|
تاریخ سے عبرت |
محمد عباس ہاشمی |
مقدمہ حقیقی تاریخ ایک ایسے صاف و شفاف آئینے کی مانند ھے کہ جس سے زشتی و زیبائی کا جلوہ بخوبی دیکھا جاسکتا ھے ۔ یہ پہلے لوگوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے عوامل و اسباب کے ساتھ ساتھ ان کے منطقی و طبیعی نتائج کی تصویر کشی کرتی ھے ۔ مزید برآں، انسانی معاشروں اور تہذیبوں کے سنگم اور تصادم کی جلوہ آرائی کرنا بھی تاریخ کے خواص میں سے ھے ۔ نتیجةََ انسانِ بینا، دیدۂ بصیرت کھولتا ھے اور ''اولوا الابصار'' صفحہ زمان کی ورق گردانی کر کے خود بھی عبرت حاصل کرتے ھیں اور دوسروں کے لئے بھی عبرت کا سامان فراھم کرتے ھیں ۔ تاریخ، افکار عمومی کی عملی تجربہ گاہ ھے، اس لئے کہ جن آراء و نظریات کو انسان اپنے ذھن میں عقلی دلائل کے ساتھ ترسیم کرتا ھے اسے صفحہ تاریخ میں واقعیت کی شکل میں موجود پاتا ھے اور تاریخ کی مانند کوئی بھی چیز زندگی کی حقیقتوں کو ملموس طور پر پیش نھیں کرتی؛ اس لئے کہ تاریخ ھمارے لئے گزشتگان کے قیمتی تجربات کی سوغات لاتی ھے، سچی داستانوں کو فلم کی مانند بولتی چلتی تصویروں اور خوش آھنگ آوازوں کے قالب میں ڈھال کر، گوش و چشم کو اس قدر مسحور و مجذوب کر دیتی ھے کہ ھر طرف قبرستان کی سی خاموشی چھا جاتی ھے اور اسی دوران انسان کی حسِّ عبرت بینی بیدار ھو جاتی ھے ۔ لھٰذا تاریخ کو '' عبرت انگیزی '' کے بزرگ ترین اور معتبر ترین منابع میں سے شمار کرنا، قرین عقل ھوگا ۔ اس مقالے میں ھیچدان کو نھج البلاغہ کی روشنی میں '' تاریخ سے عبرت '' کے موضوع پر قلمکاری کرنا ھے ۔ اپنی کج فھمی اور نادانی کا احساس بھی ھے اور موضوع کی جامعیت و ھمہ گیریت کا ادراک بھی اور ستم بالائے ستم یہ کہ اختصار کی زنجیروں کا بوجھ اٹھا کر آگے بڑھنا ھے ۔ مگر کیا بعید ھے کہ دست غیبی کی مدد شامل حال ھو جائے اور ذرہ میں خرمن اور قطرے میں دریا سما جائے، سنگریزہ گوھر اور چراغ آفتاب ھو جائے، تاریخ حقیقت و واقعیت اور عبرت آشکار ھو جائے اور یہ اثر ماندگار ھو جائے ۔ ھم اس موضوع پر چند عناوین کے تحت گفتگو کریں گے تاکہ افادہ و استفادہ آسان ھوسکے ۔
ادب و تاریخ کا رشتہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ھے کہ نھج البلاغہ ایک '' ادبی '' کتاب ھے کہ جس کی طرف خود شریف رضی نے اس کے مقدمہ میں اشارہ کیا ھے ۔ چنانچہ وہ فرماتے ھیں : '' و اعتمدت بہ ان ابین من عظیم قدر امیر المؤمنین (ع) فی ھٰذہ الفضیلة مضافة الیٰ المحاسن … " ۔ 1 اس تالیف سے مقصود یہ ھے کہ میں امیر المومنین (ع) کی فن بلاغت میں برتری ظاھر کروں جو آپ کی بے شمار خوبیوں اور ان گنت فضیلتوں کے علاوہ ھے اور یہ کہ آپ اس فضیلت کے مقام منتہیٰ تک پہنچنے میں ان تمام سلف اولین میں یکتا ھیں کہ جن سے نوادر کلمات اور غیر مانوس الفاظ نقل کئے جاتے ھیں '' ۔ تو سوال پیدا ھوتا ھے کہ آیا اس بات کا امکان ھے کہ ایک ادبی کتاب میں بلاغت کے پیرائے اور فصاحت کے سائے تلے عبرت انگیز اور خیال آفرین تاریخی نکتہ سنجیاں، عالمانہ تبصروں اور محققانہ نگارشوں کے ھمراہ اور نتیجہ خیز حوالوں کے ساتھ پائی جائیں ؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے اور حسِّ ادبیّت کو نسیم فصاحت سے معطر کرنے کے لئے '' مذھبی لٹریچر '' کو اردو ادب کے قالب میں ڈھال کر اسے اوج کمال عطا کرنے والے مایۂ ناز عالم، مترجم، مورّخ اور ادیب علامہ مفتی جعفر حسین اعلیٰ اللہ مقامہ کا ایک مختصر اقتباس حاضر خدمت ھے : '' امیر المومنین (ع) نے علمی حقایق کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ علم و ادب کی نشؤ و نما میں بھی بھرپور حصہ لیا اور عربی نثر کو نہ صرف حد کمال تک پہنچایا بلکہ فلسفیانہ فکر و نظر کو ادبی لطافتوں میں سمو کر ایک نئے طرز تحریر کی داغ بیل ڈالی جس کی اس زمانہ میں کوئی مثال نھیں ملتی ۔ عرب تو خیر اس وقت منطقی انداز استدلال سے روشناس ھی نہ تھے کہ اس دور میں اس کی مثال ڈھونڈھی جائے ۔ آج بھی جبکہ نثر ترقی کے مدارج طے کر چکی ھے اور ادبی و فنی ارتقاء اپنے نقطۂ کمال کو پہنچ چکا ھے اس کی نظیر نھیں مل سکتی ۔ اگر کسی کلام میں معانی و بیان کی مناسبتیں اور تشبیہ و استعارہ کی لطافتیں پائی جاتی ھیں تو حکمت و اخلاق کے تعلیمات سے تھی داماں ھے ۔ اگر کسی میں حکمت و اخلاق کے جوھر بھرے ھوئے ھیں تو طرز ادا کی شگفتگی اور رنگینی غائب ھے ۔ فلسفہ و حکمت کے حقایق اور الٰھیات کے دقیق مسائل کو اس طرح بیان کرنا کہ کلام کی بلاغت، بیان کی ندرت اور طرز ادا کی لطافت میں کہیں جھول نہ آئے بہت دشوار ھے؛ کیونکہ ھر فن کا ایک خاص لب و لھجہ، خاص پیرایہ اور خاص طریقہ بیان ھوتا ھے اور یہ مانی ھوئی بات ھے کہ علمی مطالب میں نہ بلیغانہ تعبیرات کی گنجائش ھوتی ھے اور نہ ان میں اعلیٰ معیار بلاغت کو باقی رکھا جاسکتا ھے ۔ کیونکہ ٹھوس حقایق کی وادی اور ھے اور بلاغت کا پر بہار چمن اور ھے ۔ چنانچہ ابن خلدون کو یہ کہنا پڑا کہ علمی و فنی تعبیریں اسلوبِ بلاغت سے میل نھیں کھاتیں '' ۔ 2 مفتی صاحب قبلہ کے اس کلام کا لبّ لباب یہ ھے کہ '' سبدھائے کتب علمی و فنی کجا اور لالہ زارِ فصاحت و بلاغت کجا '' ۔ اسی طرح اردو ادب و تاریخ کے مشھور و معروف نقاد ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے اس مطلب کو تاریخ کے زاویہ نگاہ سے یوں بیان کیا ھے : '' ادبی بھول بھلیوں سے تاریخی سچائیوں کی طرف سوچ کا سفر ھفت خوان طے کرنے کے برابر ھوتا ھے، اس میں محنت پژوھی، ژرف نگہی کے ساتھ اھتمام تلاش جزئیات جملہ لوازمات سے ھے '' ۔ لیکن اس کے باوجود ادب و تاریخ کا باھم گہرا رشتہ ھے کہ جس میں بہت سی باتیں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ھیں ۔ مثال کے طور پر اگر ادب کے تاریخی مآخذ اور خود تاریخ کے معتبر مصادر کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو تہذیبی سچائیوں اور تاریخی عبرتوں کی بازیافت اور حقائق کی تعبیر و تاویل میں کافی مدد مل سکتی ھے ۔ 3 اسی طرح اگر ھم تاریخی کتابوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو جھاں ھمیں تاریخی حقایق ملیں گے وھاں کہیں کہیں ادبی نمونے بھی ھمارے ھاتھ لگیں گے اور جب ھم ادبی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ھیں تو اس میں ادبی شہ پاروں کے ضمن میں کہیں کہیں تاریخی صداقتیں بھی سامنے آتی ھیں لیکن نھج البلاغہ کا کمال یہ ھے کہ اس کتاب میں ادب و تاریخ کا مضبوط بندھن اور حسین امتزاج ملتا ھے کہ جس کی مثال ادبی دنیا میں ڈھونڈھے سے نھیں مل سکتی ۔
علم تاریخ کی فضیلت فن تاریخ ان فنون میں سے ھے کہ جو ھر زمانے اور ھر امت کے درمیان رایج رھا ھے ۔ اس کی تحصیل و ترویج کے لئے لوگ دور و نزدیک کے سفر کی صعوبتیں اٹھاتے ھیں ۔ اس سے معرفت و شناسائی کے لئے عوام و خواص کمر ھمت باندھتے ھیں اور اس کے لئے بڑے بڑے بادشاہ، امراء اور رؤساء باھمی رقابت کا شکار رھتے ھیں اور سب سے زیادہ دلچسپ امر یہ ھے کہ اس کے فھم میں عالم و جاھل مساوی ھیں ۔ اس لئے کہ یہ ظاھری طور پر ایک طرف سے تو صفحہ روزگار پر نقوش کی مانند ابھر کر ھمیشہ کے لئے مٹ جانے والے شب و روز کا حال گو ھے تو دوسری طرف اس طول زمان میں قائم ھونے والی حکومتوں اور سلطنتوں کے بارے مفید معلومات کا حامل ھے ۔ اس میں مختلف اقوال نقل کئے جاتے ھیں اور عبرت کے غلاف میں لپٹی ھوئی ضرب الامثال کی حکایت کی جاتی ھے ۔ پس اس میں بادشاھوں کے عروج و زوال کا ذکر ملتا ھے کہ انھوں نے کس طرح سے اپنی سرحدوں کو وسعت دی اور شھروں کو آباد کیا اور پھر کیسے انھی شھروں میں ان کا خون بہایا گیا اور وہ زوال پذیر ھوکر دوسروں کے لئے نشانِ عبرت بن گئے اور باطنی طور پر اس کائنات پر غور و فکر اور اس کی پیدائش کی علت یابی کا نام ھے اور وقائع و حوادث کے عمیق اسباب پر نظر سنجی کی امکانی کوشش ھے ۔ انھی وجوھات کی بنا پر یہ ایک علمِ اصیل کی حیثیت رکھتا ھے، اپنی لڑیوں میں حکمت کے موتی پروئے ھوئے ھے اور اس چیز کا شائستہ و سزاوار ھے کہ اس کو اشرف علوم میں شمار کیا جائے ۔
عبرت کا مفھوم '' عبرت '' عین کے کسرہ کے ساتھ '' اعتبار '' سے اسم مصدر ھے ۔ اس کے معنی 'نصیحت لینا' کے ھیں اور اس سے انسان کی فکر، حق و سچائی کا راستہ اختیار کرنے کی طرف راغب ھوتی ھے ۔ پس وہ دنیا کو ترک کرنے اور آخرت کے لئے عمل کرنے پر آمادہ ھو جاتا ھے اور اسے عبور ( یعنی گزرنا ) سے مشتق کرنے کی وجہ یہ ھے کہ اس کے سبب انسان ایک امر سے دوسرے امر کی طرف منتقل ھوتا ھے ۔ جیسا کہ گزشتگان کی داستانیں اور ان پر آنے والی مصیبتیں جب بطور عبرت ذکر کی جاتی ھیں تو ان کے ذریعے انسان کا ذھن اپنی ذات اور اپنی حالت کی طرف منتقل ھو جاتا ھے ۔ پس اس کے اندر وعظ پذیری اور خدا کی طرف بازگشت کی کیفیت پیدا ھو جاتی ھے ۔ اس رُو سے نورِ عبرت عقل کو جلا دینے کے واسطے بہت ضروری ھے ۔ چنانچہ حدیث میں وارد ھوا ھے : '' من اطفأ نور عبرتہ بشھوات نفسہ فکانما اعان ھواہ علیٰ ھدم عقلہ '' ۔ جس نے اپنے نور عبرت کو نفسانی شھوات کی تند و تیز ھواؤں کے ذریعے خاموش کر دیا گویا اس نے عقل کی عمارت کو منھدم کرنے کے لئے اپنی خواھش نفس کا ساتھ دیا ۔ 4 '' اعتبار '' اور '' عبرت '' ایسی حالت کو کہتے ھیں کہ جو آدمی کو محسوس ( ظاھری حادثہ ) سے غیر محسوس ( یعنی اس کی حقیقت اور باطن ) تک پہنچا دے ۔ 5 اور ایسے موعظہ کو کہتے ھیں کہ جو انسان، گزشتگان اور وقائع سے حاصل کرے ۔ 6
کلمہ عبرت پر ایک حیرت انگیز تحقیق راقم الحروف نے جب اسلامک سافٹ وئیرز کے ذریعے کلمہ '' عبرت '' کا قرآن مجید اور نھج البلاغہ میں کھوج لگانا چاھا تو ایک لمحے کے لئے انگشت بدنداں رہ گیا ۔ آپ کے لئے بھی یہ امر باعثِ حیرت و استعجاب ھوگا کہ قرآن کریم میں کلمہ '' عبرت '' سات مقامات پر یعنی سورة العمران آیت ١٣، سورة یوسف آیت ۴٣ و ١١١، سورة نحل آیت ۶۶، سورة مومنون آیت ٢١، اور سورة نور آیت ۴۴ میں استعمال ھوا ھے ۔ اور اسے '' امیر کلام '' کا اپنے کلمات پر تسلط و اقتدار کہئے، سیّد رضی (رح) کا حسن انتخاب سمجھئے یا قدرت کا انتظام خیال کیجئے کہ نھج البلاغہ میں بھی حضرت (ع) کے کلمات میں لفظ '' عبرت '' سات مقامات پر ھی استعمال ھوا ھے جنھیں اختصار کے باعث بندہ ذکر کرنے سے قاصر ھے ۔ 7 شاید اس چھوٹے سے نمونے کے ساتھ امت کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کی یہ حدیث سمجھنا آسان ھو جائے کہ '' القراٰن مع علی و العلی مع القراٰن '' یعنی قرآن علی (ع) کے ساتھ ھے اور علی (ع) قرآن کے ساتھ ۔
نھج البلاغہ کی تاریخی عبرتیں تاریخی سچائیاں اور ان سے وابستہ تہذیبی صداقتیں اپنی مختص جہتوں کے اعتبار سے دو بڑے دائروں میں تقسیم ھوتی ھیں : ١ ۔ مشتہر حقایق ( patent facts ) ٢ ۔ مستتر حقایق ( latent facts ) مشتہر حقایق کی پہچان تو یہ ھے کہ سر تا سر خارجی شواھد کے تقابلی مطالعہ اور اخذ نتائج سے وابستہ ھوتے ھیں ۔ جس کے بعد واقعات کی منطقی ترتیب زیادہ مستحکم بنیادوں پر ممکن ھو جاتی ھے اور مستتر حقایق تک ذھنی رسائی اور ان کے استخراج و استنباط کا عمل بھی تاریخی صداقتوں سے الگ ھٹ کر اپنے طریق رسائی کا صحیح تعین نھیں کرسکتا ۔ 8 یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کر کے مستتر حقایق تک دست رسی حاصل کرنے والا شخص صرف ایک اچھا تاریخ دان کہلائے گا لیکن چشم بصیرت کھول کر مشتہر حقایق کے باطن میں موجود مستتر حقایق کو لمس کرنے والے پر عبرت پذیر کا اطلاق بھی ھوگا ۔ اگر کسی تاریخ میں مستتر حقایق کے ساتھ مستتر حقایق کی طرف بھی اشارہ ھو تو دنیا اس کے گن گانے لگتی ھے لیکن نھج البلاغہ میں جھاں ان دونوں قسم کے حقایق کو بیان کیا گیا ھے وھاں آئندہ ظاھر ھونے والے حوادث و واقعات کا بھی تفصیلی ذکر کیا گیا ھے، جنھیں نھج البلاغہ پر موضوعاتی تحقیق کرنے والوں نے '' مغیبات '' کے عنوان سے الگ ذکر کیا ھے ۔ ھم ان چند سطروں میں نھج البلاغہ کی ' تاریخی عبرتوں ' کا جائزہ لیتے ھیں :
١ ۔ تخلیق کائنات سے عباب ان کی بلندیاں فضاؤں سے گزر گئی ھیں اور ان کی جڑیں پانی کے اندر راسخ ھیں، ان پہاڑوں کو ھموار زمینوں سے اونچا کیا اور ان کے ستونوں کو اطراف کے پھیلاؤ اور مراکز کے ٹھھراؤ میں نصب کر دیا ۔ اب ان کی چوٹیاں بلند ھیں اور ان کی بلندیاں طویل ترین ھیں ۔ انھی پہاڑوں کو زمین کا ستون قرار دیا ھے اور انھی کو کیل بنا کر گاڑ دیا ھے جس کی وجہ سے زمین حرکت کے بعد ساکن ھوگئی اور نہ اھل زمین کو لے کر کسی طرف جھک سکی اور نہ ان کے بوجھ سے دھنس سکی اور نہ اپنی جگہ سے ھٹ سکی ۔ پاک و بے نیاز ھے وہ مالک جس نے پانی کے تموّج کے باوجود اسے روک رکھا ھے اور اطراف کی تری کے باوجود اسے خشک بنا رکھا ھے اور پھر اسے اپنی مخلوقات کے لئے گہوارہ اور فرش کی حیثیت دے دی ھے ۔ اس گہرے سمندر کے اوپر جو ٹھھرا ھوا ھے اور بہتا نھیں ھے اور ایک مقام پر قائم ھے کسی طرف جاتا نھیں ھے حالانکہ اسے تیز و تند ھوائیں حرکت دے رھی ھیں اور برسنے والے بادل متھ کر اس سے پانی کھینچتے رھتے ھیں ۔ ان تمام باتوں میں عبرت کا سامان ھے ان لوگوں کے لئے جن کے اندر خوف خدا پایا جاتا ھے '' ۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی اس مقام پر حاشیہ نگاری کرتے ھوئے، رقمطراز ھیں : '' کتنا حسین نظام کائنات ھے کہ متلاطم پانی پر زمین قائم ھے اور زمین کے اوپر ھوا کا دباؤ قائم ھے اور انسان اس تین منزلہ عمارت میں درمیانی طبقہ پر اس طرح سکونت پذیر ھے کہ اس کے زیر قدم زمین اور پانی ھے اور اس کے بالائے سر فضا اور ھوا ھے، ھوا اس کی زندگی کے لئے سانسیں فراھم کر رھی ھے اور زمین اس کے سکون و قرار کا انتظام کر کے اسے باقی رکھے ھوئے ھے ۔ پانی اس کی زندگی کا قوام ھے اور سمندر اس کی تازگی کا ذریعہ، کوئی ذرّۂ کائنات اس کی خدمت سے غافل نھیں ھے اور کوئی عنصر اپنے سے اشرف مخلوق کی اطاعت سے منحرف نھیں ھے تاکہ وہ بھی اپنی اشرفیت کی آبرو کا تحفظ کرے اور ساری کائنات سے بالاتر خالق و مالک کی اطاعت و عبادت میں ھمہ تن مصروف رھے '' ۔ 10
٢ ۔ ملائکہ سے عبرت دنیا کا کون سا ایسا مورّخ ھے کہ جو تخلیق کائنات سے لے کر ماوراء الطبیعت کی حقیقتوں سے نقاب کشائی کرے ۔ ظاھر سی بات ھے کہ ایسی عمیق معلومات کا حامل شخص دو حالتوں سے خالی نھیں ھے یا تو یہ سب کچھ اس کے سامنے خلعت وجود سے آراستہ ھوا ھے اور یا اسے '' علیم و خبیر '' کی طرف سے علمِ لدُنیّ عطا ھوا ھے ۔ البتہ ایک تیسری صورت کا بھی امکان ھے کہ اس شخص کو پیغمبر اکرم (ص) کے چشمہ علم و حکمت سے بھرپور سیرابی حاصل ھوئی ھو اور اس بات پر کافی شواھد ھیں کہ ذات علی (ع) میں یہ تینوں اوصاف اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھے تو پھر کیوں نہ ایسا ھو کہ ان کا ایک ایک جملہ اپنی بلاغت اور جامعیت کے اعتبار سے تاریخ نگاروں کے ھزاروں اوراق پر بھاری ھو ۔ پس حضرت، ملائکہ کی حقیقت ، ملائکہ کی خلقت اور ملائکہ کی عصمت جیسے حسّاس موضوعات کی طرف اشارہ کر کے بنی نوع انسان کو متنبہ کر رھے ھیں : فرشتوں سے بہتر ھے انسان بننا مگر اس میں لگتی ھے محنت زیادہ پس اس ضمن میں حضرت (ع) کا خطبہ ملاحظہ فرمایئے ! "ثمّ فتق ما بین السمٰوات العلیٰ … ولا یشیرون الیہ بالنظائر " ۔ 11 '' پھر اس نے بلند ترین آسمانوں کے درمیان شگاف پیدا کئے اور انھیں طرح طرح کے فرشتوں سے بھر دیا ۔ جن میں سے بعض سجدے میں ھیں تو رکوع کی نوبت نھیں آتی ھے اور بعض رکوع میں ھیں تو سر نھیں اٹھاتے ۔ اور بعض صف باندھے ھوئے ھیں تو اپنی جگہ سے حرکت نھیں کرتے ھیں ۔ بعض مشغول تسبیح ھیں تو خستہ حال نھیں ھوتے ھیں ۔ سب کے سب وہ ھیں کہ نہ ان کی آنکھوں پر نیند کا غلبہ ھوتا ھے اور نہ عقلوں پر سھو و نسیان کا ۔ نہ بدن میں سستی پیدا ھوتی ھے اور نہ دماغ میں نسیان کی غفلت ۔ ان میں سے بعض کو وحی کا امین اور رسولوں کی طرف قدرت کی زبان بنایا گیا ھے ۔ جو اس کے فیصلوں اور احکام کو برابر لاتے رھتے ھیں ۔ اور کچھ اس کے بندوں کے محافظ اور جنّت کے دروازوں کے دربان ھیں اور بعض وہ بھی ھیں جن کے قدم زمین کے آخری طبقہ میں ثابت ھیں اور گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باھر نکلی ھوئی ھیں ۔ ان کے اطراف بدن اقطار عالم سے وسیع تر ھیں اور ان کے کاندھے پایہ ھائے عرش کے اٹھانے کے قابل ھیں ۔ ان کی نگاھیں عرش الٰھی کے سامنے جھکی ھوئی ھیں اور وہ اس کے نیچے پروں کو سمیٹے ھوئے ھیں ۔ ان کے اور دیگر مخلوقات کے درمیان عزت کے حجاب اور قدرت کے پردے حائل ھیں ۔ وہ اپنے پروردگار کے بارے شکل و صورت کا تصور بھی نھیں کرتے اور نہ اس کے حق میں مخلوقات کے صفات کو جاری کرتے ھیں ۔ وہ نہ اسے مکان میں محدود کرتے ھیں اور نہ اس کی طرف اشباہ و نظائر سے اشارہ کرتے ھیں '' ۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی اس موقع پر رقمطراز ھیں : '' امیر المومنین (ع) نے ملائکہ کی تقسیم میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ھے کہ اگر انسان اشرف المخلوقات ھونے کا مدّعی ھے تو اسے ملائکہ سے زیادہ باکمال ھونا چاھئے ۔ اس کی زندگی کو سراپا اطاعت و عبادت ھونا چاھئے ۔ اسے بندگان خدا کا محافظ ھونا چاھئے ۔ اسے وحیِ الٰھی کا امین اور احکامِ الٰھیہ کا ترجمان ھونا چاھئے ۔ اس کے وجود میں اس قدر وسعت ھونی چاھئے کہ اس میں آفاق گم ھوجائیں اور وہ حاملان عرش الٰھی میں شامل ھو جائے جھاں نہ نگاھوں میں غرور ھو اور نہ خیالات میں انحراف و کج روی، عظمت پروردگار کا واقعی اعتراف کرے اور اس کے کائنات سے بلند تر ھونے کا تصور کرے ۔ 12
٣ ۔ خلقت انسان سے عبرت " ام ھٰذا الذی انشائہ فی ظلمات الارحام … " ۔ 13 '' ذرا اس مخلوق کو دیکھو جسے بنانے والے نے رحم کی تاریکیوں اور متعدد پردوں کے اندر یوں بنایا کہ اچھلتا ھوا نطفہ تھا پھر منجمد خون بنا پھر جنین بنا پھر رضاعت کی منزل میں آیا پھر نوخیز بنا پھر جوان ھوگیا اور اس کے بعد مالک نے اسے محفوظ کرنے والا دل، بولنے والی زبان، دیکھنے والی آنکھ عنایت کردی تاکہ عبرت کے ساتھ سمجھ سکے اور نصیحت کا اثر لیتے ھوئے برائیوں سے باز رہ سکے ۔ لیکن جب اس کے اعضاء میں اعتدال پیدا ھوگیا اور اس کا قد و قامت اپنی منزل تک پہنچ گیا تو غرور و تکبر سے اکڑ گیا اور اندھے پن کے ساتھ پھٹکنے لگا اور ھوا و ھوس کے ڈول بھر بھر کر کھینچنے لگا '' ۔ اس اقتباس پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ھے کہ امیر المومنین (ع) نے خدا کی اَن گنت نعمتوں کے ساتھ ساتھ تین نعمتوں یعنی قوت حافظہ، قوت ناطقہ اور قوت باصرہ کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ھے کہ جن کے ذریعے سے انسان میں حصول علم اور حفاظت علم کی صلاحیت پیدا ھوتی ھے اور وہ اپنے فھم و شعور کو بروئے کار لاتے ھوئے ' عبرت پذیری ' کے قابل ھو جاتا ھے اور حقیقت تو یہ ھے کہ اگر انسان اپنے ان قویٰ کے ذریعے عبرت حاصل کرتے ھوئے اپنی اصلاح نہ کرے تو میدان قیامت میں ان قویٰ سے پوچھ گچھ ھوگی ۔ چنانچہ ارشاد ھوتا ھے : '' ان السمع و البصر و الفؤاد کل اولٰئک کان عنہ مسئولا '' ۔ ( کان، آنکھ اور دل یقیناً ان سے باز پرس ھوگی ) ۔ 14 اور سب سے زیادہ باعث عبرت اور تعجب آفرین امر ان قویٰ کا منشأ ھے کہ جس کی طرف حضرت (ع) نے اس انداز سے اشارہ فرمایا ھے : '' اعجبوا لھٰذا الانسان ینظر بشحم و یتکلّم بلحم و یسمع بعظم و یتنفّس من خَرۡمٍ '' ۔ 15 یعنی '' انسان کی ساخت پر تعجب کرو کہ چربی کے ذریعے دیکھتا ھے اور گوشت سے بولتا ھے اور ھڈی سے سنتا ھے اور سوراخ سے سانس لیتا ھے ''
۴ ۔ شیطان سے عبرت شیطان کو اگر مجسمہ عبرت کہا جائے تو عین صواب ھے ۔ کہاں ملائکہ کی سرداری اور کہاں یہ ذلت و خواری، کہاں وہ قُرب باری اور کہاں یہ لعنتیں ساری، کہاں وہ عبادت و ریاضت اور کہاں یہ گمراھی ! لیکن مولائے کائنات نے اس '' ما قبل التاریخ '' واقعہ کی تہہ میں چھپے ھوئے جن نکات کی طرف اشارہ کیا ھے وہ انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے کافی ھیں ۔ چنانچہ '' خطبہ قاصعہ '' میں حضرت (ع) نے ابلیس کے تکبر کی مذمت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس کے راستے پر چلنے کے سنگین نتائج سے ڈرایا ھے ۔ اب بغیر کسی تشریح و توضیح کے حضرت (ع) کے دل نشین کلمات پر توجہ فرمائیں : الحمد للہ الذی … فاعتبروا بما کان من فعل اللہ بابلیس … حرّمہ علیٰ العالمین ۔ 16 ترجمہ : '' ساری تعریف اس اللہ کے لئے ھے؛ جس کا لباس عزت اور کبریائی ھے اور اس نے اس کمال میں کسی کو شریک نھیں بنایا ھے ۔ اس نے ان دونوں صفتوں کو ھر ایک کے لئے حرام اور ممنوع قرار دے کر صرف اپنی عزت و جلال کے لئے منتخب کرلیا ھے اور جس نے بھی ان دونوں صفتوں میں اس سے مقابلہ کرنا چاھا ھے اسے ملعون قرار دیا ھے ۔ اس کے بعد اسی رخ سے ملائکہ مقربین کا امتحان لیا ھے تاکہ تواضع کرنے والوں اور غرور رکھنے والوں میں امتیاز قائم ھو جائے ۔ اور اسی بنیاد پر دلوں کے راز اور غیب کے اسرار سے با خبر پروردگار نے یہ اعلان کر دیا کہ '' میں مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ھوں اور جب اس کا پیکر تیار ھو جائے اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب سجدہ میں گر پڑنا '' ۔ ( جس کے بعد تمام ملائکہ نے سجدہ کرلیا ) صرف ابلیس نے انکار کر دیا کہ اسے تعصب لاحق ھوگیا اور اس نے اپنی تخلیق کے مادہ سے آدم پر فخر کیا اور اپنی اصل کی بنا پر استکبار کا شکار ھوگیا ۔ جس کے بعد یہ دشمن خدا تمام متعصب افراد کا پیشوا اور تمام متکبر لوگوں کا مورّث اعلیٰ بن گیا ۔ اسی نے عصبیت کی بنیاد قائم کی اور اسی نے پروردگار سے جبروت کی رداء میں مقابلہ کیا اور اپنے خیال میں عزت و جلال کا لباس زیب تن کرلیا اور تواضع کا نقاب اتار کر پھینک دیا ۔ اب کیا تم نھیں دیکھ رھے ھو کہ پروردگار نے کس طرح اسے تکبر کی بنا پر چھوٹا بنا دیا ھے اور بلندی کے اظھار کی بنیاد پر پست کر دیا ھے ۔ دنیا میں اسے ملعون قرار دے دیا ھے اور آخرت میں اس کے لئے آتش جھنم کا انتظام کر دیا ھے ۔ اگر پروردگار یہ چاھتا کہ آدم کو ایک ایسے نور سے خلق کرے جس کی ضیاء آنکھوں کو چکا چوند کردے اور جس کی رونق عقلوں کو مبہوت کردے یا ایسی خوشبو سے بنائے جس کی مھک سانسوں کو جکڑ لے تو یقیناً کرسکتا تھا اور اگر ایسا کر دیتا تو یقیناً گردنیں ان کے سامنے جھک جاتیں اور ملائکہ کا امتحان آسان ھو جاتا لیکن وہ ان چیزوں سے امتحان لینا چاھتا تھا جن کی اصل معلوم نہ ھو تاکہ اسی امتحان سے ان کا امتیاز قائم ھوسکے اور ان کے استکبار کا علاج کیا جاسکے اور انھیں غرور سے دور رکھا جاسکے ۔ تو اب تم سب پروردگار کے ابلیس کے ساتھ برتاؤ سے عبرت حاصل کرو کہ اس نے اس کے طویل عمل اور بے پناہ جد و جہد کو تباہ و برباد کر دیا جب کہ وہ چھ ھزار سال عبادت کرچکا تھا جس کے بارے میں کسی کو معلوم نھیں ھے کہ وہ دنیا کے سال تھے یا آخرت کے، مگر ایک ساعت کے تکبر نے سب کچھ ملیامیٹ کر دیا تو اب اس کے بعد کون ایسی معصیت کر کے عذاب الٰھی سے محفوظ رہ سکتا ھے ۔ یہ ھرگز ممکن نھیں ھے کہ جس جرم کی بنا پر شیطان کو نکال باھر کیا اس کے ساتھ بشر کو داخل جنت کردے ۔ جب کہ خدا کا قانون زمین و آسمان کے لئے ایک ھی جیسا ھے اور اللہ اور کسی خاص بندہ کے درمیان کوئی ایسا خاص تعلق نھیں ھے کہ وہ اس کے لئے اس چیز کو حلال کردے جو سارے عالمین کے لئے حرام قرار دی ھے '' ۔
۵ ۔ تاریخ انبیاء و اولیاء سے عبرت نھج البلاغہ میں تقریباً ١۴٠ مقامات پر اولیائے الٰھی اعم از رسول، نبی اور وصی علیھم السلام اجمعین کا ذکر ھوا ھے ۔ 17 کہ جو بجائے خود ایک تفصیل طلب موضوع ھے لیکن '' ما لایُدْرک کلّہ لا یُتْرک کلّہ '' کے تحت ھم یھاں موضوع کی مناسبت سے کچھ عرائض پیش کرنے کی اپنی سی سعی کریں گے ۔ نھج البلاغہ کے موضوعاتی مصادر کی طرف رجوع کرنے سے پتہ چلتا ھے کہ اس میں سات انبیاء یعنی آدم (ع)، موسیٰ و ھارون، داؤد اور سلیمان، عیسیٰ اور جناب ختمی مرتبت (ص) کے ساتھ ساتھ آنحضور (ص) کے اھل بیت (ع) کا تذکرہ اسماء کی صراحت کے ساتھ کیا گیا ھے اور باقی انبیاء کا تذکرہ اوصاف کے ساتھ بالعموم کیا گیا ھے ۔ 18 ایک اھم بات یہ کہ انبیاء کی حقیقی داستانیں نقل کرنے کا بھرپور اھتمام کیا گیا ھے کہ جن کا نفع عام ھے ۔ اس جہت سے نھج البلاغہ کے اندر قرآنی روش کی بھرپور جھلک دکھائی دیتی ھے کیونکہ قرآن مجید میں بھی انبیاء کے قصص کو خاص اھمیت دی گئی ھے ۔ لیکن اس کا انداز وحی ھونے کے ناطے بالکل ھی قابل مقایسہ نھیں ھے ۔ آج ھم زندگی کے معمولی ابتلاء اور امتحان کا سامنا کرنے کی تاب نھیں رکھتے اور بہت جلد صبر و شکیبائی کا دامن چھوڑ بیٹھتے ھیں اس کی وجہ یہ ھے کہ ھم نے انبیاء کی زندگی سے درسِ عبرت حاصل نھیں کیا ۔ چونکہ اگر ھمیں ان خاصّان خدا کی دکھوں اور ابتلاؤں سے پُر زندگی سے واقفیت ھو جائے تو یقیناً ھماری قوت ایمان میں اضافہ ھوگا اور مصیبتوں کے زیادہ ھونے سے نہ صرف یہ کہ ھماری زبان پر حرف شکایت نھیں آئے گا بلکہ کلمات شکر ادا ھوں گے ۔ اور ھمیں اس بات کا ادراک ھو جائے گا کہ خداوند عالم اپنے محبوب بندوں کو ھی آزمائش میں ڈالتا ھے تاکہ ان کے پایہ ایمان اور مقام صبر کا امتحان لے کر انھیں ھمیشہ ھمیشہ کی اخروی نعمات سے نوازے ۔ اسی واسطے تو معصوم کا فرمان ھے کہ دنیا مومن کے لئے زندان ھے جبکہ کافر کے لئے جنت ۔ خلاصہ یہ کہ حضرت (ع) کے کلام کی روشنی میں انبیاء کے اھداف و مقاصد میں سے ایک لوگوں کو اللہ کی نشانیوں کے ذریعے نصیحت کرنا اور مقامات عبرت سے روشناس کروانا ھے ۔ چنانچہ ارشاد فرماتے ھیں : و واتر الیھم انبیائہ … و معایش تحیھم … و احداث تتابع علیھم ۔ 19 یعنی : '' پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے، انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کی امانت واپس لیں اور انھیں بھولی ھوئی نعمت پروردگار یاد دلائیں، تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کو باھر لائیں اور انھیں قدرت الٰھی کی نشانیاں دکھلائیں ۔ یہ سروں پر بلند ترین چھت، یہ زیر قدم گہوارہ ، یہ زندگی کے اسباب، یہ فنا کر دینے والی اجل، یہ بوڑھا بنا دینے والے امراض اور یہ پے در پے پیش آنے والے حادثات '' ۔ آج کے اس مادی دور میں دولت کی چمک دمک نے لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا ھے اور عزت و شرافت کا معیار بجائے تقویٰ الٰھی کے، روپئے پیسے کی ریل پیل کو بنا لیا گیا ھے؛ جس کے نتیجے میں امراء عزیر اور فقراء پست و حقیر ھوگئے ھیں ۔ اھل ثروت کی خوب خوشامد کی جاتی ھے لیکن فقراء سے کوئی سلام و کلام کرنا پسند نھیں کرتا ۔ دسترخوانوں پر سب امیر، کبیر اور رئیس مدعو ھوتے ھیں لیکن فقراء کو کوئی خشک روٹی کا ٹکڑا دینا گوارا نھیں کرتا ۔ یہ ھمارے لئے مقام عبرت ھے کہ کہیں ھم '' استدراج '' کا شکار تو نھیں ھو رھے ؟ … اس لئے کہ اللہ نے اپنے برگزیدہ پیغمبروں کو فقر و فاقہ کی حالت میں رکھا کہ بعض اوقات وہ خدا سے ایک روٹی کا سوال کرنے پر مجبور ھو جاتے تھے ۔ انھیں ظاھری شان و شوکت اور مال و دولت سے دور رکھا جبکہ وقت کے فرعونوں کے پاس بیش بہا قیمتی خزانے ھوتے تھے ۔ حتیٰ کہ وہ انبیاء کے ساتھ ھنسی مذاق کرتے اور ان کا ٹھٹھا اڑاتے تھے ۔ تفصیل میں جانے کی گنجائش نھیں ھے؛ نھج البلاغہ سے دو اقتباس پیش کرکے آگے بڑھنا چاھوں گا انشاء اللہ اھل ذوق خود تطبیق کریں گے ۔
١ : " و لقد دخل موسیٰ بن عمران و معہ اخوہ ھارون … " ۔ 20 ترجمہ : '' دیکھو موسیٰ بن عمران اپنے بھائی ھارون کے ساتھ فرعون کے دربار میں اس شان سے داخل ھوئے کہ ان کے بدن پر اون کا پیراھن تھا اور ان کے ھاتھ میں ایک عصا تھا ۔ ان حضرات نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر اسلام قبول کر لے گا تو اس کے ملک اور اس کی عزت کو دوام و بقا عطا کر دیں گے ۔ تو اس نے لوگوں سے کہا : '' کیا تم لوگ ان دونوں کے حال پر تعجب نھیں کر رھے ھو جو اس فقر و فاقہ کی حالت میں میرے پاس آئے ھیں اور میری بادشاھی کے دوام کی ضمانت دے رھے ھیں ۔ اگر یہ ایسے ھی اونچے ھیں تو ان پر سونے کے کنگن کیوں نھیں نازل ھوئے '' ؟! اس کی نظر میں سونا اور اس کی جمع آوری ایک عظیم کارنامہ تھا اور اون کا لباس پہننا ذلت کی علامت تھا ۔ حالانکہ اگر پروردگار چاھتا تو انبیائے کرام کی بعثت کے ساتھ ھی ان کے لئے سونے کے خزانے، خالص سونے کی کانیں، باغات کے کشت زاروں کے دروازے کھول دیتا اور ان کے ساتھ فضا میں پرواز کرنے والے پرندے اور زمین کے چوپایوں کو ان کا تابع فرمان بنا دیتا ۔ لیکن ایسا کر دیتا تو آزمائش ختم ھو جاتی اور انعامات کا سلسلہ بھی بند ھو جاتا اور آسمانی خبریں بھی بیکار و برباد ھو جاتیں، نہ مصائب کو قبول کرنے والوں کو امتحان دینے والے کا اجر ملتا اور نہ صاحبان ایمان کو نیک کرداروں جیسا انعام ملتا اور نہ الفاظ، معانی کا ساتھ دیتے ۔ البتہ پروردگار نے اپنے مرسلین کو ارادوں کے اعتبار سے انتہائی صاحب قوت قرار دیا ھے اگرچہ دیکھنے میں حالات کے اعتبار سے بہت کمزور ھیں ۔ ان کے پاس وہ قناعت ھے جس نے لوگوں کے دل و نگاہ کو ان کی بے نیازی سے معمور کر دیا ھے اور وہ غربت ھے جس کی بنا پر لوگوں کی آنکھوں اور کانوں کو اذیت ھوتی ھے ۔ اگر انبیائے کرام ایسی قوت کے مالک ھوتے جس کا ارادہ بھی نہ کیا جاسکے اور ایسی عزت کے دارا ھوتے جس کو ذلیل نہ کیا جاسکے اور ایسی سلطنت کے حامل ھوتے جس کی طرف گردنیں اٹھتی ھوں اور سواریوں کے پالان کسے جاتے ھوں تو یہ بات لوگوں کی عبرت حاصل کرنے کے لئے آسان ھوتی اور انھیں استکبار سے بآسانی دور کرسکتی اور سب کے سب قھر آمیز خوف اور لذّت آمیز رغبت کی بنا پر ایمان لے آتے ۔ سب کی نیتیں ایک جیسی ھوتیں اور سب کے درمیان نیکیاں تقسیم ھو جاتیں ۔ لیکن اس نے یہ چاھا ھے کہ اس کے رسولوں کا اتباع اور اس کی کتابوں کی تصدیق اور اس کی بارگاہ میں خضوع اور اس کے اوامر کے سامنے فروتنی، سب اس کی ذات اقدس سے مخصوص رھیں اور اس میں کسی طرح کی ملاوٹ نہ ھونے پائے اور ظاھر ھے کہ جس قدر آزمائش اور امتحان میں شدت ھوگی اسی قدر اجر و ثواب بھی زیادہ ھوگا '' ۔
٢ : " و ان شئت ثنّیت بموسیٰ کلیم اللہ …… ما سألہ الا خبزا …… و اخمصھم من الدنیا بطنا " ۔ 21 '' اور اگر دوسری مثال چاھتے ھو تو وہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی مثال ھے ۔ جنھوں نے خدا کی بارگاہ میں گزارش کی کہ '' پروردگار میں تیری طرف سے نازل ھونے والے خیر کا محتاج ھوں '' لیکن خدا گواہ ھے کہ انھوں نے ایک لقمہ نان کے علاوہ سوال نھیں کیا ۔ وہ زمین کی سبزی کھا لیا کرتے تھے اور اسی لئے ان کے شکم کی نرم و نازک کھال سے سبزی کا رنگ نظر آیا کرتا تھا، وہ انتہائی لاغر ھوگئے تھے اور ان کا گوشت گل گیا تھا تیسری مثال جناب داؤد (ع) کی ھے جو صاحب زبور اور قاری اھل جنت تھے مگر وہ اپنے ھاتھ سے کھجور کے پتوں سے ٹوکریاں بنایا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے کہ کون ایسا ھے جو مجھے ان کے فروخت کرنے میں مدد دے اور پھر انھیں بیچ کر جَو کی روٹیاں کھا لیا کرتے تھے ۔ اس کے بعد چاھو تو عیسیٰ بن مریم (ع) کی زندگی کا حال بیان کروں جو پتھر کو تکیہ بناتے تھے، کھردرا لباس پہنتے تھے اور معمولی غذا پر گزارا کیا کرتے تھے ۔ ان کے کھانے میں سالن کی جگہ بھوک تھی اور رات میں چراغ کے بدلے چاند کی روشنی تھی ۔ سردی میں سایہ کے بدلے مشرق و مغرب کا آسمانی سائبان تھا ۔ ان کے میوے اور پھول وہ نباتات تھے جو جانوروں کے کام آتے ھیں ۔ ان کے پاس کوئی زوجہ نھیں تھی جو انھیں مشغول کر لیتی اور نہ کوئی اولاد تھی جس کا رنج و غم ھوتا اور نہ کوئی مال تھا جو اپنی طرف متوجہ کر لیتا اور نہ کوئی طمع تھی جو ذلت کا شکار بنا دیتی ۔ ان کے پیر، ان کی سواری تھے اور ان کے ھاتھ ان کے خادم ۔ تم لوگ اپنے طیب و طاھر پیغمبر (ص) کا اتباع کرو کہ ان کی زندگی میں پیروی کرنے والے کے لئے بہترین نمونہ اور صبر و سکون کے طلبگاروں کے لئے بہترین سامان صبر و سکون ھے ۔ اللہ کی نظر میں محبوب ترین بندہ وہ ھے جو اس کے پیغمبر (ص) کا اتباع کرے اور ان کے نقش قدم پر قدم آگے بڑھائے ۔ انھوں نے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھر کر دیکھا بھی نھیں ۔ ساری دنیا میں سب سے زیادہ خالی شکم اور شکم تہی میں بسر اوقات کرنے والے وھی تھے ان کے سامنے دنیا پیش کی گئی تو اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یہ دیکھ لیا کہ پروردگار اسے پسند نھیں کرتا ھے تو خود بھی نا پسند کیا اور خدا حقیر سمجھتا ھے تو خود بھی حقیر سمجھا اور اس نے چھوٹا بنا دیا ھے تو خود بھی چھوٹا ھی قرار دیا '' ۔
۶ ۔ گزشتہ قوموں سے عبرت الف ۔ " فاعتبروا بما اصاب الامم … فی اعینھم " ۔ 22 ترجمہ : '' دیکھو تم سے پہلے استکبار کرنے والی قوموں پر جو خدا کا عذاب، حملہ، قھر اور عتاب نازل ھوا ھے اس سے عبرت حاصل کرو ۔ ان کے رخساروں کے بل لیٹنے اور پہلوؤں کے بل گرنے سے نصیحت حاصل کرو، اللہ کی بارگاہ میں تکبر کی پیداوار کی منزلوں سے اس طرح پناہ مانگو جس طرح زمانہ کے حوادث سے پناہ مانگتے ھو ۔ اگر پروردگار تکبر کی اجازت کسی بندہ کو دے سکتا تو سب سے پہلے اپنے مخصوص انبیاء اور اولیاء کو اجازت دیتا؛ لیکن اس بے نیاز نے ان کے لئے بھی تکبر کو ناپسندیدہ قرار دیا ھے اور ان کے بھی تواضع ھی سے خوش ھوا ھے ۔ انھوں نے اپنے رخساروں کو زمین سے چپکا دیا تھا اور اپنے چہروں کو خاک پر رکھ دیا تھا اور اپنے شانوں کو مومنین کے لئے جھکا دیا تھا ۔ یہ سب سماج کے وہ کمزور بنا دیئے جانے والے افراد تھے جن کا خدا نے بھوک سے امتحان لیا، مصائب سے آزمایا، خوفناک مراحل سے اختبار کیا اور ناخوشگوار حالات میں انھیں تہہ و بالا کرکے دیکھ لیا ۔ خبردار ! خدا کی خوشنودی اور ناراضگی کا معیار مال اور اولاد کو قرار نہ دینا کہ تم فتنہ کی منزلوں کو نھیں پہچانتے ھو اور تمھیں معلوم نھیں ھے کہ خدا مالداری اور اقتدار سے کس طرح امتحان لیتا ھے ۔ اس نے صاف اعلان کر دیا ھے : '' کیا ان لوگوں کا خیال یہ ھے کہ ھم انھیں مال و اولاد کی فراوانی عطا کر کے ان کی نیکیوں میں اضافہ کر رھے ھیں ۔ حقیقت یہ ھے کہ انھیں کوئی شعور نھیں ھے '' اللہ اپنے کو اونچا سمجھنے والوں کا امتحان اپنے کمزور قرار دیئے جانے والے اولیاء کے ذریعہ لیا کرتا ھے '' ۔
ب ۔ " فاعتبروا بحال وُلد اسماعیل … غارات مشنونة " ۔ 23 ترجمہ : '' تم اولاد اسماعیل اور اولاد اسحاق و اسرائیل ( یعقوب ) سے عبرت حاصل کرو کہ سب کے حالات کس قدر ملتے ھوئے اور کیفیات کس قدر یکساں ھیں، دیکھو ! ان کے انتشار و افتراق کے دور میں ان کا کیا عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ ان کے ارباب بن گئے تھے اور انھیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں، عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوں سے نکال کر خاردار جھاڑیوں اور آندھیوں کی بے روک گزرگاھوں اور معیشت کی دشوار گزار منزلوں تک پہنچا کر اس عالم میں چھوڑ دیا تھا کہ وہ فقیر و نادار، اونٹوں کی پشت پر چلنے والے اور بالوں کے خیموں میں قیام کرنے والے ھوگئے تھے گہربار کے اعتبار سے تمام قوموں سے زیادہ ذلیل اور جگہ کے اعتبار سے سب سے زیادہ خشک سالیوں کا شکار تھے ۔ نہ ان کی آواز تھی جن کی پناہ لے کر اپنا تحفظ کرسکیں اور نہ کوئی الفت کا سایہ تھا جس کی طاقت پر بھروسہ کرسکیں ۔ حالات مضطرب، طاقتیں منتشر، کثرت میں انتشار، بلائیں سخت، جہالت تہہ بہ تہہ، زندہ درگور بیٹیاں، پتھر پرستش کے قابل، رشتہ داریاں ٹوٹی ھوئی اور چاروں طرف سے حملوں کی یلغار ! '' ۔ عالم اسلام کے لئے خصوصیت کے ساتھ بنی اسرائیل کے حالات میں درس عبرت ھے ۔ چونکہ بنی اسرائیل باھمی منافرت و انتشار کا شکار تھے جس کے نتیجے میں انھیں قیصر و کسریٰ کی طرف سے سخت ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ جس کا ذکر حضرت کے اس خطبہ میں صراحت کے ساتھ موجود ھے ۔ انھیں اللہ کی طرف سے خصوصی طور پر مورد لطف و انعام قرار پانے کا بڑا گھمنڈ تھا لیکن دوسری طرف سے وہ زشتیوں اور پلیدیوں کا شکار تھے ۔ پس وہ عذاب الٰھی میں گرفتار ھوئے اسی طرح کل تک پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والے مسلمان آج غیروں کی غلامی کر رھے ھیں، اسلامی ملکوں کے ذخائر اور منافع اغیار کے کنٹرول میں ھیں، مسلمانوں کی دولت پر غیر مسلم عیاشی کر رھے ھیں اور اسے بجائے خود، مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رھے ھیں۔ اگر اب بھی مسلمانوں نے ھوش کے ناخن نہ لئے تو آئندہ اس سے بھی زیادہ سنگین حالات سے دوچار ھونا پڑے گا ۔
ج ۔ " و ان لکم فی القرون السالفة لعبرة … این العمالقة … و مدّنوا المدائن " ۔ 24 '' اور تمھارے لئے انھی گزشتہ قوموں میں عبرت کا سامان فراھم کیا گیا ھے ۔ کہاں ھیں ( شام و حجاز کے ) عمالقہ اور ان کی اولاد ؟ کہاں ھیں ( مصر کے ) فراعنہ اور ان کی اولاد ؟ کہاں ھیں ( آذربائیجان کے ) اصحاب الرّس ؟ جنھوں نے انبیاء کو قتل کیا، مرسلین کی سنتوں کو محو کیا اور جباروں کی سنتوں کو زندہ کر دیا تھا ۔ کہاں ھیں وہ لوگ جو لشکر لے کر بڑھے اور ھزارھا ھزار کو شکست دے دی، لشکر کے لشکر تیار کئے اور شھروں کے شھر آباد کر دیئے ''۔
د ۔ '' الھٰکم التَّکاثُر '' کی تلاوت کے موقع پر ارشاد فرمایا : یا لہ مراما ما ابعدہ … لان یکونوا عبرا … فی غمرة جھالة … عرصات تلک الدیار الخاویة … " ۔ 25 ترجمہ : '' ذرا دیکھو تو ان آباء و اجداد پر فخر کرنے والوں کا مقصد کس قدر بعید از عقل ھے اور یہ زیارت کرنے والے کس قدر غافل ھیں اور خطرہ بھی کس قدر عظیم ھے ۔ یہ لوگ تمام عبرتوں سے خالی ھوگئے ھیں اور انھوں نے مُردوں کو بہت دور سے لے لیا ھے ۔ آخر یہ کیا اپنے آباء و اجداد کے لاشوں پر فخر کر رھے ھیں ؟ یا مُردوں کی تعداد کی کثرت میں اضافہ کر رھے ھیں ؟ یا ان جسموں کو واپس لانا چاھتے ھیں جو روحوں سے خالی ھوچکے ھیں اور حرکت کے بعد ساکن ھوچکے ھیں ۔ انھیں تو فخر کے بجائے عبرت کا سامان ھونا چاھئے تھا اور ان کو دیکھ کر انسان کو عزت کے بجائے ذلت کی منزل میں اترنا چاھئے تھا ۔ مگر افسوس کہ ان لوگوں نے ان مردوں کو چندھیائی ھوئی آنکھوں سے دیکھا ھے اور ان کی طرف سے جہالت کے گڑھے میں گر گئے ھیں اور اگر ان کے بارے میں گرے پڑے مکانوں اور خالی گھروں سے دریافت کیا جائے تو یھی جواب ملے گا کہ لوگ گمراھی کے عالم میں زیر زمین چلے گئے اور تم جہالت کے عالم میں ان کے پیچھے چلے جا رھے ھو ۔ ان کی کھوپڑیوں کو روند رھے ھو اور ان کے جسموں پر عمارتیں کھڑی کر رھے ھو ۔ جو وہ چھوڑ گئے ھیں اسی کو چر رھے ھو اور جو وہ برباد کر گئے ھیں اسی میں سکونت پذیر ھو ۔ تمھارے اور ان کے درمیان کے دن، تمھارے حال پر رو رھے ھیں اور تمھاری بربادی کا نوحہ پڑھ رھے ھیں '' ۔ یہ اسی خطبۂ '' الھٰکم التَّکاثُر '' کا اقتباس ھے کہ جس کے متعلق ابن ابی الحدید نے قسم کھاتے ھوئے کہا ھے : میں نے اس خطبہ کی ایک ھزار مرتبہ سے زیادہ تلاوت کی ھے اور ھر مرتبہ ایک نئی عبرت، ایک نئی نصیحت اور ایک نئی لذت کا احساس ھوا؛ اس حال میں کہ آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ھو جاتا اور قلب پر حزن و ملال طاری ھو جاتا تھا ۔ 26
اختتام عبرت انگیز امر یہ ھے کہ ھم مسلمان امیر المومنین (ع) کے ان تاریخی بیانات اور پند آمیز کلمات ( کہ جو نھج البلاغہ میں موجود ھیں ) کی طرف متوجہ نھیں ھیں حالانکہ (بنا بر ایک قول کے) نھج البلاغہ میں نقل ھونے والا کلام حضرت (ع) کے مجموعی کلام کے چھٹے حصے سے بھی تجاوز نھیں کرتا ۔ یہ بات تو اس کلام کے حجم کی ھے اور رھی بات اس کے فھم و تفھیم کی تو ابھی تک سینکڑوں شروحات کے باوجود اس کے بیشتر خزینے جوں کے توں ھیں اور عقل بشر کی وھاں تک رسائی نھیں ھوئی ۔ پس ھمیں اس کوتاھی کا ازالہ کرنا ھے اور بقدر تشنگی نھج البلاغہ کے چشمہ آب زلال سے خود کو سیراب کرنا ھے ، تاکہ ھم دنیا و آخرت میں لا زوال ھو جائیں ۔ آخر میں اس امر کا معترف ھوں کہ حق مطلب ادا نھیں ھوسکا اور خداوند عالم کا لاکھ لاکھ شکر ھے کہ اس نے اس مقالہ کے لکھنے کی توفیق مرحمت فرمائی؛ اس دعا کے ساتھ زیادہ کیا عرض کروں حضرت (ع) کے کلمات قصار میں سے دو جملے عرض کر کے تمام کرتا ھوں : ١ ۔ " ما اکثرا لعبر و اقلّ الاعتبار " ۔ 27 یعنی عبرتیں کتنی زیادہ ھیں اور اس کے حاصل کرنے والے کتنے کم ھیں ! ٢ ۔ " انّما ینظر المؤمن الیٰ الدنیا بعین الاعتبار " ۔ 28 یعنی مومن وھی ھے جو دنیا کی طرف عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ھے ۔
منابع و مآخذ: 1. نھج البلاغہ ترجمہ مفتی صاحب قبلہ ص ۶١ مطبوعہ معراج کمپنی ۔ 2. نھج البلاغہ ترجمہ مفتی صاحب قبلہ ص ٢٣ مطبوعہ معراج کمپنی ۔ 3. حافظ محمود شیرانی ص ٢٧٨ و ٢٧٩ ( ڈاکٹر تنویر احمد علوی ) ۔ 4. مجمع البحرین ج ٣ ص ٣٩٢ ۔ 5. مفردات راغب : بحوالہ قصہ ھای قرآن ص ۴٩ ۔ 6. مصباح المنیر : بحوالہ قصہ ھای قرآن ص ۴٩ ۔ 7. جامع التفاسیر و نور ١٢ از تحقیقات کامپیوتری نور ۔ 8. حافظ محمود شیرانی ص ٢٧٧ ( ڈاکٹر تنویر احمد علوی ) ۔ 9. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ٢١١ ص۴٣٣ ۔ 10. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ٢١١ ص۴٣٣ ۔ 11. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ١ ص٣١ ۔ 12. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ١ ص٣٠ ۔ 13. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ٨٣ ص١۴۵ ۔ 14. قرآن مجید : سورہ بنی اسرائیل : ١٧، آیت ٣۶ مترجم: شیخ محسن علی نجفی ۔ 15. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ کلمات قصار ٨ ص ۶٣١ ۔ 16. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ١٩٢ ص٣٨١ و ٣٨٢ ۔ 17. یاد نامہ کنگرہ ھزارہ نھج البلاغہ ص ۵٢ مقالہ دوم آیة ۔ حسن زادہ آملی ۔ 18. التنظیم الموضوعی نھج البلاغہ فھرست ۔ 19. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ١ ص٣٣ ۔ 20. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ١٩٢ ص ٣٨۵ و ٣٨٧ ۔ 21. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ١۶٠ ص ٢٩٩ ۔ 22. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ١٩٢ ص ٣٨۵ ۔ 23. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ١٩٢ ص ٣٩٣ ۔ 24. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ١٨٢ ص ٣۴٩ ۔ 25. نھج البلاغہ مترجم جوادی صاحب قبلہ خ ٢٢١ ص ۴۴۵ ۔ 26. شرح ابن ابی الحدید ٣ : ۵١ شرح الخطبہ ٢١٩ ۔ 27. دیوان مثنوی مولانا جلال الدین ۔ 28. حکمت ٢٩٧ ص ٧٣٩ ۔ 29. حکمت ٣۶٧ ص ٧۶١ ۔ نقل از : تعلیمات نہج البلاغہ ، اسلامک تھاٹ برطانیہ
|
مقالات کی طرف جائیے |
|