مقالات

 

راز طہارت

سید محمد حسین فضل اللہ

ہم جب بھی انہیں یاد کرتے ہیں ‘خواہ ان کی ولادت اور ان کے دنیا میں آنکھیں کھولنے کے دن کی مناسبت سے ان کے بارے میں گفتگو ہو‘ خواہ ان کی وفات اور رسول کریم (ص) کی رحلت کے بعد ایک انتہائی مختصر عرصے میں ان کی خدا سے ملاقات کے لۓ روانگی کی مناسبت سے ان کا ذکرہو۔ بی بی نے ایام جوانی بھی پورے نہ کۓ تھے‘ راہ حیات کے عین درمیان آپ اس دنیا سے کوچ فرما گئیں تھیں۔
ہم جب بھی ان کا ذکر کرتے ہیں‘ انہیں ایک ایسا انسان پاتے ہیں جو اپنی روح ‘ فکر‘ علم و دانش اورزہد و عبادت میںثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ اپنے مشن پر گامزن ہو۔
ہم انہیں صدیقۂ طاہرہ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں ۔آپ اس لفظ میں موجود تمام معنی میں طہارت ‘عصمت اور حقانیت کی مالک تھیں۔
آپ وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنے بچپنے ہی سے شدید ترین مشکلات کا سامنا کیا اور ان کی یہ دشوار زندگی گھر یلو اور معاشرتی زندگی میں ان کے کاندہوں کو جھکادینے والے سنگین بوجھ کے ہمراہ اس زمانے میں بھی جاری رہی جبکہ علی (ع) ان کے ہمسر تھے۔
اپنے والد گرامی کا فراق‘ ایک اور رنج تھا جس نے انہیں آزردہ کیا ۔وہ والد گرامی جو خود عقل و روح اور پیغمبرانہ زندگی کے آئینہ دار تھے ۔یہ دونوں ہستیاں انسانیت کے لۓ دردمندی اور الٰہی مشن سے وابستگی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے پیوستہ تھیں۔یہی وابستگی و پیوستگی تھی جس کی بنا پر فاطمہ زہرا (س) نے پیغمبر کی رحلت کے بعدانتہائی ممکنہ صورت میں امامت کے دفاع کی کوشش کی اور اس قضیے میں بھی بہت سے رنج و غم ‘مصائب و مشکلات کا سامنا کیا۔ آپ کی زندگی کے بارے میںمختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ حتیٰ ایک لمحے کے لۓ بھی اپنی ذات کےلۓ زندہ نہ رہیں‘بلکہ آپ نے اپنی پوری زندگی اپنے پدرِ بزرگوار پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) ‘اپنے شوہرنامدارامیر المومنین علی مرتضیٰ اوراپنے فرزندوں حسن و حسین ( جوچاہے قعود کی حالت میں ہوں چاہے قیام کریںدونوںصورتوں میں مسلمانوں کے امام ہیں) کی خدمت کے لۓ وقف رکھی۔ آپ نے ان ہستیوںکی خدمت صرف اس لۓ نہیں کی تھی کہ یہ آپ کے اقربا اور رشتے دار تھے بلکہ اس کا سبب وہ احساس ذمے داری تھاجسے آپ اپنے کاندھوں پر محسوس کرتی تھیں۔ ذمے داری کا یہ احساس ہمیشہ اور ہر جگہ آپ کے ہمراہ رہا کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ آپ کا یہ احساس ذمے داری تمام مسلمانوں کو اپنے ساۓ میں ڈھانپ لیتاہے۔ وہ اس احساس ذمے داری کی بنیاد پر اپنے دکھوں‘غموں اور مسائل و مشکلات کے بارے میں سوچنے سے پہلے دوسروں کے درد وغم‘ مسائل و مشکلات کی فکر کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ جس طرح نسبی تعلق کے لحاظ سے دختر رسول (ص) ہیں‘ رسالت کے لحاظ سے بھی ان کی دختر ہیں۔ پس ان کے بارے میں رسول اللہ(ص) کے فرامین(جنہیں مسلمانوں کے دونوں بڑے مکاتب کے علماومحققین نے اپنی کتب میں تحریر کیا ہے )کی روشنی میں ان کی شخصیت کا مطالعہ کریں‘ وہ رسول جنہوں نے انہیں اپنی ماں کہہ کر پکارا۔
حضرت زہرا (س) کے بارے میں شاید بہترین شعر‘ امیر الشعراء احمد شوقی کا یہ شعر ہے کہ
ما تمنی غیر ھانسلا ومن
یلد الزھراء یز ھد فی سواھا
(پیغمبر نے زہرا کے سوا کسی نسل کی تمنا نہ کی کیونکہ جس کے پاس زہرا ہو اسے کسی دوسرے سے رغبت نہیں رہتی)
عزیزو! حضرت زہرا (س) کی یاد منانے کے سلسلے میں ہمارے اہتمام کی وجہ یہی ہے ۔جب ہم ان کاذکر کرتے ہیں تو رسالت اور اپنے مشن سے وابستگی کا ذکر ہوتا ہے ۔ حضرت زہرا (س) نے کس انداز سے اپنا مشن جاری رکھا اور کس طرح اپنی ذمے داری ادا کی اسے دیکھ کرہم انکے ذکر کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے کے بدلتے اور ہردم تغیر پذیرامور میںاسلامی تحریک کے دستور عمل کا ذکر کرتے ہیں‘وہ تحریک جس میں حضرت زہرا (س) ایک زندہ اور فعال عنصرکی حیثیت سے شامل رہیں۔ ہم ان تمام امور میں ان کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں۔
تاریخ بشریت بکثرت ایسے انسانوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے جو اپنی موت کے بعد ختم ہو گۓ ۔کیونکہ ان کی زندگی خود ان کی ذات تک محدود اور منحصر تھی۔ نیز تاریخ ایسے انسانوں کے ذکرسے بھی معمورہے جن کی حیات ان کے مشن اور پیغام کے دوام کی بنا پر جاویداں رہی ہے۔ جب تک ان کا پیغام باقی ہے‘ اس وقت تک انہیں بھی بقا رہے گی۔ فاطمہ زہرا (س) ایسے ہی ثانی الذکرانسانوں میں سے ہیں۔
پیغمبر اسلام ا (ص) کا تذکرہ‘ فاطمہ زہرا (س) کے ذکر کے بغیرممکن نہیں ‘اسی طرح حضرت علی (ع) کا تذکرہ ہو اور اسمیں فاطمہ (س) شامل نہ ہوں‘ہو نہیں سکتا۔ یہی حال حسن و حسین اور زینب (س) کے تذکروں کا ہے‘کہ ان کے دوران بھی ان کی مادرِ گرامی فاطمہ (س) کا ذکر لازم ہے ‘جو ان کی طہارت کا راز ہیں۔
لہٰذا ہم سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آیۓ یہ کوشش کریں کہ زہرا (س) نہ صرف ہمارے آنسوؤں میں ‘بلکہ ہماری فکر اور روح میں ایک پیغام اور ایک طرز فکر کے بطور ہمیشہ ہمیش کے لۓ زندہ ہو جائیں۔ کیونکہ ہم صرف اپنے اشکوں کے ذریعے ان کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے ان کی راہ پرنہیں چل سکتے اور ان کی اقدارکو زندہ نہیں کر سکتے‘ بلکہ بڑا کام یہ ہو گا کہ ہم اپنی نظریں ان کے پیغام اور اس ذمے داری پر لگاۓ رکھیںجسے وہ محسوس کرتی تھیں۔ ان کے اشک اپنے مشن‘ پیغام اور ذمے داری کے لۓ بہے‘ اور حتیٰ ایک لمحے کے لۓ بھی وہ اپنی ذات کے لۓ زندہ نہ رہیں ۔ یہی اہل بیت (ع) کی جاویدانی کا سبب ہے ‘وہ صرف اسلام کے لۓ جۓ ۔لہٰذا ہمیں ان کی یاد مناتے ہوۓ احیاۓ اسلام کا مقصدپیش نظر رکھنا چاہۓ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شخصیت کا پیغمبر اسلام (ص) کے فرامین کی روشنی میں جائزہ لیتے ہوۓ ہم سب سے پہلے ایک ایسی حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں جسے ’’بخاری‘‘ نے اپنی صحیح میں رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے ۔اس حدیث میںہے : فاطمۃ بضعۃ منی من اغضبھا اغضبنی (فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے‘ جس کسی نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ) ۔اس کے بعد ایک اور حدیث دیکھتے ہیں جسے ’’مسلم ‘‘ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے :انماابنتی فاطمة بضعة منی یوذینی ما اذاھا (بے شک میری بیٹی فاطمہ میرا پارہ تن ہے‘ جس کسی نے اسے اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی) مسلم ہی رسول اﷲ (ص) سے ایک دوسری روایت نقل کرتے ہیں : انما ابنتی فاطمۃ بضعۃ منی‘ یریبنی ما ارابھا و یوذینی ما اذاھا ( بے شک میری بیٹی فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ‘جو چیز اسکی د ل آزاری کا سبب ہوتی ہے وہ مجھے تکلیف پہنچاتی ہے اور جو چیز اسے آزردہ کرتی ہے وہ میری آزردگی کا باعث ہوتی ہے)
اگر ہم اس حدیث کا مفہوم جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں پیغمبر کو اس طرح سمجھنا ہوگا جس طرح خدا نے ان کا تعارف کرایا ہے۔ یعنی آنحضرت (ص) اپنی خواہش سے سخن نہیں فرماتے : وما ینطق عن الھوی ۔ان ھوالا وحی یوحی(اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتا ہے۔وہ وہی کہتا ہے جو وحی اس پر نازل ہوتی ہے۔سورہ نجم ۵۳۔آیت ۳‘۴)
کبھی تو خدا وند عالم کی طرف سے و حی آیات قرآنی کی صورت میں نازل ہوتی تھی اور کبھی پیغمبر اسلام کی عقل کے قالب میں جسے خداوند عالم نے حقیقت پر استوار کیا ہے اور کبھی قرآن کریم کے پیش کۓ ہوۓ دستورعمل کی تکمیل کرنے والی سنت کی شکل میں ۔ پیغمبراسلام وہ سچے فرستادہ الٰہی ہیں جوکسی غیر واقعی چیز کو خدا کی طرف منسوب نہیں کرتے : ولو تقول علینا بعض الا قاویل ۔ولا خذنا منہ بالیمین۔ ثم لقطعنا منہ الوتین (اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتا‘تو ہم اسکے ہاتھ کو پکڑلیتے ‘اور پھر اسکی شہ رگ کو کاٹ ڈالتے۔سورہ حاقہ ۶۹۔آیت۴۴تا۴۶)
لہٰذا پیغمبراسلام نے کبھی اپنے ذاتی جذبات و احساسات سے مغلوب ہو کر کلام نہیں فرمایا جن کی بنا پر کسی کو ( خوامخواہ) بڑھا چڑھا کر پیش کریں۔ بلکہ آپ رسالت کے نکتۂ نظرسے افراد کی قدروقیمت کے قائل تھے ۔پیغمبر بشر ہیں اور دوسرے انسانوںہی کی مانند اپنی بیٹی کو آغوش میں لیتے ہیں اور اس پر اپنی محبت نچھاور کرتے ہیں ‘لیکن جب کسی کو کوئی عنوان یا حیثیت بخشنا چاہتے ہیں تو رسالت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ‘کیونکہ اس سلسلے میںان پر وحی ہوتی ہے ۔ پس جب آپ فرماتے ہیں کہ ’’فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے‘‘ تو اس کے کیا معنی ہیں؟ اسکے معنی یہ ہیں کہ آپ (س)رسول خدا سے عضوی رابطہ رکھتی ہیں ‘بالکل اسی طرح جیسے ان کے بدن کا ایک زندہ جز ہوں۔ جب کوئی شخص رسول اﷲ کے وجود کا حصہ ہو جاۓ تو طبعاً اسکی عقل بھی پیغمبر کی عقل کا ایک ٹکڑا ہو گی اور اسکی روح بھی پیغمبر کی روح کا ایک گوشہ ہو گی اور اسکی حیات بھی رسول اﷲ کی حیات کا ایک جز ہو گی اور اسکی پاکیزگی ‘ صفا‘ معنویت ‘ صدق اور امانتداری بھی رسول اللہ کی ان صفات کا ایک حصہ ہو گی۔اگر پیغمبرنے فرمایا ہے کہ’’ جس کسی نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔‘‘تو یہ بات پیش نظر رہنی چاہۓ کہ رسالتِ الٰہی کے حامل حضرات اپنے بچوں کے بارے میں لوگوں کے جائز غصے پر جذبات سے مغلوب نہیں ہوتے۔ کیونکہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ اگر ایک صالح باپ یہ دیکھے گا کہ لوگ اسکے بچے پر اسکے کسی برے کام کی بنا پر یا اسکے کسی گناہ کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے غصے ہو رہے ہیں تو وہ یہ نہیں کہے گا کہ : جس کسی نے میرے فرزند کو اذیت پہنچائی ہے اس نے مجھے اذیت دی ہے۔
لہٰذا پیغمبر کے فرمان کے معنی یہ ہیں کہ :’’ یہ ممکن ہی نہیں کہ فاطمہ زہرا کسی کے ساتھ کوئی برائی کریں یا گفتار اور عمل میں ناشائستگی کی مرتکب ہوں‘ جس کی بنا پر لوگوں کو انہیں اذیت و آزار پہنچانے اور ان سے رنجیدہ ہونے کا حق مل جاۓ ۔‘‘
فاطمہ(س) ایسی ہستی ہیں کہ کوئی ان سے سرزد ہونے والی کسی خطا (کہ حضرت فاطمہ(س) ہر خطا سے منزہ ہیں) کو بہانہ بنا کر ان پر غضبناک نہیں ہو سکتا۔ حضرت ختمی مرتبت کے کلام کے معنی یہ ہیں کہ فاطمہ (س) ایک ایسی انسان ہیںجو کسی برے عمل کی مرتکب نہیں ہوتیں ‘ایک ایسی انسان ہیں جو گناہ نہیں کرتیں‘گمراہ نہیں ہوتیں ۔لہٰذا جس کسی نے بھی ان سے عداوت کی ‘اس نے حق سے عداوت کی ہے اور خدا کی صراطِ مستقیم کا دشمن ہوا ہے۔
ہم رسول مقبول کے کلام (من اغضبھا اغضبنی ویو ذینی ما آذاھا )سے یہ مراد لیتے ہیں کہ فاطمہ (س) صرف اسی وقت آزردہ ہوتی ہیں جب خدا کی نافرمانی ہو‘اورصرف اسی وقت رنجیدہ ہوتی ہیں جب لوگ خدا سے منھ موڑتے ہیں ۔اگر ان کی آزردگی کی وجہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی نہ ہوتی تو کیونکر ممکن تھا کہ پیغمبر ان کی آزردگی پر آزردہ ہوتے؟
اب ہم ایک اورغیر شیعی کتاب ’’استیعاب‘‘ پر نظر ڈالتے ہیںتاکہ یہ بات واضح کر دیں کہ یہ باتیں غیرمتنازع ہیں ۔کیونکہ بعض لوگ شیعوں پرتہمت لگاتے ہیں کہ وہ جذبات و احساسات سے مغلوب ہو کر گفتگو کرتے ہیں۔
’’ابن عبدالبر‘‘ نے کتاب ’’استیعاب‘‘ میں سند کے ذکر کے ساتھ لکھا ہے کہ ام المومنین عائشہ نے کہا : مارایت احدا کان اشبہ کلاماً وسمتاً وھدیاً ودلاً برسول اﷲ من فاطمۃ وکانت اذا دخلت علیہ قام الیھا فاخذ بیدھا فقبلّھا واجلسھا فی مجلسہ وکانت اذا دخل علیھا قامت الیہ فاخذت بیدہ فقبلتھا واجلستہ فی مجلسھا(میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو کلام‘ سراپے ‘ اخلاق اور نیک سیرتی میں فاطمہ (س) کی مانند رسول کریم کے مشابہ ہو۔ جب کبھی فاطمہ(س)‘ رسول کے یہاں آتیں تو پیغمبر اپنی جگہ سے کھڑے ہو جاتے اوران کا ہاتھ تھام کر اس کا بوسہ لیتے‘ اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے‘ اور جب کبھی پیغمبر فاطمہ س)کے یہاں تشریف لے جاتے تو فاطمہ(س) اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوتیں‘ آنحضرت کا دست مبارک تھا م کر اسے بوسہ کرتیں اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتیں)
جب ہم کتاب ’’استیعاب‘‘ میں یا ’’سنن ابی داود‘‘ میںحضرت عائشہ سے نقل ہونے والے اس واضح اور صریح کلام کا مطالعہ کرتے ہیں‘ توکیا بات ہمارے علم میں آتی ہے؟
یہ کلام ‘رسول مقبول اور حضرت فاطمہ (س) کے درمیا ن گہرے روحانی تعلق کی نشاندہی کرتا ہے۔ کیونکہ رسول گرامی کسی اور کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے تھے اور فاطمہ (س) بھی کسی اور کے ساتھ یہ طرز عمل نہیں اپناتی تھیں۔ اور یہ باہمی طرز عمل صرف پیغمبر اور ان کی پیاری بیٹی کے مابین نظر آتا ہے۔ فاطمہ زہرا (س) اور حضرت رسول مقبول کے درمیان اس تعلق کا آغازحضرت فاطمہ (س) کے بچپنے ہی سے ہو چکا تھا‘ ہر چند ہمیں(کتب) سیرت میںحضرت زہرا(س) کے بچپنے اور انکی مادر مہربان حضرت خدیجہ (س)کی حیات میں آپ کے اور آپ کے والد گرامی کے درمیان اس تعلق کا کوئی خاص سراغ نہیں ملا لیکن حضرت خدیجہ (س)اور پیغمبر اسلام کے محبوب چچا حضرت ابو طالب (ع) جو قریش کے حملوں سے پیغمبر کو محفوظ رکھا کرتے تھے )کے دنیاسے رخصت ہو نے کے بعدجب پیغمبر بالکل تنہا رہ گۓ تھے ‘ اس زمانے کے تذکرے پر مشتمل کتب ِسیرت سے ہمیں اس تعلق کا کچھ پتاچلتا ہے۔
ام ابیھا(اپنے باپ کی ماں) پیغمبر بالکل تنہا رہ گۓ تھے‘ آپ کو تنہائی کا ایک اور تجربہ بھی تھا‘آپ اپنی شیر خوار گی کے زمانے ہی میں اپنی والدہ کے ساۓ سے محروم ہو گۓ تھے۔ باوجود یہ کہ پیغمبرکا دل عشقِ خداسے سرشار ہے۔ لیکن آپ انسان بھی ہیں اور انسان محبت‘ خلوص اور چاہت کا محتاج ہوتاہے۔ پیغمبر کا مہر و محبت کا محتاج ہونا‘ ان کی شخصیت کا کوئی نقص نہیں اور ان کی خود اعتمادی اور خدا پر ان کے بھروسے کو کمزورنہیں کرتا۔ یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہۓ کہ پیغمبر ہماری ہی مانند بھوک محسوس کرتے ہیں ‘ ہماری ہی طرح انہیں پیاس محسوس ہوتی ہے ۔ہمیں جس وقت محبت کی ضرورت ہوتی ہے‘ اپنے اندرمحبت کی پیاس محسوس کرتے ہیں اور جام محبت سے سیرابی چاہتے ہیں‘ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے جب ہم بھوکے ہوتے ہیں تو ہمیں بھوک مٹانے کے لۓ غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیغمبر بھی دستِ شفقت اور مہربان آغوش چاہتے ہیں۔ زہرا (س)انتہائی خلوص کے ساتھ اپنے قلب میں موجزن مہربانی اورمحبت کا سایہ اپنے والد کی زندگی پر پھیلا دیتی ہیں‘اور اپنے مشن اور ذمے داریوں کی ادائیگی کے دوران پیغمبراسلام کو جو زخم لگتے ہیں‘ زہرا (س) ان کا مرہم بن جاتی ہیں۔یہاں تک کہ پیغمبر کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ گویا ان کی مادرِ گرامی دوبارہ زندہ ہو گئ ہیں۔لہٰذا آپ اپنی بیٹی کو ’’ام ابیھا‘‘ کے لقب سے نوازتے ہیں۔
جب ہم حضرت فاطمہ (س) کے ’’ام ابیھا ‘‘ہونے پر گفتگو کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فاطمہ(س) دل و جاں کی گہرائی کے ساتھ اپنے والد کا خیال رکھتی تھیں‘ تو بعض لوگ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم حضرت رسولِ گرامی کی شخصیت کے کسی کمزور نکتے پر گفتگو کر رہے ہیں۔وہ لوگ بھی جوہر بات کے اسکی بدترین ممکنہ صورت میں معنی کرتے ہیں‘ ہماری اس بات کوپیغمبر کے مقام عصمت و کمال کے منافی سمجھتے ہیں۔
ان حضرات کے جواب میں عرض ہے کہ کیا آنحضرت کابھوکے رہنااور (شعب ابی طالب میں) اپنے پیٹ پر پتھر باندھناان کے مقام عصمت کے منافی ہے؟کیا پیغمبر کاپیاس محسوس کرنا‘ اورسیرابی کے لۓ پانی نوش کرنا ان کے مقام عصمت کے منافی ہے؟ جذباتی نیاز یا بے نیازی اور محبت کا پیاسہ ہونا اور اس سے سیراب ہونا بھی اسی طرح ہے۔ بعض لوگ خداوند عالم کی طرف سے تائید شدہ ان مفاہیم کو درک نہیں کرتے جوانسانوں کے لۓ پیغمبرکے شدید حزن و ملال اوران کیلۓ آپ کے کڑھنے کی خبر دیتے ہیں ۔خداوند عالم نے ہمیں پیغمبر اسلام کے انتہائی دردمندانہ احساسات سے آگاہ کیا ہے جن کا سر چشمہ مکمل طور پر آپ کی انسانیت میں پنہاں ہے۔
ام ابیھا کا لقب پیغمبر اسلام اور حضرت فاطمہ (س) کے درمیان پاۓ جانے والے اس گہرے تعلق کی تفسیر کرتا ہے جو پیغمبر کی وفات کے وقت تک جاری رہا۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان ایک باہمی روحانی عشق برقرار تھا۔ شاید یہاںہم اس نکتے پر تاکید کر سکیں کہ ان دونوں کے درمیان ایک ایسی وحدت پوشیدہ ہے جس کا اظہار ان کی ایک دوسرے سے معنوی وابستگی سے ہوتا ہے۔ اسی نکتے کو ہم کچھ دوسری روایات میں دیکھتے ہیں۔ ان روایات میں سے ایک روایت یہ ہے : ان فاطمة اقبلت ما تخطئ مشیتھا مشیة رسول اﷲ ( فاطمہ ایسی نظر آ رہی تھیں کہ ان کا چلنا‘ پیغمبر کے چلنے کی مانند تھا) ۔فاطمہ(س) حتیٰ اپنے چلنے پھرنے کے انداز میں بھی پیغمبرسے متاثرتھیں‘ کیونکہ پیغمبر ان کے استاد‘ مربی اور معلم تھے۔ پیغمبر اسلام ہر روز فاطمہ (س) کواخلاق ‘معنویت اور خرد مندی کا ایک تازہ درس دیا کرتے تھے ۔ پیغمبر کی یہ دختر مکہ میں آپ کے ساتھ رہیں ‘ آپ روز و شب آنحضرت سے گفتگو کرتیں اور آپ کی باتیں سنا کرتی تھیں۔یہ پیغمبر سے ان کے حصول علم کاانداز تھا ‘ان کے شوہر (علی ابن ابی طالب(ع)) بھی اسی طرح پیغمبرکے بحرِ علم سے سیراب ہوتے تھے۔ رسول کریم کے سوا‘تاریخ میں فاطمہ زہرا (س) کے کسی استاد کا سراغ نہیں ملتا‘ جیسے علی (ع) کے لۓ رسول اللہ کے سوا کسی استادکا ذکر نہیں پایا جا تا۔
علی (ع) اور فاطمہ (س) کا عقدِ ازدواج ‘ دو ایسے طالب علموں کا بندہن ہے جو ایک ہی استاد کے محضر درس سے مستفید ہوۓ ہیں۔ اور یہی عامل اس بات کا سبب ہوا ہے کہ وہ عقلی ‘ روحانی ‘ اخلاقی اور کرداری لحاظ سے آپس میںمکمل ہم آہنگ ہیں۔لہٰذا جب ہم حضرت علی (ع) کی شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں رسول خدا نظر آتے ہیں ‘اسی طرح جب فاطمہ زہرا (س) کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں توان کے وجود میں بھی پیغمبر کا نظارہ کرتے ہیں۔
’’حاکم‘‘ کتاب مستدرک میں سند کے ذکرکے ساتھ’’ابی ثعلب‘ ‘سے نقل کرتے ہیں کہ : جب کبھی رسولِ مقبول جنگ یا سفر سے پلٹتے تو سب سے پہلے مسجد تشریف لے جاتے اور دو رکعت شکرانے کی نماز ادا کرتے ‘اسکے بعد اپنی بیٹی فاطمہ (س)کے یہاں جاتے اور پھر اپنی ازواج سے ملاقات کرتے۔اس بات کا مطلب یہ ہے کہ فاطمہ (س) پیغمبر اسلام کے دوسروں سے حتیٰ آپ کی ازواج تک سے تعلق میںمر کزی نقطے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
’’حاکم ‘‘ اسی مذکورہ کتاب میں ‘ سند کے ذکر کے ساتھ یوں روایت کرتے ہیں کہ : ’’جب کبھی پیغمبر عازمِ سفر ہوتے تو سب سے آخر میں فاطمہ (س) سے وداع ہوتے ۔‘‘ یعنی سفر پر نکلتے ہوۓ سب سے آخرمیں جو چہرہ دیکھتے وہ فاطمہ زہرا (س) کا رخِ انور ہوتا‘ تاکہ آپ کا سراپا اور وہ مہربانی اور محبت جس کا زہرا (س) اپنے والدِ گرامی کے لۓ اظہار کرتی تھیں دوران سفر آپ کی روح کی تسکین اورقوتِ قلب کا موجب رہے۔ ( روایت ان الفاظ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے کہ) جب بھی (رسولِ کریم)سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے فاطمہ (س)کے دیدار کو جاتے۔ کیونکہ پیغمبر پورے سفر کے دوران ان سے ملاقات کا اشتیاق رکھتے تھے۔ وہ اشتیاق جس کی ماننداشتیاق کسی اور کے لۓ آپ کے دل میں نا پایا جاتا تھا۔ لہٰذا اس آتشِ شوق کوسب سے پہلے ان کا دیدارکرکے بجھاتے ۔
’’استیعاب‘‘ میں سند کے ذکرکے ساتھ روایت کی گئی ہے کہ :ام المومنین عائشہ سے پوچھا گیا : پیغمبر کے نزدیک محبوب ترین ہستی کون تھی؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : فاطمہ ۔ راوی نے دریافت کیا : مردوں میں آنحضرت کسے سب سے زیادہ پسند کرتے تھے؟ کہا : ان کے شوہر (علی ) کو ۔ کہ میں نے انہیں بہت زیادہ روزہ دار اور نماز گزار پایا ہے۔
ابو نعیم نے ’’حلیة الاولیائی‘‘ میں سند کا ذکر کرتے ہوۓ حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ : مارایت احداً قطّ اصدق من فاطمة غیرا بیھا (میں نے فاطمہ سے زیادہ راست گو کسی کو نہیں دیکھا سواۓ ان کے والدِ گرامی کے)جی ہاں ! آپ سچائی اور صداقت کے اس مقام پر فائزہیںکہ کوئی مسلمان آپ کے رتبے تک نہیں پہنچا اور مقامِ صدق میں کوئی ان سے بلند نہ ہو سکا۔ اور یہ مقام‘ رسول خدا سے آپ کی پیوستگی اور آنحضرت کی اس ممتاز صفت سے آپ کی یگانگت کا عکاس ہے۔ کیونکہ صداقت رسولِ مقبول کی وہ امتیازی خصوصیت تھی جس نے لوگوں کے دلوں میں آپ کی نبوت کی قبولیت کی راہ ہموار کی۔ بالفاظ دیگر نبوت قبول کرنے کی بنیادیں آپ کی صداقت اور امانت ہیں۔ امانت ‘ صدق کا نتیجہ ہوتی ہے‘ یوں صدق اور امانت ساتھ ساتھ ہوتے ہیں‘ اس لۓ کہ کسی صادق اور سچے انسان کا خیانت کا مرتکب ہونا ممکن نہیں‘ کیونکہ خیانت جھوٹ کی ایک قسم ہے۔
فاطمہ(س)‘ پیغمبر اسلام کی صداقت کا آئینہ ہیں۔آپ صدق کی بدولت ایک بلند درجے پر فائز ہوئیں‘ اور اپنے والد گرامی حضرت محمد مصطفی کے بعد ‘ آپ سے زیادہ سچاکوئی اور نہیں۔ کیونکہ ان کا صدق ‘ اپنے والد گرامی کے صدق سے متصل ہے‘ جنہوں نے صدق کو ان کی عقل میں بویا تھا تاکہ ان کی فکر‘ صادقانہ فکر ہو‘ اورصدق کو ان کے جذبات و احساسات میں رچایا بسایا تھا تاکہ وہ صادقانہ جذبات و احساسات کی حامل ہوں اورصداقت کو ان کی حیات میں داخل کیا تھاتاکہ ان کی پوری کی پوری زندگی صداقت سے سر شار ہو۔
فاطمہ(س) بچپنے ہی سے اپنے والد کے سلسلے میں اس احساسِ ذمے داری کی مالک تھیں‘ جو احساسِ ذمے داری ایک ماں اپنے بچے کے بارے میں رکھتی ہے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ ایک روز پیغمبر سجدے کی حالت میں تھے کہ قریش (کے کچھ لوگوں)نے جانور کی اوجڑی آنحضرت کی پشت پر پھینک دی۔ فاطمہ (س) دوڑ کے آئیں اور اس گندگی کو اٹھا کر دور پھینک دیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب پیغمبر نماز کی ادائیگی کیلۓ مسجد الحرام کی سمت تشریف لاتے تھے تواس موقع پر فاطمہ(س) اپنے والدِ گرامی کے ہمراہ ہوا کرتی تھیں۔ یہ قصہ اپنے باباکے حالات سے باخبر رہنے اور مشرکین کی حرکتوںپر نظر رکھنے کے سلسلے میں حضرت فاطمہ (س) کے اہتمام کی نشاندہی کرتا ہے۔

جنگوں میں بھی والد کے ہمراہ
اسی طرح اپنے والد کے ساتھ ساتھ رہنے کے سلسلے میں حضرت فاطمہ(س) کی روش کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ آپ بعض جنگوں میں بھی پیغمبر کے ہمراہ تھیں۔ مورخین نے مدینہ میں آپ کی سرگرمیوں کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ : جنگ بدر میں پیغمبر اسلام زخمی ہو گۓ۔ حضرت علی (ع) نے آپ کے زخم کو صاف کیا اور پٹی باندھ دی۔ لیکن جب خون نہ رکا ‘ تو فاطمہ(س) آئیں‘ اس حال میں کہ آپ رو رہی تھیں۔ انہو ں نے اپنے پدرِ بزرگوار کو آغوش میں لیا ‘ایک چٹائی جلائی اور اسکی راکھ زخم پر رکھ دی۔یہاں تک کہ خون بند ہو گیا۔ یہ قصہ حضرت فاطمہ (س) کی اپنے والد گرامی سے محبت کی گہرائی اور ان کی حفاظت اور دیکھ بھال کے سلسلے میں توجہ کی نشاندہی کرتا ہے۔اس زمانے میں پیغمبر کی چند بیویاں تھیں لیکن فاطمہ (س)آنحضرت کے احوال کی جستجو‘ان کی دیکھ بھال اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے سلسلے میں خود کو ان کی بیویوں سے زیادہ ذمے دارسمجھتی تھیں۔
حضرت فاطمہ (س) سے شاد ی کے وقت حضرت علی (ع) انتہائی تنگ دست تھے۔ مہاجرین کی بہت سی بزرگ شخصیات نے فاطمہ زہرا (س) کا ہاتھ مانگا تھا ۔پیغمبر نے ان لوگوں کو جواب دیا تھا کہ : (اس سلسلے میں)میں پروردگار کے حکم کا منتظر ہوں ۔ لوگوں نے حضرت علی (ع) سے کہا :آپ فاطمہ(س) کا رشتہ کیوں طلب نہیں کرتے؟ حضرت علی (ع) کو اس بات سے شرم محسوس ہوتی تھی۔ لیکن بہر صورت آپ رسول مقبول کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور مسئلہ ان کے گوش گزار کیا۔ پیغمبر اسلام کا چہر ہ کھل اٹھا۔ گویا آنحضرت کو اسی لمحے کا انتظار تھااور آپ اس کیلۓ تیار تھے۔ پیغمبر حضرت علی (ع) کی مالی حالت سے بخوبی آگاہ تھے۔ کیونکہ خود آپ ہی نے انہیں پال پوس کر جوان کیا تھا اور علی (ع) ان کے گھر میں انہی کے ہمراہ رہا کرتے تھے ۔لہذاجس طرح پیغمبر حضرت علی (ع) کے علمی اور روحانی فضائل سے آگاہ تھے اسی طرح ان کے پاس موجود مال و دولت کی مقدار کو بھی جانتے تھے ۔اسکے باوجود آپ نے ان سے پوچھا : تمہارے پاس کیا ہے؟ حضرت علی (ع)نے فرمایا : ڈھال ‘ تلوار اورجسم پر موجود لباس‘ اور آپ اسے خوب جانتے ہیں ۔پیغمبر نے فرمایا : تلوار تو تمہاری ضرورت ہے‘ اس لۓ کہ اسکے ذریعے تم اسلام اور اﷲ کے رسول کا دفاع کرتے ہو۔ البتہ اپنی ڈھال مجھے دے دو۔ اس ڈھال کو ٠٠٥ درہم میں فروخت کیا گیا۔یہی حضرت زہرا (س) کا مہرقرار پایا۔ علی (ع) اور فاطمہ (س)تنگ دست ترین لوگوں کی مانند زندگی بسرکیا کرتے تھے ‘یہاں تک کہ شدید فقر و افلاس اور گھریلو کاموں کی مسلسل محنت ومشقت نے حضرت زہرا (س) کو ( دوسری عورتوں سے کہیںزیادہ) شدیدتکلیف میں مبتلا کیا ہوا تھا۔
حضرت فاطمہ(س) کی شادی کے سلسلے میں ہونے والی گفتگو اوران کی شخصیت میں پوشیدہ فضائل کے ضمن میں ’’کشف الغمہ‘‘ میں ایک روایت نظر آتی ہے جس میں امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے کہ : لولا ان اﷲ تبارک و تعالیٰ خلق امیر المومنین لفاطمة ما کان لھا کفو علی وجہ الارض (اگر خداوندتبارک و تعالیٰ نے امیر المومنین کو حضرت فاطمہ کے لۓ خلق نہ کیا ہوتا تو روۓ زمین پر ان کیلۓ کوئی ہم سر اور ہم شان نہیں تھا)
اگر ہمسری ’’نسب‘‘ اور رشتے داری کی بنیاد پرہوتی تو پیغمبر اسلام کے اور بہت سے چچا زاد بھائی تھے اور اگر مسلمان ہونے کے اعتبار سے ہوتی تو مسلمان بھی بہت تھے‘ لیکن علی (ع) اور فاطمہ کے ازدواج میں ایک ایسا راز پوشیدہ ہے جس سے خدا کے سوا کوئی اور واقف نہیں۔ کیونکہ اس کا تعلق غیبی امور سے ہے ۔
علی (ع) اور فاطمہ(س) کے بندھن کا سبب بننے والا ایک عنصر یہ ہے کہ‘ یہ دونوں علمی‘ معنوی اور اخلاقی لحاظ سے ایک ساتھ رسول خدا کے ہمراہ رہے تھے ‘جبکہ صحابہ میں سے کسی اورمرد یا عورت کو یہ امتیاز حاصل نہ تھا۔ علی (ع) اور فاطمہ‘ (س) آنحضرت کے دن رات کے ساتھی تھے اورانہوں نے ایک ایسی ہستی کی مانندان کے ہمراہ زندگی بسرکی تھی جو اپنے سامنے واقع ہونے والی ہر چیز سے سبق حاصل کرتی ہے ۔
پیغمبر اسلام بھی کوشش کیاکرتے تھے کہ ان دونوں کی تربیت اس انداز سے کریں کہ انہیں دیکھنے والا خود آنحضرت کو اپنے سامنے مجسم پاۓ اورآپ نے اپنے اس عمل کے ذریعے‘ خداوند عالم کی اس دعوت کا مثبت جواب دیا کہ : وانذر عشیرتک الاقربین (اور اپنے قریبی رشتے داروںکو تنبیہ کیجۓ ۔سورہ شعراء۲۶۔آیت۲۱۴) ۔جس وقت پیغمبر کے عزیز و اقربا نے آپ سے منھ موڑ لیا تھا‘ اس وقت آپ کے نزدیک ترین روحی اور ایمانی رشتے دار یعنی علی (ع) اور فاطمہ (س) آپ کے ساتھ ساتھ تھے۔ لہٰذا جس معنوی فضا‘ افق اور خدا پذیری اور خدا شناسی کی خصوصیات کے حامل علی (ع) تھے فاطمہ (س)بھی انہی اوصاف کی مالک تھیں۔لہٰذا جب ہم حضرت علی (ع)اور حضرت فاطمہ (س) کی عبادتوںپر نظردوڑاتے ہیں تو دونوںمیں قوت ‘سعی و کوشش اورخدا پذیری کی یکساں اور ایک ہی سی حالت کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ اس گفتگو کے معنی یہ ہیں کہ یہ دونوں ہستیاںخدا کی معرفت‘ قدسِ الٰہی اور اسکی غیبی صفات کے اسرار سے اتصال کے ایک بلند رتبے پر فائز اور خداوند تعالیٰ کے قرب کی اہمیت سے آگاہ تھیں۔شیخ صدوق ‘ کتاب ’’عیون اخبار الرضا‘‘ میںسند کے ذکر کے ساتھ حضرت ابوالحسن علی ابن موسیٰ الرضا (ع) سے اور وہ اپنے والدِ گرامی (امام موسیٰ کاظم (ع)) سے اور وہ اپنے اجداد سے ‘اوروہ حضرت علی (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا : پیغمبر نے مجھ سے کہا : اے علی (ع) مردانِ قریش نے فاطمہ کے سلسلے میں مجھے سرزنش کی اور کہا کہ : ’’ہم نے آپ سے فاطمہ کا رشتہ طلب کیا ‘ لیکن آپ (ص) نے ہمیں مسترد کر دیا اور علی (ع) کے ساتھ ان کی شادی کر دی۔ میں نے انہیں جواب دیا: میں نے تمہیں مسترد نہیں کیا بلکہ خدا نے تمہیں مسترد کیا اور علی (ع) کے ساتھ ان کی شادی کی۔ ‘‘حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شادی کا مسئلہ ‘ پیغمبر کے ہاتھ میں نہ تھا‘ بلکہ یہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا فیصلہ تھا۔ اس حدیث کے سلسلۂ سند کے بارے میں احمد بن حنبل کا کہنا ہے کہ : انما لو وضعت علی المجنون لافاق ( بے شک اگر یہ سلسلۂ سند کسی دیوانے کی گردن میں ڈال دیا جاۓ‘ تووہ شفا پا جاۓ ) کیونکہ اس سلسلۂ سند میں ایک امام دوسرے امام سے روایت کر رہا ہے‘ یہاں تک کہ حضرت علی (ع) رسولِ مقبول سے نقل کرتے ہیں۔

شوہر کے ساتھ ہم آہنگی
حضرت زہرا (س) نے اپنے شوہر کے حوالے سے عائد ہونے والی گھریلو ذمے داریوں کی ادائیگی میں (دوسری عورتوں کی مانند) کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اور اس بنیاد پر کہ آپ دختررسول ہیںآپ نے اپنے شوہر سے تعلق میںخود کو دوسری مسلمان خواتین سے ممتاز نہیں سمجھا۔البتہ اپنی گھریلو اور عائلی ذمے داریوں کی انجامدہی کے سلسلے میں آپ ایک ایسے بہترین اور بلندترین درجے پرفائز ہیں جس تک کوئی مسلمان عورت نہیں پہنچ سکتی ۔ آپ خوداپنے ہاتھوںسے(گندم اور جو) پیستیں ‘آٹا گوندھتیں ‘ اسکی روٹیاں پکاتیں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتیں۔
آپ اپنی زندگی کے آغاز ہی سے بے انتہا رنج و غم کا شکار رہیں ‘ جن کا سیرت نویسوں نے اپنی تحریروں میں ذکر کیا ہے۔ ایک بہت اہم بات جو حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کی ازدواجی زندگی میں نظر آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ حضرت زہرا (س) اپنے عزم وحوصلے ‘ استقامت ‘ عبادت اور زہد سے حضرت علی (ع)کی تقویت کا باعث بنیں۔آپ نے گھریلو ماحول میں ایسی اسلامی فضا ایجاد کی کہ جب حضرت علی (ع) گھر میں داخل ہوتے تو خود کوہر طرف سے اسلام کے حصار میں محسوس کرتے ‘کیونکہ زہرا (س)نے اپنے گھر کی فضا کو اسلام کی خوشبو سے معطر کیا ہوا ہوتا تھا۔ اور علی (ع) جس طرح مسجد میں اور رسول مقبول کے نزدیک ایک اسلامی فضا میں سانس لیتے تھے اسی طرح گھر میں ‘ دختر رسول کے پہلو میں بھی ایک اسلامی فضا میں جیتے تھے۔
علی (ع) ایک ایسے مسلمان شوہر ہیں جو بجا طور پر خودحق کا مدارہیں‘ جنہوں نے اپنی عقل‘ روح عبادت ‘استقامت اور زہد کے ذریعے حضرت فاطمہ (س) کے لۓ ایک مثالی اسلامی ماحول فراہم کیا ۔خود فاطمہ (س) حضرت علی (ع) کی شخصیت میں موجود فضائل کے ذریعے اسلام کی دل انگیز خوشبو سے مشام جاں کو معطر کرتیں ۔ بارگاہِ خداوندی میںتضرع ‘ خشوع ‘ عبادت اور سجدہ ریزیوں کے ساتھ ساتھ یہ دونوں محبت ِالٰہی اور خوف خدا میں بھی ممتاز مقام کے حامل تھے۔

پہلے ہمساۓ پھر گھر
زہرا (س) ‘نے اپنے گھر میں ایسا ہی معنوی ماحول قائم کیاہواتھا ‘حتیٰ ان کے بچے بھی بچپنے سے‘ ایسے ہی ماحول میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کے فرزند امام حسن (ع) دیکھا کرتے کہ ان کی والدہ راتوں کو اٹھ اٹھ کرعبادت ِالٰہی انجام دیا کرتی ہیں۔وہ فرماتے ہیں : ’’ہماری والدہ راتوں کواس قدر عبادت کیا کرتی تھیں کہ ان کے پیر سوج جاتے تھے ۔ ‘‘
اگرطویل قیام اور دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے پیروں پر پڑنے والے دباؤ کو پیش نظر رکھیں تو یہ ایک قدرتی بات نظر آتی ہے۔ بی بی کے طویل قیام ‘ان کے بہت زیادہ مناجات میں مشغول رہنے اور خدا سے اتصال کی علامت ہیں۔آپ کے فرزند( امام حسن (ع) )بچکانہ معصومیت کے ساتھ اپنی مادرِ گرامی کی سرگوشیاں اور رب العالمین کے ساتھ ان کے راز و نیاز کو سنا کرتے اور دیکھتے کہ ان کی والدہ مومن مردوں اور عورتوں کے لۓ دعا گو ہیں ۔وہ انتظار میں رہتے کہ کبھی تو ان کی نحیف و نزاراورعمر بھرمشکلات سے نبرد آزما رہنے والی والدہ ‘ خود اپنے لۓ دعا کریں۔ لیکن انہوں نے (انہیں اپنے لۓ دعا کرتے) نہ سنا۔( ایک روز) جب ان کی والدہ نماز و مناجات سے فارغ ہوئیں توانہوں نے پوچھا : اماں ! آپ اپنے لۓ کیوں دعانہیں کرتیں؟ جبکہ آپ دوسروں سے زیادہ دعا کی محتاج ہیں؟ آپ کی روحانیت اور معنویت سے لبریز نماز خدا کی طرف سے استجابت دعا کی امید پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ انسان دل و جاںکی جس قدر زیادہ گہرائی کے ساتھ درگاہِ الٰہی میں حاضری دیتا ہے‘ خدا اتنی ہی زیادہ اس پراپنی رحمتوں کی بارش برساتا ہے اور جلد اسکی دعا قبول فرماتا ہے۔
حضرت فاطمہ (س) نے جواب دیا : یا بنی ! الجارثم الدار (بیٹا ! پہلے ہمسایہ پھر گھر) یعنی ‘ ہمیں اپنی فکر کرنے سے پہلے مسلمانوں کی حالت کے بارے میں سوچنا چاہۓ۔ اس طرح ہم مسلمانوں کے دکھوں اور تکلیفوں کو محسوس کریں گے اور خدا سے دعا کریں گے کہ ان کے دکھوں کا مداوا فرماۓ۔ ہم مسلمانوں کے لۓ دعا گو ہوں گے توخداہم پر بھی اپنی رحمتیں نازل فرماۓ گا‘ اور جو چیزہم ان کے لۓ طلب کرتے ہیں وہ ہمیں بھی عطا فرماۓ گا۔
قرآنِ کریم نے اہلِ بیت (ع) کو دوسروں سے ممتاز کرنے والے ان جذبات و احساسات کوہمیشگی بخشی ہے ۔یہ احساسات صرف حضرت زہرا (س) میں منحصر نہ تھے بلکہ تمام اہل بیت ( جنہیں خدا نے رجس اور نجاست سے محفوظ رکھ کر پاک و پاکیزہ بنایا ہے) ان احساسات کے مالک تھے۔ ان سب نے روحانی ‘ دانشمندانہ اور معاشرتی میدان میںایک پاکیزہ زندگی بسر کی ہے : ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا۔انما نطعمکم لوجہ اﷲ(یہ اسکی محبت میں مسکین‘یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔(اور ان سے کہتے ہیںکہ)ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں۔سورہ انسان٦٧۔آیت٨‘٩) ۔ہم تمہیں کھانا دے کر اپناروزہ پانی سے افطار کرتے ہیں ‘اس لۓ کہ ہم تمہیں خود پر ترجیح دیتے ہیں‘ہم اہل خانہ پرہمساۓ کو مقدم سمجھتے ہیں :لا نرید منکم جزاء ولا شکورا۔انا نخاف من ربنا یوما عبوسا قمطر یرا۔فوقا ھم اﷲ شرذلک الیوم و لقاھم نضرہ و سرورا (ور ہم نہ تو تم سے کسی بدلے کے طلبگار ہیں‘نہ شکریے کے۔ہم اپنے پروردگار سے اس دن کے بارے میں ڈرتے ہیں جس دن چہرے بگڑ جائیں گے اور ان پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی ۔تو خدا نے انھیں اس دن کی سختی سے بچا لیا اور تازگی اور سرور عطا کیا۔سورہ انسان ۷۶۔آیت ۹تا۱۱)
حضرت علی نے یہ دیکھتے ہوۓ کہ فاطمہ بیماری اور سخت محنت کی وجہ سے بہت تکلیف میں ہیں‘ ان سے فرمایا : کیا ہی اچھا ہو‘ اگر آپ پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہو کے ان سے ایک خدمت گار طلب کریں ‘تاکہ آپ کو کچھ آرام مل سکے اور آپ کے کام کا بوجھ کچھ ہلکا ہوجاۓ۔ لیکن حضرت فاطمہ نے اس درخواست سے گریز فرمایا کیونکہ آپ جانتی تھیں کہ اگر یہ ضروری ہوتا تو خود پیغمبرانہیں ایک خدمتگار فراہم کر دیتے ۔انہوں نے یہ تعلیم پائی تھی کہ ہر حال میں رسول خدا سے ہم آہنگ اور ان کے ہم قدم رہنا چاہۓ ۔
سیرت کی کتابوں میں آیا ہے کہ :ایک روز حضرت فاطمہ نے حضرت علی کی طرف سے تحفے میں ملنے والا دست بند یا گردن بند پہنا ہواتھا ۔اور ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ نیا پردہ گھر میں لٹکایا تھا ۔رسول اﷲ سفر سے واپسی پرحضرت فاطمہ کے گھر تشریف لاتے ہیں اور یہ چیزیں دیکھ کر بغیر ٹھہرے ہوۓ واپس پلٹ جاتے ہیں۔ فاطمہ رسولِ کریم کا یہ انوکھاطرز عمل دیکھ کر متعجب ہوتی ہیں‘ سوچتی ہیں کہ پیغمبر کا اس طرح فورا گھر سے چلے جانا غیر معمولی بات ہے۔غور کرتی ہیں کہ کیا نئی بات ہوئی ہے؟کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے؟ ۔آپ کی نظر اپنے زیور (یانۓ پردے) پر پڑتی ہے ۔ روایت میں آیا ہے کہ آپ اس دست بند یا گردن بند کو فروخت کرکے اس رقم سے ایک غلام خرید کرراہِ خدا میں آزاد کرتی ہیں۔ ایک دوسری روایت میں یہ آیا ہے کہ: آپ پردہ اتار کر اپنے بچوں (حسن و حسین ) کو دیتی ہیں اور ان سے کہتی ہیں کہ اسے پیغمبرکے حوالے کردیں اور ان سے کہیں کہ آج کے بعد ایسا کوئی عمل مجھ سے سرزد نہ ہو گا‘ اب جیسا آپ مناسب سمجھیں اسکے ساتھ کیجۓ۔ حسن اور حسین اپنے نانا کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ‘پیغمبر منبر پر تشریف فرما تھے۔ بچے نزدیک پہنچ کر امانت پیغمبر کے حوالے کرتے ہیںاور اپنی والدہ کا پیغام انہیں پہنچاتے ہیں ۔
پیغمبر اپنی بیٹی کا یہ پیغام سن کر وجد میں آ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں : فدا ھا ابوھا ‘ فداھا ابوھا‘ فداھا ابوھا‘ مالآل محمد والدنیا انھم خلقوا للآخرة (اسکاباپ اس پر فدا ہو‘ اسکاباپ اس پر فدا ہو‘ اسکا باپ اس پر فدا ہو! آلِ محمد کو دنیا سے کیا کام وہ تو آخرت کے لۓ خلق کۓ گۓ ہیں)

تسبیحاتِ زہرا
حضرت علی نے جب دیکھا کہ فاطمہ اپنے والدِ گرامی سے ایک خدمت گار کی فرمائش سے گریز کر رہی ہیں ‘تو آپ نے فیصلہ کیا کہ آپ خوداس سلسلے میں پیغمبر سے بات کریں گے اور ان سے کہیں گے کہ زہرا کوایک خدمت گار بخش دیں۔ حضرت علی ‘رسول کریم کی خدمت میں تشریف لاۓ اور ان الفاظ کے ساتھ بات کا آغاز کیا :مسلسل گندم پیسنے کی وجہ سے زہرا کے ہاتھ سخت اور ان کا بدن ناتواں ہوچکا ہے اور بچوں کی نگہداشت بھی ان کے لۓ دشوار ہے۔ اسکے بعد آپ نے پیغمبر سے درخواست کی کہ خدمت گار کے طور پر ایک اسیرانہیں بخش دیا جاۓ۔
پیغمبر اسلام نے خدا کے ساتھ ان دونوںکا رابطہ مضبوط کرنے اور حضرت زہرا کی سختیوں کو کم کرنے کی غرض سے‘ ان سے فرمایا : کیا تم نہیں چاہتے کہ میںتمہیں ایک ایسی چیز کی تعلیم دوں جس کی انجامدہی تمہارے لۓ خدمت گار رکھنے سے بہتر ہو؟ پھر فرمایا : سوتے وقت ۳۴ مرتبہ اﷲ اکبر‘ ۳۳ مرتبہ الحمد ﷲ اور ۳۳ مرتبہ سبحان اﷲ پڑھا کرو ۔یہ عمل اس سے بہتر ہے کہ تمہارے پاس ایک خدمتگار ہو۔ ان دونوں نے فرمایا : ہم خدا کی رضا پرراضی ہیں۔
اسلام نے تسبیحات ِزہرا کو جاویداں کر دیا ‘وہ تسبیحات جو ہمیںحضرت زہرا کی یاددلاتی ہیں ‘جس کے دوران خدا کی کبریائی ‘اس کی حمدو ستائش اور اسکی تسبیح کرتے ہوۓ آپ اپنے غموں کو بھلا دیتی تھیں تاکہ ہمارے لۓ واضح کر جائیں کہ خدا کے لۓ کس طرح جیا جاتا ہے اور کس طرح مصیبتوں میں خدا کو یاد کیا جانا چاہۓ۔
ایک روایت میں جو ’’کلینی ‘‘نے کافی میں سند کے ذکر کے ساتھ امام جعفر صادق سے نقل کی ہے ‘آیا ہے کہ : ایک موقع پرجب حضرت فاطمہ نے رسول اﷲ سے اپنی بعض مشکلات کی شکایت کی تو آنحضرت نے اپنی دختر کو کجھور کے درخت کی ایک شاخ دی (جس پر آپ نے کچھ تحریرکیا ہواتھا )۔
اس طرح پیغمبر چاہتے تھے کہ اپنی بیٹی کومادی امور سے زیادہ علم و معنویت کی جانب متوجہ کریں۔آپ نے فرمایا :اس پر جو کچھ لکھا ہوا ہے اسے یاد کر لو۔اس پرتحریر تھا کہ:’’ جو کوئی خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمساۓ کو تکلیف نہیں پہنچاتا ‘اور جو کوئی خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرتا ہے‘ اور جو کوئی خدا اور آخرت پر ایمان کا مالک ہے وہ اچھی بات زبان سے نکالتا ہے یا خاموش رہنا پسند کرتا ہے۔‘‘
پیغمبر چاہتے تھے کہ اس نصیحت کے ذریعے اور اسلامی اقدار (values)کے بارے میں اپنی حساسیت کی جانب اپنی دختر کو متوجہ کر کے‘ ان کی فکر کو ان تعلیمات کے سلسلے میں مشغول کریں جو آپ انسانوں کے لۓ لاۓ ہیں اور اس طرح ان کے غموں اور دکھوں کو کم کریں اور انہیں سختی اور اس درد پر مسلط کر دیں جو انہیں آزار پہنچا رہا ہے۔
ہم پیغمبر کے اس عمل کے یہ معنی لیتے ہیں کہ انسان کو اپنے اوپر پڑنے والی سختیوں اور اپنے دکھوںسے زیادہ اپنی ذمے داری سے آگاہ ہونا چاہۓ۔ تاکہ وہ ان سختیوں سے نجات پانے سے زیادہ اپنی ذمے داری کی ادائیگی کوترجیح دے۔ کیونکہ جب انسان کے پیشِ نظر بڑے بڑے امور کا اہتمام ہوتا ہے تو وہ معمولی مسائل کو بھلا دیتا ہے۔
بعض مورخین کے مطابق حضرت زہرا جو کچھ بنی اکرم سے سیکھتیں ‘ مسلمان عورتوں کو اسکی تعلیم دیتیں۔ دائرة معارفِ اسلامی (Islamic encyclopedia) کے مصنف نے نقل کیا ہے کہ ایک روز حضرت زہرا کے لکھے ہوۓ صفحات میں سے کچھ صفحے کہیں گم ہو گۓ انہوں نے ان اوراق کی تلاش کے لۓ’’فضہ ‘‘کو مامور کیا (جو عمر کے آخری حصے میں آپ کی خدمت پر مامور تھیں)۔ ان اوراق پر تحریر باتیں حضرت زہرا کے لۓ خاص اہمیت کی حامل تھیں کیونکہ یہ انہوں نے حضرت رسولِ کریم سے سیکھی تھیں۔
یہ موضوع اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حضرت زہرا تمام مشکلات اور سختیوں کے باوجود مسلمان خواتین (جو گاہے بگاہے آپ کے پاس آتی تھیں) کو تعلیم دینے اور انہیں زندگی کے مسائل سے آگاہ کرنے کے سلسلے میں اپنی ذمے داری کا احساس رکھتی تھیں۔
اہل بیت کی احادیث ہمیں بتاتی ہیںکہ بی بی کے پاس مصحف نامی کتاب تھی۔کچھ لوگوں نے لفظ ’’مصحف‘‘ سن کر خیال کیا ہے کہ یہ مسلمانوں کے پاس موجود قرآن سے مختلف کوئی دوسرا قرآن ہے۔جبکہ بعض احادیث (جن میںکافی کے باب زکات کی ایک حدیث بھی شامل ہے )میں آیا ہے کہ ’’مصحف فاطمہ ‘‘دراصل ’’کتاب ِفاطمہ‘‘ ہے۔ کیونکہ مصحف کا لفظ ‘ صحف سے ماخوذ ہے جس کے معنی اوراق ہیں ۔خداوند متعال قرآن کریم میں فرماتا ہے : صحف ابراھیم و موسیٰ ‘ (ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔سورہ اعلیٰ ۸۷۔آیت۱۹) یا :فی صحف مکرمۃ (یہ با عزت صحیفوں میں ہے۔سورہ عبس ۸۰۔آیت۱۳) ۔ لہٰذا ’’مصحف فاطمہ ‘‘وہ اوراق تھے جن پر حضرت فاطمہ لکھا کرتی تھیں۔ البتہ اس مصحف کے مواد و مشمولات کے بارے میں اختلاف ِراۓ پایا جاتاہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں حضرت فاطمہ کی وصیت اور کچھ شرعی احکام لکھے ہوۓ تھے‘جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کتاب غیبی امور اور ان ہی جیسی باتوں پر مشتمل تھی۔
بہر حال یہ کتاب‘ آج دنیا کے کسی گوشے میں نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا اس کے مواد و مشمولات کے حوالے سے کۓ جانے والے دعوئوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ کتاب آج موجود ہی نہیں کہ اس پر اختلاف اور نزاع کیا جاۓ۔ہم اس کتاب کی صرف ان چیزوں کے بارے میں دعویٰ کر سکتے ہیں جو اہل بیت نے ہمارے لۓ نقل کی ہیں۔
اسی طرح ’’مصحف علی ‘‘ہے اور وہ بھی ہماری دسترس میں نہیں ۔اسکا صرف وہ حصہ جو اہل بیت نے ہمارے لۓ نقل کیا ہے قابل استفادہ ہے ۔یہی معاملہ ’’جامعہ ‘‘اور ’’جفر‘‘ کا ہے جنہیں اہل بیت نے اپنے منابع (Sources) قرار دیا ہے۔

خطبۂ زہرا (س)
مذکورہ گفتگو کی روشنی میں واضح ہے کہ حضرت زہرا ایک عالمہ کا مظہر ہیں اور ایک ایسی مبلغ کی حیثیت رکھتی ہیں جو ایک بلندعلمی اور معنوی مقام سے اسلامی امور و معا ملات کا اہتمام کرتی ہیں۔ جب ہم آپ کا وہ خطبہ پڑھتے ہیں جو آپ نے (مسجد میں اپنے حق فدک)کے حصول کے لۓ ارشاد فرمایا ‘تو ہمیںآپ کی بھرپورعلمی اور معنوی صلاحیتوں کا علم ہوتا ہے۔ حضرت فاطمہ یہ خطبہ ارشاد فرماکے اور فدک طلب کرکے کوئی مادی مقصد حاصل کرنا نہیں چاہتی تھیں‘ بلکہ کچھ دوسرے اہداف و مقاصد آپ کے پیش نظر تھے ‘جو ایک اجتماعی مسئلے سے جا ملتے ہیں‘ جس کا آپ دفاع اور تحفظ کرنا چاہتی تھیں۔ اس طرح انہوں نے امیر المومنین کے حقِ خلافت (جس کی وہ خود معتقد تھیں اور ہم بھی معتقد ہیں) کا دفاع کیا۔ خطبے کا مطالعہ کرتے ہوۓ ہم دیکھتے ہیں کہ اس خطبے کی پہلی فصل بہت سی اسلامی اقدار اور واجبات کی تشریح پر مشتمل ہے ‘جو آپ کی بھرپور علمی صلاحیتوں پر بہترین گواہی ہے۔ اس فصل کو متن قرار دے کر بہت سی اسلامی تعلیمات کو بیان کرنے والی ایک تفصیلی شرح لکھی جاسکتی ہے۔
اسی طرح جب آپ اپنے والد کی طرف سے ملنے والی وراثت کے حق کو ثابت کرنے کے لۓ اورپیغمبر اسلام سے منسوب کی جانے والی روایت :اننا معاشر الانبیا ء لا نورث ‘ ماترکناہ صدقۃ (ہم انبیا اپنا ترکہ نہیں چھوڑتے اور جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے)کو مسترد کرنے کیلۓ وراثت سے متعلق آیات ِقرآنی کو اپنے استنباط کی بنیاد بنا کر انہیں بطور سند پیش کرتی ہیں اور اس طرح ایک قرآنی بحث میں داخل ہوتی ہیں ‘توفقہی مسائل کے استنباط میں قرآن کریم کو سند قرار دینے کے سلسلے میںآپ کی عظیم فقہی صلاحیت سامنے آتی ہے۔
جب ہم مہاجرین اور انصار سے آپ کی گفتگوکا جائزہ لیتے ہیں توآپ کی راۓ کی پختگی اور اپنی ذمے داری کی ادائیگی کے سلسلے میں آپ کی صلاحیت ہم پر روشن ہوتی ہے‘ اور یہ بات تصور میں بھی نہیں آتی کہ گفتگو کرنے والی یہ شخصیت ‘ وہی نحیف و ناتواں خاتون ہیں جو کبھی کبھی بے حال ہو جاتی ہیں۔ ہم انہیں ایک ایسی طاقتور خاتون کے روپ میں دیکھتے ہیں جو مردوں کے سامنے پا مردی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں اور ایک مضبوط منطق کی بنیاد پر ان سے گفتگو کرتی ہیں اور شبہات کو ایسی حجت اور دلیل سے مسترد کرتی ہے کہ جس کی مثال اس سے پہلے کسی عورت کی گفتگومیں نہیں ملتی۔

حضرت زہرا (س) کی مظلومیت
حضرت فاطمہ زہرا نے اپنی زندگی میں بکثرت تکالیف سہیں اور بہت سے ظلم و ستم برداشت کۓ جنہیں شیعہ اور سنی کتب ِاحادیث میں روایت کیا گیا ہے۔ ان ہی راویوںمیں سے ایک ر اوی ’’ابن قتیبہ‘‘( جو اہل سنت کے علما و مورخین میں سے ہے )اپنی کتاب ’’الامامہ و السیاسہ ‘‘ میں لکھتا ہے کہ :وہ لوگ لکٹریاں لے آۓ تاکہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے دروازے کو آگ لگا کر اعتراض کرنے والے ان لوگوں کو خوفزدہ کیا جاسکے جو حضرت علی کے گرد جمع ہوگۓ تھے ۔
مورخین کے مطابق حملہ آور گروہ کے سر غنہ سے کہا گیا :خبردار اس گھر میں فاطمہ ہیں!
فاطمہ وہ ذات ہیں کہ تمام مسلمان متفقہ طور پر ان سے محبت‘ ا ن کا احترام اور ان کی تعظیم کرتے ہیں ۔کیونکہ وہ رسول مقبول کی اکلوتی یادگار بیٹی ہیں اور رسول مقبول کی پارہ ء تن اور جگر گوشہ ہیں ‘ جو کوئی انہیں آزار پہنچاۓ اور ناراض کر ے گا وہ پیغمبر کو آزردہ اور ناراض کرے گا۔
حملہ کرنے والوں کے سرغنہ سے کہا گیا : تمہیں پتا نہیں‘اس گھر میں بتول رہتی ہیں ‘اسکے باوجود تم اسکے دروازے پر لکڑیاں اکھٹی کر کے اسے جلانے کی جسارت کر رہے ہو؟ اس نے جواب دیا : وَانُ تب بھی (یعنی حتیٰ اگرفاطمہ بھی گھر میں ہوں تب بھی گھر کو آگ لگا دو)
ہمارے خیال میں یہ لفظ خطرناک ترین الفاظ میں سے ہے ۔کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر فاطمہ کسی گھر میں موجودہوں تب بھی اس گھر کو آگ لگا دینے میں کوئی حرج نہیں ۔یہ لفظ اسقدر خطرناک ہے کہ مصری شاعر ’’حافظ ابراھیم‘‘ نے اپنے قصیدے ’’عمریہ‘‘ میں اس کی سختی اور درشتی کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ اس گفتگو کا مفہوم یہ ہے کہ اس گھر میں کوئی مقدس ہستی نہیںرہتی ۔پس اس گھر اور اسکے مکینوں کو جلا ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
ہمارے خیال میں (وَانُ ۔۔) کہنا حضرت زہرا پر بدترین ظلم ہے۔ خواہ راویوں کا یہ کہنا کہ یہ گروہ گھر میں داخل ہو گیا تھا درست ہو یا نہ ہو ’’وَانُ‘‘ کا لفظ حملہ کرنے والے لوگوں کی نیت اور ارادوں کی عکاسی کرتا ہے۔
ہمارے خیال میں اگرحملہ کرنے والے یہ لوگ حضرت علی کے ساتھ سنجیدہ گفت و شنید کی راہ اپناتے‘ تو علی بھی جواپنی تمام زندگی میں حتیٰ اپنی خلافت کے زمانے تک میں گفتگو اور مکالمے کو ترجیح دینے والے تھے‘ اس راہ کو پسند کرتے ‘اسی طرح فاطمہ جو مدرسۂ قرآن (جو گفتگو اور مکالمے کی کتاب ہے) کی تربیت یافتہ تھیں اس راستے کو قبول کرتیں ۔لیکن اس دور کے حالات میں گفت و شنید اور مکالمے کی جانب رغبت کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔
جی ہاں! حضرت زہرا کو یہ تمام مصائب دکھ پہنچاتے تھے لیکن کبھی آپ نے ان کی شکایت نہ کی۔ صرف حضرت علی نے حضرت فاطمہ کی تدفین کے بعد ان کی تکالیف اور رنج و الم کے بارے میں رسول اﷲ سے شکایت فرمائی: وستحدثک ابنتک عما نالھا وما اصابھا بعدک (بہت جلد ‘ آپ کی دختر ان چیزوں کے بارے میں آپ کو بتائیں گی جوانہوں نے دیکھیں اور سہیں)
ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیز حضرت فاطمہ کو پریشان کۓ ہوۓ تھی وہ مسلمانوں اور اسلام کے مسائل تھے۔حضرت فاطمہ کا عقیدہ تھا کہ خلافت کا تعلق اسلام کے مستقبل اور اسکی بقا اور دوام سے ہے ۔وہ جانتی تھیں کہ علی وہ ہیں جنہیں پیغمبر اسلام نے علم کے ہزارابواب سے روشناس کرایا ہے ‘اور ان میں سے ہر باب سے مزید ہزار باب کھولے جا سکتے ہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ علی حق کے ساتھ ہیں اور خود مدارِ حق ہیں۔ فاطمہ جانتی تھیں کہ علی کو رسولِ مقبول سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی سواۓ نبوت کے ۔آپ جانتی تھیں کہ علی وہ ہستی ہیںجنہوں نے اپنی پوری زندگی راہِ خدا میں جہاد کرتے ہوۓ بسر کی ہے۔ فاطمہ جانتی تھیں کہ علی کی ضربت جن و انس کی عبادت کے برابر ہے‘ اور جانتی تھیں کہ علی وہ انسان ہیں جن کی پوری کی پوری شخصیت رسول مقبول کے سایہ تربیت میں پروان چڑھی ہے۔ فاطمہ حضرت علی میں پائی جانے والی ان تمام خصوصیات اور ان کو حاصل تمام امتیازات کی بنیاد پر انہی کو ایک ایسالائق اور اہل رہبر سمجھتی تھیںجو فلاح و کامیابی کی جانب مسلمانوں کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دے سکتا ہے ۔

مہاجرین اور انصارسے آپ کی گفتگو
کتاب ’’السقیفہ‘‘ کے مولف کے مطابق متعدد علما جیسے طبرسی نے ’’احتجاج‘‘ میں‘ صدوق نے ’’معانی الاخبار‘‘ میں ‘ابن ابی الحدید نے ’’شرح نہج البلاغہ ‘‘ میں‘ صدوق نے ’’امالی‘‘ میں اور اربلی نے ’’کشف الغمہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ : جب حضرت فاطمہ بستر مرض پر تھیں‘ یہ وہی بیماری تھی جس میں آپ نے رحلت فرمائی ۔آپ کی بیماری شدید ہو گئی تو مہاجرین اور انصار سے تعلق رکھنے والی خواتین گروہ در گروہ آپ کی عیادت اور آپ کی سلامتی کی دعا کی غرض سے آپ کی خدمت میں آنے لگیں۔ ان خواتین نے حضرت زہرا سے ان کی خیریت دریافت کی اور آپ کی احوال پرسی کی ۔ حضرت فاطمہ نے خداوند عالم کی حمد و سپاس اور اپنے والدِ گرامی پر درود و سلام کے بعدفرمایا : اصبحت واﷲ عائفة لدینا کن قالیةلرجا لکن‘ لفظتھم بعد ان عجمتھم وشانتھم بعد ان سبرتھم فقبحاً لفلول الحدّ واللعب بعد الجد وقرع الصفاة وصدع القناة و خطل الاراء و زلل الاھواء(خدا کی قسم‘ میں تمہاری دنیا سے سخت ناخوش ہوں۔ تمہارے مردوں کے بارے میں بغض و عداوت میرے دل میں گھر کر چکی ہے ۔میں نے تمہارے مردوں کی آزمائش کرنے اور اس آزمائش میں ان کے پورا نہ اترنے کی بنا پر ‘انہیں منھ سے (اپنے دل سے) باہر نکال پھینکا ہے۔ جہاں تیزی مطلوب ہو اس مقام پر سستی کس قدر ناپسندیدہ ہے ۔ اور سنجیدگی اور دلجمعی کے بعد غیر سنجیدگی اور بے دلی کس قدر قبیح ہے۔ کتنا برا ہے نوکیلے پتھر پر مارنا ‘ کتنا برا ہے نیزوں کی انیوں پر شگاف ڈالنااور راۓ اور خیال کی خطا اور خواہشات کی لغزش )
اسکے بعد آپ نے فرمایا :وما الذی نقموامن ابی الحسن نقموا منہ واﷲ نکیر سیفہ وقلة مبالاتہ بحتفہ وشدة و طاتہ و نکال وقعتہ وتنمرہ فی ذات اﷲ عزوجل(کونسا عامل اس بات کا سبب بنا کہ وہ ابوالحسن سے انتقام لیں؟ خدا کی قسم باطل کو شکست دینے والی شمشیر کی وجہ سے ان سے انتقام لیا ہے ۔ان کی بے جگری‘ ان کے موت سے ہراساں نہ ہونے ‘ باطل کے خلاف ان کی ثابت قدمی (دشمنانِ اسلام)کے سروں پر قہر بن کر ٹوٹنے اور راہ خدا میں ان کی شجاعت و جوانمردی کی وجہ سے ان سے انتقام لیا گیا ہے۔)
’’سوید بن غفلہ‘‘ کہتے ہیں کہ ان عورتوں نے حضرت فاطمہ کی یہ باتیں اپنے مردوں کو جا کر بتا ئیں تو یہ سن کر مہاجرین و انصار کا ایک گروہ عذر خواہی کی غرض سے ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا : اے سیدة النساء !اگر ابوالحسن پیمانِ (خلافت) منعقد ہونے اور بیعت محکم ہوجانے سے پہلے ہمیںاس مسئلے سے آگاہ کرتے تو ہم ان سے منھ نہ پھیرتے اور دوسروں کا ساتھ نہ دیتے۔
حضرت فاطمہ نے انہیں جواب دیا:الیکم عنّی فلا عذر بعد تعذیرکم ولا امر بعد تقصیرکم(میری نظروں سے دور ہو جاؤ ! جھوٹی عذر خواہی کے بعدکوئی عذر باقی نہیں رہا ہے۔ اس تقصیر کے بعد‘ ہمیں تم سے کوئی غرض نہیں۔)
یہی پورا قصہ ہے ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ : آپ ‘ حضرت علی کے حق کے بارے میں گفتگو کے لۓ مہاجرین اور انصار کے گھروں پر جاتی تھیں ۔اس معاملے کی خصوصیات سے قطع نظر‘ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ صرف اور صرف اسلام اور حق اور حقانیت کے لۓ زندہ رہیں اور اس میدان میں محکم اور استوار تھیں۔حضرت ابو بکر و عمر سے گفتگو’’ابن قتیبہ‘‘نے کتاب ’’الامامۃ والسیاسۃ‘‘ میں آپ کی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر سے ہونے والی گفتگو کو اس طرح نقل کیا ہے :حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے کہا : آیۓ ‘ فاطمہ کے یہاں چلتے ہیں کیونکہ ہم نے انہیں ناراض کر دیا ہے۔ دونوں حضرات اٹھے اور حضرت علی کے گھر آۓ اور حضرت فاطمہ سے گھر میں داخلے کی اجازت طلب کی ۔لیکن حضرت فاطمہ نے اجازت نہ دی۔
یہ دونوں حضرات ‘ حضرت علی کے پاس آۓ اور آپ سے بات کی ‘ حضرت علی ان دونوں کو گھر میں لے گۓ۔ جب یہ دونوں حضرات ‘حضرت فاطمہ کے کمرے میں داخل ہوۓ تو انہوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف پھیر لیا ۔ان دونوں نے سلام کیا لیکن حضرت فاطمہ نے انہیں جواب نہ دیا۔حضرت ابو بکر نے گفتگو شروع کی اور کہا : اے دختررسول !واﷲ ‘ آپ مجھے اپنے اقربا سے بھی زیادہ عزیز ہیںاور میں آپ سے اپنی بیٹی عائشہ سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں ۔میری تمنا تھی کہ جس روز آپ کے والدِ گرامی اس دنیا سے رخصت ہوۓ مجھے بھی موت آجاتی اور ان کے بعد اس دنیا میں باقی نہ رہتا ۔ کیا ممکن ہے کہ آپ کی معرفت رکھنے کے باوجود اور آپ کے فضل و شرف کو جاننے کے بعد بھی میںآپ کو آپ کے حق اور وراثت سے محروم کرتا؟ میں نے آپ کے والدِ گرامی سے سنا تھا کہ ‘ آپ نے فرمایا :ہم انبیا ‘ ترکہ نہیں چھوڑتے ‘ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے۔
حضرت زہرا نے ان کے اس ادعا پر کوئی توجہ نہ دی۔ کیونکہ آپ نے اسکا جواب اپنے خطبے میں دے دیا تھا اور اس مسئلے کو مکمل طور پر حل فرما دیا تھا اور پھر یہ کہ اس حدیث کو سواۓ حضرت ابو بکر کے کسی اور نے نقل نہیں کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ رسول اﷲ جو تمام لوگوں سے زیادہ حضرت فاطمہ کو عزیز رکھتے تھے اور انہیں ہر بدی اور برائی سے دور رکھتے تھے اگر (ان کے) ترکے کا مسئلہ آیت قرآن سے قابل تخصیص ہوتا‘ (ہرچند آیت قرآن اس بارے میں واضح ہے) تو آخر کیونکر آپ اس شرعی حکم سے اپنی بیٹی کو آگاہ نہ فرماتے؟یا کم از کم اسکی جانب اشارہ ہی فرما دیتے؟ حتیٰ حضرت علی تشریف لا ۓ اور انہوں نے حضرت فاطمہ کے حق میں گواہی دی لیکن ان کی شہادت بھی قبول نہ کی گئی ۔اب جبکہ حضرت ابو بکر نے ایک مرتبہ پھر اس مسئلے کو اٹھایا تو حضرت زہرا نے اس مسئیلے پر جسے آپ پہلے ہی حل فرما چکی تھیں دوبارہ گفتگو کی ضرورت محسوس نہ کی ۔البتہ آپ نے یہ ضرور چاہا کہ آپ پر ‘ہر طرف سے جو اذیت و آزار اور ظلم و جور روا رکھے گۓ ہیں ان کے سبب ان حضرات پر ایک حجت قائم کر دیں ۔لہٰذا آپ نے ان دونوں حضرات سے سوال کیا :کیا میں آپ کے سامنے پیغمبر کی ایک حدیث نقل کروں ۔کیا آپ اسے مان کر اس پر عمل کریں گے ؟ ان حضرات نے کہا : جی ہاں‘ضرور‘ فرمایۓ۔ آپ نے فرمایا : خدا کی قسم ‘کیا آپ لوگوں نے رسول اﷲ سے یہ نہیں سنا تھا کہ فاطمہ کی رضاو خوشنودی میری رضا و خوشنودی ہے اور فاطمہ کا غضبناک اور ناراض ہونا میرا غضب اور ناراضگی ہے ۔جو کوئی میری بیٹی فاطمہ سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جس کسی نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے؟
ان حضرات نے کہا : جی ہاں! ہم نے رسول اﷲ کی زبانی یہ حدیث سنی ہے۔
اس پر حضرت فاطمہ نے فرمایا : میں خداوند عالم اور اسکے فرشتوں کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ آپ حضرات نے مجھے ناراض کیا ہے ‘راضی نہیں رکھا ۔اپنے والدِ گرامی سے ملاقات کے موقع پر میں آپ حضرات کی شکایت کروں گی۔حضرت ابو بکر نے کہا : اے فاطمہ ! میں ان کی اور آپ کی ناراضگی سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں۔

اپنے والد گرامی کے فراق کا غم و اندوہ
فاطمہ زہرا ‘ہر حال میں ثابت قدم رہیں۔ آپ اپنے والدِ گرامی کے بچھڑ جانے پر انتہائی غمگین تھیں اور بہت زیادہ رویا کرتی تھیں۔
پیغمبر اسلام حالت ِاحتضار میں تھے‘ حضرت فاطمہ نے انہیںاپنی آغوش میں لیا اور رونے لگیں۔ اسکے بعد آپ نے رسول کریم کو پیارکیا اور مسکرانے لگیں ۔ بعد میںان سے پوچھا گیا: آپ کے اس رونے اور مسکرانے کا راز کیا تھا؟ جواب میں فرمایا :پہلے تو میرے بابا نے مجھے اپنی وفات کی اطلاع دی‘ جس پر میں رونے لگی ۔اسکے بعد آپ نے مجھے مطلع کیا کہ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے جو ہستی مجھ سے آ کے ملے گی وہ میں (فاطمہ) ہوںگی۔ یہ سن کر میں مسکرانے لگی۔
اپنے والدِ گرامی کے فراق میں جناب فاطمہ زہرا کے غم و اندوہ کے بارے میں کثیر روایات نقل ہوئی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک روایت میں ’’کلینی‘‘ اصول کافی میں امام جعفر صادق سے نقل کرتے ہیں کہ: فاطمہ زہرا نے رسول کریم کے بعد جو پچہتر(۷۵)دن گزارے ان میں کبھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ یا ہنسی نہیں دیکھی گئی ۔ آپ ہفتے میں دو مرتبہ (پیر اور جمعرات کے دن) شہدا کی قبور کی زیارت کے لۓ تشریف لے جاتی تھیں ۔
امام جعفر صادق سے منقول ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جب تک زہرا زندہ رہیں وہاں (جا کے ) نماز پڑھا کرتی تھیں اور دعا کیا کرتی تھیں۔
ہاں ! دوستو! حضرت زہرا نے اپنی پوری حیات اسی طرح بسر کی۔ وہ ایک ایسی انسان تھیں جن کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ اپنے ہر ہر قول اور ایک ایک عمل میں معصوم تھیں‘اور ہمارے پاس اسکی کئی دلیلیں ہیں :
١ وہ خواتین عالم کی سردار ہیں اور جو ہستی ایسے مقام و مرتبے کی حامل ہو‘ اسکے کسی قول و عمل میں خطا سرزد نہیںہوتی۔
٢ وہ اہل بیت ِپیغمبر میں شامل ہیں جن سے خداوند عالم نے ہر قسم کی نجاست کو دور رکھا ہے اور انہیں پاک و پاکیزہ خلق کیا ہے: انما یرید اﷲ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا(بس اللہ کا ارادہ یہ ہے ‘اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔سورہ احزاب ٣٣ ۔ آیت ٣٣ )
٣ فاطمہ زہرا معصوم ہیں ‘کیونکہ بچپنے سے لے کر وفات تک ان کی پوری زندگی میں ہم نے کسی ایک بھی باطل قول یا عمل کا مشاہدہ نہیں کیا۔ حضرت زہرا اپنے عزم و ارادے ‘معنویت ومراقبت اور پروردگار عالم کے بے انتہا لطف و فیض کی بنا پر مقام عصمت کی حامل ہیں۔
حضرت زہرا نے عظیم حوادث کے دوران تمام درد و الم برداشت کۓ ‘اپنے پورے وجود کے ساتھ اسلام کی خدمت کی اور اپنی تمام توانائیوں کو اس راہ میں صرف کیا ‘یہاں تک کہ آپ نے وصیت فرمائی کہ مجھے رات کے وقت دفن کیا جاۓ اور وہ لوگ میری تشیع جنازہ میں شامل نہ ہوں جنہوں نے حق کاساتھ نہیں دیا اور اسکی مخالفت کی۔رات کے اندھیرے میں آپ کی تدفین آپ کی وفات کے بعد آپ کا آخری مبارزہ اور وفات سے قبل آپ کے احتجاجوں کا تسلسل تھا۔ آپ نے خواہش کی کہ آپ کی قبر کو پوشیدہ رکھا جاۓ تاکہ ان مصائب کی گواہ رہے جو خدا کے لۓ ‘خدا کی راہ میں ‘رسول خدا کے ہمراہ آپ نے برداشت کۓ۔
یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر فاطمہ زہرا اپنے عقائد اور رونما ہونے والے عظیم حوادث کے خلاف جدوجہد میں خواتین کی سردار اور ثابت قدم مومنین کیلۓ نمونہ عمل ہیں ‘جو لوگوں کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ : راہ اسلام میں بکثرت کٹھن مراحل تمہارے سامنے آئیں گے‘ مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد کی راہ میں بہت سی مشکلات تمہارے روبرو ہوں گی ‘اسلامی دعوت اور اس کو قوت ‘عزت اور غلبہ بخشنے کی جد و جہد کے دوران تمہیں بہت سی سختیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تم پر لازم ہے کہ اپنی تمام فکری اور روحی توانائیوں کے ساتھ کوشاں رہو۔
فاطمہ کا پیغام یہ بھی ہے کہ : اسلام کے خادم بنو‘ جیسے کہ میں اسلام کی خدمت گزار رہی‘ کوشش کرو کہ ہمیشہ کلمۃ اﷲ غالب و سربلندہو اور کلمۃ الشیطان مغلوب و سرنگوں رہے۔ اگر حالات تمہیں اجازت دیں تو دریغ نہ کرو‘ وحدت و اتحاد کو اپنا شیوہ بناؤ‘ اور تاریخی زخموں‘دکھوں اور مسائل کی موجودگی کے باوجود بہت سے مسائل کو ابھارے بغیر اپنی راہ پر گامزن رہو۔ یہ رویہ اپناؤ اور جان لو کہ عظیم الشان ہدف و مقصد’’ اسلام ‘‘ہے۔
خدا کا سلام ہو ان پر ‘ جس رو ز ان کی ولادت ہوئی ‘جس روز انہوں نے وفات پائی اور جس روز وہ زندہ محشور کی جائیں گی۔
www.Bayynat.ir
مقالات کی طرف جائیے