|
نہج البلاغہ کی روشنی میں تاریخ سے عبرت |
سید عابد رضا رضوی نوشاد |
مقدمہ تاریخ یعنی سرگزشت ۔ فردی و اجتماعی سرگزشت، قومی و قبائلی سرگزشت، تلخ و شیریں سرگزشت ! ایک ایسی سرگزشت جس کا ھر پیچ و خم عصر حاضر کی نسلوں کو اپنی طرف دعوت دے رھا ھے کہ آؤ میرے سنہرے اوراق کی ورق گردانی کرو، مجھ میں غور و فکر کرو ! میں تمھارے لئے مکنونات و مستورات کو ھویدا کردوں گا جس کے ذریعہ تم باطل اور اس کی حیلہ گری سے واقف ھو جاؤ گے اور حق اور اس کے حسن و جمال سے آشنا ۔ اب نہ تمھیں کوئی نا تجربہ کار کے لقب سے ملقب کرے گا، نہ ھی تمھارے استحصال کی کوشش کرے گا مگر میرا دامن عبرت اتنا وسیع ھے کہ تمھاری زندگی کے ھر موڑ پر اس طرح سایہ فگن رھے گا کہ ضلالت و گمراھی کی دھوپ تمھیں چھو بھی نہ پائے گی ۔ اگر تم نے میرے دامن عبرت کا اپنے سروں پر شامیانہ بنالیا تو استکباری نظام اور سامراجی طاقتیں تمھارے مقابل طفلِ مکتب نظر آئیں گی ۔ ھدف حیات معین اور راہ ھدایت ھموار ھو جائے گی ۔ میں تمھیں سعادت کی شاھراہ پر گامزن کرسکتی ھوں ۔ تم مجھے اپنا استاد بنالو، میری باتوں کو دھیان سے سنو اور اس پر عمل پیرا ھو جاؤ جیسے جیسے تم میری گفتار پر عمل کرو گے ویسے ویسے اپنے کمال کی منزل سے نزدیک ھوتے جاؤ گے اور ایک واقعی اور حقیقی انسان بنتے جاؤ گے اور اگر تمھیں اس بات پر یقین نہ ھو تو قلب ختمی مرتبت (ص) پر نازل ھونے والی کتاب سے پوچھ لو ! تم جب اس سے میری بات کی تصدیق چاھو گے تو وہ جواب دے گی : ھاں ھاں ! تاریخ کا کہنا بالکل درست ھے وہ تمھارے کمال و تکامل میں دخالت رکھتی ھے اسی لئے تو میرے اندر ایک سوّم تاریخ پائی جاتی ھے ۔ یھی نھیں، خداوند منان نے میرے اندر ایسی آیتوں کو قرار دیا ھے جو مستقیم طور پر انسانوں کو حکم دے رھی ھیں کہ تاریخ سے عبرت حاصل کرو، مثال کے طور پر قصّہ حضرت یوسف (ع) کے بیان کے بعد ارشاد ھوتا ھے : ( و لقد کان فی قصصھم عبرة لاولی الالباب ) ۔ 1 '' اور بتحقیق ان کے قصّوں میں عقلمندوں کے لئے عبرت ھے '' اسی طرح سورۂ آل عمران میں جنگ بدر میں کفار کے کثیر لشکر کی شکست اور مسلمانوں کی قلیل تعداد کی فتح و ظفر کا تذکرہ کرنے کے بعد ارشاد ھوتا ھے : ( انّ فی ذٰلک لعبرة لاولی الابصار ) ۔ 2 '' اور اس میں صاحبان نظر کے واسطے سامان عبرت و نصیحت ھے '' سورۂ مومن میں حضرت موسیٰ اور فرعون کے تذکرہ کے بعد ارشاد رب العزت ھوتا ھے : ( افلم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبة الذین من قبلھم کانوا اکثر منھم و اشد قوة ًو آثاراً فی الارض فما اغنیٰ عنھم ما کانوا یکسبون ) ۔ 3 '' کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نھیں کی ھے تاکہ دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ھوا جو ان کے مقابلے میں اکثریت میں تھے اور زیادہ طاقتور بھی تھے اور زمین میں آثار کے مالک بھی تھے لیکن جو کچھ بھی کمایا تھا کچھ کام نہ آیا اور مبتلائے عذاب ھوگئے '' اسی طرح دیگر مقامات پر بھی قرآن مجید انسانوں کو تاریخ میں غور و فکر اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی طرف دعوت دے رھا ھے ۔ انسان اور قرآن کی باھمی گفتگو جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ تاریخ سے عبرت ضرور حاصل کرنا چاھئے، لیکن یہ عبرت ھے کیا ؟
عبرت کا معنی عبرت حاصل کرنا یعنی ماضی کے تلخ و شیریں حوادث و واقعات کو مستقبل کا آئینہ قرار دینا ۔ عبرت حاصل کرنا یعنی ماضی کو مستقبل کے لئے مشعل راہ بنانا ۔ عبرت حاصل کرنا یعنی ماضی کو ایک درس کے عنوان سے دیکھنا ۔ عبرت حاصل کرنا یعنی ماضی کے مردہ واقعات کو عصر حاضر میں بھی زندہ سمجھنا ۔ عربی لغت میں عبرت '' عبور '' سے اخذ کیا گیا ھے ۔ جس کا معنی ٰ ھے '' کسی چیز سے گزرنا '' اسی لئے آنسو کو عربی میں '' عبرہ '' کہتے ھیں کیونکہ آنسو آنکھوں سے عبور کرتا ھے اور اسی مناسبت سے جو حوادث و واقعات انسان کے لئے باعث وعظ و نصیحت ھوں ان کو بھی "عبرت'' کہتے ھیں ۔ 4 لھٰذا عبرت حاصل کرنا یعنی حال سے ماضی کی طرف سفر کرنا اور تحقیق و تحلیل کے بعد اس سے نصیحت لینا، بہ الفاظ دیگر تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان اپنا اور اپنے معاشرے اور سماج کا اس تاریخ سے موازنہ کرے تاکہ وہ خوبیوں اور بدیوں کو سمجھ سکے اور موجودہ مشکلات کے حل کے لئے چارہ اندیشی کرسکے ۔
ھو جس تاریخ میں عبرت وھی تاریخ ھے مطلوب نہ ھو تاریخ میں عبرت تو پھر تاریخ ھی کیا ھے
عبرت حضرت علی (ع) کی نظر میں اقوال حضرت امیر (ع) میں ایسی نصیحتیں پائی جاتی ھیں جن پر عمل پیرا ھوکر انسان سعادت کی منزلوں پر فائز ھوسکتا ھے ۔ انھی نصیحتوں کا ایک عنصر عبرت حاصل کرنا ھے جو آپ کے گراں بہا اقوال میں کثرت کے ساتھ پایا جاتا ھے ۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے عبرت کے مختلف پہلؤوں پر روشنی ڈالی ھے جن کو ھم آئندہ سطور میں مختلف عناوین کے تحت ذکر کریں گے ۔ ان میں سے بعض نورانی کلمات میں عبرت کے شیریں نتائج کی طرف اشارہ کیا ھے جن کا خلاصہ یہ ھے کہ عبرت حاصل کرنے والے، حوادث تاریخ کو پیش نظر رکھ کر زندگی کی صحیح راہ کو انتخاب کرتے ھیں اور اس دام آفت و مصیبت سے محفوظ رھتے ھیں جس سے گزشتہ قومیں دوچار ھوئیں، آپ فرماتے ھیں : الاعتبار منذر ناصح ۔ 5 '' عبرت سے خوف اور نصیحت حاصل ھوتی ھے'' الاعتبار یثمر العصمة ۔ 6 '' عبرت حاصل کرنا خطاؤں سے امان کا باعث ھے '' من کثر اعتبارہ قل عثارہ ۔ 7 ''جو شخص جتنا زیادہ عبرت حاصل کرے گا اس قدر ھی لغزشوں سے محفوظ رھے گا '' اب اس مقام پر نھج البلاغہ میں موجود حضرت امیر المومنین (ع) کی تعلیمات کی روشنی میں عبرت کے مختلف پہلؤوں کو مختلف عناوین کے تحت پیش کیا جارھا ھے ۔
تاریخ سے عبرت لینے کی وجہ اگرچہ بعض لوگوں نے تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کو ممنوع قرار دیا ھے ۔ 8 لیکن ھم یہ بیان کرچکے ھیں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے عبرت کافی اھمیت کی حامل ھے ۔ حضرت امیر المومنین حارث ھمدانی کے نام ایک مکتوب میں عبرت حاصل کرنے کی وجہ اور اس کے سبب کو بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں : '' واعتبر بما مضیٰ من الدّنیا لما بقی منھا فانّ بعضھا یشبہ بعضاً وآخرھا لاحق باوّلھا ۔ 9 '' دنیا کے ماضی سے اس کے مستقبل کے لئے عبرت حاصل کرو کیونکہ اس کا ایک حصہ دوسرے سے مشابہت رکھتا ھے اور آخر اوّل سے ملحق ھونے والا ھے '' ۔ اس گرانقدر جملہ سے معلوم ھوتا ھے کہ چونکہ دنیا کے حوادث و واقعات ایک دوسرے سے کافی حد تک مشابہت رکھتے ھیں اور انسانی معاشرہ تاریخ دھراتا رھتا ھے لھٰذا اس سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت بالکل واضح و آشکار ھے ۔ ایک مقام پر ارشاد فرماتے ھیں : '' ذمّتی بما اقول رھینة و انا بہ زعیم " ۔ " انّ من صرّحت لہ العبر عمّا بین یدیہ من المثلات حجزتہ التقویٰ عن تقحم الشبھات '' ۔ 10 '' میں اپنے قول کا خود ذمّہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ھوں کہ جس شخص پر گزشتہ اقوام کی سزاؤں نے عبرتوں کو واضح کر دیا ھو اسے تقویٰ شبھات میں وارد ھونے سے یقیناً روک دے گا '' حضرت امیر (ع) اس کلام میں اپنی پوری ذمّہ داری و ضمانت کا اظھار کرتے ھوئے عبرت کے فوائد و آثار کو بیان فرما رھے ھیں اور آپ کے اس کلام سے معلوم ھوتا ھے کہ عبرت حاصل کرنے کے فوائد میں سے ایک اھم فائدہ یہ ھے کہ اس کے ذریعہ انسان کے اندر ایک طرح کا تقویٰ پیدا ھو جاتا ھے اور وہ اس طرح کہ جب وہ ان گنھگار قوموں کی تاریخ و سرگزشت پر نظر ڈالے گا جنھوں نے خدا کے سامنے سرکشی اختیار کی اور پھر ان کے انجام کا مطالعہ کرے گا تو ظاھر ھے کہ اس کے قلب میں تقویٰ اور خشیت الٰھی کی کرن پھوٹ پڑے گی لیکن اگر اس کے بر عکس اس پر یہ تاریخ اثر انداز نہ ھوئی تو اس کا مطلب یہ ھے کہ وہ غفلت کی تاریک نگری میں حیرت و سرگردانی کا شکار ھے ۔
آباء و اجداد اور فانی دنیا سے عبرت حضرت امیر (ع) انسانوں کو اپنے آباء و اجداد کی سرگزشت کی طرف متوجہ ھونے کی سفارش کرتے ھوئے فرماتے ھیں : '' او لیس لکم فی آثار الاوّلین مزدجر ، و فی آبائکم الماضین تبصرة و معتبر ، ان کنتم تعقلون ! او لم تروا الیٰ الماضین منکم لا یرجعون و الیٰ الخلف الباقین لا یبقون '' ۔ 11 '' اگر تم عقل سے کام لیتے تو کیا تمھارے لئے گزشتہ لوگوں کے آثار میں سامان تنبیہ نھیں ھے ؟ کیا آباء و اجداد کی داستانوں میں بصیرت و عبرت نھیں ھے ؟ کیا تم نے یہ نھیں دیکھا کہ جانے والے پلٹ کر نھیں آتے، اور بعد میں آنے والے رہ نھیں پاتے ؟ امام (ع) کا یہ کلام اس بات کی طرف اشارہ کر رھا ھے کہ ھم اور ھماری نسلوں میں آنے والے بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح ایک نہ ایک دن اس دنیا سے چلے جائیں گے ۔ لھٰذا اس دنیا سے دل لگی اچھی بات نھیں، کیونکہ یہ ایک ایسی عروس زیبا کی مانند ھے جس نے کبھی کسی سے وفا نہ کی اور جو بھی اس کی زرق و برق کے دام مھلک میں گرفتار ھوا اسے ذلّت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ھوا ۔ دنیا ایک عارضی جگہ ھے جھاں ھم اعمال کے بیج بونے آئے ھیں تاکہ اس کی لھلھاتی ھوئی ھری بھری فصل سے آخرت میں بہرہ مند ھوں ۔ اسی لئے حدیثِ شریف میں وارد ھوا ھے : '' انّ الدّنیا مزرعة الآخرة '' '' دنیا آخرت کی کھیتی ھے '' کسی نے کیا خوب کہا ھے کہ دنیا اور انسان کی مثال در حقیقت دریا اور کشتی کی مثال ھے یعنی جب تک کشتی دریا کے سینے پر سوار رھتی ھے اس وقت تک وہ صحیح و سالم اپنا سفر برقرار رکھتی ھے، لیکن جب دریا کا پانی کشتی میں داخل ھو جاتا ھے تو کشتی غرق ھو جاتی ھے ۔ اسی طرح انسان جب اس دنیا کو اپنے قدموں تلے رکھتا ھے اور اسے اپنے اوپر مسلّط نھیں ھونے دیتا تو اس کی سعادت و نجات کا سفر جاری رھتا ھے لیکن جب یھی دنیا انسان کے اوپر مسلّط ھو جاتی ھے تو پھر انسان ضلالت و گمراھی کے گہرے سمندر میں غرق ھوتا نظر آتا ھے ۔ اس فانی و فریبی دنیا سے دوری اختیار کرنے کی نصیحت اور گزشتگان کی پر پیچ و خم داستان بیان کرتے ھوئے ایک جگہ حضرت امیر المومنین (ع) ارشاد فرماتے ھیں : '' اعتبروا بما قد رایتم من مصارع القرون قبلکم قد تزایلت اوصالھم و زالت ابصارھم و اسماعھم، و ذھب شرفھم، و عزھم و انقطع سرورھم و نعیمھم، فبدّلوا بقرب الاولاد فقدھا و بصحبة الازواج مفارقتھا لا یتفاخرون، ولا یتناسلون، ولا یتزاورون، ولا یتحاورون '' ۔ 12 '' اور عبرت حاصل کرو ان مناظر کے ذریعہ جو تم نے خود دیکھ لئے ھیں کہ گزشتہ نسلیں ھلاک ھوگئیں، ان کے جوڑ بند الگ الگ ھوگئے، ان کی آنکھیں اور ان کے کان زائل ھوگئے، ان کی شرافت اور عزت چلی گئی، ان کی نعمت و مسرت کا خاتمہ ھوگیا، اولاد کا قرب فقدان میں تبدیل ھوگیا اور ازواج کی صحبت فراق میں بدل گئی، اب نہ باھمی مفاخرت رہ گئی اور نہ نسلوں کا سلسلہ، نہ ملاقاتیں رہ گئی ھیں نہ بات چیت''
شیطان سے عبرت !! عبرت کے مقامات میں سے ایک مقام ان باغی و سرکش افراد کی داستانیں ھیں جنھوں نے پروردگار عالم کے سامنے پرچم طغیان بلند کیا اور اس وحدہ لا شریک کے مقابلہ میں اپنا قد علم کرنے کی کوشش کی ۔ جنھوں نے چراغ ھدایت سے منھ پھیر لیا اور تاریکیٔ ضلالت کے پجاری بن بیٹھے جس کے نتیجہ میں انھیں اسی دنیا میں سزا و عقاب الٰھی میں گرفتار ھونا پڑا ۔ ان طاغوتوں میں سرفھرست اس شیطان خبیث کا نام نظر آتا ھے جس نے ایک لمحہ میں اپنی ھزارھا برس کی عبادت و بندگی پر پانی پھیر دیا ۔ وہ بھی خدا کی وحدانیت کا قائل تھا، وہ بھی معاد و قیامت پر ایمان رکھتا تھا، وہ بھی چھ ھزار سال خدا کی عبادت میں مشغول رھا تھا لیکن ان تمام فضیلتوں کے باوجود صرف ایک تکبّر نے اسے رفعت عبودیت سے پستیٔ طغیان کی طرف ڈھکیل دیا ؟۔ حضرت امیر المومنین (ع) اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ھیں : '' فاعتبروا بما کان من فعل اللہ بابلیس اذا احبط عملہ الطویل و جھدہ الجھید و کان قد عبد اللہ ستة آلاف، سنة لا یدری أ من سنّی الدّنیا ام من سنّی الآخ�رثہ دار وھی ھوں گے اور استکبار و سامراجیت قبر تاریخ میں دفن ھوکر رہ جائے گی ۔ (و نرید ان نمّن علیٰ الذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم ائمة و نجعلھم الوارثین) ۔ 14 '' اور ھم یہ چاھتے ھیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ھے ان پر احسان کریں اور انھیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں '' استکباری اور سامراجی طاقتوں سے عبرت حاصل کرنے کے سلسلے میں مولائے کائنات (ع) ارشاد فرماتے ھیں : '' فاعتبروا بما اصاب الامم المستکبرین من قبلکم من بأس اللہ و صولاتہ، و وقائعہ و مثلاتہ، و اتعظوا بمثاوی خدودھم، و مصارع جنوبھم، و استعیذوا باللہ من لواقح الکبر، کما تستعیذونہ من طوارق الدھر '' ۔ 15 '' دیکھو تم سے پہلے استکبار کرنے والی قوموں پر جو خدا کا عذاب، حملہ، قھر اور عتاب نازل ھوا ھے اس سے عبرت حاصل کرو، ان کے رخساروں کے بل لیٹنے اور پہلوؤں کے بل گرنے سے نصیحت حاصل کرو اور اللہ کی بارگاہ میں تکبّر کی پیداوار منزلوں سے اس طرح پناہ مانگو جس طرح زمانے کے حوادث سے پناہ مانگتے ھو '' ایک مقام پر حضرت امیر (ع) نے نمونہ کے طور پر بعض سرکش قوموں کے نام بھی بیان فرمائے ھیں : '' و انّ لکم فی القرون السالفة لعبرة، این العمالقة و ابناء العمالقة! این الفراعنة و ابن الفراعنة ! این اصحاب مدائن الرس الذین قتلوا النبیّین، و اطفؤوا سنن المرسلین، و احیوا سنن الجبّارین، این الذین ساروا بالجیوش و ھزموا بالالوف و عسکروا العساکر و مدّنوا المدائن ۔ 16 '' کہاں ھیں ( شام و حجاز ) کے عمالقہ اور ان کی اولادیں ؟ کہاں ھیں ( مصر کے ) فرعون اور ان کی اولاد ؟ کہاں ھیں ( آذربائیجان کے ) اصحاب الرس جنھوں نے انبیاء کو قتل کیا، مرسلین کی سنتوں کو خاموش کیا اور جباروں کی سنتوں کو زندہ کیا ۔ کہاں ھیں وہ لوگ جو لشکر لے کر بڑھے اور ھزارھا ھزار کو شکست دے دی ؟ لشکر کے لشکر تیار کئے اور شھروں کے شھر آباد کر دیئے '' امام (ع) نے خطبہ کے اس طلائی جملوں میں ایسی مستکبر قوموں کا تذکرہ کیا ھے جنھوں نے دین سے مقابلہ کیا جس کے نتیجہ میں خداوند عالم نے انھیں ھلاک کر دیا ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ عصر حاضر کا انسان ان کھلی ھوئی نشانیوں سے عبرت حاصل نھیں کرتا، وہ بھی انھی قوموں کے نقش قدم پر گامزن ھے ۔ اسے انبیاء نھیں ملتے تو وہ انبیاء کے پیروکاروں کی قتل و غارت گری میں مصروف ھے ، دینی مقدسات کی توھین اس کا مشغلہ بن چکا ھے، سنتیں معاشرہ سے ختم کی جارھی ھیں اور بدعتوں کو رواج بخشا جارھا ھے، فرعونیت نے سر اٹھا رکھا ھے، اصحاب الرس کی سنتیں زندہ ھوچکی ھیں، قوم لوط کی سیرت اپنائی جارھی ھے ۔ لیکن کیا کوئی ھے جو سسکتی ھوئی انسانیت کے آنسوں کو خشک کرسکے ؟ کوئی ھے جو نالہ و شیون میں مبتلا انسانیت کی صدائے استغاثہ پر لبّیک کہہ سکے ؟ کیا اس دنیا میں اب ایسا کوئی موجود نھیں جو غفلت کے شکار ان انسانوں کے خفتہ ضمیروں کو جھنجھوڑ سکے ؟ کیا کوئی ھے جو صدائے علی (ع) کو ان کے کانوں تک پہنچا سکے ؟!! کیوں یہ انسان عبرت حاصل نھیں کرتا ؟ کیوں یہ انسان نصیحتوں پر عمل نھیں کرتا ؟ ''کہاں ھیں سننے والے کان '' یہ ایک ایسا سوال ھے جس کا درد خود حضرت امیر المومنین (ع) اپنے سینۂ اقدس میں لئے اس دنیا سے رخصت ھوگئے ۔ آپ فرماتے ھیں : '' ما اکثر العبر و اقل الاعتبار '' ۔ 17 '' عبرتیں کتنی زیادہ ھیں اور اس کے حاصل کرنے والے کتنے کم ھیں ! ''
حضرت علی (ع) کی وصیت عبرت حاصل کرنے کی اھمیت اور قدر و منزلت اس وقت بہتر طور پر معلوم ھوتی ھے جب ھم دیکھتے ھیں حضرت امیر المومنین (ع) نے صفین سے واپسی کے موقع پر مقام '' حاضرین '' میں اپنے فرزند ارجمند حضرت امام حسن (ع) کے نام ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا اور اس میں تاکید فرمائی : '' ای بنی انّی و ان لم اکن عمّرت عمر من کان قبلی فقد نظرت فی اعمالھم و فکّرت فی اخبارھم و سرت فی آثارھم حتّیٰ عدت کاحدھم بل کانّی بما انتھیٰ الیّ من امورھم قد امرت مع اوّلھم الیٰ آخرھم '' ۔ 18 '' اے میرے بیٹے ! اگرچہ میں نے اتنی عمر نھیں پائی جیسی مجھ سے پہلے والوں کی ھوا کرتی تھی لیکن میں نے ان کے اعمال پر غور کیا ھے، ان کی باتوں میں فکر کی ھے اور ان کے آثار میں سیر و سیاحت کی ھے، اس طرح کہ گویا میں انھی میں سے ایک ھوگیا ھوں بلکہ ان کے بارے میں اپنی معلومات کی بنا پر اس طرح ھوگیا ھوں جیسے پہلے سے آخر تک میں ان کے ساتھ رھا ھوں '' اس گراں بہا وصیت نامہ کے مقدس جملوں سے یہ واضح ھو جاتا ھے کہ عبرت حاصل کرنے اور گزشتگان کی تاریخ، ان کے آثار اور ان کی باتوں میں غور و فکر کے ذریعہ انسان اپنے اندر اتنے تجربوں کو سمو سکتا ھے کہ گویا وہ گزشتہ لوگوں کے ساتھ مختلف زمانوں میں رھا ھو ۔ اسی لئے کہا گیا ھے کہ عبرت حاصل کرنے سے انسان کی عمر بڑھ جاتی ھے کیونکہ ممکن ھے انسان کی ظاھری عمر ساٹھ یا ستّر برس ھو لیکن جب وہ تاریخ سے عبرت حاصل کر لیتا ھے تو اس کی حقیقی عمر میں بے پناہ اضافہ ھو جاتا ھے ۔ وہ جس قدر تاریخ سے عبرت حاصل کرتا ھے، اتنا ھی عمر میں اضافہ ھو جاتا ھے جس کی وجہ سے اس کی حقیقی عمر، ظاھری عمر کے بر خلاف ساٹھ ستّر ھزار سال ھو جاتی ھے، اس لئے کہ اب وہ اکیلا انسان نھیں رہ جاتا، بلکہ ھزاروں سال کی تاریخ اور اس میں موجود انسانوں کے تجربات کو اپنے اندر سمو لیتا ھے ۔
مسلماں لیتا گر عبرت …!! کاش مسلمان تاریخ سے عبرت لیتا ! کاش مسلمان قرآن کی عبرت آموز باتوں پر عمل پیرا ھوتا ! کاش یہ مسلمان حضرت امیر (ع) کی نصیحتوں پر کان دھرتا ! کاش یہ مسلمان گوش شنوا رکھتا ! تو عالم اسلام کی شان و شوکت نہ چھنتی، اسلامی عزّت و اقتدار پامال نہ ھوتا، آتش تفرقہ میں عالم اسلام نہ سلگتا، اندلس کی سینکڑوں سالہ اسلامی حکومت کا تختہ نہ الٹتا، مسلمان ظلم کا شکار نہ ھوتے، جھالت ان کا مقدّر نہ بنتی، پسماندگی ان کا نصیب نہ ھوتی، کوئی اسلامی مقدّسات کی توھین کی جرأت نہ کرتا، قرآن نہ جلائے جاتے، ھتک رسالت (ص) نہ ھوتی، فلسطین کی عوام آزادی کے لئے نہ ترستی، عراق کی سر زمین پر لہو کے دریا نہ بہتے، امّت مسلمہ طاقت ور و سربلند ھوتی، ملّت اسلامیہ سر بلند جیتی … اے کاش ! اے کاش ! یہ مسلمان عبرت لے لیتا …
حسنِ ختام: '' صبح قریب '' زمانہ ھو گیا دشمن کچھ ایسا تھا مرام اپنا نہ بدلا پر قعود قہقرائی میں قیام اپنا تجھے اے عزم راسخ، قلب محکم ھو سلام اپنا نہ توڑا آندھیوں کے ڈر سے تو نے انسجام اپنا ھزاروں آتشیں خاروں بھر ے رستوں کو کاٹا ھے مگر دشمن کے حربے ڈگمگا پائے نہ گام اپنا مگر افسوس اس دور ستم پرور کے مسلم پر کہ کھوتا جارھا ھے دھیرے دھیرے احترام اپنا تدین بھول بیٹھا ھے نھیں معلوم ھے اس کو مباح و مستحب اپنا حلال اپنا حرام اپنا مسلماں متحد ھوں گر قسم مولود کعبہ کی دوبارہ ھوگا سب سے اعلیٰ و ارفع مقام اپنا وہ رعب و دبدبہ اور شان وشوکت ھوگی دنیا میں کہ U-N-O میں ھوگا حرف آخر ھر کلام اپنا یہ اسرائیل و امریکا کو کہنا ھوگا بالآخر چلو بھاگیں یھاں سے اب نہ پیڑ اپنا نہ آم اپنا ألیس الصبح کی آیت نے عابد کو دیا مژدہ کہ لکھا ھوگا ھر فتح و ظفر پر صرف نام اپنا
منابع و مآخذ: 1 ۔ سورۂ یوسف / ١١١ ۔ 2 ۔ آلِ عمران / ١٣ ۔ 3 ۔ غافر / ٨٢ ۔ 4 ۔ مجمع البحرین ، ج / ٢ ، ص / ١١۵۶، تفسیر نمونہ، ج / ٢٣، ص / ۴٩١ ۔ 5 ۔ بحار الانوار، ج / ٧٨، ص/ ٩٢ ۔ 6 ۔ فھرست غرر، ص / ٢٢٩ ۔ 7 ۔ فھرست غرر، ص / ٢٣١ ۔ 8 ۔ فلسفۂ تاریخ شھید مطھری، ج / ١، ص /١٣ ۔ 9 ۔ نھج البلاغہ، مکتوب / ۶٩ ۔ 10 ۔ نھج البلاغہ، خطبہ / ١۶ ۔ 11 ۔ نھج البلاغہ، خطبہ / ٩٩ ۔ 12 ۔ نھج البلاغہ، خطبہ / ١۶١ ۔ 13 ۔ نھج البلاغہ، خطبہ / ١٩٢ ۔ 14 ۔ سورہ قصص / ۵ ۔ 15 ۔ نھج البلاغہ، خطبہ / ١٩٢ ۔ 16 ۔ نھج البلاغہ، خطبہ / ١٨٢ ۔ 17 ۔ نھج البلاغہ، حکمت / ٢٩٧ ۔ 18 ۔ نھج البلاغہ، مکتوب / ٣١ ۔
|
مقالات کی طرف جائیے |
|