|
مبلغ اعظم علامہ سید سعید اختر رضوی گوپال پوری طاب ثراہ |
سید وجیہ اکبر زیدی |
ولادت: آپ عشری خرد ،ضلع سیوان بہار میں اپنے نانا مولانا حکیم سید زین العابدین طاب ثراہ کے مکان میں پیدا ہوئے ،آپ کی تاریخ ولادت ١رجب المرجب ١٣٤٥ھ ہے آپ کا وطن گوپالپور ضلع سیوان ہے۔
والد ماجد : آپ کے والد علامہ حکیم سید ابو الحسن طاب ثراہ ہیں، آپ کا شمار اپنے زمانے کے معروف ترین علماء اور تجربہ کار حکماء میں ہوتا تھا آپ مدرسہ ناصریہ ،جونپور کے وائس پرنسپل تھے ،اس کے بعد مدرسہ عباسیہ پٹنہ میں ١٩٤٠ ء تک وائس پرنسپل رہے ۔اس کے بعد آپ ہلور تشریف لے گئے اور وہاں پر وعظ و نصیحت اور نماز جمعہ و جماعت کے فرائض انجام دئے ۔ ١٩٤٨ ء تک آپ وہاں مقیم رہے اسکے بعد اپنے وطن واپس آگئے اور آپکی جگہ پرآپ کے فرزند ارجمند علامہ سید سعید اختر رضوی نے آپ کی ذمہ داریوں کو سنبھا لا .
تعلیم اور اساتذہ : آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی اسکے بعد اپنے والد ماجد کے ساتھ ٨ سال کی عمر میں پٹنہ تشریف لے گئے وہاں پر آپ نے شرایع اسلام کے ساتھ سا تھ فارسی ،انگریزی اور حساب وغیرہ کی تعلیم بھی حاصل فرمائی ،مدرسہ عباسیہ کے بند ہوجانے کے بعد آپ نے مدرسہ سلیمانیہ پٹنہ میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد جامعہ جوادیہ بنارس تشریف لے گئے وہاں پرآپ نے ١٩٤١ ء سے ١٩٤٦ء تک تعلیم حاصل کرکے فخر الافاضل کی سند حاصل کی آپ نے بنارس میںتعلیم کے دوران الہ باد بورڈ کے امتحانات میں شرکت کی اور فاضل ادب (عربی) منشی (فارسی) ،اردواورہائی اسکول ( علی گڑھ) کی اسناد امتیازی نمبروں سے حاصل کیں ۔ آپ کی ذہانت اورصلاحیت کے بارے میں جناب مولانا ناصر زیدی مرحوم تحریر فرماتے ہیں : سعید اختر رضوی ہماری کلاس میںسب سے کمسن تھے ،... جب وہ جامعہ جوادیہ میں داخل ہوئے تو انہیں انکے ہم ردیف طلاب سے دودرجہ اوپر کے درجہ میں قرار دیا ،ہمارے تما م رفقاء اس لئے درس پڑھتے تھے تاکہ امتحان میںکامیابی کے نمبر حاصل کرسکیں ...اگر چہ سعید اختر دن کے تمام پروگرام میں ہمارے ساتھ شریک رہتے تھے لیکن اسکے با وجود، رات میں کئی گھنٹوں تک مطالعہ میں مشغول رہتے تھے ۔اگرچہ ہم میںسے کوئی بھی ناکام نہیں ہوتاتھا لیکن سعید اختر کے نمبر سب سے زیادہ ہوتے تھے ،ہماری کوشش یہ ہوتی تھی کہ ٦٠فی صد سے زیادہ نمبر حاصل کریں جبکہ سعید اختر کے لئے ہم لوگ اس طرح حساب کرتے تھے کہ انکے سو میں سے کتنے نمبر کم ہونگے ، وہ صرف درس کے لحاظ سے ہی غیر معمولی صلاحیت کے حامل نہیں تھے بلکہ خدا نے انہیں مضبوط قلم بھی عنایت فرمایا تھا ، اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں کہ ہماری دس سالہ جوادیہ کی تعلیم کے دوران کون سب سے اچھے امتیازات کے ساتھ فارغ ہواہے تو میںسعید اختر کا نام لوں گا وہ یقینا جامعہ جوادیہ کے لئے باعث افتخار تھے . آپ کو مختلف زبانوںپر مکمل عبور حاصل تھا جس کی وجہ سے آپ کو تبلیغ کے میدان میں بہت زیادہ کامیابی نصیب ہوئی اورآپ ایک بین الاقوامی شخصیت کے عنوان سے پہچانے گئے .آپ کو اردو ،فارسی، عربی ، انگریزی ،سواحلی ، ھندی، گجراتی زبانوں میں مہارت حاصل تھی۔
اجازے : آپ ایک فقیہ ،محدث ماہر علم رجال ، مفسر اورمورخ تھے ، اسی بناپر آپ پر آیات عظام کی خاص توجہ تھی آپ کو بہت سے مراجع کرام اور فقہاء عظام نے اجازات روایت ،قضاوت اور امور حسبیہ مرحمت فرمائے جن میں سے آیة اللہ العظمی سید محسن الحکیم طباطبائی ، سید ابو القاسم خوئی ، سید شہاب الدین مرعشی ،سید عبد الاعلی سبزواری سید محمد رضا گلپائیگانی ،محمد روحانی ،لطف اللہ صافی گلپائیگانی ، شیخ محمد علی اراکی اور سید علی حسینی سیستانی، وغیرہ کا نام لیا جا سکتاہے .
تصانیف وتراجم : آپ نے مختلف زبانوں میں سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں تحریر فرمائی ہیں جن میں سے زیادہ تر انگریزی ،اردو، عربی اور سواحیلی زبان میں ہیں ،بعض کتابوں کابہت سی دوسری زبانوں میں ترجمہ بھی ہواہے آپ نے ابتدائے تعلیم سے ہی تصنیف وتالیف کے میدان میں قدم رکھا اوریہ سلسلہ آخری وقت تک جاری رہا آپ کی بعض کتابیں بہت زیادہ مقبول ہوئی ہیں اوربہت مشہور ہیں ایران میںبھی انصاریان پبلیکیشنر کی جانب سے آپ کی متعدد کتابیں طبع ہوئی ہیں . آپ نے ہمیشہ جن موضوعات کی ضرورت محسوس کی ان پر قلم اٹھایا خواہ ھندوستان کے قیام کے دوران مناظرہ کے موضوع پر اتمام حجت جیسی معرکة الآراء کتاب ہو یا تنزانیہ میں قیام کے وقت وہاں کے لوگوں کی ابتدائی ضروریات کے مطابق آپ کے ہاتھوں تحریر کی گئی کتابیں ہوں. ان تمام کتابوں میں آپ نے عوام کی ضرورت کو پیش نظر رکھا ہے ، انگریزی زبان میں عظیم تفسیر المیزان کا ترجمہ بھی آپ کا ایک اہم کارنامہ ہے اردو زبان میں شائع ہونے والی آپکی کتابوں میں سے ،امامت ،کربلا شناسی ،وحی والہام کی باتیں ، بہائیوں کا کلام اشعریت ،ازواج اما م حسینعلیہ السلام، اسلا م کا نظام خانوادگی ، عزاداری اور بدعت وغیرہ کانام لیا جاسکتاہے . ہند وستان میں دینی اوراجتماعی خدمات: آپ صرف ایک عالم اور مبلغ ہی نہیں تھے بلکہ سماجی اور معاشی ذمہ داریوں کوبھی بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے ،آپنے ہلور ضلع بستی میںتبلیغ وامامت جمعہ و جماعت کے فرائض انجام دینے کے بعد حسین گنج ہائی اسکول ضلع سیوان میں ١٩٥٢ء سے ١٩٥٩ ء تک اردو اور فارسی کے استاد کے عنوان سے خدمات انجام دیں ، اسی دوران آپ '' انجمن وظیفہ سادات و مومنین ، اور انجمن ترقی اولاد ، گوپالپور '' کے ایک فعال(Active) رکن تھے ہلور میں قیام کے دوران آپ نے اپنی محنت و مشقت سے وہاں کی جامع مسجد تعمیر کرائی اوردینی مدرسہ قائم کیا ، اپنے وطن گوپالپور میںبھی مسجد اور امام بارگاہ کے متولی رہے جس وقت حکومت نے اوقاف زمین پر قبضہ کرلیا تھا ، آپ نے اپنی کوشش سے اسکو دوبارہ واپس لیا ۔
بلال چیر ٹیبل ٹرسٹ آف انڈیا آپ نے ١٩٩٦ء میں اس ادارے کی بنیاد رکھی اور اسکی ذمہ داری اپنے بھائی سید حمید اصغر رضوی کے سپرد کی ،اس ادارے نے فیڈریشن آف خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعت آف تنزانیہ ایمان فائونڈیشن ممبئی اوردیگر خیر افراد کی مدد سے سادات کرام کیلئے ٨٢مکانات تعمیر کرائے اسکے علاوہ آئی کیمپ ،آنکھوں کی بیماری کا علاج ،عام مریضوں کامفت علاج اورچیک اپ ، غریب لڑکیوں کی شادی تعلیم کے لئے مالی تعاون ، غریبوں کی مختلف طریقوں سے امداد وغیرہ اس ادارے کی خدمات میںشامل ہیں ۔ اس ادارے نے ''المھدی انسٹیٹیوٹ '' کے نام سے ایک اسکول بھی قائم کیا کہ جس میں عمومی تعلیم کے علاوہ کمپیوٹر کی تعلیم اور خواتین کے لئے مختلف شعبوں کی ٹرینگ بھی دی جاتی ہے۔
افریقہ میں تبلیغی اوراجتماعی خدمات آپ ١٩٥٩ء میں دار السلام تنزانیہ تشریف لے گئے ابتداء میں آپکا قیام امام جمعہ وجماعت کی حیثیت سے لنڈی میں ١٩٦٢ ء تک رہا ، اروشامیں ١٩٦٢ء سے ١٩٦٤ء تک اور دار السلام میں ١٩٦٥ء سے ١٩٦٦ ء تک رہا اس زمانے میں مغربی افریقہ سے مشرقی افریقہ تک ایک بھی افریقی شیعہ نہیںتھا مغربی افریقہ میںلبنانی شیعہ تھے لیکن وہ لوگ بھی شیعیت کی تبلیغ کی طرف متوجہ نہیںتھے بلکہ اکثر اس کام کے مخالف بھی تھے انکی نظر میں افریقی لوگ شیعیت اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتے تھے ، خوجہ جماعت میںبھی اس نظریہ کا کافی حد تک اثر تھا لہٰذا آپ ان حالات کو دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے ، اسی کے بعد آپ نے افریقیوں کی زبان ( سواحیلی ) سیکھنا شروع کی اور خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعت کے مقتدر لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ مقامی لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور تبلیغ کی جائے، اس موضوع پر آپ نے ایک مفصل مقالہ لکھا اور خوجہ شیعہ اثناعشری کا ونسل بھیجا دوسال تک خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا بہرحال نہایت کوششوں کے بعد خوجہ شیعہ اثنا عشری کا ونسل کو ایک تبلیغی ادارے کے قیام پر راضی کرلیا . ١٩٦٤ء میں بلال مسلم مشن '' کاقیام عمل میں آیا اور اس طرح یہ پہلا ادارہ ہے جس نے افریقہ میںمذہب تشیع کی تبلیغ کا کام شروع کیا، آپ اسوقت دار السلام جماعت میں تھے لیکن تبلیغی مصروفیتوں کے پیش نظرآپ نے جماعت سے استعفیٰ دیا اوربلال مشن کے کاموں میںپوری طرح مشغول ہوئے ۔ یہ ادارہ تمام مشکلات کے باوجود مذہب حقہ کی تبلیغ میں مصروف رہا یہاں تک کہ اس کی شاخیں دوسرے ممالک تک پہنچ گئیں اور برونڈی مڈاگاسکر نیویارک ، اسکینڈی نیویارک اورسویڈن میں بھی بلال مشن کے نام سے ادارے وجود میںآئے۔ البتہ بلال مشن کا اصلی مرکز تنزانیہ ہے اور وہاں پر اسکی خدمات دوسری جگہوں کی بہ نسبت وسیع ہیں ، اس ادارے کے بعض شعبے اس طرح ہیں : ١ ۔ مدرسہ اھل البیت : اس مدرسہ کا قیام دینی تعلیم کے مقصد سے عمل میں آیا ، اسکے علاوہ اس میں انگریزی ، کمپیوٹر ،ٹائپنگ اور سلائی بھی سکھائی جاتی ہے . ٢۔ بیت المسکن غدیر: اس عمارت کا قیام تقریباً ١٥٠ طلاب کی سکونت کیلئے عمل میںآیا ۔ ٣۔ شعبہ برائے خواتین : الف مدرسہ ب: عورتوں کیلئے سلائی سیکھنے طباعت کی تعلیم ،حساب اور انگریزی سیکھنے کا شعبہ ہے۔ ٤۔ مراسلاتی کورس : اس کورس کے تین شعبے ہیںدوانگریزی میںاور ایک سواحلی میں،اس کورس کے ذریعہ سے کثیرتعداد میں لوگ مذہب تشیع کی جانب متوجہ ہوئے یہاںتک کے اسکے اثرات یورپ اورامریکہ تک پہنچ گئے ۔ ٥۔ جیل میں اسلامی تعلیم کا انتظام : مبلغین جیل میں جاکر قیدیوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کراتے ہیں۔ ٦۔ اسکول:٢٠٠١میں BILAL comprehensive school کے نام سے اسکول کاقیام عمل میں آیا جسمیں تقریبا ٥٠٠ طلاب زیر تعلیم ہیں . ا ن شعبوں کے علاوہ ادارے کی خدمات میںآئی کیمپ، غریبوں کے لئے مکانوں کی تعمیر کتابوں کی نشر و اشاعت وغیرہ کو ذکر کیا جاسکتاہے . بلال مسلم مشن کی صورت میں آپ کی خدمات اور زحمتوں کے نتیجہ میں تنزانیہ اور دیگر افریقی ممالک میں ٥٠ ہزار سے زیادہ لوگ مذہب تشیع قبول کرچکے ہیں آپ نے آیت '' فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة'' سے الہام حاصل کرتے ہوئے ابتداء میں ٥ افریقی جوانوں کو مبلغ کے عنوان سے تربیت دی اور انہیں مقدمات کی تعلیم دینے کے بعد ١٩٦٩ ء میںنجف اشرف بھیجا تاکہ آیة اللہ محسن الحکیم طاب ثراہ کی سرپرستی میں اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کریں لیکن عراق کے خراب حالات کی وجہ سے یہ طلاب نجف میں نہیں رہ سکے لہٰذا آپ نے انہیں ،امام موسیٰ صدر کی ہماہنگی اورموافقت سے لبنان بھیجا لیکن جنوب لبنان کے حالات بھی صحیح نہیںتھے اور مسلسل اسرائیلیوں کے حملے جاری تھے لہٰذا آخر کار یہ طلاب حوزہ علمیہ قم پہنچے اور تحصیل علوم اہل بیت میں مشغول ہوگئے اسکے بعد افریقہ سے طلاب کے حوزہ علمیہ قم آنے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے ،آپ کے اس عمل نے افریقہ میں شیعیت کی تبلیغ کے جا ری رہنے کی ضمانت لے لی کیونکہ اگر کسی وقت غیر افریقی علماء کو افریقہ چھوڑنا پڑے تب بھی انکے درمیان تبلیغ کاسلسلہ جاری رہے۔ لندن میں قیام : ١٩٨٢ ئ کے اواخر میں آپ ایک دوست کی درخواست پر لندن تشریف لے گئے اور حجة الاسلام شہید سید مھدی الحکیم کی ہمراہی میں ''رابطہ اھل البیت الاسلامیہ العالمیہ '' کی تاسیس میں اہم کردار اداکیا ،شیعوں کے فعال افراد کو عالمی پیمانہ پر جمع کرنے کی راہ میں یہ پہلا قدم تھا آپ اس ادارے کی سہ رکنی کمیٹی کے عضو تھے ، آپ ١٩٨٥ء میںدوبارہ تنزانیاتشریف لے گئے اوروہاںآپ بلال مسلم مشن کی فعالیت دیکھ کر مطمئن نہیں ہوئے لہذا دوبارہ وہیں پر مستقل سکونت اختیار فرمائی اور آخر دم تک اپنے مشن کو آگے بڑھانے کی راہ میں جدوجہد کرتے رہے .
تنزانیا میں شرعی قوانین کو ترتیب دینا آپ کا ایک اور اہم کارنامہ یہ ہیکہ آپ نے حکومت تنزانیہ سے درخواست کی کہ تنزانیا کی عدالت شیعوں کے لئے انکی فقہ کے مطابق فیصلے کرے ابتداء میںحکومت نے آپکی درخواست کو قبول نہیںکیا لیکن آپکی مسلسل کوششوں کے بعد آخر کار وہ آپکی درخواست قبول کرنے پر راضی ہوگئی ، اسطرح ایک طرف آپنے شیعوں کو حکومت سے انکا حق دلوایا تو دوسری طرف خودآپ نے اپنے ہاتھو ںسے ان قوانین کومرتب کرکے حکومت کے حوالے کیا کہ جسکے نتیجہ میںآج تنزانیا کے شیعہ اپنے اس حق سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ تبلیغی دورے : آپ نے ٣٠سے زیادہ ملکوں کا سفر کیا جس میں سفر حج وزیارات بھی شامل ہیں آپ نے تبلیغ دین کے لئے مختلف کانفرسوں اور سیمناروں میں شرکت کی .
آپ پر ائمہ معصومین کی خاص عنایات آپ اپنی کتاب اتمام حجت میں اسطرح تحریر فرماتے ہیں '' جس زمانے میں یہ مضامین لکھے گئے تھے میرے پاس بہت سی ضروری کتابیں موجود نہ تھیں ،پھر بھی اللہ کا شکرہے کہ جوابات کافی وشافی ثابت ہوئے اور ہند وپاک سے لیکر افریقہ تک ذاکرین وناظرین کیلئے کارآمد ذخیرہ بن گئے اثنائے تحریر میںدومواقع ایسے بھی آئے کہ اصل حوالوں کودیکھے بغیر جواب لکھنا ناممکن تھا اورمتعلقہ کتابیں میرے پاس نہ تھیں اورنہ ہی قرب و جوار میں کوئی ایسا کتب خانہ تھا کہ جہاں مطلوبہ کتابیں مل سکتیں ،دونوں موقعوں پر میں نے حضرت صاحب الزمان ولی الامر عجل اللہ فرجہ کی طرف توجہ کی اور ان حضرت کی نگاہ کرم نے میری مشکل کو چشم زدن میں بالکل غیرمتوقع عنوان حل کردیا . انمیں پہلاموقع وہ تھا جہاں مدیر رضوان نے رجال کشی کے حوالے سے لکھا تھا شیعہ کے تین حصہ ہیں ایک حصہ شقی بدبخت اور دوحصہ احمق '' آگے چل کر اسی کتاب کے حوالے سے لکھا تھا کہ حضرت امام حسین نے شیعوں کومخاطب کرکے فرمایا:... اے شیعو! تم میرے قتل کے درپے ہوئے اورتم نے میرا سامان لوٹ لیا '' میرے پاس رجال کشی نہیں تھی کہ ان حوالوں کی تحقیق کرتا مضمون رک گیا ،شام کو ٹہلتا ہوا اپنے ایک عزیز رشتہ دار کے یہاں چلا گیا وہاں آنگن کے ایک گوشہ میں کچھ منتشر اوراق بکھرے پڑے تھے جن کو ردّی سمجھ کر پھینک دیا گیا تھا ، میںنے ان اوراق کو سمیٹا اورگھر لایا، مرتب کیا تودیکھا کہ رجال کشی (طبع کلکتہ ) اول سے آخر تک مکمل ہے اپنے ولی عصر کی اس عنایت پر شکر خدا ادا کیا . دوسرا موقع وہ تھا جہاں مدیر رضوان نے مجالس متقین '' کا یہ جملہ نقل کیا تھا ، ''ای قوم شیعیان مرا کشتید واہل بیت مرا بہ قتل آوردید '' اس قول امام کا صحیح ترجمہ تویہ ہے کہ اے قوم! تم نے میرے شیعوں کو قتل کردیا اورمیرے اہلبیت کو شہید کردیا!؟ ، لیکن مدیر رضوان نے اس میں یہ تحریف کی کہ '' اے شیعو! تم نے مجھے بھی قتل کیا اورمیرے اہل بیت کو بھی '' موصوف کی اس دسیسہ کاری کا پول کھولنا اصل عبارت کے درج کئے بغیر بہت دشوار تھا اور میرے پاس کوئی ایسی کتاب نہ تھی جس میں حضرت سید الشہداء کایہ قول درج ہو ،مجبوراًکا غذات اٹھا کر رکھ دیئے اور حضرت امام آخر الزمان (عج)سے طالب امداد ہوا ، میری والدہ ماجدہ طیب اللہ رمسھا نے جب یہ دیکھا کہ میں نے مضمون لکھنا بند کردیا ہے توفرمایا عشری ( میری ناینھال جو میرے گائوں سے پانچ میل کی دوری پر ہے ) میں فلاں کام ہے تم چلے جائو میںنے حکم کی تعمیل کی اوروہاں جو پیغام پہنچا یا اسکے بعد وقت گذاری کے لئے نانا صاحب مرحوم ومغفور کی کتابوں میںسے ایک کتاب اٹھا لی دیکھا تو مقتل ابی مخنف ہے اسے کھولتے ہے سب سے پہلے جس عبارت پر نظر پڑی وہ یہ تھی ''یاقوم قد قتلتم اخی واولادی وانصاری''امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اے قوم! تم نے میرے بھائی ، میری اولاد اورمیرے مددگار وں کو قتل کردیا اس تائید غیبی پر شکر اداکیا اورکتاب مانگ کراپنے ساتھ لے آیا ''ان دو واقعات کے علاوہ اوربہت سے دوسرے واقعات بھی ہیںکہ جن سے آپ پر ائمہ کی خاص عنایتوں کاپتہ چلتا ہے ،لیکن اس مختصر مضمون میں ان سب کا تذکرہ نہیںکیا جا سکتاہے .
آپ کا خانوادہ : آپ کے آپ سے چھوٹے دوبھائی ہیں آپ کی چار بہنیں تھیں جنکا انتقال بچپن ہی میں ہوگیا تھا ،آپ کو اللہ نے پانچ فرزند اوردوبیٹیاں عطافرمائیں آپ کے سب سے بڑے فرزند کا انتقال عالم جوانی میںہوگیا تھا۔ آپ کے دوسرے فرزند حجة الاسلام سید محمد رضوی ہیں کہ جو اسوقت ٹورنٹو کناڈا میں تبلیغ دین میں مصروف ہیں اور اس خطہ کے شیعوں کے درمیان آپ بہت زیاد ہ محبوب اورمقبول عالم دین ہیں آپ نے متعدد کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں کہ جنمیں سے اکثر انگریزی زبان میں ہیں . آپ کی شاعری : آپ ایک کامیاب مبلغ بہترین صاحب قلم اور خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین شاعر بھی تھے آپ کے اشعار کا مجموعہ کلیات تپش کے نام سے زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکا ہے کہ جو شعر وادب سے دلچسپی رکھنے والوں اور مداحان اہلبیت کے لئے بیش قیمت تحفہ ہے . رحلت : ٢٠ جنوری ٢٠٠٢ ء بروز پنجشنبہ صبح کے وقت جب آپ ہمیشہ کی طرح اپنی میز پر المیزان کی ساتویں جلد کے ترجمہ میںمصروف تھے ، اچانک آپکی طبیعت خراب ہوئی آپ کو فوراً اسپتال لے جایا گیا لیکن علاج کاکوئی فائدہ نہیںہوا اورتقریباً ١٢ گھنٹہ کے بعد شب جمعہ میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اسطرح آپ کی پربرکت زندگی اختتام کو پہونچی لیکن آپ کے نیک آثار آج بھی پوری دنیا میںپھیلے ہوئے ہیں ، شنبہ کے دن دارالسلام میںشان وشوکت کے ساتھ تشیع جنازہ ہوئی کہ جس میں مختلف مذہب وملت کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی عاش سعیدا ومات سعیدا
منابع ومآخذ ١۔ آسمان تبلیغ کا آ فتاب : علامہ کے چہلم کے موقع پرشائع ہونے والا خصوصی مجلہ ٢۔ کلیات تپش ،مجموعہ اشعار علامہ سید سعید اختر رضوی ٣۔ خورشید خاور ۔ علامہ سید سعید اختر رضوی ٤۔ دید ودریافت ، علامہ سید سعید اختررضوی ٥۔ مختلف مقالات . ٦۔ الشیعہ فی آفریقا : علامہ سید سعید اختررضوی (غیر مطبوعہ )
|
مقالات کی طرف جائیے |
|