مقالات

 

حکومت، نہج البلاغہ کی روشنی میں

رہبر معظم آیۃ اللہ خامنہ دامت برکاتہ

ترجمہ : دلبر علی فیضی
نہج البلاغہ کی ہزار سالہ کانفرنس میں حضرت آیت اللہ خامنہ ای مد ظلہ العالی کی تقریر جس کو آپ نے مدرسہٴ عالی شہید مطہری میں اردیبہشت ۱۳۶۰ش مطابق رجب المرجب ۱۴۰۱ق میں کی تھی ۔
نہج البلاغہ میں حکومت کا مسئلہ ، اس عظیم کتاب میں زندگی کے دوسرے سیکڑوں مسائل کے مانند محققین اور مولفین کی روش کے برخلاف دوسری روش کو پیش کیا ہے البتہ ایسا بھی نہیں ہے کہ حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) نے حکومت کے بارے میں نیا باب یا نئی فصل بیان کی ہو اور مقدمات کو ترتیب دے کر نتیجہ گیری کی ہو، دوسرے ابواب کی طرح اس باب میں بھی ان کے کلام اور گفتگو کی روش ایک حکیمانہ روش ہے یعنی مقدمات سے عبور کرکے نتیجہ پر غور و خوض کرنا ۔
حکومت کے مسئلہ میں حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کا نظریہ ایک بزرگ حکیم کے نظریہ کے مانند ہے جو سرچشمہ ٔوحی سے قریبی رابطہ رکھتا ہے
دوسرے یہ کہ: نہج البلاغہ میں حکومت کا مسئلہ ایک تجریدی بحث کی صورت میں نہیں ہے چونکہ حضرت امام علی(علیہ السلام) حکومتی امور سے سروکار رکھتے تھے حاکم کے عنوان سے اور اس شخص کے عنوان سے گفتگو کی ہے جو اسلامی ملک کے چلانے میں مختلف مشکلات ومصائب اور دوسری پریشانیوں سے دچار ہو، اور مختلف پہلوٴں سے اس مسئلہ پر بحث کی ہے ۔
چونکہ ہم بھی حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے مشابہ شرائط سے روبروہیں ہمارے لئے ایک درس و عبرت کا مقام ہے بندہ نے نہج البلاغہ کا ایک مختصر سا مطالعہ کرکے چند مسائل کو فہرست کے عنون سے نوٹ کیا ہے جو آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔
بہترین مسائل جن کی طرف ہماری زیادہ توجہ ہونی چاہیئے مندرجہ ذیل مسائل ہیں:
حکومت کے معنی ومفہوم
سب سے پہلے ہم کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا حکومت حضرت امام علی (علیہ السلام) کی نظر میں اسی معنی میں ہے جو نئی اور پورانی دنیا کی تہذیب و تمدن میں رائج ہے؟یعنی حکومت، فرمانروائی، سلطہ، حاکمیت کے ہم معنی و مترادف ہے گاہ بہ گاہ حاکم یا حکّام امور زندگی میں کچھ امتیازات اور برتری کے حامل ہوتے ہیںیا نہیں؟”حکومت“نہج البلاغہ کے ادب میں دوسرا مفہوم رکھتا ہے ؟
ہم اس باب میں نہج البلاغہ کے چند کلمہ اور مشخص اصطلاح سے استفادہ کریں گے، حاکم کے لئے امام، ولی، ولی امر کے الفاظ اور عوام کے لئے رعایا کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔
حکومت کی ضرورت
بعد کا مطلب، ضرورت حکومت کا مسئلہ ہے یہ خود ایک بحث ہے کہ کیا ایک انسانی سماج کے لئے حاکم وحکومت کاوجود ضروری چیز ہے یا نہیں؟اس بحث سے نتیجہ اخذ کرنا اجتماعی وسماجی زندگی میں ضروریات سے ملتزم ہونے کے معنی میں ہے اور صرف اس بات میں منحصر نہیںہے کہ ہم تسلیم کریں کہ سماج کے لئے حکومت ضروری ہے بلکہ ہماری بحث کا نتیجہ حاکمیت اور فرمانبرداری کی راہ وروش میں اور سماج کے چلانے میں بھی مخصوص مشخصات و خطوط کھینچے گا۔
منشاٴ حکومت
نہج البلاغہ کی نظر میں حکومت کا سرچشمہ کیا ہے؟کیا ایک طبیعی چیز ہے یا موروثی چیز ہے یا نسل اور قوم وقبیلہ کے تعلق رکھتی ہے، یا ایک نسبتی چیز ہے یا زورو اقتدار سے تعلق رکھتی ہے یا نہیں؟بلکہ منشاٴ حکومت یا جو کچھ ایک انسان یا ایک گروہ کی حکومت کو جو از عطا کرتی ہے ایک الٰہی چیز یا ایک عوامی چیز ہے؟
حکومت حق ہے یا فریضہ؟
چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ: کیا حکومت کرنا ایک حق ہے یا ایک ذمہ داری ہے؟حاکم کو حکومت کرنے کا حق ہے یا اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کرے؟کون سا انسان حکومت کرسکتا ہے؟یا کس انسان کو حکومت کرنی چاہیئے؟نہج البلاغہ کی نظر میں حکومت حق بھی ہے اور ذمہ داری بھی ہے لیکن اس شخص کے لئے جو حکومت کے شرائط اور معیار کا حامل ہو، ذمہ داری اس صورت میں ہے کہ حکومت کو قبول کرے وہ اس ذمہ داری سے دست بردار نہیں ہوسکتا۔
حکومت مقصد ہے یا وسیلہ ؟
پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ: ایک شخص یا ایک گروہ کی حکومت مقصد ہے یا ایک وسیلہ ہے؟اگر وسیلہ ہے تو کس ہدف کے لئے ہے؟حاکم حکومت کے ذریعہ کس مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے اور سماج کو اس منزل تک پہونچانا چاہتا ہے؟
حاکم اور رعایا
چھٹاںمسئلہ جو بڑے ہیجانی کیفیت کا حامل ہے وی حاکم اور رعایا کے درمیان روابط کا مسئلہ ہے ۔یہ روابط کس مبناء اور کس بنیاد پر مبتنی ہے؟کیا حق ایک طرفہ ہے کہ حاکم کو عوام کی گردن پر سوار کرتا ہے؟یا دو طرفہ حق ہے؟نہج البلاغہ کی بحثوں میں سب سے بنیادی، پرمعنی اور نتیجہ بخش بحث حکومت یہی مسئلہ ہے ۔
عوام اور حکومت
ساتواں مسئلہ حکومت میں عوام کا مسئلہ ہے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ نہج البلاغہ کے تمدن و ثقافت میں حکومت کے سلسلے میں عوام کا کیا کردار ہے؟تعیین کرنے والے ہیں یا آغاز کرنے والے ہیں؟پورے اختیار کے مالک ہیں؟یا ان کا کوئی اختیار نہیں ہے؟وہ کیا ہیں؟یہ وہ خوش طبع مسائل ہیں جن کا نہج البلاغہ میں تذکرہ ہوا ہے ۔
وہ ثقافت اور تہذیب وتمدن جو آج لوگوں کی ذہنیت پر مختلف سیاسی تقسیم بندیوں کی وجہ سے حاکم ہے ان میں کوئی بھی نہج البلاغہ کی تہذیب و تمدن سے منطبق نہیں ہے ۔
عوام سے ارتباط کی کیفیت
آٹھواں مسئلہ جو اصولی لحاظ سے ایک ثانوی مسئلہ ہے، لیکن عملی لحاظ سے یہ مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اور وہ اداری دفاتر کا عوام سے برخورد وبرتاوٴ کا طریقہ ہے ۔حکومت کے اراکین اور ممبران کس طرح عوام سے برتاوٴ کریں؟کیا وہ عوام کے مقروض ہیں یا عوام ان کی مقروض ہے؟حکومتی دفاتر کا اخلاق لوگوں کے ساتھ کیسا ہے؟
خود اپنے ساتھ حاکم کا سلوک
نواں مسئلہ جو اس سے بھی زیادہ جالب ہے وہ خود اپنے ساتھ حاکم کا سلوک ہے ۔کیا سماج میں حاکم کی رفتار کے لئے کوئی حد معین ہے یا نہیں؟کیا لوگوں کے ساتھ اس کے حسنِ سلوک پر اکتفاء کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟عوام کے ساتھ حاکم کے ارتباط کی کیفیت کے علاوہ کچھ دوسری چیز کا ہونا بھی ضروری ہے اور وہ خود اپنے ساتھ حاکم کا سلوک ہے، حاکم کی شخصی زندگی کس طرح گزرنی چاہیئے؟نہج البلاغہ کا اس سلسلے میں کیا نظریہ ہے؟

حاکم کے شرائط
دسواں مسئلہ، حاکم کے شرائط ہیں۔ایک انسان نہج البلاغہ کے فتویٰ کے مطابق کیسے انسانی معاشرے پر حکومت کرسکتا ہے؟یہ ان مسائل کے عناوین ہیں جو نہج البلاغہ میں ذکر ہوتے ہیں جس کو ہم پیش کرکے بحث کرسکتے ہیں۔
حکومت کا مفہوم
پہلا مسئلہ حکومت کے معنی ومفہوم کا مسئلہ ہے زبان عربی کی مرسوم تعبیرات میں حاکم کے لئے مندرجہ ذیل تعبیرات وعناوین پائے جاتے ہیں ۔سلطان (بادشاہ) ، مَلِک، کلمہٴ سلطان کے بطن میں ”حاکم میں سلطہ“کا مفہوم پایاجاتا ہے یعنی جو شخص حاکم ہے سلطہ گری کے پہلو کی وجہ سے قابل توجہ ہے دوسرے عوام کے امور زندگی میں دخالت نہیں کرسکتے لیکن وہ کرسکتا ہے ۔
ملک، ملوکیت، مالکیت میں عوام کے تملّک کے مفہوم یا لوگوں کے سرنوشت کے تملّک کو شامل ہے، نہج البلاغہ میں اسلامی سماج کے حاکم کو ہرگز ملک یا سلطان کے عنوان سے یاد نہیں کیا گیا ہے ۔نہج البلاغہ کی تعبیرات میں ایک تعبیر امام سے لی گئی ہے جس کے معنی رہبر وپیشوا کے ہیں ۔رہبر اور رہنما کے معنی میں فرق پایاجاتا ہے ۔رہبر وہ شخص ہے کہ اگر ایک گروہ یا ایک امت کو اپنے پیچھے چلاتا ہے تو وہ خود سب سے آگے آگے ہوتا ہے ۔حرکت اور پیش روئی اور آگے بڑھنے کا مفہوم اس راستے میں جہاں پر لوگ حرکت کرتے ہیں، امام کے معنی و مفہوم میں پایاجاتا ہے ۔
دوسری تعبیر”والی“ہے:
کلمہٴ والی ولایت یا ولایت سے اخذ کیا گیا ہے اس کلمہ کے مشتقات پر توجہ کرتے ہوئے اس کے مورد نظر پہلو کی طرف پہنچا جاسکتا ہے ۔
لغت میں ولایت کے معنی دو چیز کے درمیان اتصال و ارتباط کے ہیں ۔ولایت یعنی دو چیز کو آپس میں اس طرح متصل ہو جانا جن کے درمیان کسی چیز کا فاصلہ نہ ہو، جس کو فارسی میں ہم جوشی، ہم پوستگی (باہمی وابستگی) تام وتمام یعنی مکمل ارتباط سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ ولایت کے معنی ہیں البتہ ولایت کے دوسرے معنی بھی ذکر کئے گئے ہیں ۔ولایت بمعنی محبت، ولایت بمعنی سرپرستی، ولایت بمعنی غلام کا آزاد کرنا، ولایت بمعنی مولا یا غلام، (ان تمام معنی سے) یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ ولایت کے معنی میں جن نوع ارتباط کو ذکر کیا جاتا ہے وہ سب کے سب ارتباط اور پیوند واتصال کے مصادیق ہیں، قوم اور رعایا کا والی، وہ شخص ہے جو لوگوں کے امور کا ذمہ دار ہے اور ان سے ارتباط رکھتا ہے۔ حضرت امیر المومنین(علیہ السلام) اور نہج البلاغہ کی نظر میں حکومت کا یہی معنی ہے ۔
ولی امر، یعنی اس کام کا ذمہ دار، کلمہٴ متصدی میں کسی قسم کی برتری کا مفہوم نہیں پایاجاتاہے.
اسلام سماج ایک عظیم کارخانہ کے مانند ہے کہ جو کئی حصّوں ، مشینوں، اسکرووٴں اور بولٹوں اور چھوٹے بڑے پر تاثیر اور کم تاثیر حصّوں سے وجود میں آیا ہے، اس کے حصوں میں اس کا ایک حصہ، وہ حصہ ہے جس کو معاشرے کا مدیر تشکیل دیتا ہے، جو دوسرے تمام حصوں کے مانند ہے ۔وہ بھی دوسرے باقی اجزاء اور عناصر کے مانند اس مجموعہ کو تشکیل دینے والاہے، ولی امر اس کام کا متصدی (ذمہ دار) ہے۔اس کام کا متصدی کسی قسم کی برتری کا طالب نہیں ہے اور نہ اس کی توقع رکھتا ہے۔اس کی وضع زندگی میں عملی اعتبار سے کسی قسم کی برتری اور مادی چیزیں اس سے تعلق نہیں رکھتی ہیں، اگر وہ اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح نبھا سکتا ہے اس ذمہ داری کی انجام دہی کی وجہ سے معنوی مقدار میں اس کے معنوی حیثیت کو جلب کرے گی اتنی ہی مقدار میں اپنی حیثیت کسب کرے گا ۔نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ، نہج البلاغہ میں یہی حکومت کا مفہوم ہے ۔اس تعبیر کی بناء پر نہج البلاغہ میں حکومت کے (معنی) میں سلطہ گری کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔برتری طلبی کا کوئی بہانہ نہیں پایاجاتا دوسری طرف نہج البلاغہ کی تعبیر میں عوام کو رعایاسے یاد کیا گیا ہے ۔
رعایا: وہ افراد جن کی حفاظت، نگرانی اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ولی امر کے کاندھے پر ہے۔یہ نگرانی اور حفاظت کبھی کبھی بے جان چیز کی کی جاتی ہے ۔اس کا ایک الگ مفہوم اور معنی ہے کبھی کبھی یہ حفاظت و نگرانی کسی جاندار چیز سے مربوط ہے تو اس کا ایک الگ مفہوم ہے ۔کبھی کبھی یہ حفاظت اور نگرانی کا تعلق انسانوں سے ہے یعنی انسان اپنی شخصیت کے تمام پہلو کے ساتھ آزاد خواہی کے ساتھ اپنی معنوی افزائش طلبی کے ساتھ، اپنے ارمان واہداف کے ساتھ، ان تما م کو ایک مجموعہ کے عنوان سے نظر میں رکھے، انسانوں کو ان تمام مجموعہ کے ساتھ مورد رعایت قرار دے ۔
یہ وہی چیز ہے جس کی اسلامی تہذیب میں ہمیشہ لحاظ کیا گیا ہے ۔اس بارے میں کمیت اسدی فرماتے ہیں
”ساست لاکمن یرعی الناس سواء ورعیة الانعام“ 1
وہ سیاست مدار جو انسانوں کی مراعات کو حیوانوں کی مراعات کے مانند نہیں سمجھتے، یعنی انسان کو ان کی انسانیت کے ساتھ مراعات کی جانی چاہیئے، نہج البلاغہ کی تعبیر میں رعایا اور عوام کی تعبیر کا یہی معنی و مفہوم ہے ، خلاصہ کے طور پر جب کہ ہم نہج البلاغہ میں حکومت کے معنی ومفہوم کی تلاش میں ہیں تو ایک طرف سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جو حکومت کے سب سے پہلے عہدے پر ہے ، والی ہے ، ولی امر ہے ، جو لوگوں کے امور کا ذمہ دار ہے اہم فریضہ کا مکلف اور عہدہ دار ہے وہ انسان ہے جس کے کاندھے پر بڑی ذمہ داری کا بوجھ ہے لیکن دوسری طرف، عوام ہے جن کو ان کی تمام اقتدار کے ساتھ تمام حسرتوں کے ساتھ، ان کی تمام شخصیت کو تشکیل دینے والے عناصر کے ساتھ مراعات کیا جائے ان (نہج البلاغہ میں) حکومت کا جو معنی و مفہوم ہے اس مفہوم میں کسی سلطہ گری کا تصور ہے نہ زور و زبردستی کا اور نہ زیادہ خواہی کا ۔حضرت امیر المومنین(علیہ السلام) نہج البلاغہ کے اہم حصوں میں حکومت کے حدود کی طرف اشارہ کرتے ہیں، شاید نہج البلاغہ میں دسیوں جملوں کی طرف نشاندہی کی جاسکتی ہے ۔جو حضرت امام علی (علیہ السلام) کی نظر میں حکومت کے معنی و مفہوم کو مشخص کرتے ہیں منجملہ مالک اشتر کے خط کی ابتداء میں پڑھتے ہیں
”جبایة خراجھا وجھاد عدوّھا واستصلاح اھلھا وعمارة بلادھا“ 2
”تا کہ وہاں کی ہم مالیات کو جمع کریں، اور ان کے دشمنوں سے جنگ کریں، اور وہاں کے باشندوں کے حالات کی اصلاح کریں ، وہاں کے شہروں کو آباد کریں۔“
یہ حکومت کا معنی و مفہوم ہے ۔اگر مالک اشتر عصر کے حاکم اور والی اور گورنر کے عنوان سے معین ہوتے ہیں یہ اس لئے نہیں ہے کہ اپنے لئے کوئی عنوان یاکوئی اقتدار حاصل کریں یا کوئی مادی فائدہ سے بہرہ مند ہوں، بلکہ اس لئے ہے وہ اس کام کو ملک کو چلانے کے لئے انجام دیں ان سے مالیات لیں، عوام کے دشمنوں سے مبارزہ کریں، ان کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھیں ان کو صلاح سے قریب کریں (اس صلاح کا بھی ایک وسیع مفہوم ہے جو مادی اور معنوی دونوں کو شامل ہے جو حضرت امام علی (علیہ السلام) کے نظریہ کے مطابق نہج البلاغہ کی منطق میں پیش کیا گیا ہے۔)
شہروں اور اپنی حکومت کے حدود کو آباد کریں، یعنی خلاصہ کے طور پر، انسانوں کو (انسان) بنائیں، زمین کو آباد کریں اخلاق اور معنوی اقدار کو ترقی دیں ، لوگوں کی ذمہ داریوں اور جو کچھ حکومت کے بارے میں ان کی گردن پر ہے، اس کا نفاذ کرے ۔
حکومت کی ضرورت
اس کے بعد کا مسئلہ حکومت کی ضرورت کا مسئلہ ہے، نہج البلاغہ میں یہ بحث ایک خاص گروہ کے مقابلہ میں پیش کی جاتی ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے ۔ایک سماج میں ہمیشہ قدرتمندانہ رجحان ایسے افراد میں پایاجاتا ہے جو سماج میں اپنی ایک حیثیت اورمقام بنانا چاہتے ہیں وہ اپنے لئے سماج کی عمومی روال کو نہیں مانتے وہ اپنے کو اجتماعی زندگی کی ضروریات سے جو انسانوں کے کاندھے پر رکھی جاتی ہے آزاد رکھنا چاہتے ہیں وہ اجتماعی اور سماجی عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں ۔
یہ رجحان ہمیشہ انسانی سماج میں پایاجاتا رہا ہے اور آج بھی ہے آئندہ بھی رہے گا جب تک کہ انسانی اخلاقی کمال کی منزل تک نہیں پہونچے گا ۔ان کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جو کسی کشتی میں سوار ہوں اور اس میں سوراخ کردیں یا وہ ایک ٹرین میں سوار ہیں وہ چاہتے ہیں کہ وہ جس ڈبہ میں سوار ہیں یا وہ جس کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں، وہ ان کو ایسی جگہ اتار دے جو ان کی نظر میں آب و ہوا کے اعتبار سے بڑی اچھی جگہ ہے ۔اور اگر ضروری ہوتو پوری گاڑی رک جائے ، اس پر ان کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا وہ ایک اجتماعی زندگی کی ضروریات جو انسان پر تحمیل کی جاتی ہے ان کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے۔
اگر سماج میں یہ جابرانہ رجحان پھلنے اور پھولنے کا موقع پاجائے ، تو اس کا نتیجہ افراتفری کا ہوجائے گا ۔
حضرت امام علی (علیہ السلام) اس رجحان کے رکھنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں : ”لابدّ للنّاس من امیر“ 3 ”لوگوں کے لئے اور حاکم ہونا ضروری ہے ۔“حضرت امام علی(علیہ السلام) بہ جملہ ایک خاص گروہ کے بارے میں فرمارہے ہیں جو حکومت کی ضرورت کا منکر تھا اور اگرباطنی طور پر ریاست طلبی کے رجحان سے قدرت و طاقت کی طرف جھکاؤ پیدا ہوتا ہے لیکن ظاہری طور پر اس جذبے کے اوپر کسی فلسفہ کی رونق پائی جاتی ہے تو یہ وہی چیز ہے جس کا ہمیں عصر امیرالمومنین (علیہ السلام) میں سراغ ملتا ہے۔
خوارج میں کچھ سچ لیکن اشتباہ تھا اور کچھ کچھ ایک غرض کے تحت کہہ رہے تھے ”لا حکم الّا للّٰہ“ 4 یعنی ”ہمیں سماج اور معاشرے میں حکومت کی ضرورت نہیں ہے۔“ حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) اس جملہ”لا حکم الّا للّٰہ“ کے معنی کو بیان کرتے ہیں اور ان کی غلطی کی وضاحت کررہے ہیں، ہمیں یقین نہیں آتا خوارج کا سردار اشعث بن قیص غلطی کررہا تھا ہمیں یہ بھی یقین نہیں آتا کہ حضرت امام علی (علیہ السلام) کے موذی سیاست مدار رقیب اس رجحان کے ایجاد کرنے میں بظاہر الٰہی اور توحیدی نقش نہیں رکھتے ہیں ۔
وہ کہتے ہیں حکومت خدا سے مخصوص ہے ہمیں حکومت نہیں چاہیئے اگر اس دن امام علی(ع) اس مغالطہ کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے یا ان لوگوں کے اجتماعی ہیجان کے سامنے جو اپنی سادہ دلی کی وجہ سے اس کلمہٴ باطل کو قبول کرچکے تھے سرتسلیم خم کردیتے اور استفاء پیش کردیتے تو اس وقت وہی لوگ جو کہہ رہے تھے ہمیں حکومت کی ضرورت نہیں ہے حکومت کے دعویدار بن جاتے اور وارد میدان ہوجاتے ۔
حضرت امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: نہیں، سماج میں حکومت ضروری ہے ”کلمةحق یراد بھا الباطل “ 5 ”بات حق کہہ رہے ہیں، لیکن اس سے باطل ارادہ کررہے ہیں “یہ بیان قرآنی بیان ہے ”انّ الحکم الاّ للّٰہ“ 6 حکم و حکومت کا حق صرف خدا کو ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سماج کو مدیر کی ضرورت نہیں ہے: ”نعم انّہ لا حکم الا للّٰہ ولکن ھوٴلاء یقولون لا امرة الا للّٰہ“ 7
یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خود خدا سماج کو ادارہ کرے خدا کے علاوہ کسی کو سماج کو چلانے کا حق حاصل نہیں ہے، یعنی سماج کو کوئی چلانے والا نہ رہے اس کو مدیر کی ضرورت نہیں ہے ”وانّہ لا بد للنّاس من امیر برّ او فاجر“8 لوگوں کے لئے ایک امیر کی ضرورت ہے چاہے وہ نیک کردار کا مالک ہو یا بد کردار کا۔
حکومت کے لئے مدیر کا ہونا ایک اجتماعی، فطری اور انسانی ضرورت ہے، سماج کو ایک مدیر کی ضرورت ہے انسانوں کی ضروریات زندگی کا تقاضہ ہے کہ مدیر پایاجائے، یہ جو کلمۂ”لا حکم الّا للّٰہ“کہہ رہے تھے اس سے در حقیقت حضرت امام علی (ع) کی حکومت کا انکار کررہے تھے جس سے وہ ناخوش تھے در حالیکہ یہ جملہ ”لا حکم الّا للّٰہ“خدا کے شریک کی نفی کررہا ہے، خدا کے قریب کی حاکمیت کی نفی اور انکار کررہا ہے، وہ حاکمیت جو خدا کی حاکمیت کے مقابل میں ہو، حضرت امام علی (علیہ السلام) کی حاکمیت خدا کے مقابل میں نہیں تھی بلکہ خدا کی حاکمیت کے زیر سایہ تھی جس کا سرچشمہ حکومت خدا تھی۔
حضرت امام علی (علیہ السلام) اس مسئلہ کو واضح کررہے ہیں کہ اگر کسی سماج میں ایسی حکومت یعنی جس کا منشاٴحاکمیت خدا ہو پائی جائے اس وقت جو بھی ”لا حکم الّا للّٰہ“کے مفہوم کے برخلاف دکھائی دے وہ تحریک خدائی اور علوی تحریک کے برخلاف ہوگی، حضرت امام علی (علیہ السلام) اس تحریک سے بڑی قاطعیت کے ساتھ پیش آئے ، اور وہ خوارج جو راہ حق سے پھر گئے تھے او ر اس کی طرف واپس نہیں آرہے تھے ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔

حکومت کا منشا (سبب)
تیسرا مسئلہ حکومت کا منشاٴاور سبب ہے، گزشتہ اور حال میں انسان کی رائج تہذیب میں حکومت کا منشاٴ زور اور اقتدار تھا، ساری فتوحات اور لشکر کشیوں کا یہی مقصد تھا ، ایک شاہی خاندان جو دوسری خاندان کا جانشین بنتا تھا در حقیقت اس کا بھی یہی مقصد ہوتا تھا۔اسکندر جس نے ایران کو فتح کیا وہ مغل خاندان جس نے ایک بہانہ سے اس سرزمین پر حملہ کیا اس کا بھی یہی مقصد تھا سب کی منطق یہی تھی کہ جب ہم آگے بڑھ سکتے ہیںتو آگے بڑھیں جب قدرت ہے تو ملک پر قبضہ کریں گے اورلوگوں کو قتل کریں گے سلسلہٴ تاریخ میں وہ تحریکیں جو حکومتوں کی تاریخ ساز ہیں، سب اسی ثقافت کی نشاندہی کرتی ہیں۔حکّام اور رعایا کی نظر میں حکومت کا منشاٴ اور معیار زور و اقتدار رہا ہے، لیکن جب ایک بادشاہ اقتدار کو ہاتھ میں لیتا تھا وہ اس دن واضح طور پر نہیں کہتا تھا کہ اس کی حکومت کا منشاٴ زور و اقتدار ہے یہاں تک کہ چنگیزخان اور مغل نے بھی ایک بہانہ سے ایران پر حملہ کیا جو ظاہری طور سے ان کے دوستوں اور فوجیوں کے لئے معقول تھا۔
آج کے دور میں سپر طاقتوں کی بازی، اس معنی میں ہے کہ ان کی قدرت و طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔وہ افراد جو زور واقتدار سے ممالک کو فتح کرتے ہیں، وہ لوگ جو اپنی سرزمین سے ہزاروں کلو میٹر دور ہونے کے باوجود لوگوں کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں، وہ لوگ جوایک قوم کی سرنوشت کو ان کی مشیت کے برخلاف اپنے ہاتھ میں لے لےتے ہیں وہ نہ زبان سے بلکہ عملی طور سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کا بھی ملاک اور منشاٴ زور اور اقتدار ہے اگر چہ اس رائے کے پہلو میں یہ تمدن غالب ہے ۔اس نظریہ کے مقابل میں ایک دوسرا نظریہ بھی پایاجاتا ہے، افلاطون حکومت کا معیار فضل وفضیلت سمجھتا ہے یعنی افاضل اور برجستہ افراد کی حکو مت کا قائل ہے، لیکن یہ نظریہ صرف کاغذ کے اوپر یا مدرسہ کی چاردیواری میں منحصر ہے ۔
اس دور جدید میں حکومت کا معیار اور منشاٴ ڈمکراسی یعنی اکثریت کی حکومت قرار دیا گیا ہے، لیکن کس کو معلوم نہیں دسیوں غیر مہذب ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا ہے تا کہ لوگوں کا زور مندوں اور طالبان قدرت کی طرف جھکاوٴ پیدا ہوجائے ۔اس بناء پر ایک جملہ میں کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے درمیان رائج فرہنگ میں اول سے لیکر آج تک اور جب تک نہج البلاغہ اور علوی فرہنگ کی انسانی زندگی پر حکومت نہیںہوگی ، تب تک حاکمیت کا معیار اقتدار اور زور رہے گا نہ اس کے علاوہ ۔
نہج البلاغہ میں اس کو حضرت امام علی (علیہ السلام) حکومت کا معیار نہیں سمجھتے، اہم تو یہ ہے کہ خود آنحضرت (ع) نے عملی طور پر اس کو ثابت کردیا ہے۔ حضرت امام علی (علیہ السلام) کے نظریہ کے مطابق حکومت کا اصل معیار کچھ معنوی اقدار ہیں، وہ شخص لوگوں پر حکومت کرسکتا ہے جو چند مذکورہ خصوصیات کاحامل ہو۔
حضرت امام علی(علیہ السلام) کے ان خطوط پر نظر کیجیئے جو آپ نے طلحہ و زبیر اور اپنے گورنروں، کوفہ اور مصر کے باشندوں کے نام لکھا ہے ، وہ لوگوں پر ولایت وحکومت کو ایک معنوی اقدار سمجھتے ہیں لیکن فقط معنوی اقدار بھی کافی نہیں ہے جب تک کہ خود انسان عملی طور پر والی و حاکم نہ بن جائے ، بلکہ اس مقام پر عوام بھی حصہ دار ہیں جو بیعت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔
حضرت امام علی (علیہ السلام) نے دونوں موضوع پر روشنی ڈالی ہے، ہم ان خطوط میں جو آپ نے اپنے رقباء کے نام لکھے ہیں جس کی طرف پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے ، ہم ان بیانات میں جو آ نے اہل بیت (ع) کے بارے میں دیئے ہیں دونوں خطوط اور بیانات میں حکومت کا معیار معنوی اقدار قرار دیا ہے ۔
لیکن فقط یہ معنوی اقدار حکومت کے تحقق کا سبب نہیں ہیں بلکہ لوگوں کی بیعت بھی شرط ہے۔
”انّہ بایعنی القوم الّذین بایعوا ابابکر وعمر وعثمان علی ما بایعوھم علیہ، فلم یکن للشّاھد ان یختار ولاللغائب ان یرد ، وانّما الشّوری للمھاجرین والانصار ، فان اجتمعوا علی رجل و سموہ اماما کان ذلک للّٰہ رضی“ 9
”حضرت(ع) فرماتے ہیں: اگر مہاجرین اور انصار جمع ہوجائیں اور کسی کو اپنا پیشوا اور رہبر بنائیں اور اس کی امامت و رہبری کے سامنے سر تسلیم خم کریں تو خدا اس سے راضی ہے۔“بیعت حق خلافت کو منجز کرنے والی چیز ہے ۔
وہ معنوی اقدار اس وقت کسی کو ولایت امر کے مقام پر پہونچاسکتی ہیں جب لوگ اس کو قبول کرلیں۔

حکومت حق ہے یا فریضہ؟
دوسرا مسئلہ جس کی نہج البلاغہ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے، وہ یہ ہے کہ کیا حکومت ایک حق ہے یا ایک فریضہ؟حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) اپنے مختصر سے بیان میں حکومت کو حق بھی سمجھتے ہیں اور فریضہ بھی، لیکن اس طرح بھی نہیں ہے کہ جس شخص کے لئے بھی لوگوں کے امور کی سرپرستی کے شرائط فراہم ہوگئے اور کسی بھی طریقے سے اپنا پرچار کرکے ، ان روش کو اختیار کرکے جس کو عام طور سے طالبانِ قدرت بہتر جانتے ہیں ان روش کو اختیار کرے اور عوام کی نظر کو جذب کرکے حکومت کرسکے۔جب حکومت حق ہے تو یہ حق کچھ خاص افراد کا حق ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ طبقہ کوئی ممتاز طبقہ ہے ۔بلکہ اسلامی معاشرے میں ہر ایک کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ خود کو ان صفات سے آراستہ کرے ہر شخص ان شرائط کو حاصل کرسکتا ہے، لیکن زمانہٴ پیغمبر(ص) کے بعد ایک استثنائی دور تھا۔ نہج البلاغہ اپنے بیانات کو عمومی طور پر پیش کرتا ہے اور اس حق کی طرف بارہا اشارہ کرچکا ہے ۔حضرت امام علی (علیہ السلام) نے آغاز خلافت میں ایک خطبہ دیا ہے جس کو خطبہٴ شقشقیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے آپ اس خطبہ میں فرماتے ہیں:
”وانّہ لیعلم انّ محلّی منھا محلّ القطب من الرّحی، ینحدر عنّی السّیل ولا یرقیٰ الی الطّیر“ 10
”خلافت میں میری مثال چکی کی اس کھوٹی کی طرح ہے جس کے بغیر چکی چل نہیں سکتی مجھ سے علوم ومعارف کا چشمہ جاری ہے اور کوئی طائر فکر میری بلندی تک پرواز نہیں کرسکتا ۔“
جس دن چھ افراد کی کمیٹی بنی تھی اور عثمان کی بیعت کی گئی تھی اس کمیٹی میں آپ نے فرمایا:
”لقد علمتم انّی احقّ النّاس بھا من غیری“ 11
”اے لوگو تم کو معلوم ہے کہ میں حکومت وخلافت کا سب سے زیادہ حقدار ہوں“
امام(علیہ السلام) نہج البلاغہ میں حکومت کو حق سمجھتے ہیں جس کو آپ نے واضح طور پر بیان کیا ہے اس کے فوراً بعد فرماتے ہیں:
”وواللّٰہ لاسلّمنّ ما سلمت امور المسلمین ولم یکن فیھا جور الاّ علیّ خاصّة“ 12
”خدا کی قسم خلافت کو دوسرے کے حوالے کردیتا ہوں جب تک مسلمانوں کے امور منظم رہیں اور اس خلافت میں میری ذات کے علاوہ کسی اور پر ظلم نہ ہو جب تک فقط میری ذات پر ظلم ہوگا صبر کروں گا، سر تسلیم خم ہے ۔جب تک کام اپنے طریقے پر انجام ہوتا رہے گا میں حکومت کی خدمت کرنے میں مصروف رہوں گا ‘ ‘۔
آپ نے اس موقع پر وہی بیان دیا تھا جو ابوبکر کی خلافت کے وقت دیاتھا۔آپ فرماتے ہیں:
”فامسکت یدی حتّی رایت راجعة النّاس قد رجعت عن الاسلام“ 13
”پہلے میں نے بیعت نہیں کی سر تسلیم خم نہیں کیا لیکن جب میں نے دیکھا کہ کچھ ایسے حوادث پیش آرہے ہیں کہ جب واقعات کی مصیبت اسلام و مسلمین اور خود امام علی (علیہ السلام) کے لئے ، حق حکومت کے چھن جانے کی مصیبت سے زیادہ دشوار اور قابل تحمل نہیں ہے یہ کہ حضرت امام علی (علیہ السلام) حکومت کو ایک حق جانتے تھے قابل انکار نہیں ہے “۔
بہتر ہے سارے مسلمان اس مسئلہ کو تعصب کا عینک اتار کر دیکھیں، یہ چیز سنّی اور شیعہ کے درمیان جھگڑا اور لڑائی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی، آج ہم اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں پوری کائنات میں شیعہ اور سنّی متحد ہوکر زندگی بسر کریںاور اسلامی بھائی چارگی کو ہر چیز سے زیادہ فوقیت دیں یہ ایک حقیقت ہے یہ تبادلۂ خیال اور اتحاد آج ایک فریضہ ہے اور ہمیشہ ہیی ذمہ داری رہی ہے ۔نہج البلاغہ کی ایک علمی اور اعتقادی بحث ہمیں اس حقیقت کاپتہ دیتی ہے ۔ہم سے ایسا نہیں ہوسکتا کہ اپنی آنکھ پر پٹی باندھ لیں اور جو کچھ نہج البلاغہ نے واضح طور پر کہا ہے اس سے چشم پوشی کرلیں اس حکومت کو حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) اپنا حق سمجھتے تھے اسی طرح اس کو ایک وظیفہ اور ذمہ داری بھی سمجھتے تھے ۔یعنی اس دن جب لوگ حضرت امام علی(علیہ السلام) کے گرد گرد جمع ہوگئےتھے جیسا کہ خود فرماتے ہیں:
«فماراعنی الاّ والنّاس کعرف الضّبع اِلیّ، ینثالون علیّ من کلّ جانب حتّی لقد وطیء الحسنان وشقّ عطفای » 14
(میرے دروازے پر لوگوں کا اتنا مجمع جمع ہوگیا تھا کہ میرے بیٹے حسن(ع) وحسین (ع) لوگوں کے قدموں سے روندے جارہے تھے میری عبا پھٹ گئ تھی) علی(علیہ السلام) سے بڑی عاجزانہ طور سے خواہش کررہے تھے کہ وہ ان کی درخواست کو قبول کرلیں اور ان کی حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھال لیں، حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کی نظر میں حکومت کی کوئي اہمیت نہیں ہے ۔آپ کا ہدف حکومت نہیں ہے جس کو بعد کی بحث میں واضح ہوجانا چاہیئے ، لیکن اس کے باوجود حکومت کو ایک وظیفہ کے طور پر قبول کرلیتے ہیں اور اس سے دفاع کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں :
«لولا حضور الحاضر وقیام الحجّۃ بوجود النّاصر۔ ۔ ۔ لالقیت حبلھا علی غاربھا ولسقیت آخرھا بکاس اوّلھا » 15
اگر وہ لوگ بیعت کے لئےمیرے پاس حاضر نہ ہوتے اور ناصر مل جانے سے حجت تمام نہ ہوجاتی یقیناً خلافت کے اونٹ کی مہار اس کے کوہان پر ڈال دیتا اور آخری خلافت کو اس کے پہلے جام سے سیراب کرتا یعنی جس طرح میں نے پہلی بار اس کے لئے کوئی اقدام نہیں کیااس وقت بھی کوئی اقدام نہ کرتا
پھر بھی میری نظر میں حکومت کی کوئی قدر نہیں ہے۔میں مقام ومرتبہ کو حاصل کرنے کے لئے اقدار کو کھودینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔اب بھی حاضر ہوں کہ پہلے جام سے ان بھاری مجمع کو سیراب کروں، جس طرح روز اول میں نے کنارہ کشی اختیار کی پھر بھی دوبارہ کنارہ کشی کرنے کے لئے آمادہ ہوں۔آپ اس مطلب کو تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«دعونی والتمسوا غیری» 16
مجھے چھوڑو کسی دوسرے کو اپنا ولی بناؤ
لیکن امام علی (علیہ اسلام) جس وقت ذمہ داری محسوس کرتے ہیں اور زمینہ آمادہ پاتے ہیں کہ وہ اس عظیم اور بنیادی ذمہ داری کا بیڑا اٹھا سکتے ہیں تو حکومت کو قبول کرلیتے ہیں۔کیا حکومت حضرت امام علی (علیہ اسلام) کے لئے ہدف ہےیا وسیلہ؟حضرت امام علی (علیہ السلام) اور دوسروں کی حکومت کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے ۔حضرت امام علی (علیہ السلام) کے لئے حکومت ہدف نہیں بلکہ معنوی اقدار تک پہنچنے کا وسیلہ ہے ۔

اس زمانہ کے لوگوں کو محققین نہج البلاغہ کی بڑی قدر دانی کرنی چاہیئے، حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم نہج البلاغہ کی ہزار سالہ کانفرنس کررہے ہیں تو یہ بھی جاننا چاہیئے کہ یہ عزیز کتاب اس ہزار سال میں حدّ اقل ساڑھے نو سو سال تک ناشناختہ رہی ہے ۔چند خاص اور دانشوروں کے علاوہ کوئی بھی نہج البلاغہ کے نام کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ہیں سب سے پہلے بار جس عالم نے اس کا ترجمہ کیا اور عام فہم بنایا اور لوگوں کے سامنے پیش کیا وہ سید علی نقی فیض الاسلام تھے۔میں ان کی قدردانی کرتا ہوں اور ان کے اس اہم کام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا رہا ہوں۔
آہستہ آہستہ نہج البلاغہ منظر عام پرآئی اور لوگوں کے ہاتھ لگے لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ نہج البلاغہ بھی کوئی چیز ہے ہاں اس کے چند جملے سن رکھے تھے جو دنیا کی مذمت اور کچھ اخلاقی موضوع پر تھے۔ ان کے علاوہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے ۔پھر اس کے بعد نہج البلاغہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔کچھ لوگوں نے اس کی شرح لکھی ، کچھ لوگوں نے اپنی یادداشت کو شرح کے نام سے لکھی ہے یہ تمام زحمتیں قابل تعظیم ہیں ، لیکن نہج البلاغہ کی عظمت کے مقابل میں جو کام بھی انجام دیا جائے کم ہے ۔
نہج البلاغہ کا کوئی کامل ترجمہ نہیں ہے اس کی کوئی شرح و تفسیر نہیں ہے ۔اس کی کوئی فصل بندی نہیں کی گئی ہے اس کی کوئی باب بندی نہیں کی گئی ہاں صرف استاد عالیقدر جناب آقائے مصطفوی کی کتاب کے علاوہ کہ جنھوں نے ایک بہت گرانقدر کتاب بنام کاشف الفاظ نہج البلاغہ کو ترتیب دیا ہے اس حد تک کوئی کام نہج البلاغہ کے لئے انجام نہیں دیا گیا ہے ۔آج ہم کو نہج البلاغہ کی طرف واپس آنا چاہیئے ، فضلاء اور مفکرین اپنے کام میں مصروف ہوجائیں ، لیکن جوانوں کو یہ نہیں چاہیئے کہ وہ استیذ ، فضلاء، ادبّاء اور مفکرین کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔
نہج البلاغہ کو مختلف پہلو سے قابل توجہ قرار دیں اور مختلف پہلو سے اس پر بحث کریں اس کام کے لئے مٹینگ اور نشست قائم کریں ، ہاں بنیاد نہج البلاغہ کی جس کی مدد کرنے والوں پر خدا کی رحمت نازل ہو اس کام کے لئے مرکزی کردار اداء کرسکتی ہے ۔ہم خداوند عالم سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں کوشش میں کامیابی عنایت کرے ۔

حوالہ جات :
1۔دیوان کمیت بن زیداسدی بہ نام الھاشمیات ، ص 26۔
2۔نہج البلاغہ ، نامہ 53 ، فیض 991۔
3۔ نہج البلاغہ ، خطبہ40 ، فیض 125۔
4۔نہج البلاغہ ، خطبہ40 ، فیض 125۔
5۔نہج البلاغہ ، خطبہ 40 ، فیض 125۔
6۔ سورۂ انعام ، آیت57 ۔
7۔ نہج البلاغہ ، خطبہ 40 ، فیض 125۔
8۔نہج البلاغہ ، خطبہ 40 ، فیض 125۔
9۔نہج البلاغہ ، نامہ 6 ، فیض840 ۔
10۔ نہج البلاغہ ، خطبہ 3، فیض 46۔
11۔نہج البلاغہ ، خطبہ 73 ، فیض 171۔
12۔نہج البلاغہ ، خطبہ 73 ، فیض 171 ۔
13۔ نہج البلاغہ ، نامہ 62، فیض 1048۔
14۔نہج البلاغہ ، خطبہ 3 ، فیض51 ۔
15۔ نہج البلاغہ ، خطبہ 3 ، فیض52 ۔
16. نہج البلاغہ ، خطبہ 91 ، فیض 271 ۔
مقالات کی طرف جائیے