|
اربعین کی پیادہ روی کے آداب |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
مقدمہ کسی بھی کام کو انجام دیتے وقت اس کے آداب و قوانین کی رعایت کرنا ضروری ہوتاہے ، جب ایک انسان ان آداب کی رعایت کرتاہے تو اس کے فوائد و برکات سے بھی زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہوتاہے ؛اسی لئے مکتب اہل بیت علیہم السلام میں تمام ائمہ طاہرین ؑ اور انبیاء و اوصیاء کے علاوہ بزرگان دین کی زیارت کے آداب و اعمال کی نشاندہی کی گئی ہے ، مثال کے طور پر رسول خداؐ ، خانۂ کعبہ وغیرہ کی زیارت کے مخصوص آداب بتائے گئے ہیں تاکہ ایک زائر، ان مقامات کے فوائد و برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوسکے ۔ اربعین کے موقع پر عام طور سے زائرین کرام پیدل جاکر امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی زیارت کرتے ہیں اور آپ کی ضریح اور روضے کے سامنے اربعین کی مخصوص زیارت پڑھ کر اپنے ایمان و ایقان اور اہل بیت طاہرین ؑسے والہانہ محبت و الفت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ روایتوں میں اس کی تاکید بھی کی گئی ہے اور پیدل جاکر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کے بے شمار فوائد و برکات کی تصریح کی گئی ہے۔ ظاہر ہے جب اس قدر تاکید کی گئی ہے اور اس کے بے پناہ فوائد کی نشاندہی کی گئی ہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس پیادہ روی کے آداب کی رعایت کریں تاکہ پیادہ روی کے اخلاقی ، معاشرتی ، مذہبی اور معنوی آثار و برکات سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہوسکیں ۔ اسی لئے زیر نظر مقالے میں اربعین کی پیادہ روی کے بعض آداب و اعمال کا سرسری جائزہ لیاجارہاہے ۔ امید ہے کہ یہ ناچیز کاوش بارگاہ احدیت میں شرف قبولیت سے ہمکنار ہوگی ۔ 1۔ امام علیہ السلام کی معرفت ایک زائر کے لئے ضروری ہے کہ وہ امام علیہ السلام کی معرفت رکھتا ہو اور ان کو اچھے سے پہچانتا ہو ؛ اس لئے کہ معرفت ہر چیز کی اصل و اساس ہے ، تمام اعمال و افعال کا دارو مدار اسی معرفت پر ہے اور اسی کے اعتبار سے ثواب و عقاب کی تقسیم کی گئی ہے ، انسان کی معرفت جس قدر وسیع اور مکمل ہوگی ،اسی اعتبار سے اس کے درجات میں اضافہ ہوتارہے گا ۔شاید روایات میں امام علیہ السلام کی زیارت کے اجر و ثواب کے سلسلے میں افتراق اور تفاوت کی وجہ بھی زائر کی معرفت ہو ؛اس لئے کہ ایک روایت میں ایک قدم پر ایک نیکی اور بعض دوسری روایتوں میں ایک قدم پر ہزار نیکیاں لکھی گئی ہیں ۔ جس کی معرفت وسیع ہوتی ہے اسے زیادہ ثواب ملتاہے اور جس کی معرفت قلیل ہوتی ہے اس کے اجر و ثواب اور درجات میں بھی کمی ہوجاتی ہے ۔ اجر و ثواب سے ہٹ کر دوسرے زاویہ سے بھی معرفت کی اہمیت پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے ، وہ یہ کہ حضرت امام حسینؑ علیہ السلام گلدستۂ انسانیت کا وہ حسینؑ اور خوشنما پھول ہیں جنہوں نے اپنی قربانی و فداکاری کے ذریعہ بنی نوع انسان کو بہت سے انسانیت ساز پیغامات دئیے ہیں جن میں علم ، حلم ، اخلاق ، اخوت ، صداقت ، طہارت ، عبادت ، شرافت، ایثار و قربانی ،محبت،مروت ، دینداری ، اعلان حق اور انکار باطل سر فہرست ہیں۔ظاہر ہے ان پیغامات کا واقعی ادراک اسی وقت ہوسکتاہے جب ہم شہید انسانیت حضرت امام حسینؑؑ کی معرفت حاصل کریں ،امام علیہ السلام کی معرفت جتنی وسیع ہوگی ،اسی اعتبار سے آپ کے پیغامات ہماری زندگی میں اثر انداز ہوں گے ۔ لہذا ایک زائر کے لئے ضروری ہے کہ وہ پیادہ روی کے دوران امام حسینؑ کی شخصیت و اخلاق کی معرفت حاصل کرے تاکہ امام علیہ السلام کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی کو گزارنے کی کوشش کرسکے۔ حدیثوں میں بھی معرفت کے ساتھ امام کی زیارت کرنے کی تاکید کی گئی ہے ؛ چنانچہ بشیر دہان کا بیان ہے کہ ہماری اور امام صادق علیہ السلام کی ایک طویل گفتگو ہوئی ، اس گفتگو کے آخر میں امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: ویحک یا بشیر ان المومن اذا اتاہ عارفا بحقہ کتب لہ بکل خطوۃ حجۃ و عمرہ مبرورات متقبلات و غزوۃ مع نبی او امام عادل "اے بشیر !بے شک ایک بندۂ مومن جب امام حسین بن علی علیہ السلام کی زیارت کے لئے جائے اور ان کے حق کو پہچانتا ہو…تو اس کے ہر قدم کے بدلے اس کے نامہ اعمال میں مقبول حج و عمرہ اور نبی یا امام عادل کی رکاب میں جنگ و جہاد کرنے کا ثواب لکھ دیا جاتاہے "۔ (1)
2۔ نظافت و پاکیزگی امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے مربوط اکثر احادیث میں غسل کرنے اور پاک و پاکیزہ لباس پہننے کی تاکید کی گئی ہے ؛ ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اذا اتیت ابا عبداللہ فاغتسل علی شاطی الفرات ثم البس ثیابک الطاھرۃ ثم امش حافیا فانک فی حرم من حرم اللہ و رسولہ بالتکبیر والتھلیل " جب تم سید الشہداء حضرت امام حسین ؑکی زیارت کے لئے جاؤ تو پہلے نہر فرات میں غسل کرو اور پاکیزہ لباس پہنو ، پھر پا پیادہ راستہ طے کرتے ہوئے حرم تک جاؤ ؛ تم سمجھ لو کہ اس وقت تم خدا اور رسول خداؐ کے ایک حرم میں ہو ، تمہارے لئے ضروری ہے کہ تکبیر کہو اور لا الہ الا اللہ کا ورد کرو"۔ (2) حدیث کے تناظر میں پیادہ روی کے دوران نظافت کی رعایت کرنا اور پاک و پاکیزہ کپڑا پہننا ، خاص اہمیت کا حامل ہے ، اس لئے کہ ایک زائر نجف ہی سے زیارت کا ارادہ کرلیتا ہے اور طول سفر میں گویا وہ مولا کی زیارت کرتا رہتاہے اسی لئے اسے آغاز سفر اور دوران سفر میں اپنی نظافت کی رعایت کرنی چاہئے ،بلکہ راستہ چلتے ہوئے ایک زائر کو نظافت و پاکیزگی کے اعتبار سے دوسروں کے لئے نمونۂ عمل ہونا چاہئے ۔ نظافت کے حوالے سے ایک بات پیش نظر رہے کہ روایتوں میں جس نظافت کو بیان کیاگیاہے وہ کلی ہے اسے مادی اور معنوی دونوں طرح کی نظافت پر حمل کیاجاسکتاہے ؛ اس لئے ایک زائر کو چاہئے کہ وہ ظاہری اور باطنی ، مادی اور معنوی دونوں طرح کی نظافت کا خیال رکھے۔
3۔ خدمت خلق ایک زائر کے لئے ضروری ہے کہ وہ پیادہ روی کے دوران اپنے دل میں خدمت خلق کا جذبہ رکھے ، بزرگوں اور بچوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے ، ضرورتمندوں کی مدد کرے ، غمزدہ افراد کی نصرت کرے اورقرآن کریم کے مطابق اپنے آپ کو نیک اخلاق سے متصف کرے ؛ " قولوا للناس حسنا"۔(3) یعنی راستہ چلنے والوں سے بہترین انداز میں گفتگو کرے اور عملی اعتبار سے اہل بیت علیہم السلام کے اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرے اور ان کی تبلیغ کرے ۔اس لئے کہ نیک اعمال بہتر انداز میں ایک مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں ؛ اسی لئے سلیمان بن مہران سے منقول ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا ، اس وقت کچھ شیعہ امام کے پاس موجود تھے ، آپ نے ان سے فرمایا : معاشر الشیعۃ کونوا لنا زینا و لا تکونوا علینا شینا قولوا للناس حسنا واحفظوا السنتکم و کفوھا عن الفضول وقبیح القول"اے شیعو!ہمارے لئے سبب زینت بنو ہماری رسوائی کا موجب نہیں ، لوگوں کے ساتھ اچھے انداز میں گفتگو کرو اور اپنی زبان کو بیہودہ گوئی اور بری باتوں سے محفوظ رکھو"۔ (4)
4۔ احساس اخوت و محبت اربعین کی پیادہ روی میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آپ کے ہمراہ جو لوگ راستہ طے کررہے ہیں وہ سب آپ کے دینی بھائی ہیں اور آپ ہی کی طرح دوسرے ملک میں اجنبی ہیں ۔ جس طرح آپ کے دل میں یہ احساس ہے کہ کوئی ہماری دلجوئی کرے اور مصیبت کی صورت میں ہمارا ساتھ دے اسی طرح آپ کے ہمراہ چلنے والے کے دل میں بھی یہ احساس ہوگا ۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے : انما المؤمنون اخوۃ " مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں"۔ زیارت اربعین ایک انسان کے ایمان کی نشانی ہے ، آپ کے ہمراہ جو افراد چل رہے ہیں ان کے ایمان و ایقان کی سند کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ زیارت اربعین پڑھنے کی غرض سے کربلا کی جانب رواں دواں ہیں اور اس زیارت کا پڑھنا ایک بندۂ مومن کے ایمان کی نشانی اور علامت ہے؛ لہذا دوسرے ایام سے زیادہ پیادہ روی کے دوران اپنے مومن بھائی کی رعایت کریں اور اپنے دل میں ان کے متعلق اخوت و محبت کا احساس انگیز کریں ۔
5۔ کھانے پینے میں اعتدال اس زیارت کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ ہم کھانے پینے کی چیزوں میں احتیاط سے کام لیں ، اچھا کھانے کے فراق میں نہ رہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ اربعین کے موقع پر نجف سے کربلا تک بہترین انداز میں پذیرانی کی جاتی ہے ، جس کی نظیر پوری کائنات میں نہیں ملتی ، موکب میں موجود افراد امام حسین ؑکے زوار سے محبت و الف کی بنا پر بہترین انداز میں میزبانی کامظاہرہ کرتے ہیں لیکن آپ بھی اپنے وجود سے اس بات کا اظہار کریں کہ ہم اربعین کے سفر میں معنوی برکات سے استفادہ کرنے کے لئے آئے ہیں ؛ اپنی طرف سے ان کھانے پینے کی چیزوں کے سلسلے میں حرص و طمع کا مظاہرہ نہ کریں ۔ بعض موقعوں پر دیکھا گیاہے کہ کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرتے وقت عجیب سی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے اور ہماری ذرا سی کوتاہی کی بنا پر دوسروں کو نقصان پہنچ جاتاہے ۔ امام صادق علیہ السلام نے اپنے بعض اصحاب سے فرمایا: کیا تم لوگ امام حسین ؑکی قبر کی زیارت کے لئے جارہے ہو؟ کہاگیا : جی ہاں !فرمایا : اس سفر میں اپنا دسترخوان سمیٹ دو (یعنی اچھا اچھا کھانا کھانے کی خواہش دل سے نکال دو) ۔ پھر فرمایا : اگر تم اپنے ماں باپ کی زیارت کے لئے جاتے ہو تو ایسا نہیں کرتے ۔ راوی نے سوال کیا : مولا! پھر ہم لوگ کیا کھائیں ؟ فرمایا : روٹی اور دودھ۔ (5) ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : "پیدل راستہ طے کرتے وقت زیادہ نہ کھاؤ ، ہاں ! اس وقت زیادہ کھا سکتے ہو جب مجبور ہوجاؤ"۔ (6) اس کے علاوہ یہ بات پیش نظر رہے کہ عام طور سے حکم دیاگیاہے کہ عبادت کے وقت انسان شکم سیر نہ ہو اگر بھرے پیٹ کے ساتھ عبادت کی جاتی ہے تو عبادت میں وہ خلوص و انابت نہیں آپاتی ۔ چنانچہ ہم بھی اگر اربعین کی پیادہ روی کو عبادت محسوب کریں (جیسا کہ روایتوں میں اسے عظیم عبادت قرار دیاگیاہے اور شعائر اور خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کہاگیاہے)تو ہم بھی اس پیادہ روی کے وقت گرسنگی اور کم خوری کو شکم سیری پر ترجیح دیں گے۔
6۔ باوقار انداز میں راستہ طے کریں نجف سے کربلا تک کی مسافت 80/ کیلو میٹر ہے ، اس مسافت کو لوگ عام طور سے تین دنوں میں طے کرتے ہیں ، اس دوران استراحت بھی کرتے ہیں اور دعا و مناجات کا بھرپور وقت بھی مل جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بعض لوگ راستہ طے کرنے میں اس قدر عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ دوسروں کو اذیت پہونچتی ہے ۔ بس ایک دھن سوار ہوتی ہے کہ ہمیں کربلا پہنچنا ہے ، آگے والے کو تکلیف ہورہی ہے ، اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، دھکا مارتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ طریقہ قطعی مناسب نہیں ، ایک زائر کو چاہئے کہ وہ دوسروں کا خیال رکھے اور اپنے آس پاس والوں کی آسودگی کا لحاظ کرے۔ ظاہر ہے اگر کسی کو تکلیف دے کر زیارت کی تو اس کا کیا فائدہ ۔ کیا ایسی صورت میں ہمیں وہ اجر و ثواب ملے گا جس کا تذکرہ حدیثوں میں کیا گیاہے …؟ یہ ہم سبھی کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ۔ اس کے علاوہ تیز تیز چلنا ایک مومن کی شان کے خلاف ہے ، ایک حدیث میں امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : "تیز تیز راستہ طے کرنا ، ایک مومن کی اہمیت کو ختم کردیتاہے ، جلدی جلدی چلنے سے ایک مومن کا نور ختم ہوجاتاہے"۔ (7) قرآن کریم نے بھی اپنی رفتار میں میانہ روی کی رعایت کرنے کی تاکید کی ہے ؛ چنانچہ خداوندعالم کا ارشاد ہے : "وَ لا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ ؛وَ اقْصِدْ في مَشْيِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمير"۔ ترجمہ: "اور خبردار لوگوں کے سامنے اکڑ کر منہ نہ پُھلا لینا اور زمین میں غرور کے ساتھ نہ چلنا کہ خدا اکڑنے والے اور مغرور کو پسند نہیں کرتا ہے؛ اوراپنی رفتار میں میانہ روی سے کام لینا اور اپنی آواز کو دھیما رکھنا کہ سب سے بدتر آواز گدھے کی آواز ہوتی ہے (جو بلاسبب بھونڈے انداز سے چیختا رہتا ہے)"۔(8) ایک دوسری جگہ قرآن کریم کا ارشاد ہے: "وَ عِبادُ الرَّحْمنِ الَّذينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً وَ إِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاما"۔ (9) ترجمہ :"اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں توسلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں"۔ آیات و روایات کے تناظر میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اربعین کی پیادہ روی کے دوران متواضع انداز میں اور آہستہ آہستہ راستہ طے کریں ؛ اس لئے کہ یہ ایک مومن کی شان بھی ہے اور دوسروں کے حقوق کی رعایت بھی ۔
7۔ اپنے اوپر حزن و اندوہ اور غم کی کیفیت طاری کرے عام طور سے دنیا میں یہ رواج ہے کہ جب کسی کا چہلم منایا جاتاہے تو لوگوں کے اوپر غم و اندوہ کی کیفیت طاری رہتی ہے ، اس وقت چہلم میں شرکت کرنے والے دوسرے افراد بھی بانیان غم کی حالت کی رعایت کرتے ہوئے اپنے اوپر حزن و اندوہ کی کیفیت طاری کرلیتے ہیں ۔ اربعین کے موقع پر پیدل چلنے والے بھی خاندان عصمت و طہارت کو امام مظلوم کی شہادت کا پرسہ دینے کے لئے جاتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ طول سفر میں ہمارے اوپر غم و اندوہ کی کیفیت طاری رہے اور ہمیں اس بات کا احساس رہے کہ ہم کس کا پرسہ دینے جارہے ہیں اور اس غم کے بانی کتنے عظیم افراد ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : "اے زرارہ ! آسمان نے امام حسین علیہ السلام پر چالیس دنوں تک خون کے آنسو بہائے ، زمین نے چالیس دنوں تک حضرت پر گریہ و زاری کیا ، سورج کو گہن لگا اور وہ چالیس دنوں تک سرخ آلود رہا …ملائکہ نے بھی چالیس دنوں تک امام حسینؑ پر آنسو بہائے "۔ (10) ظاہر ہے جب غیر جاندار چیزوں نے امام مظلوم پر گریہ کیاہے اور اپنے غم و اندوہ کا اظہار کیاہے تو ہمیں بدرجۂ اولیٰ اپنے غم و اندوہ کا اظہار کرنا چاہئے ، اربعین کے موقع پر پیادہ روی کے ایام ، انہیں چالیس دنوں کا حصہ ہیں ، لہذا ان ایام میں بھی ہمیں مغموم و محزون رہنا چاہئے اور حزن و ملال کی کیفیت میں کربلا تک کی مسافت طے کرنی چاہئے ۔ ائمہ معصومین علیہم السلام نے امام حسین ؑکی زیارت کے وقت اپنے اوپر خاص حزن و اندوہ کی کیفیت طاری کرنے کاحکم دیاہے ؛ چنانچہ ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : تَزُورُونَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ لَا تَزُورُوا وَ لَا تَزُورُونَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَزُورُوا. قَالَ قُلْتُ: قَطَعْتَ ظَهْرِی. قَالَ: تَاللَّهِ إِنَّ أَحَدَکُمْ لَیَذْهَبُ إِلَى قَبْرِ أَبِیهِ کَئِیباً حَزِیناً وَ تَأْتُونَهُ أَنْتُمْ بِالسُّفَرِ. کَلَّا حَتَّى تَأْتُونَهُ شُعْثاً غُبْرا "زیارت کے لئے جانا نہ جانے سے بہتر ہے اور زیارت کے لئے نہ جانا جانے سے کہیں بہتر ہے ؛راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی : مولا! آپ نے اس جملہ سے میری کمر توڑ دی (آپ کا مقصود کیاہے؟)۔ حضرت نے فرمایا : خدا کی قسم ! جب تم میں سے کوئی اپنے والد کی قبر پر جاتا ہے تو مغموم و محزون رہتا ہے لیکن جب امام حسین ؑکی زیارت کے لئے جاتا ہے تو اپنے ساتھ دسترخوان لے کر جاتاہے ، نہیں یہ قطعی صحیح نہیں ہے ، اس طرح حضرت کی زیارت کے لئے نہیں جانا چاہئے بلکہ تمہیں چاہئے کہ تم افسردہ اور غمگین حالت میں امام حسین ؑکی زیارت کرو"۔ (11) امام علیہ السلام کی اس شدید تاکید کے پیش نظر ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اربعین کی پیادہ روی میں اپنے اوپر حزن و ملاال کی کیفیت طاری کریں تاکہ اس عظیم عبادت سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہوسکیں ۔
8۔ دلوں میں امام وقت کی یاد زندہ رہے اربعین…اپنے وقت کے امام سے راز و نیاز کرنے اور ان کو اس بات کا یقین دلانے کا ذریعہ ہے کہ مولا! ہم آپ کے ظہور کے لئے آمادہ ہیں ، مولا! اپنے نور وجود سے ہمارے مضطرب دلوں کو منورفرمائیے۔ اربعین کے پرشکوہ اجتماع کا جائزہ لیاجا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک عظیم واقعہ کے رونما ہونے کی زمینہ سازی ہے ، در حقیقت اربعین کا اجتماع لشکر امام زمانہ (عج) کی آمادہ سازی کا ذریعہ ہے ۔ اس سلسلے میں حجۃ الاسلام استاد پناہیان فرماتے ہیں : " تمام قلوب کا ایک ہی چیز کی طرف متوجہ ہونا اور ایک ہی چیز کے لئے متحول و متغیر ہونا ، نصرت خدا کی علامت ہے ۔ کیا آپ نے دیکھا ہے کہ بغیر کی تبلیغ اور پروپیگنڈے کے اتنا بڑا اجتماع ہوجائے ، لوگ دس بیس ہزار کے اجتماع کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے ، اچھی خاصی تبلیغ کرتے ہیں ، ڈھیروں پیسے خرچ کرتے ہیں ، اشتہارات اور پمپلٹ وغیرہ شائع کرتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں مایوسی ہوتی ہے کہ جتنا خرچ کیا اتنے لوگ جمع نہیں ہو پائے ۔لیکن اربعین کے لئے نہ کوئی تبلیغ ہے اور نہ ہی کسی کو پیسوں کی لالچ ، لیکن پھر بھی سب کا دل اربعین کی طرف کھینچا چلا جاتاہے ۔اس کی بالکل سادہ اور عام سی تحلیل یہ کی جاسکتی ہے کہ اربعین کی پیادہ روی ، لشکر امام زمانہ(عج)کی آمادگی کا ایک بہترین اور حسین ذریعہ ہے"۔ (12) اربعین کے موقع پر پیدل چلتے ہوئے اس عظیم پہلو کو پیش نظر رکھنا ہم شیعوں کے لئے بے حد ضروری ہے ۔ اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ اپنے وقت کے امام کو ہر وقت یاد رکھنا چاہئے اور ان کے ظہور کے لئے دعا کرنی چاہئے ؛ ظاہرہے معنویت سے بھرپور اربعین کی پیادہ روی سے بہتر موقع کہاں دستیاب ہوگا ، اسی لئے ہمیں اس موقع پر اپنے زمانے کے امام کو فراموش نہیں کرنا اور ہر وقت اپنے دلوں میں ان کی یاد کو تازہ رکھناچاہئے ؛ بلکہ پیادہ روی کے دوران اپنے امام سے راز و نیاز کرنا چاہئے، ایک گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر تھوڑی دیر کیلئے اپنے امامِ زمانہ ؐعج سے درد دل کو بیان کرنا چاہئے ۔ ہاں !ایک شیعہ کیلئے یہ بات اچھی نہیں ہے کہ اس کا دن شَب میں ڈھل جائے اور شَب دِن کے جالے میں بدل جائے اور اسے اپنے وقت کے امام ؐ کی تھوڑی دیر کیلئے بھی یاد نہ آئے! ایسا نہیں ہے کہ ہم جو باتیں کرتے ہیں اور امام سے راز و نیاز کرتے ہیں تو وہ ہمارا جواب نہیں دیتے ۔نہیں بلکہ ائمہ طاہرین ؑ خاص طور سے امام زمانہ ہماری گفتگو کے مشتاق ہوتے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان سے گفتگو کریں ۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ ہم سب کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ، مروی ہے کہ امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے میں بہت دُور کے شہر سے ایک چاہنے والے نے امام ؐ کو خط لکھا: مولا ؐ میں آپ سے بہت دُور رہتا ہوں۔ مجھے کبھی کبھی ضرورت ہوتی ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں اور میری مشکلات ہیں تو بتائیے میں اُس وقت کیا کروں؟امام علی النقی ؐ نے اُسے جواب میں لکھا: اِنْ كَانَتْ لَكَ حَاجَةٌ فَحَرِّكْ شَفَتَيْك ’’ جب تمہیں کوئی حاجت درپیش ہو تو اپنے لبوں کو حرکت دُو اور ہم سے باتیں کرو"۔ (13) یعنی ہم تم سے دور نہیں ہیں اور تمھاری باتیں سننے پر قادر ہیں!۔ عزیزو! اربعین اپنے امام زمانہ(عج)سے باتیں کرنے کا بہترین موقع ہے ، اس وقت ہمیں اپنے امام کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور ان کی صحت و سلامتی اور ان کے ظہور کے لئے زیادہ سے زیادہ دعا کرنی چاہئے ۔
خلاصہ اور نتیجہ : متذکرہ تمام باتوں کے پیش نظر ایک زائر کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو امام کے حضور محسوس کرے اور جس راستہ کو طے کررہا ہے ، یہ سوچ کر طے کرے کہ اپنے امام سے ملاقات کے لئے جارہاہے ۔ ظاہر ہے جب یہ فکر ہوگی تو وہ راستہ میں امام سے ملنے کے آداب و شرائط کی رعایت کرنے کی کوشش کرے گااور اپنے کردار و گفتار سے اس بات کی نشاندہی کرے گا کہ وہ اپنے امام سے ملنے کے لئے جارہاہے ۔ اس اہم ترین خیال کی وجہ سے ایک زائر کو اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ راستہ کے حالات اور بعض ناگفتہ بہ صورت حال، معنوی اہداف و مقاصد تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ بن جائیں ، وہ اس طرح سے راستہ طے کرے کہ دوسروں کے لئے اس کا راستہ چلنا ، نمونۂ عمل بن جائے ۔یہی تو ایک شیعہ کی پہچان ہے کہ وہ اپنی زبان کے ساتھ ساتھ اپنے عمل سے دوسروں کو اپنے مذہب کی دعوت دیتاہے ۔اربعین دوسروں کو مذہب حقہ کی دعوت دینے کا بہترین موقع ہے لہذا اس میں اسلامی آداب کی بھرپور رعایت کرنی چاہئے ۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
حوالہ جات : 1۔ بحار الانوار ، علامہ مجلسی ج98 ص143 2۔ بحار الانوار ج98 ص 152 3۔ بقرہ /83 4۔ امالی شیخ صدوق ص 482 5۔ من لا یحضرہ الفقیہ ، ج2 ص 281 6۔ وسائل الشیعہ ج24 ص 261 7۔وسائل الشیعہ ، حر عاملی ،ج11 ص 456 8۔ لقمان / 18۔19 9۔ فرقان/63 10۔ مستدرک الوسائل ، ج10 ص 314 11۔ کامل الزرایات ، ابن قولویہ ص 130 12۔ استاد پناہیان مد ظلہ کی ایک تقریر سے اقتباس 13۔ بحار الانوار ، علامہ مجلسی ج91 ص 22
|
مقالات کی طرف جائیے |
|