مقالات

 

صلح اور امام حسن علیہ السلام

سید حسین مرتضیٰ انباری

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شجا عت ہاشمی، جو کہ زندگی کے تمام مرحلوں میں داد شجاعت لیتی رہی ہے، رفتار حسنی کی بہ نسبت رفتار حسینی سے زیادہ ہم آہنگ ہے ،لیکن یہ ایک عامیانہ فکراورسطحی نظر ہے جو حقیقت سے کوسوں دور ہے ۔
امام حسن علیہ السلام نے بھی زندگی کے مختلف موڑوں پر شجاعت ،عزم اور استقلال ہاشمی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے اور اپنے پدر بزگوار وبرادر محترم کے شانہ بہ شانہ زندگی کے مسائل حل کرتے رہے ہیں، یہ تینوں شخصیتیں عالم انسانیت کے لئے صلح وآشتی کا مکمل نمونہ ہیں۔ جنہوں نے حالات وشرائط کے پیش نظر اس کے اتار چڑھائو کو دیکھتے ہوئے مرضی الہی کے مطابق کبھی صلح کی اور کبھی جنگ ۔
کب صلح کی منزل ہے کہاںجنگ کامیدان
یہ راز مشیت ہے انہیںاس کی خبر ہے
کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے جام شہادت پی کر جاودانی زندگی کا انتخاب کیا اورامام حسن علیہ السلام نے صلح کے ذریعے سرمایہ زندگی کی حفاظت کی ،یہ دونوں عمل اپنی اپنی جگہ پر زندگی اسلام کی ضمانت اورشکست دشمن کی زندہ دلیل ہیں ، حالات کے پیش نظر دونوں ہی امور منطقی ، عقلی ، اور وقت کی ضرورت اور اس کا واحد حل تھے جس کے علاوہ دوسرے راستے کا انتخاب نا ممکن تھا، یہ دونوں امور اپنی جگہ پر قرب خد اوند اور اطاعت حکم الہی کا بہترین ذریعہ تھے اگر چہ بظاہر اور مادی اعتبار سے محرومیت ہی محرومیت تھی پھر بھی ایک حقیقی کامیابی تھی جوتاریخ کے دامن میں محفوظ رہ کر طالب حق وحقیقت کے لئے نقطہ فکر رہے گی دونوں قربانیاں چاہے شہادت امام حسین علیہ السلام ہویا امام حسن علیہ السلام کی حکومت سے چشم پوشی، وہ نقطہ آخر ہے جس کا انتخاب فراست مومن کے بغیر ناممکن ہے ۔
دوست و دشمن دونوںہی اعتبارسے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے حالات مکمل طور سے جدا ہیں لہذا جنگ وصلح دوالگ الگ فیصلوں کا کیا جانالازمی اورمنطقی ہے کیونکہ جب حالات مختلف ہوں تو جہاد کی شکلیں بھی بدل جاتی ہیں۔

امام حسن اور امام حسین علیہماالسلام اور آپ کے ساتھی
کوفیوں کی خیانت امام حسین علیہ السلام کے سلسلے میں کامیابی اورتکمیل مقصد میں معین اور مددگار ثابت ہوئی ،جبکہ یہی خیانت مسکن ومدائن میں امام حسن علیہ السلام کے لئے صلح کا پیش خیمہ بنی جس نے اما م کی صفوں کو پژمردہ کردیا اورا مام کے لئے جنگ کا راستہ بند کردیا۔
امام سے کوفیوں کی بیعت شکنی اسوقت ہوئی جب امام بھی جہاد وجنگ کے لئے آمادہ نہیں ہوئے تھے جس کی بنیاد پر امام کے دوسرے ساتھی کم سہی مگرہمدل ،عظیم عزم واستقلال کے ساتھ امام کے شانہ بہ شانہ جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہوگئے جن کی تاریخ میںمثال نہیں۔
''اک انجمن تھی اور بہتر حسین تھے ''
اس کے برخلاف امام حسن علیہ السلا م کے دو تہائی سپاہیوں کا معاویہ کی سازش کا شکارہو کر میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنا اس وقت تھا جب آپ معاویہ سے بر سرپیکار ہوچکے تھے ، اور یہی وہ اصلی سبب تھا جس کی بنیاد پر آپکے بقیہ ساتھی دودلی اورحیرانی میںپڑگئے اورآپ کو سرخ کامیابی سے رخ پھیرنا پڑا۔
یہاں یہ بات بھی روشن ہے کہ امام حسنعلیہ السلام کے وہ ساتھی جنہوںنے بیعت کی اورامام کے لشکر میںشامل ہوئے مگر وقت آنے پر معاویہ کے ساتھ ہوگئے یاخود امام سے نبر د آزما ہونے کے لئے کھڑے ہوگئے، وہ ان لوگوں سے زیادہ خطرناک تھے جوقبل از جنگ امام حسین علیہ السلام کا ساتھ چھوڑ کر بھا گ گئے ،اس بنیاد پر کوفیوں کی بیعت شکنی جس نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کو سخت امتحان میں مبتلا کرکے اچھے اور برے کو جدا کر دیا اوربقیہ ساتھی ایک ایسی جماعت میں ڈھل کر سا منے آئے جو مختصر اور چھو ٹی سہی مگر عزم واستقلال ،صدق وصفا، اورحوصلہ قربانی میں سب سے الگ تھی جسے تاریخ رہتی دنیا تک بطور نمونہ پیش کرے گی ،لیکن امام حسن علیہ السلام خود اپنے مخلص شیعوں اورچاہنے والوں میںجو ہرلحاظ سے مورد اطمینان تھے حاصل نہ کرسکے۔
لشکر امام حسنعلیہ السلام پرآشفتگی اوراضطراب پوری طرح حکم فرما تھا اور ممکن نہ تھا کہ جنگ کے سلسلے کو آگے بڑھا یا جائے ،دونوں اماموں کے درمیان ساتھیوں کے لحاظ سے اس سے بڑا فرق اور کیا ہوسکتا ہے!۔

امام حسن اور امام حسین علیہما السلام اورآپ کے دشمن
امام حسن کا دشمن معاویہ اور امام حسین علیہ السلام کا دشمن یزید، تاریخ کی رو سے ان دونوں باپ بیٹوں میںزمین وآسمان کا فرق ہے .
بیٹے کو تاریخ ،بیوقوف واحمق'' اورباپ کو تیز چالاک بلکہ بعض کے گمان کے مطابق نابغہ بیان کرتی ہے ،ان دونوں کی دشمنی فقط امام حسن اور امام حسین علیہما السلام سے نہ تھی بلکہ یہ اس سلسلہ کی کڑی تھی جو سلسلہ بنی ہاشم اوربنی امیہ کے درمیان برسہا برس سے چلی آرہی تھی ،اس طولانی مدت میںایک دن بھی ایسا نہیں رہا جس دن اولاد امیہ بنی ہاشم کے ہم پلہ وہم رتبہ رہے ہوں ،بنی امیہ کی مثال اس ذلیل وخوار دشمن کی سی ہے جو ایک قوی قدرت مند مقابل سے ہمیشہ خوفزدہ رہے ، یہی بنیاد تھی کہ بنی امیہ کاذکر بنی ہاشم کے ساتھ لوگوں کی زباں زد ہوگیا اورپھر مورخین کے قلم تک آپہنچا ،ورنہ ذلت وضلالت کامقابلہ ان طہارت کی بلندیوں سے کیونکر ممکن ہے جن کی پاک دامنی کاخود قرآن مدح خواں ہو؟
شہوت پرست،قدرت طلب اور گناہوں سے آلودہ افراد کا، مظہر صدق وصفا عقل واخلاق ، طیب وطاہر فکر انسانی سے کیسا مقابلہ؟
لوگوں کے ہاتھوں میں شمع ہدایت دینے والے اور ان کے ہاتھوں سے مشعل راہ چھین لینے والے کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟۔
یعنی اولاد امیہ کامقابلہ بنی ہاشم سے کیسے ہوسکتا ہے،نور ہدایت کہا ں اورقعر ضلالت کہاں ؟
امام حسن علیہ السلام اپنے تاریخی دشمن '' معاویہ ابن ابی سفیان بن حرب'' کے ساتھ اپنے انجام اورنتیجہ اورجنگ کی صورت میںپیش آنے والے حالات کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے ، بلکہ دیکھ رہے تھے کہ یہ جنگ اسلام کے لئے خطرناک اورمضر ہے جس کا نتیجہ اس کی شہادت پرختم ہوگا جو دلوں کی آرزو اور اسلام ومکتب علوی کا محافظ ہے ،ہم جانتے ہیں معاویہ ،جو علی علیہ السلام اورمکتب علوی کا کھلا ہوا دشمن تھا اپنی اس مہم کو بروئے کار لانے اور اپنا پرانا تاریخی حساب چکانے میںزبر دست صلاحیت رکھتا تھا۔
لیکن امام حسین علیہ السلام کواپنے دشمن یزید (جونازوں کاپلاجس کے لئے کسی بھی مشکل سے نکلنا آسان نہیں ،جسے نہیںمعلوم مخالفتوں کو کس طرح خاموش کیاجائے ، جس کی ساری توانائیاں صرف اس میں خرچ ہورہی تھی کہ کیسے حکومت کو خزانوں کیساتھ رقیبوں سے بچایاجائے جس کی عالم اسلام کے سامنے کوئی آبرو نہیں) سے تکمیل مقصد کے سلسلے میں کوئی خطرہ نہ تھا دوسری طرف بات یہ بھی تھی کہ کوفہ اوراس کے اطراف میںوہ مسلمان جو مکتب اہلبیت علیہم السلام کو اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ایک قیمتی سرمایہ سمجھ رہے تھے ، وہ ہر طرح سے یزید کے زیر شکنجہ تھے اوربعض اہم شخصیتیں شہر بدری کے حالات سے دوچار تھیں ان تمام بنیادوں پر امام حسین علیہ السلام کے لئے بغیر تشویش وجھجک کے مطمئن ہوکر اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کو طے کرنا اوراس راستے کا انتخاب کرنا آسان تھا جس پر یقینی کامیابی ہو . جبکہ امام حسن علیہ السلام اپنی شہادت کے بعد مکتب تشیع کے لئے پیش آنے والے حالات سے مطمئن نہ تھے چونکہ آپ کادشمن معاویہ جومکار وسازشکار ، جس کی نقشہ کشی خطرناک اوردشمنی سے بھری ہوئی تھی، بالآخر امام حسین نے معاویہ کی مختلف غلطیوں مثلا ًسرزمین حرم پر چڑھائی ،صلح نامہ کی کھلم کھلا مخالفت ،امام حسن علیہ السلام کوزہردینا، یزید کے لئے بطورجانشین زبر دستی بیعت لینا وغیرہ کو منظرعام پرلاکر لوگوں کیلئے یہ واضح کردیاکہ معاویہ کی قدرت طلبی و حکمرانی اسلامی اقدار سے بہت دور ہے بلکہ اسلام کے خلاف ہے ،اسکے علاوہ جانشین معاویہ شرابی ،قمارباز، گناہوں میں غرق ایک جوان تھا جواسلامی اقدار کی علی الاعلان مخالفت کررہا تھا ، یہ تمام اسباب امام حسین علیہ السلام کے لئے آپ کے اہداف کی تکمیل میںمؤثر ومددگار ثابت ہوئے۔
امام حسن علیہ السلام اپنے ساتھیوںکی بنیاد پر راہ شہادت انتخاب نہ کرسکے اور دشمنوں کی بنیادپر جنگ ،اسلام کے لئے مضر بلکہ نابودی کاسبب تھی لہٰذا اسلوب جہاد کوجنگ وقتال وشہادت سرخ سے بدل کرراہ صلح اختیار کر لی۔
امام حسن علیہ السلام نے صلح کی مگر اس کی شرطوں کو ایک آہنی زنجیر بناکر امویت کے گلے میں ڈال دیا اورباطل کوہمیشہ کے لئے ذلیل کردیا ۔
اب یہ فیصلہ مشکل ہے کہ اسلام کے لئے جنگ حسین زیادہ مؤثر اور مفید تھی یاصلح حسن؛ اسلامی مزاج سے زیادہ ہماھنگ اور شکست دشمن کے لئے زیادہ مؤثر تھی؟ہمارا سلام ان دونوں الہی رہبروںپر کہ جن کی جنگ وصلح رہتی دنیا تک اسلام کی زندگی کی ضمانت ہے۔
مقالات کی طرف جائیے