|
اجتہاد اور تقلید |
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم؛ وما کان المومنون لینفردا کافة فلو لانفر من کل فرقة منھم طائفة لیفقھوا فے الدین ولینذروا قومھم اذارجعوا الیھم لعلھم یحذرون "تمام مومنوں کے لئے کوچ کرنا تو ممکن نہیں ہے مگر ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ دین کا علم حاصل کرے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرے‘ شاید وہ اس طرح ڈرنے لگیں۔"(توبہ‘ ۱۲۲)
اجتھاد کی تعریف آج کل اجتھاد و تقلید کا مسئلہ موضوع سخن بنا ھوا ھے ۔ آج بھت سے افراد یہ پوچھتے نظر آتے ھیں یا اپنے ذھن میں سوچتے ھیں کہ اسلام میں اجتھاد کی کیا حیثیت ھے؟ اسلام میں اس کا ماخذ کیا ھے ؟تقلید کیوں کی جائے؟ اجتھاد کے شرائط کیا ھیں؟ مجتھد کی ذمہ داریاں کیا ھیں؟ مقلد کے فرائض کیا ھیں؟ وغیرہ وغیرھ۔ اجمالی طور پر، اجتھاد کا مطلب ”دینی مسائل میں مھارت حاصل کرنا اور صاحب نظر ھونا ھے “ لیکن شیعوں کے نقطہ ٴ نظر سے دینی مسائل میں صاحب رائے ھونے کی دو صورتیں ھیں: جائز اور ناجائز، اسی طرح تقلید کی بھی دو قسمیں ھیں جائز و ناجائز ۔
ناجائز اجتھاد شیعی نظرنقطہ ٴ نظر سے ناجائز اجتھاد کا مطلب ” قانون سازی ھے یعنی مجتھد اپنی فکر اور اپنی رائے کی بنیاد پر کوئی ایسا قانون وضع کرے جو قرآن و سنت میں موجود نہ ھو ۔ اسے اصطلاح میں ” اجتھاد بالرائے “ کھتے ھیں ۔شیعی نقطہ ٴ نظر سے اس قسم کا اجتھاد منع ھے لیکن اھل سنت اسے جائز سمجھتے ھیں ۔ اھل سنت جب قانون سازی کے مصادر اور شرعی دلیلوں کو بیان کرتے ھیں تو کھتے ھیں :” کتاب، سنت، اجتھاد “۔اور اجتھادسے مراد اجتھادبالرائی لیتے ھیںجسے وہ قرآن و سنت کی صف میں شمار کرتے ھیں ۔ اس اختلاف نظر کا سبب اھل سنت کا یہ نظریہ ھے کہ: کتاب و سنت کے ذریعہ وضع ھونے والے قوانین محدود ھیں، جبکہ واقعات و حادثات لامحدود ھیں لھذا کتاب و سنت کے علاوہ ایک اور مصدر ضروری ھے جس کے سھارے الٰھی قوانین بنائے جا سکیں اور یہ مصدر وھی ھے جسے ھم ” اجتھاد بالرائے “ کے نام سے یاد کرتے ھیں ۔ انھوںنے اس سلسلہ میں رسول اکرم سے کچھ حدیثیں بھی نقل کی ھیں ۔ من جملہ یہ کہ رسول خدا جس وقت معاذ بن جبل کو یمن بھیج رھے تھے، ان سے دریافت فرمایا کہ تم وھاں کیسے فیصلے کرو گے؟ معاذ نے کھا کتاب خدا کے مطابق۔ حضرت نے فرمایا: اگر کتاب خدا میں تمھیں اس کا حکم نہ مل سکا؟ معاذ نے عرض کیا: رسول خدا کی سنت سے استفادہ کروں گا ۔ حضرت نے فرمایا: اور اگر رسول خدا کی سنت میں بھی نہ ملا تو کیا کرو گے؟ معاذ نے کھا: اجتھاد بالرائے “ یعنی اپنی فکر، اپنی رائے، اپنے ذوق اور اپنے سلیقہ سے کام لوں گا۔ کچھ دیگر حدیثیں بھی اس سلسلہ میں ان لوگوں نے نقل کی ھیں ۔ ” اجتھاد بالرائے “ کیا ھے اور کس طرح انجام پانا چاھئے اس سلسلہ میں اھل سنت کے یھاں خاصا اختلاف ھے ۔ شافعی کی مشھور و معروف کتاب ” الرسالہ “ جو علم اصول فقہ میں لکھی گئی پھلی کتاب ھے، میں ایک باب، باب اجتھاد کے نام سے بھی ھے۔ شافعی کو اس کتاب میں اس بات پر اصرار ھے کہ احادیث میں ”اجتھاد “ کا جو لفظ استعمال ھوا ھے اس سے صرف ’ ’قیاس “ مراد ھے ۔ قیاس کا مطلب اجمالی طور پریہ ھے کہ مشابہ مورد پیش نظر رکھتے ھوئے اپنے سامنے در پیش قضیہ میں ان ھی مشابہ موارد کے مطابق حکم کریں ۔ لیکن بعض دوسرے سنّی فقھاء نے اجتھاد بالرائے کو قیاس میں منحصر نھیں جانا ھے، بلکہ استحسان کو بھی معتبر مانا ھے ۔ استحسان کا مطلب یہ ھے کہ مشابہ موارد کو مد نظر رکھے بغیر مستقل طور پر جائز ہ لیں اور جو چیز حق و انصاف سے زیادہ قریب ھو نیز ھمارا ذوق و عقل اسے پسند کرے اسی کے مطابق حکم صادر کریں ۔ اسی طرح ”استصلاح “ بھی ھے ۔ یعنی ایک مصلحت کو دوسری مصلحت پر مقدم رکھنا ۔ایسے ھی ” تاوّل “ بھی ھے یعنی اگر چہ کسی دینی نص، کسی آیت یا رسول خدا کی کسی معتبر حدیث میں ایک حکم موجود ھے لیکن بعض وجوھات کے پیش نظر ھمیں نص کے مفھوم و مدلول کو نظر انداز کر کے اپنی ” اجتھادی رائے “ مقدم کرنے کا حق ھے ۔ اس سلسلہ میں یعنی نص کے مقابلہ میں اجتھاد کے متعلق متعدد کتابیں لکھی گئی ھیں اور شاید سب سے اچھی کتاب ” النص و الاجتھاد “ ھے جسے علامہ جلیل سید شرف الدین رحمة اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ھے ۔ شیعہ نقطہ ٴ نظر سے اس طرح کا اجتھاد ناجائز ھے، شیعوں اور ان کے ائمہ کی نظر میں اس کی ابتدائی بنیادھی، یعنی یہ کہ کتاب و سنت کافی نھیں ھیں لھذا ھمیں اپنی فکر و رائے سے اجتھاد کرنے کی ضرورت ھے ،درست نھیں ھے ۔ ایسی بے شمار حدیثیں پائی جاتی ھیں کہ ھر چیز کا کلی حکم قرآن و سنت میں موجود ھے کتاب ” وافی “ میں باب البدع و المقائیس “ کے بعد ایک باب ھے جس کا عنوان یہ ھے :” بالرد الی الکتاب و السنة و انہ لیس شئی من الحلال و الحرام و جمیع ما یحتاج الیہ الناس الا و قد جاء فیہ کتاب او سنّة “ (کافی ج/۱ ،کتا ب العلم: قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کا باب اور یہ کہ ھر حلال و حرام اور عوام کے ضروریات قرآن سنت میں موجود ھیں) قیاس و اجتھاد کو قبول یا اسے رد کرنے سے متعلق دو جھتوں سے بحث و گفتگو کی جا سکتی ھے ۔ ایک یھی جھت جسے بیان کیاگیاھے کہ قیاس و اجتھاد بالرائے کو اسلامی قانون سازی کا ایک سر چشمہ و مصدر تسلیم کر لیا جائے اور اسے کتاب و سنت کی صف میں ایک مستقل مصدر مانتے ھوئے اس سے استنباط احکام اسلامی کیاجائے اور کچھ ایسی چیزیں جن کا حکم وحی کے ذریعہ بیان نھیں ھوا ھے مجتھدوں کا فریضہ ھے کہ وہ اپنی رائے سے ان کا حکم تلاش کریں۔دوسری جھت یہ ھے کہ قیاس و اجتھاد بالرائے کو واقعی احکام کے استنباط کے وسیلہ کے طور پر اسی طرح استعمال کریں جس طرح دوسرے وسائل مثلا خبر واحد سے استفادہ کرتے ھیں اسے اصطلاحی زبان میں یوں سمجھئے کہ ممکن ھے قیاس کو موضوعیت کی حیثیت دیں اور ممکن ھے اسے طریقیت کی حیثیت دیں ۔ شیعہ فقہ میں قیاس و اجتھاد بالرائے مذکورہ بالا کسی بھی عنوان سے معتبر نھیں ھے۔ پھلی جھت اس لئے معتبر نھیں ھے کہ ھمارے پاس کوئی ایسا موضو ع نھیں ھے جس کا حکم ( چاھے کلی طور پر سھی ) قرآن و سنت نے بیان نہ کیا ھو ۔ دوسری جھت اس لئے باطل ھے کہ قیاس و اجتھاد بالرائے کا تعلق گمان و تخمینہ سے ھے اور یہ شرعی احکام میں بھت زیادہ خطا و لغزش کاموجب ھے ۔ قیاس کے بارے میں شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف کی بنیاد وھی پھلی جھت ھے اگر چہ اصولیوں کے یھاں دوسری جھت زیادہ مشھور ھوئی ھے ۔ ” اجتھاد “ کا حق اھل سنت کے یھاں زیادہ دنوں تک باقی نھیں رہ سکا شاید اس کا سبب عملی طور پر پیش آنے والی مشکلیں تھیں کیوں کہ اگر یہ حق اسی طرح جاری رھے، خاص طور سے نصوں میں تاوّل و تصرف کوجائز سمجھاجاتارھے اور ھر شخص اپنی رائے کے مطابق تصرف و تاوّل کرتا رھے تو دین کا نام و نشان بھی باقی نہ رھے گا شاید یھی وجہ تھی کہ رفتہ رفتہ مستقل اجتھاد کا حق چھین لیا گیا اور سنی علماء نے یہ طے کر لیا کہ عوام کو چار مشھور مجتھدوں اور اماموں: ابو حنیفہ، شافعی، مالک بن انس، احمد بن حنبل کی تقلید کی طرف لئے جائیں اور انھیں ان چاروں کے علاوہ کسی دوسرے مجتھد کی تقلید سے روک دیں۔ یہ قدم پھلے ( ساتویں صدی میں ) مصر میں اٹھایا گیا اور بعد میں دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی اس طرز فکر نے جگہ بنا لی ۔
جائز اجتھاد لفظ اجتھاد، پانچویں صدی ھجری تک اسی طرح مخصوص معنیٰ میں ۔ (قیاس و اجتھاد بالرائے جو شیعہ نقطۂ نظر سے نا جائز ھے ) استعمال ھوتا تھا ۔ شیعہ علماء اس وقت تک اپنی کتابوں میں ” باب الاجتھاد“ اسے رد کرنے اور باطل و نا جائز قرار دینے کے لئے لکھتے تھے ۔جیسے شیخ طوسی (رہ)نے اپنی کتاب ”عدہ “ میں اسے رد کیا ھے لیکن آھستہ آھستہ یہ لفظ اپنے خصوصی معنیٰ سے باھر آگیا اور خود سنی علماء نے بھی ( جیسے ابن حاجب ”مختصر الاصول “ میں جس کی شرح عضدی نے لکھی ھے اور مدتوں جامعة الازھر کے درسی نصاب میں شامل رھی ھے اور شاید آج بھی شامل ھو ۔ ان سے پھلے غزالی نے اپنی مشھور کتاب ” المستصفیٰ “ میں ) لفظ اجتھاد بالرائے کو اس مخصوص معنیٰ میں استعمال نھیں کیا ھے جو کتاب و سنت کے مقابلہ میں ھے، بلکہ انھوں نے شرعی حکم حاصل کرنے کے لئے سعی و کوشش کے اس عام معنیٰ میں استعمال کیا ھے جسے ان لفظوں میں بیان کیا جاتا ھے ” استفراغ الوسع فی طلب الحکم الشرعی “ اس تعریف کے مطابق اجتھاد کا مطلب ” معتبر شرعی دلیلوں کے ذریعہ شرعی احکام کے استنباط کی انتھائی کوشش کرنا ھے “ ۔ اب رھی یہ بات کہ معتبر شرعی دلیلیں کیا ھیں؟ آیا قیاس و استحسان وغیرہ بھی شرعی دلیلوں میں شامل ھیں یا نھیں؟ یہ ایک علیٰحدہ موضوع ھے ۔ پانچویں صدی سے شیعہ علماء نے بھی یہ لفظ اپنا لیا کیونکہ وہ اس قسم کے اجتھاد کے پھلے سے قائل تھے ۔ یہ اجتھاد جا ئز اجتھاد ھے ۔ اگر چہ شروع میں یہ لفظ شیعوں کی نظر میں نفرت انگیز تھا لیکن جب اس کا معنیٰ ومفھوم بدل گیا تو شیعہ علماء نے بھی تعصب سے کام نھیں لینا چاھا اور اس کے استعمال سے پرھیز نھیں کیا ۔ ایسا معلوم ھوتا ھے کہ شیعہ علماء بھت سے مقامات پر مسلمانوں کی جماعت سے اتحاد و یکجھتی اور اسلوب کی رعایت کا بڑا خیال رکھتے تھے ۔ مثلا ً اھل سنت، اجماع کو حجت مانتے تھے اور تقریباً قیاس کی طرح اجماع کے لئے بھی اصالت و موضوعیت کے قائل تھے ۔ جبکہ شیعہ اسے نھیں مانتے وہ ایک دوسری چیز کے قائل ھیں لیکن اسلوب اور وحدت کے تحفظ کی خاطر جس چیز کو خود مانتے تھے اس کا نام اجماع رکہ دیا ۔ اھل سنت کھتے تھے شرعی دلیلیں چار ھیں: کتاب، سنت، اجماع، اجتھاد ( قیاس ) شیعہ علما ء نے کھا: شرعی دلیلیں چار ھیں: کتاب، سنت، اجماع، عقل انھوں نے صرف قیاس کی جگہ عقل رکہ دیا۔ بھر کیف اجتھاد، رفتہ رفتہ صحیح و منطقی معنی میں استعمال ھونے لگا، یعنی شرعی دلیلوں کو سمجھنے کے لئے غور و فکر اور عقل کا استعمال کرنا اور اس کے لئے کچھ ایسے علوم میں مھارت ضروری ھے جو صحیح و عالمانہ تدبر و تعقل کی استعداد و صلاحیت کا مقدمہ ھیں ۔علمائے اسلام کو تدریجی طور پر یہ احساس ھوا کہ شرعی دلیلوں کے مجموعہ سے احکام کے استناد و استنباط کے لئے کچھ ابتدائی علوم سے واقفیت ضروری ھے ۔ جیسے عربی ادب، منطق، تفسیر قرآن، حدیث، رجال حدیث، علم اصول حتیٰ دوسرے فرقوں کی فقہ کا علم ،لھذااب وہ مجتھد اس شخص کو کھتے ھیں جو ان تمام علوم میں مھارت رکھتا ھو ۔ لیکن گمان غالب یہ ھے کہ شیعوں میں اجتھاد و مجتھد کا لفظ اس معنیٰ میں سب سے پھلے علامہ حلی نے استعمال کیا ھے ۔ علامہ حلی نے اپنی کتاب ” تھذیب الاصول “ میں ،” باب القیاس “ کے بعد ”با ب الاجتھاد “ تحریر فرمایا ھے ۔ وھاں انھوں نے اجتھادکو اسی معنیٰ میں استعمال کیا ھے جس معنی میں آج استعمال کیا جاتا ھے اور رائج ھے ۔ پس شیعی نقطہ ٴ نظر سے وہ اجتھاد، نا جائز ھے جو قدیم زمانہ میں قیاس و رائے کے معنیٰ میں استعمال ھوتا تھا ۔ اب چاھے اسے قانون سازی و تشریع کا ایک مستقل مصدر و سر چشمہ مانیں یا واقعی حکم کے استخراج و استنباط کا وسیلہ لیکن جائز اجتھاد سے مراد فنی مھارت کی بنیاد پر سعی و کوشش ھے ۔ پس یہ جو کھا جاتا ھے کہ اسلام میں اجتھاد کیا چیز ھے؟ اس کی کیا ضرورت ھے؟ اس کا جواب یہ ھے کہ اجتھاد جس معنیٰ میں آج استعمال ھو رھا ھے اس سے مراد صلاحیت اور فنی مھارت ھے ۔ ظاھر ھے کہ جو شخص قرآن و حدیث سے استفادہ کرنا چاھتا ھے اس کے لئے قرآن کی تفسیر، آیتوں کے معانی، ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ سے واقفیت نیز معتبر وغیر معتبر حدیثوں میں تمیز دیکرمسائل کو ممکنہ حد تک حل کر سکتا ھو ۔ مذھب کے اجماعی و متفق علیہ مسائل کو تشخیص دے سکتا ھو ۔خود قرآنی آیتوں اور حدیثوں میں کچھ کلی اصول و قواعد ذکر ھوئے ھیں، ان سے آگاھی رکھتاھودنیا کے تمام علوم میں پائے جانے والے تمام اصولوں اور فارمولوں کی طرح ان شرعی اصول و قواعد کے استعمال کے لئے بھی مشق، تمرین ،تجربہ اور ممارست ضروری ھے ۔ ایک ماھر صنعتکار کی طرح اسے یہ معلوم ھونا چاھئے کہ مواد کے ڈھیر میں سے کون سا مواد انتخاب کرنا ھے ۔ اس میں مھارت و استعداد ھونی چاھئے خاص طور سے کون سی حدیثوں میں بھت زیادہ الٹ پھیر اور جعل سازی ھوئی ھے ۔ صحیح و غلط حدیثیں آپس میں خلط و ملط ھیں اس میں صحیح حدیث کو غلط حدیث سے تشخیص دینے کی صلاحیت ھونی چاھئے ۔ مختصر یہ کہ اس کے پاس اس قدر ابتدائی و مقدماتی معلومات فراھم ھونی چاھئے کہ واقعاً اس میں اھلیت، قابلیت، صلاحیت اور فنی مھارت پیدا ھو جائے ۔
ناجائز تقلید تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں‘ جائز و ناجائز۔ ایک وہ تقلید ہے جس سے مراد ماحول و معاشرہ کی اندھی پیروی ہے‘ یہ یقینا ناجائز ہے اور قرآن مجید میں اس کی ان لفظوں میں مذمت کی گئی ہے: انا وجدنا آباء نا علی امة و انا علی آثارھم مقتدون "ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔"(زخرف‘ ۲۳) ہم نے تقلید کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے‘ جائز و ناجائز۔ تو ناجائز تقلید ہے‘ مراد صرف ماحول اور اپنے آباء و اجداد کے رسم و رواج کی یہی اندھی تقلید ہی نہیں ہے بلکہ عالم کی طرف جاہل اور فقیہ کی طرف عوام کے رجوع کرنے والی تقلید بھی دو قسم کی ہے‘ جائز و ناجائز۔ آج کل بعض ایسے افراد سے جو کسی مرجع تقلید کی تلاش میں ہیں‘ یہ سننے میں آتا ہے کہ ہمیں کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جس کے آستانہ پر سر جھکا دیں اور خود کو اس کے حوالے کر سکیں‘ لیکن اسلام نے جس تقلید کا حکم دیا ہے وہ سپردگی اور خود کو کسی کے حوالے کرنا نہیں ہے بلکہ آنکھ کھولنا اور کھلوانا ہے‘ تقلید اگر سرسپردگی کی شکل اختیار کر لے تو اس میں ہزاروں برائیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اس سلسلے میں ایک طویل حدیث ہے جسے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں: و اما من کان من الفقہاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ مخالفا علی ھواہ مطیعا لامر مولاہ فللقوام ان یقلدوہ یہ حدیث تقلید و اجتہاد کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے اور شیخ انصاری اس حدیث کے متعلق فرماتے تھے‘ اس سے صحت و صداقت کے آثار نمایاں ہیں۔ یہ حدیث اس آیہ شریفہ کے ذیل میں ہے: و منھم امیون لا یعلسون الکتاب الا امانی و ان ھم الا یطنون(بقرہ‘ ۷۸) یہ آیت ان جاہل یہودی عوام کی مذمت کر رہی ہے جو اپنے علماء کی تقلید و پیروی کرتے تھے اور ان آیتوں کے بعد جن میں یہودی علماء کے برے طور طریقوں کا ذکر ہوا ہے‘ ارشاد ہوتا ہے: "ان میں کچھ ایسے جاہل و نادان افراد تھے جو اپنی آسمانی کتاب کے بارے میں بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے اور وہم و گمان کی پیروی کرتے تھے۔"
ناجائز تقلید اور امام صادق (ع) مذکورہ حدیث اسی آیت کے ذیل میں ہے: "ایک شخص نے امام صادق۱سے عرض کیا کہ جاہل یہودی عوام اپنے علماء کی پیروی اور ان کی ہر بات ماننے پر مجبور تھے‘ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہ تھا اس میں ان کی کیا خطا ہے؟ اگر خطا ہے تو وہ یہودی علماء کی خطا ہے۔ قرآن مجید ان بے چارے عوام الناس کی مذمت کیوں کر رہا ہے جو کچھ جانتے ہی نہ تھے اور صرف اپنے علماء کی پیروی کر رہے تھے؟ اگر علماء کی تقلید و پیروی لائق مذمت ہے تو پھر ہمارے عوام کی بھی مذمت کی جانی چاہئے جو ہمارے علماء کی تقلید کرتے ہیں‘ اگر یہودی عوام کو اپنے علماء کی تقلید نہیں کرنی چاہئے تھی تو ان لوگوں کو بھی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔" حضرت (ص) نے فرمایا: بین عوامنا و علمائنا وبین عوام الیہود و علمائھم فرق من جھة وتسویة من جھة: اما من حیث استووا فان اللہ قد ذم عوامنا بتقلیدھم علمائھم کما قد دم عوامھم و امامن حیث افترقوا فلا. "ہمارے عوام و علماء اور یہودی عوام و علماء میں ایک جہت سے فرق ہے اور ایک جہت سے ایک جیسے ہیں‘ ان کے ایک جیسے ہونے کی جہت میں خداوند عالم نے ہمارے عوام کو بھی اپنے علماء کی ویسی تقلید کرنے کے باعث مذمت کی ہے اور فرق ہونے کی جہت میں مذمت نہیں کی ہے۔" اس شخص نے عرض کیا: "فرزند رسول توضیح دیجئے۔" حضرت (ص) نے فرمایا: "یہودی عوام نے اپنے علماء کی عملی زندگی دیکھی تھی کہ وہ کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیں‘ رشوت لینے سے نہیں چوکتے‘ رشوت اور ذاتی تعلقات کے باعث الٰہی احکام اور فیصلوں میں الٹ پھیر کرتے ہیں‘ افراد و اشخاص سے تعصب کی بنیاد پر برتاؤ کرتے ہیں‘ ذاتی حب و بغض کو الٰہی احکام میں شامل کرتے ہیں۔" اس کے بعد حضرت (ص) نے فرمایا: و اضطروا بمعارف قلوبھم الی ان من یفعل ما یفعلونہ فھو فاسق لا یجوز ان یصدق علی اللہ ولا علی الوسائط بین الخلق وبین اللہ "وہ اس فطری الہام کی روشنی میں جو خداوند عالم نے تکوینی طور پر ہر شخص کو عطا کیا ہے جانتے تھے کہ ایسے اعمال کا ارتکاب کرنے والے شخص کی پیروی نہیں کرنی چاہئے‘ اس کی زبان سے بیان ہونے والا خدا اور رسول (ص) کا قول نہیں ماننا چاہئے۔" یہاں امام۱یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ یہودی عوام اس مسئلہ سے واقف نہیں تھے کہ ان علماء کی بات ماننا جائز نہیں ہے جو دینی احکام کے خلاف عمل کرتے ہیں‘ کیونکہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے کوئی شخص واقف نہ ہو اس مسئلہ کی معرفت خداوند عالم نے ہر شخص کی فطرت میں ودیعت کی ہے اور ہر شخص کی عقل اسے جانتی ہے۔ منطقیوں کے بقول یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کی دلیل خود اس کے ساتھ ہے:
قضایا قیاسھا معھا جس شخص کا فلسفہ وجود‘ پاکی و طہارت اور ہویٰ و ہوس سے اجتناب ہے اگر وہ ہوا و ہوس اور دنیا پرستی کا دلدادہ ہو جائے تو ہر عقل یہی حکم کرتی ہے کہ اس کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے۔ اس کے بعد حضرت۱فرماتے ہیں: و کذلک عوام امتنا اذا عرفوا من فقہائھم الفسق الظاہر‘ والعصبیة الشدیدة‘ والتکالب علی حطام الدنیا و حرامھا‘ و اھلاک من یتعصبون علنہ و ان کان لاصلاح امرہ مستحقا‘ وبالترفق بالبر و الاحسان علی من تعصبوا لہ وان کان للاذلال و الا ھانة مستحقا فمن قلک من عوامنا مثل ھولا فھم(احتجاج طبرسی‘ جلد ۲‘ ص ۲۶۳‘ ماخوذ از تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری وہاں "بالترفق" کے بجائے "بالترفرف" آیا ہے) "ہمارے عوام کا بھی یہی حال ہے‘ یہ لوگ بھی اگر اپنے فقہاء میں بدکاری‘ شدید تعصب‘ مال و دنیا کی ہوس‘ اپنے دوستوں اور حامیوں کی جانبداری… چاہے وہ ناصالح ہی کیوں نہ ہوں… اپنے مخالفوں کی سرکوبی… چاہے وہ احسان و نیکی کے مستحق ہی کیوں نہ ہوں… اور اسی طرح کے دوسرے اوصاف مشاہدہ کرنے کے باوجود اپنی آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے رہیں تو وہ لوگ بھی یہودی عوام کی طرح مذمت و ملامت کے مستحق ہیں۔" پس معلوم ہوا کہ جائز و ممدوح تقلید‘ خود سپردگی‘ آنکھیں بند کر لینا اور خود کو کسی کے حوالے کر دینا نہیں ہے بلکہ آنکھ کھولے رہنا اور ہوشیار رہنا ہے ورنہ وہ جرم میں شریک مانیں جائیں گے۔
میت کی تقلید کیوں جائز نہیں؟ ھماری فقہ کا ایک مسلم الثبوت مسئلہ یہ ہے کہ میت کی تقلید ابتداٴً جائز نہیں ہے ۔میت کی تقلید اگر جائز ہے تو صرف اس حد تک کہ جو شخص کسی مجتہد کی اس کی زندگی میں تقلید کر رہا تھا اس کی موت کے بعد اس کی تقلید پر باقی رہ سکتا ہے مردہ مجتہد کی تقلید پر باقی رہنے کے لئے بھی زندہ مجتہد کی اجازت ضروری ہے ۔ یہ ایک بنیادی نظر یہ ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا مقصد واضح ہو جائے ۔ اس نظریہ کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ یہ دینی مدارس کی بقا اور اسلامی علوم کی حفاظت کا ذریعہ ہے ۔ نہ صرف یہ کہ اس طرح اسلامی علوم محفوظ رہیں بلکہ روز بہ روز اس میں اضافہ و ترقی ہوتی جائے گی اور لاینحل مشکلیں حل ہوں گی ۔ ایسا نہیں ہے کہ قدیم زمانہ میں ہماری تمام مشکلیں علماء کے ذریعہ حل ہو چکی ہوں اور اب کوئی مشکل باقی نہ رہ گئی ہو ،کلام تفسیر، فقہ اور دوسرے اسلامی علوم میں ہزاروں معمے اور مشکلیں ہیں ۔ بہت سی مشکلیں ماضی میں عظیم علماء حل کر چکے ہیں اور بہت سی مشکلیں باقی ہیں اور یہ مستقبل کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں حل کریں اور تدریجی طور پر ہر موضوع میں مزید جامع اور بہتر کتابیں تحریر کریں اور اس سلسلہ کو آگے بڑھائیں ۔جس طرح ماضی میں علماء نے تدریجی طور پر تفسیر کو آگے بڑھایا، فقہ کو آگے بڑھا یا، کلام کو آگے بڑھایا، یہ قافلہ رکنا نہیں چاہئے ۔ پس زندہ مجتہد وں کی تقلید اور ان کی طرف عوام کی توجہ، اسلامی علوم کی بقاء و ارتقاء کا ایک ذریعہ ہے ۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ مسلمان ہر روز اپنی زندگی میں نئے نئے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اور انہیں ان مسائل میں اپنی ذمہ داری کا علم نہیں ہوتا ۔لہذا ایسے زندہ فقیہوں اور زندہ افکار کی ضرورت ہے جو یہ عظیم احتیاج برطرف کر سکیں ۔ اجتہاد و تقلید سے متعلق ایک حدیث میں ہے :” و اما الحوادث الواقعة فارجعوا فیھا الی رواة احادیثنا “ (احتجاج طبرسی ج ۲ ص ۲۸۳)۔ نئے واقعات میں ہماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کروبعض مقامات پر ” احادیثنا “ کے بجائے ”حدیثنا “ ہے )” حوادث واقعہ “یہی نئے مسائل ہیں جو ہر صدی میں ہر دور میں اور ہر سال پیش آتے ہیں ۔ مختلف زمانوں مختلف صدیوں کی فقہی کتابوں کی چھان بین سے یہ پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی ضروریات کے مطابق تدریجی طورپر فقہ میں نئے مسائل داخل ہوئے ہیں ۔ اور فقہاء نے ان کا جواب دینے کی کوشش فرمائی ہے ۔ اسی لئے رفتہ رفتہ فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی ہے ۔ اگر کوئی شخص تحقیقی نقطۂ نظر سے حساب لگائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ فلاں اور فلاں مسئلہ کس صدی میں، کس علاقہ میں اور کس ضرورت کے تحت فقہ میں شامل ہوا ہے ۔ اگر زندہ مجتہد ان نئے مسائل کا جواب نہ دے تو پھر زندہ و مردہ مجتہد کی تقلید میں فرق ہی کیاہے؟ ! بہتر ہے کہ ہم بعض مردہ مجتہدوں مثلاً شیخ انصاری کی ۔ جو خود زندہ مجتہدوں کے اعتراف کے مطابق سب سے زیادہ عالم و محقق تہے، تقلید کریں ۔ بنیادی طور پر اجتہاد کا فلسفہ، کلی احکام کو جدید مسائل اور بدلتے ہوئے حادثات پر منطبق کرنے میں نہاں ہے ۔ واقعی مجتہد وہی ہے جو فلسفہ احکام حاصل کر سکے ۔ اسے معلوم ہو کہ موضوعات کس طرح بدلتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے احکام بھی بدل جاتے ہیں ۔ ورنہ پرانے اور تحقیق شدہ مسائل میں تحقیق کرنا اور کسی ” علی الاقویٰ “ کو ” علی الاحوط “ سے بدل دینا ” علی الاحوط “ کو” علی الاقویٰ “ میں تبدیل کر دینا تو کوئی ہنر نہیں ہے ۔ اس کے لئے اتنے ہنگامے کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ اجتہاد کے لئے بہت سے شرائط و مقدمات کی ضرورت ہے ۔ مجتہد کو مختلف علوم کا ماہر ہونا چاہئے ۔ عربی ادب، منطق، اصول فقہ، حتیٰ تاریخ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ کا علم ہونا چاہئے اور پھر مدتوں مشق و تمرین کی ضرورت ہے تب کہیں ایک واقعی و جید فقیہ وجود میں آتا ہے فقط نحو، صرف، معانی ،بیان اور منطق کی چند کتابیں اور پھر فرائد، مکاسب اور کفایہ جیسی، سطح کی تین چار کتابیں پڑھ کر اور چند برس تک درس خارج میں شرکت کر کے کوئی اجتھاد کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ ” وسائل “ و” جواہر “ سامنے رکھ کر فتوے صادرنہیں کر سکتا ۔ اسے تفسیر و حدیث یعنی حضرت رسول خدا سے امام حسن عسکری (ع) تک کے ۲۵۰ سال پر محیط ادوار میں بیان ہونے والی ہزاروں حدیثوں نیز ان حدیثوں کے صادر ہونے والے ماحول یعنی تاریخ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ نیز رجال اور راویوں کے طبقوں کا مکمل علم ہونا چاہئے ۔
فتووں میں فقیہ کے تصور کائنات کے اثرات فقیہ اور مجتہد کا کام شرعی احکام کا استنباط و استخراج ہے ۔ لیکن موضوعات کے بارے میں اس کی معلومات اور کائنات کے متعلق اس کے تصورات کو اس کے فتووں میں بڑا دخل ہوتا ہے جن موضوعات کے متعلق فتویٰ صادر کر رہا ہے ضروری ہے کہ ان کے متعلق بھر پور معلومات رکھتا ہو اگر کسی ایسے فقیہ کو تصور کریں جو گھر یا مدرسہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہے اور اس کا موازنہ ایک ایسے فقیہ سے کریں جو زندگی کے مسائل میں دخیل ہے ۔ یہ دونوں فقیہ شرعی دلیلوں کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن دونوں کا استنباط اور فتویٰ الگ ہو گا ۔ مثال کے طور پر :” فرض کیجئے جس شخص نے تہران میں زندگی گزاری ہو یا تہران ہی جیسے کسی شہر میں زندگی بسر کی ہو جہاں آب کُر اور آب جاری کی فراوانی ہو، نہریں اور کنویں موجود ہوں ۔ یہ شخص فقیہ بنے اور طہارت و نجاست کی روایتوں کا مطالعہ کرے تو اس کا استنباط ،احتیاط اور بہت سی چیزوں سے اجتناب کے ہمراہ ہو گا ۔ لیکن جب یہی شخص بیت اللہ الحرام کی زیارت کی غرض سے سفر کرے گا اور وہاں پر طہارت و نجاست کی صورت حال نیز پانی کی قلت سے دو چار ہو گا تو طہارت و نجاست کے سلسلہ میں اس کا نظریہ بدل جائے گا یعنی اس سفر کے بعد جب وہ طہارت و نجاست سے متعلق روایتوں کا جائزہ لے گا تو ان حدیثوں کا کچھ اور ہی مطلب اس کی سمجھ میں آئے گا ۔ اگر کوئی شخص فقھا کے فتووں کا آپس میں موازنہ کرے اور پھر ان کے حالات زندگی نیز زندگی کے مسائل میں ان کے طرز فکر کا جائزہ لے تو اس پر یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ ایک فقیہ کے ذھنی تصورات اور دنیا کے بارے میں اس کی معلومات کس قدر اس کے فتووں پر اثر انداز ہوتے ہیں یھاں تک کہ عرب فقیہ کے فتووں سے عربیت کی بو آتی ہے اور عجمی فقیہ کے فتووں سے عجمیت کی بو آتی ہے دیھاتی فقیہ کے فتووں سے دیھات کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور شھری فقیہ کے فتووں میں شھری جلو ے نظر آتے ہیں ۔ یہ دین، دین خاتم ہے، کسی خاص علاقہ یا زمانہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ھر علاقہ اور ھر زمانے کے لئے ہے ۔ یہ وہ دین ہے جو زندگی کو منظم بنانے اور انسانی زندگی کو ارتقاء دینے آیا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی فقیہ فطری نظاموں اور طبیعی حالات سے بے خبر اور زندگی کے رشد و ارتقاء کا منکر ہونے کے باوجود اس دین حنیف کے اعلیٰ و مترقی احکام کا صحیح طریقہ سے استنباط کر سکے جو انھی نظاموں کے لئے آیا ہے اور ان ھی تغیرات و تبدلات نیز رشد و ارتقاء کی ھدایت و رھنمائی اورا نہیں صحیح سمت پر لے جانے کا ضامن ہے ؟!
ضرورتوں کا ادراک آج بھی ھماری فقہ میں ایسے موارد موجود ہیں جھاں فقھا ء نے صرف کسی موضوع کی ضرورت و اھمیت کے ادراک کے پیش نظر پورے جزم و یقین کے ساتھ اس کے واجب ہونے کا فتویٰ دیا ہے ۔ یعنی با وجود یکہ اس موضوع کے متعلق کو ئی صریح واضح حدیث و آیت ہے نہ معتبراجماع لیکن فقھاء نے استنباط کے چوتہے رکن یعنی عقلی دلیل سے استفادہ کرتے ہوئے فتویٰ دیا ہے فقھا ایسے مقامات پر موضوع کی اھمیت اور روح سے واقفیت کے پیش نظر کہ اسلام اھم موضوعات کے احکام بیان کئے بغیر انہیں یوں ھی نہیں چھوڑدیتا، یقین کرتے ہیں کہ اس مقام پر الٰہی حکم ایسا ہونا چاہئے ۔ حاکم کی ولایت اور اس کے فروعات سے متعلق فقہا کے فتووں کی اساس یہی ہے ۔اگر انہیں موضوع کی اہمیت کا احساس نہ ہوا ہوتا تو یہ فتوے وجود میں نہ آتے۔ جس حد تک انہیں موضوع کی اہمیت کا احساس ہوا انہوں نے فتوے صادر کئے ایسی ہی دوسری نظریں بھی دریافت کی جا سکتی ہیں جہاں فتویٰ نہ دینے کی وجہ، موضوع کی اہمیت و ضرورت سے بے خبری و لا علمی رہی ہے ۔
علوم میں شعبوں کی تقسیم کیونکہ علوم میں کام کی تقسیم، علوم کی ترقی کا نتیجہ بھی ہے اور علت بھی ۔ یعنی علوم تدریجی طور پر ترقی کرتے ہیں اور پھر اس منزل پر پھنچ جاتے ہیں کہ ان کے تمام مسائل میں تحقیق ایک شخص کے بس کی بات نہیں رہ جاتی لہذا اس کی تقسیم اور مختلف شعبے ایجاد کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔ پس کام کی تقسیم اور ایک علم کے تخصصی شعبوں کی ایجاد اس علم کی ترقی کا نتیجہ ہے ۔ دوسری طرف جب کام تقسیم ہو جاتا ہے اور تخصصی شعبے قائم ہو جاتے ہیں اور ساری توجہ اپنے اپنے مخصوص شعبوں پر متمرکز ہوجاتی ہے تو علم کی مزید ترقی ہوتی ہے ۔ دنیا کے تمام علوم ۔ طب، ریاضیات، قانون، ادبیات اور فلسفہ میں تخصصی شعبے قائم ہو چکے ہیں ۔ اسی لئے ان علوم نے خوب ترقی بھی کی ہے ۔
فقہ کا ایک ہزار سالہ ارتقاء ایک زمانہ تھا جب فقہ بہت محدود تھی، شیخ طوسی ۺ سے پہلے کی فقہی کتابوں کا جب جائزہ لیتے ہیں تو وہ بہت ہی چھوٹی اور محدود نظر آتی ہیں۔ شیخ طوسی ۺ نے ”مبسوط “ نامی کتاب لکہ کر فقہ کو ایک نئے مرحلہ میں داخل کیا اور اسے وسعت دی ۔ اسی طرح ہر دور کے علماء و فقہا کی کوششوں اور نئے نئے مسائل کے شامل ہونے نیز جدید تحقیقات کے نتیجہ میں فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی ۔ یہاں تک کہ سوسال قبل، صاحب جواہر بڑی مشکلوں سے فقہ کا ایک مکمل دورہ لکھنے میں کامیاب ہو سکے ۔ کہتے ہیںکہ موصوف نے بیس سال کی عمر سے اس مہم کا آغاز کیا تھا اور اپنی غیر معمولی صلاحیت، پیہم کوشش اور طویل عمر کے نتیجہ میں زندگی کے آخری لمحات میں فقہ کا دورہ مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ جواہر کا مکمل دورہ چہ بڑی اور بہت ہی ضخیم جلدوں میں چھپا ہے ۔( اب یہ کتاب ۴۴ جلدوں میں ( عام سائز میں ) چھپی ہے ) شیخ طوسی کی ”مبسوط “ جو اپنے زمانہ میں مشروح و مفصل فقہ کا نمونہ مانی جاتی تھی جواہر کی ایک جلد کے نصف کے برابر بھی نہیں ہے صاحب جواہر کے بعد، شیخ مرتضیٰ انصاری اعلی اللہ مقامہ نے فقہ کی نئی بنیادیں قائم کیں جس کا نمونہ آپ کی کتاب مکاسب اور کتاب طہارت ہے آپ کے بعد کسی کے ذہن میں اتنی تفصیل و تحقیق کے ساتھ فقہ کا مکمل دورہ پڑھانے یا لکھنے کا تصور بھی نہیں آتا ۔ اس موجودہ دور میں اور دنیا کے تمام علوم کی طرح ہماری فقہ کی اس ترقی کے بعدکہ جو ماضی میں علماء و فقہا ء کی کوششوں کا نتیجہ ہے ،اس دور کے علماء و فقہا یاتو فقہ کی ترقی کو روک دیں اس کے ارتقاء کے راستے مسدود کرد یں یا اس سنجیدہ مترقی تجویز کومان کر تخصصی شعبے ایجاد کریں اور عوام بھی ایک شخص کی تقلید کرنے کے بجائے مختلف شعبوں میں الگ الگ مجتہد ین کی تقلید کریں جس طرح وہ اپنی جسمانی بیماریوں کے علاج کے لئے الگ الگ ماہرین کے پاس جاتے ہیں ۔
فقہی کونسل باوجودیکہ دنیا میں تمام علوم میں تخصصی شعبے قائم ہو چکے ہیں اور اس کے باعث حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ایک اور کام ہوا ہے جس نے اپنی جگہ پر اس ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ ہر شعبہ کے صف اول کے ماہر وں کی امداد باہمی، آپسی تعاون اور فکر و نظر کا تبادلہ ہے ۔ آج کی دنیا میں ایک شخص کے فردی فکر و عمل کی کوئی قیمت نہیں ۔ اکیلا انسان کچھ نہیں کر سکتا ۔ ہر شعبہ کے ماہرین ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں اپنے افکار دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ایک برّ اعظم کے دانشور دوسرے برّاعظم کے دانشوروں سے تعاون کرتے ہیں چنانچہ صف اول کے ماہروں کے درمیان اس تبادلہ خیال اور باہمی تعاون کے نتیجہ میں اگر کوئی صحیح و مفید نظر یہ سامنے آتا ہے تو وہ دنیا میں جلدہی پہیل جاتا ہے اور اپنی جگہ بنا لیتا ہے ۔ اور اگر کوئی غلط نظریہ ہوتا ہے تو اس کا بطلان جلد از جلد واضح ہو جاتا ہے اور وہ نظریہ دم توڑ دیتا ہے اس نظریہ پرداز کے شاگرد برسوں غلط فہمی میں پڑے نہیں رہتے ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک کام کی تقسیم ہوئی ہے اور نہ تخصصی شعبے قائم ہوئے ہیں اور نہ آپس میں کسی قسم کا تعاون و تبادلہ خیال ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کے سورہ شوریٰ آیت ۳۸ میں ہے ۔” و الذین استجابوا لربھم واقاموا الصلوٰة و امرھم شوریٰ بینھم و مما رزقناھم ینفقون “ یہ آیت مومنوں اور اسلام کے پیروؤں کے اوصاف ان لفظوں میں بیان کرتی ہے: یہ لوگ، حق کی دعوت قبول کرتے ہیں، نماز پڑہتے ہیں اپنے کام باہمی ہم فکری اور رائے مشورے سے انجام دیتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عنایت کیا ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں ۔ پس اسلامی نقطۂ نظر سے تبادلہ خیال اور ہم فکری مومنوں اور اسلام کے پیروٴوں کی زندگی کے اصول میں شامل ہے ۔ نہج البلاغہ میں ہے: ” و اعلموا ان عباد اللہ المستحفظین علیہ یصونون مصونہ و یفجرون عیونہ، یتواصلون بالولایة، و یتلاقون بالمحبہ، و یتساقون بکاٴس رویة و یصدرون بریة “ جان لو! خدا کے جن بندوں کو الٰہی علم سپرد کیا گیا ہے وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں، اس کے چشموں کو جاری کرتے ہیں ۔ یعنی علم کے چشموں سے لوگوں کی سیراب کرتے ہیں آپس میں محبت آمیز عواطف اور دوستی کا رشتہ قائم کرتے ہیں، کشادہ روئی، محبت اور گرم جوشی سے ایک دوسرے سے ملتے ہیں، ایک دوسرے کو اپنی فکر و علم کے جام سے سیراب کرتے ہیں اپنے نظریات سے ایک دوسرے کو مستفید کرتے ہیں نتیجہ میں سب کے سب سیراب ہو کر باہر آتے ہیں ۔ اگر فقاہت کی علمی کونسل قائم ہو جائے اور تبادلۂ خیال کا عمل باقاعدہ طور سے انجام پائے تو فقہ میں رونما ہونے والی ترقی کے علاوہ فتوؤں کا اختلاف بھی کافی حد تک بر طرف ہو جائے گا ۔ اگر ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہماری فقہ بھی دنیا کے واقعی علوم کا ایک حصہ ہے تو ہمیں بھی ان اسلوبوں سے استفادہ کرنا پڑے گا جن سے دوسرے علوم میں فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اگر ہم ان اسلوبوں کو کام میں نہ لائیں تو اس کامطلب یہ ہے کہ ہماری فقہ، علوم کی صف سے خارج ہے ۔ ” فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین و لینذر وا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون “ یہ آیت واضح لفظوں میں حکم دے رہی ہے کہ کچھ مسلمانوں کو دین میں ” تفقہ “ کر کے دوسروں کو اپنے ” تفقہ “ سے بہرہ مند کرنا چاہئے ۔ ” تفقہ “ ” فقہ “‘ سے بنا ہے ۔ فقہ کا معنیٰ صرف سمجھنا ہی نہیں ہے بلکہ گہرائی اور ایک شئی کی حقیقت کے متعلق بھر پور بصیرت کے ساتھ سمجھنے کو فقہ کہتے ہیں ۔ راغب اصفہانی اپنی کتاب مفردات میں کہتے ہیں: ” الفقہ ھو التوصل الی علم غائب بعلم شاھد “ یعنی فقہ ظاہر و آشکار امر کے ذریعہ ،کسی مخفی و پوشیدہ حقیقت کے انکشاف کا نام ہے ۔ تفقہ کی تعریف میں کہتے ہیں :” تفقہ اذا طلبہ فتخصص بہ “ یعنی کسی چیز کو تلاش کیا اور اس میں مہارت حاصل کر لی “ یہ آیت مسلمانوں سے کہتی ہے کہ دین کی معرفت سطحی نہیں ہونی چاہئے بلکہ گہرائی میں اتر کر غور و فکر کریں اور احکام کی روح و فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ یہ آیت اجتہاد و فقاہت کی دلیل ہے اور یہی آیت ہماری تجویزوں کی سند ہے جس طرح اس آیت کی روشنی میں، اسلام میں تفقہ و اجتہاد کی بساط بچھائی گئی اسی طرح اس آیت کے فرمان کے مطابق اس کی بساط میں مزید وسعت دی جائے، ضرورتوں پر مزید توجہ دی جائے، فقہی کونسل میدان عمل میں قدم رکہے، اجتماع سے کٹ کر انفرادی اقدامات منسوخ قرار دے دیئے جائیں ۔ تخصصی شعبے قائم کئے جائیں تاکہ ہماری فقہ اپنا ارتقائی سفر جاری رکھ سکے ۔ مآخذ:http://www.sadeqin.net
|
مقالات کی طرف جائیے |
|