|
پیکر سادگی مولانا سید محمدرضوی گوپال پوری ؒ |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
اس دنیا میں قدم رکھنے والے ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے ، جو آیا ہے اسے جانا ہی پڑتا ہے ؛ اس لئے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے ،اس میں کسی قسم کی تبدیلی قطعی ممکن نہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا دنیا میں آنا ، یہاں زندگی گزارنا اور زندگی کا سفر طے کرکے یہاں سے چلے جانا لوگوں کے لئے موضوع سخن بن جاتاہے ، ان کا دنیا میں رہنا انسانیت کے لئے چین و اطمینان کا باعث ہوتاہے ، جب وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں تو افسوس ہوتاہے ، ان کی موت پر ہر شخص رنجیدہ ہوتاہے ، دل بھر آتاہے اور آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ۔ مولانا سید محمد پیکررضوی صاحب اعلی اللہ مقامہ ایسی ہی شخصیتوں میں سے ایک تھے ، ان کا کردار ہمارے معاشرے کے لئے قابل تقلید و عمل تھا ،چونکہ وہ ایک ہر دلعزیزمذہبی پیشوا تھے اسی لئے معاشرے میں لوگ ان کے گرویدہ تھے اور وہ سبھی کے ہمدرد و غمخوار ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک پرسکون ، شیریں اور نرم اخلاق و کردار کے مالک تھے ، شخصیت میں سادگی اس کمال پر تھی کہ کسی چھوٹے بڑے کو آپ سے گفتگو کرنے اور اپنے مسائل بیان کرنے میں جھجھک نہیں ہوتی تھی۔ مولانا مرحوم کی شخصیت میں خلوص و محبت ، ہمدردی ، رواداری ، انکساری ، بے لوثی اورعاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ، ان کا کشادہ دل کسی بھی امتیاز اور تکلف کے بغیر ہر ایک کا گھر تھا ، چھوٹے اور بڑے سبھی کے ساتھ یکساں طور پر ملاقات کرتے تھے اور اپنے سے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں فرماتے تھے ، ان کی خوش اخلاقی اور سادہ لوحی ، ان کی سادہ طبیعت کی عکاسی کرتی تھی ۔ مولانا سید محمدرضوی مرحوم کا وطن مالوف گوپال پور ہے ،گوپال پور صوبۂ بہار کے سیوان ضلع کی ایک چھوٹی مگر مشہور بستی ہے ، اس چھوٹی سی بستی میں کچھ شخصیتیں ایسی پیدا ہوئی جنہوں نے اپنے علمی ، ادبی ،مذہبی ، سیاسی اور سماجی کارناموں سے اس بستی کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا۔یہ بستی ہمیشہ سے علم و ادب کا مرکز رہی ہے ،ایک سے ایک شخصیتوں نے اپنے علم و ادب کی جلوہ سامانیاں بکھیری ہیں ، فقہ و اصول ، حدیث و تفسیر ، عرفان و فلسفہ ، شعر و ادب تقریباً ہر فن میں قیمتی کتابیں اور رسالے دیکھے جاسکتے ہیں، مولانا مرحوم کی ولادت اسی عظیم بستی میں ہوئی ۔ان کی صحیح تاریخ ولادت تو معلوم نہیں لیکن خودنوشت اجمالی خاکہ سے معلوم ہوتاہے کہ ان کی ولادت 1957عیسوی میں ہوئی تھی ۔ آپ نے مقدماتی تعلیم مدرسہ ناصر الایمان(گوپال پور) میں مولوی سید بخشش حسین صاحب مرحوم سے حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعہ جوادیہ بنارس تشریف لے گئے اور وہاں کچھ دنوں تک تعلیم حاصل کی ، جامعہ جوادیہ میں آپ نے جن علماء سے کسب فیض کیا ان میں سرکار ظفر الملۃ مولانا سید ظفر الحسن صاحب اعلی اللہ مقامہ ، سرکار شمیم الملۃ مولانا سید شمیم الحسن صاحب مد ظلہ اور مولانا سید احمد علی صاحب مرحوم سر فہرست ہیں ۔ جامعہ جوادیہ میں کچھ دنوں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ لکھنؤتشریف لے گئے اور وہاں اولاًجامعہ ناظمیہ میں تعلیم حاصل کی پھر وہاں سے سلطان المدارس مدرسہ سلطانیہ کو تحصیل علم کا مرکز قرار دیااور وہاں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد "سند الافاضل" کی اعلیٰ سند حاصل کی ۔ جامعہ ناظمیہ اور سلطان المدارس میں جن اساتذہ سے کسب فیض کیا ان میں سے بعض یہ ہیں : مولانا سید محمد شاکر صاحب مرحوم ، مولانا روشن علی صاحب مرحوم ، مولانا سید شہنشاہ حسین صاحب ، مولانا سید اخلاق مہدی صاحب مرحوم ، مولانا سید محمد جعفر صاحب ، مولانا سید غلام مرتضی صاحب وغیرہم ۔ سلطان المدارس سے فراغت کے بعد آپ وطن تشریف لائے اور وہاں سے بہار بورڈ کا امتحان دیا اور امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے بعد "فاضل شمسی " کی سند حاصل کی ۔ آپ کے سوانحی خاکہ میں آپ کے والد گرامی کا تذکرہ نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی ،آپ کے والد علامہ سید نذر حسن رضوی اعلی اللہ مقامہ ہیں ، علمی حلقہ میں آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ،علامہ مرحوم نے تقریباًپچھتر برسوں پر مشتمل اپنی زندگی میں زبان و قلم سے قوم و ملت کی جو خدمتیں انجام دی ہیں وہ حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ ہم جیسوں کے لئے قابل تقلید بھی ہیں ؛ آپ صاحب قلم ، بہترین محقق اور ماہر تعلیم تھے ،تعلیم و تربیت اور تدریس آپ کا مشغلہ بھی تھا اور پسندیدہ عمل بھی ، آپ نے تقربیاً چالیس برسوں تک تدریس کا فریضہ انجام دیااور آخر میں محمد صالح ہائی اسکول (حالیہ انٹر کالج)میں ہیڈ مولوی کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔آپ نے قلم کے ذریعہ بھی خوب خوب خدمتیں انجام دی ہیں ، دیہات کی زندگی کے باوجود سو کے آس پاس کتابیں تصنیف و تالیف کرنا یقیناً حیرت انگیز کارنامہ ہے ؛ آپ کی کچھ کتابیں ہندوستان اور پاکستان سے شائع ہوئی ہیں ، افسوس بعض کتابیں اب بھی غیر مطبوعہ ہیں ۔ مولانا سید محمد رضوی صاحب مرحوم نے قوم و ملت کی خدمت کا بے لوث جذبہ اپنے والد سے ورثہ میں حاصل کیاتھا ، جس طرح آپ کے والد گرامی خدمت خلق کے لئے ہمہ وقت حاضر رہتے تھے اسی طرح آپ بھی قوم و ملت کی خدمت کے لئے ہمیشہ تیار رہتے تھے ۔ آپ اپنے اسی جذبے کی تسکین کے لئے مدرسہ سلیمانیہ سے منسلک ہوئے تاکہ تدریس کے ذریعہ طلاب علوم دینیہ کوزیور علم سے آراستہ کریں اور وہ طلاب حصول علم کے بعد اپنے اپنے اعتبار سے قوم وملت کی خدمت کرسکیں ۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آپ نے اپنی تدریس کے دوران بے شمار طلاب کی تربیت فرمائی ہے جو آج مختلف علاقوں میں اپنی صلاحیت کے اعتبار سے مذہبی خدمت انجام دے رہےہیں۔ قوم و ملت کی خدمت کا ایک دوسرا نمونہ " جمعہ و جماعت کی امامت"ہے، مدرسہ سلیمانیہ میں تدریس کے ہمراہ آپ نے شیعہ مسجد مراد پور پٹنہ میں پچیس سے زائد برسوں تک نماز جمعہ پڑھائی ۔آپ نے اس خدمت میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کی اور اپنی آخری سانسوں تک یہ فریضہ انجام دیتے تھے اور بالآخر اسی فریضہ کی ادائیگی کے دوران اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ مولانا مرحوم کو قلم سے بھی خاص لگاؤ تھا ، اگر چہ آپ کے بہت کم رشحات منظر عام پر آسکے اس کے باوجود ان کی سوانح حیات کا جائزہ لینے سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آپ کو قلم سے لگاؤ تھا اور اس کے فروغ میں ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے ، جو لوگ قلم سے وابستہ تھے ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور ان کو خصوصی دعاؤں میں یاد کرتے تھے۔ مولانا مرحوم کی جو معدودے چند کتابیں اور قلمی کاوشیں منظر عام پر آئیں ان میں " نجوم الارض " کو خاص اہمیت حاصل ہے،یہ کتاب ریاست بہار کے علماء و افاضل کے حالات زندگی پر مشتمل ہے ، اس میں آپ نے تقریباً 237/ علمائے بہار کی سوانح حیات جمع کی ہے ۔ اس کتاب کو اس لئے بھی خاص اہمیت حاصل ہے کہ تذکرۂ علمائے بہار کے موضوع پر یہ کتاب خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے ، اس کتاب سے پہلے علمائے بہار کے حالات زندگی پر مشتمل کوئی مستقل کتاب نہیں تھی ، آپ نے علمائے بہار کے حالات مرتب کرکے ایک قابل قدر کارنامہ انجام دیاہے ۔ اس اہمیت کا اعتراف مولانا ناصر زیدی طاب ثراہ نے بھی کیا ہے ؛ آپ فرماتے ہیں : " عزیز محترم مولوی سید محمد صاحب پیکر سلمہ نے ریاست بہار کے افاضل و علماء کا تذکرہ موسوم بہ نجوم الارض ترتیب دے کر لائق تحسین کارنامہ انجام دیاہے ، اگر چہ یہ نقش اول ہے لیکن بربنائے اولیت اس کی اہمیت اور دستاویزی حیثیت ہمیشہ برقرار رہے گی ، اس کے بعد اس موضوع پر جو رسالہ بھی مرتب ہوگا اس میں اضافات ہوتے ہی رہیں گے ، اس طرح مؤلف کا یہ کارنامہ نہایت گرانقدر ہے ، مجھے یقین ہے کہ صاحبان نظر اس سے مستفیض ہوں گے "۔ والد علام مولانا سید علی اختر رضوی شعور گوپال پوری طاب ثراہ بھی کتاب میں موجود تقریظ میں کتاب اور مؤلف کتاب کے متعلق لکھتے ہیں : " مولانا سید محمد صاحب پیکر ایک صاحب قلم ، محقق اور ماہر تعلیم کے چشم و چراغ ہیں ، ان کے دھڑکتے دل میں جذبۂ خدمت دین موجزن ہے ، اپنی بساط بھر ہر ممکن سعی کرتے رہتے ہیں ، تدریس و محراب سے جو کچھ بچتا ہے ، باپ کی طرح خدمت دین میں صرف کرتے ہیں ، خداوندعالم ان کے اس وقیع جذبہ کو باقی رکھے ۔ ذاکری کی چھوٹی موٹی دو ایک خدمت منظر عام پر آچکی ہے ، اب انہوں نے مفید اور وقیع خدمت کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ زیر نظر تالیف وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ انہوں نے ایک کار آمد شاہراہ قائم کردی ہے تاکہ بعد کے جیالے اس شاہراہ پر زیادہ تفصیلی اور مفید ترین خدمات انجام دے سکیں ، خدا وندعالم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اس ڈگر کو بعد میں خود مولانا سید محمد صاحب پیکر ہی زیادہ محنت کرکے مؤثر ، مفید اور وقیع بناد یں ۔ایران کے اپنے سفر میں وہاں اکثر علماء نے مجھ سے بہار کے علمائے اسلام کا تذکرہ مرتب کرنے کی فرمائش کی تھی ، خود میرا خیال تھا کہ جہاں تک علمائے اسلام کا تذکرہ ہے وہ تو اچھا خاصہ موجود ہے البتہ علمائے ایمان کا تذکرہ موجود نہیں ہے ، میں نے وہاں سے واپس آکر فہرست بنانے کا کام شروع کردیا تھا ، مولانا سید محمد صاحب کی اس محنت کو دیکھ کر اپنا کام ملتوی کردیا ہے …"۔ کتاب شائع ہوئی تو اس کی افادیت کے پیش نظر علمی حلقہ میں اس کا خوب خوب استقبال کیاگیا ، ہم جیسے خردوں کے لئے یہ کتاب دستاویزی حیثیت رکھتی ہے ، ناچیز نے "عندلیبان علم و ادب (علمائے بہار کی حیات و خدمات کا تفصیلی جائزہ)" مرتب کرتے وقت اس کتاب سے بقدر کافی استفادہ کیاہے ۔ اس کے علاوہ آپ ہر مذہبی پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ، دینی محافل و مجالس ہوں یا پھر علمی نشستیں، آپ سبھی میں برابر شرکت فرماتے تھے جس سے مذہبی پروگراموں کے حوالے سے آپ حساسیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔ افسوس یہ خادم قوم و ملت ، خلق مجسم ، پیکر سادگی ، عالم باعمل ، مبلغ دین و شریعت آج ہمارے درمیان نہیں ہے ، 17/ نومبر بروز جمعہ یہ خبر موصول ہوئی کہ مولانا سید محمد صاحب پیکر گوپال پوری کو جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے اٹیک آیا اورہستپال پہونچنے سے پہلے ہی اپنے مالک حقیقی سے جاملے؛انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ خداوندعالم نے اپنے پسندیدہ دین اسلام کے مخلص خادم کی موت کے لئے بڑے اچھے وقت کا انتخاب فرمایا ،جسے ہم حسین اور پاکیزہ موت کہہ سکتے ہیں ، ظاہر ہے جمعہ کے دن نماز جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے اور مومنین کو موعظہ کرتے وقت موت کوگلے لگانا ہم سب کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ۔ یہ موت جہاں مولانا مرحوم کو خدا کاحسین تحفہ ہے وہیں دوسروں کے لئے ایک بہترین پیغام بھی ہے کہ موت کا کوئی وقت معین نہیں ہے اس لئے ہر لمحہ زاد راہ کےلئے کوشاں رہنا ہر شخص کا فریضہ ہے،ہمارے ذہنوں میں یہ بات ہمیشہ محفوظ رہنی چاہئے کہ ہم کس کی طرف سے آئے ہیں اور کس کے یہاں پلٹ کر جانا ہے، اگر ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوگئی تو انسان کی شخصیت "عاش سعیداً و مات سعیداً" کی عملی تفسیر بن کر سامنے آئے گی۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ مولانا سید محمد پیکر صاحب مرحوم کو جوار معصومین علیہم السلام میں جگہ عنایت فرمائے اور پسماندگان اور مومنین بہار کو اس عظیم فقدان پر صبر جمیل عطا فرمائے ؛ آمین یا رب العالمین۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ سید شاہد جمال رضوی 6/دسمبر 2017
|
مقالات کی طرف جائیے |
|