیدفطر کا دن معین کیا گیا ہے تاکہ مسلمان اس دن ایک جگہ جمع ہوںاور خدا کے لئے ظاہر ہوںاور اس کی نعمتوں کا شکرانہ ادا کریں، یہ دن عید کا دن ہے، اجتماع کا دن ہے، فطر کا دن ہے، زکات کا دن ہے، رغبت اور تضرع... کا دن ہے، خدائے عظیم چاہتا ہے کہ مسلمان اس دن اکٹھا ہوں اور اس کی مدح و ثنا کریں۔ (١٢)

عید فطر اور سیاسی تحریکیں
تاریخ اسلام میںعید فطر کا اجتماع اس قدر اہم اور انقلاب آفریں تھا کہ سیاسی رہنماؤں نے بھی اس سے استفادہ کیا ہے مثلا بنی امیہ کے مقابلے میں ابومسلم خراسانی کی سیاسی تحریک، ابومسلم نے سلیمان بن کثیر کو حکم دیا کہ عید کی نماز ادا کرے اور اپنے خطبے میں لوگوں کو بنی امیہ کے خلاف ورغلائے۔
سلیمان نے بھی نمازعیدفطر کے خطبے میں اپنے انقلاب کا اعلان کیا۔اور اس طرح ١٢٩ھ میںعید فطر کے دن ماوراء النہر کے شہروں میں لوگوں نے اپنی مخالفت کا اعلان کیا اور مختصر سی مدت میں بنی امیہ کا قصہ ختم کردیا۔ (١٣)

حضرت امام رضا علیہ السلام کی نماز عید کا منظر
تاریخ اسلام میں حضرت امام رضاعلیہ السلام کی نماز عید کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، اس حماسہ تحریک سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ائمہ معصومین علیہم السلام کو اسلامی معاشرے میں نماز عیدفطر و عیدقربان سے استفادہ کا موقع ملتا تو یہ عیدیں مسلمانوں کے لئے کتنی نتیجہ خیز ہوتیں۔
سیرت معصومین علیہم السلام میں ان عیدوں سے آشنائی اور اسلامی دنیا میں اس تحریک کی عظمت اور اس کے معنوی و سیاسی کردار کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
پہلی رمضان المبارک ٢٠١ھ میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولیعہدی کا اعلان ہوا اور جب عید کا موقع آیا تو مأمون نے حضرت سے نماز عیدپڑھانے کی درخواست کی تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے ولی عہدی اس شرط پر قبول کی تھی کہ مجھے اس طرح کے امور سے معاف رکھا جائے۔ لیکن مأمون نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس عمل سے لوگوں کا دل مطمئن ہو جائے اور لوگوں پر آپ کی فضیلت عیاں ہو جائے۔ مأمون مسلسل اصرارکرتا رہا اور حضرت مسلسل انکار کرتے رہے لیکن آخرکار امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اے مأمون! اگر مجھے اس امر سے معاف رکھے تو بہتر ہے اور اگر تو چاہتا ہے کہ میں نماز عید ادا کروں تو میں نماز کے لئے اسی طرح اپنے گھر سے نکلوں گا جس طرح حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نکلتے تھے۔ مأمون نے کہا : آپ کو اختیار ہے، آپ جس طرح چاہیں نماز پڑھائیں۔ پھر حکم دیا کہ تمام لوگ عید کے دن علی الصباح امام کے دروازے پر اکٹھا ہو جائیں۔ یہ خبر پاتے ہی لوگ بے تابی سے اس گھڑی کا انتظار کرنے لگے، جب خورشید طلوع ہوا تو امام نے غسل کیا، سفید عمامہ سرپر رکھا جس کا ایک سرا سینے پر اور دوسرا سرا شانوں کے درمیان آویزاں کیا، کمر میں پٹکا باندھااور اپنے چاہنے والوں کو حکم دیا کہ وہ بھی ایسا ہی کریں، پھر حضرت نے عصا لیا اور پابرہنہ بیت الشرف سے باہر آئے اور اپنے چاہنے والوں کے حلقے میں عیدگاہ کی طرف چل پڑے۔
گھر سے نکلتے ہی آپ نے آسمان کی جانب دیکھا اور چارمرتبہ تکبیر کہی، ان تکبیروں میں ایسی خاص روحانیت تھی کہ گویا زمین و آسمان اور در ودیوار بھی آپ کے ہم صدا ہوگئے۔ گھر کے باہر قوم کے بزرگ، فوجی دستہ اور تمام لوگ صف بستہ کھڑے تھے، جب امام اور امام کے چاہنے والوں کو اس حالت میں دیکھا تو بے ساختہ تکبیر کہنے لگے۔
پورے شہر مرو میں تکبیروں کی آواز گونجنے لگی، دیدار اہل بیت علیہم السلام کے مشتاق ہزاروں لوگوں کے نالہ وشیون نے شہر کو ہلا کررکھ دیا، امام کو دیکھتے ہی لوگ اپنی اپنی سواریوں سے نیچے اتر کر برہنہ پا ہوگئے اور امام کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔امام بھی پاپیادہ تھے اور ہر قدم پر رک رک کر تین بار رتکبیر کہتے پھر آگے بڑھتے۔
امام کے خادم جناب یاسر بیان کرتے ہیں : ہم لوگوں کو یہ احساس ہو رہا تھا کہ زمین و آسمان، کوہ و دشت سب کے سب آپ کے ہم آواز ہوکر تکبیریں کہہ رہے ہیں۔ مأمون کے وزیر فضل ابن سہل نے جب یہ منظر دیکھا تو مأمون سے کہا: اگر (امام) رضا اس حالت میں مصلے تک پہونچ گئے تو لوگوں کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ ایک اشارے میں ہی تیری حکومت کا تختہ پلٹ جائے، لہذا بہتر ہوگا انھیں واپس بلا لے۔
مأمون نے فوراً اپنا نمائندہ بھیجا اور امام سے درخواست کی کہ آپ واپس آجائیں، امام نے اپنا نعلین طلب کیا اور مرکب پر سوار ہوکر واپس آگئے۔
یہ روایت جہاں امام رضا کی اس دور اندیشی کو ظاہر کرتی ہے جو انھو ں نے مامون کی شیطانی سیاست کو ختم کرنے کے لئے اپنائی وہاں عید جیسی عظیم عبادت کے حوالے سے اہلبیت علیہم السلام کی سیرت کو بھی بیان کرتی ہے کہ اس عظیم سیاسی اور مذہبی عبادت کو کس طرح انجام دینا چاہیئے اور یہ اسلام کا سالانہ عظیم اجتماع کس طرح مسلمانوں کی تقدیر کو بدل سکتا ہے اور اس عبادت کو خالق کی رضا حاصل کرنے کے ساتھ مخلوق کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے کس طرح مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔ اور امام تو کہتے ہی اسے ہیں جس کے ایک عمل میں کئی حکمتیں پائی جاتی ہوںجہاں خالق کائنات کی اطاعت بھی ہوجائے اور مخلوق کے مسائل بھی حل ہو سکیں۔

حوالہ جات
١۔نہج البلاغہ: حکمت ٤٢٨۔
٢۔امالی شیخ صدوق: ص ١٠٠۔
٣ ۔مسار الشیعہ: ص٣٠۔
٤۔ نہج البلاغہ: خطبہ٢١۔
٥۔ سورہ ٔاعلیٰ١٤و١٥۔
٦۔ تفسیر المیزان: ذیل تفسیر سورہ ٔاعلیٰ ١٤۔
٧۔سورۂ حج٣١۔
٨۔ کنزل العمال: ح ٢٤٠٩٤۔
٩۔ کنزل العمال: ح٢٤٠٩٥۔
١٠۔عیون اخبار الرضا: ج١، ص١٢٢۔
١١۔ صحیفہ سجادیہ: دعائے ٤٥۔
١٢۔ وسائل الشیعہ: ج٧، ص٤٨١، ح٤۔
١٣۔ تاریخ طبری: ج٦، ص٢٦۔
مقالات کی طرف جائیے