|
معصوم کردار |
ادیب عصر مولانا سید علی اختر رضوی شعور گوپال پوری |
وہ نازش وفا تھا ...وہ بقائے حرم اور دکھیاروں کی آس تھا...۔ اس چاند سے چہرے کوقمر بنی ہاشم کہاجاتا تھا ، اس کا لقب عبدصالح اور باب الحوائج بھی ہے۔ حضرت ابوالفضل العباس کا تصور قلب میں مرتسم ہوتے ہی جلال و جمال کا تصور سارے وجود پر محیط ہوجاتاہے ، عبس و عبوس کسی خشک اور اینٹھے منہ بسورے ہوئے وجود کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن اس غازی کا سراپا بڑا ہی شاداب اور سرشار تھا ، وہ شجاعت و جاں نثاری کا دل آویز پیکر تھا ، صرف روز عاشور کا خیال آتاہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام عمر خون جگر پیتا رہا۔ نام عباس تھا ، پدر بزرگوار کا اسم گرامی حضرت علی بن ابی طالب تھا ، مادر گرامی عرب کے شجاع ترین خاندان کی عفت مآب خاتون حضرت فاطمہ بنت حزام تھیں جن کی کنیت ام البنیینؑ ہوگئی تھی ۔ تذکرہ نگاروں نے تاریخ ولادت میں قدرے اختلاف کیاہے لیکن زیادہ موثق روایت ٤شعبان ٢٦ھ معلوم ہوتی ہے ۔ (١) حضرت عباسؑ کو وراثت اور ماحول دونوں ہی ایثار و قربانی اور تحفظ دین کے جذبوں سے معمور ملا۔ باپ ابوالائمہ ، اشجع عرب حضرت علیؑ تھے ، جن کی ایک ضربت عبادت ثقلین سے افضل ٹھہری ، ایک بھیانک اور لرزہ خیز رات میں بستر رسول پر سو کر مرضی داور خرید لی ، آپ کے مقدس اور ابد آثار کردار کا قرآن کے علامتی کرداروں سے تقابل کیاجائے تو زمین و آسمان کا فرق نظرآ ئے گا ، آدم ، نوح ، ابراہیم ، موسی ، عیسی ، دائود ، سلیمان ، طالوت ... ان کے درمیان حضرت علیؑ یوں نظر آئیں گے جیسے چھوٹے چھوٹے پھولوں میں تازہ گلاب۔ مادر گرامی بنی کلاب کی خاتون ، حزام کی دختر تھیں ، فاطمہ نام تھا ، بڑی نازک اور سنگین آزمائش سے گزریں۔ ابو الائمہ کی شریک حیات بن کے آئیں ، معصومۂ کونین کی جگہ پر کرنے آئیں اور دو معصوموں کی سوتیلی ماں بن کے آئیں، ایسی متوازن سیرت اپنائی کہ سوتیلا پن کا تصور بھولی بسری چیز بن گیا ، جذبۂ خدمت میں وہ خلوص تھا کہ ارمانوں کا تبادلہ ہوگیا ، عباس تو معصومہ کونین کے فرزند بن گئے اور حسنین انہیں ماں کہنے لگے ۔ قرآن میں دعائے حضرت زکریا علیہ السلام کا تذکرہ بڑے دلچسپ پیرائے میں ہے : '' یہ زکریا کے ساتھ تمہارے پروردگار کی مہربانی کا تذکرہ ہے جب انہوںنے اپنے پروردگار کو دھیمی آواز سے پکارا اور عرض کی : پروردگارا ! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے کی آگ سے بھڑک اٹھا ہے ، اور میرے پروردگار ! میں کبھی تیری بارگاہ میں دعا کرکے محروم نہیں رہاہوں ، مجھے اپنے بعد خاندان والوں سے خطرہ ہے اور میری بیوی بانجھ ہے ، تو اب مجھے ایسا جانشین فرزند عطا کردے جو میرا اور یعقوب کی نسل کا وارث ہو اور پروردگار اسے اپنا پسندیدہ بھی قرار دے ''۔ (2) تحفظ دین و شریعت کے سلسلے میں وارث کی تمنا مزاج عصمت سے ہم آہنگ ہے ، حضرت علی نے بھی جنہیں خدا نے دو معصوم فرزند عطا کئے تھے ، اپنے کردار کے مظاہرے کی تمنا میں ایک جانشین فرزندکی خواہش ظاہر کی ، جس طرح حضرت زکریا نے موالی (اشراربنی اسرائیل ) سے اندیشے کا اظہار کیا اسی طرح حضرت علی شریر مسلمانوں کے ریشہ دوانیوں سے سہمے ہوئے تھے ، کربلا کی طرف آپ کی نگاہیں جمی ہوئی تھیں ، آپ نے اپنے ماہر انساب بھائی حضرت عقیل سے اس تمنا کا اظہار فرمایا کہ عصمت و شجاعت کا امتزاج، مثالی پیکر وفا تیار کر سکے ؛ آپ نے فرمایا: ''میں ایک شجاع خاندان کی عورت سے شادی کرنا چاہتاہوں جس سے میری وفا و شجاعت کا آئینہ منصہ شہود پر آسکے اور وہ کربلا میں میری نیابت کرے ''۔(3) حضرت عباس نسل ہاشمی کی آبرو تھے ، اسی لئے قمر بنی ہاشم کہاجاتاہے ۔'' واجعلہ رب رضیا ''کی تفسیر آج بھی مراسم عزا میں نظر آتی ہے ۔ عباس کا علم تعزیہ داری کا جلال آمیز جزو لا ینفک ہے ، پرچم عباس کے بغیر عزائے حسین کا مظاہرہ ادھورا سا لگتاہے ۔ ''کیا تم نے موسی کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں کی حالت پر غور نہیں کیا جب انہوں نے اپنے پیغمبر ( شموئیل ) سے کہا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے تاکہ ہم خدا کی راہ میں جہاد کریں...''۔ سورہ بقرہ کی ٢٤٦۔ ٢٥٢کی ان آیات میں جناب موسی کے بعد بنی اسرائیل کے ایک انتہائی اہم اور نتیجہ خیز واقعہ کو مثالی انداز میں بیان کیاگیاہے ، ان آیات کی تلاوت سے امت محمدی (ص)کو سبق ملتاہے کہ جب قوموں کے مظالم حد سے بڑھ جاتے ہیں تو خداوندعالم ان سے بڑے ظالم کو ان پر مسلط کردیتاہے ۔ بنی اسرائیل جیسے شر پسند بھی اس حقیقت کو جانتے اور مانتے تھے کہ نمائندہ الہی رزم یا بزم کا ہادی خود سے نہیں بنایاجاسکتااس لئے پیغمبر سے خواہش ظاہر کی ، پیغمبر نے فرمایا کہ یہ کام خداکے ذمہ ہے ، خود نبی کے اختیار میں بھی نہیں ہے ۔ الہی نمائندہ مادیات و مالیات کے بجائے معنویات ( علم و شجاعت ) سے آراستہ ہوتاہے اور ثبوت کے لئے خداوندعالم اس کو معجزے سے سرفراز فرماتاہے۔ واقعہ کربلا کو تحفظ غدیر کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو متذکرہ حقائق سے بڑی مددمل سکتی ہے ۔ قرآن میں اس رزم آرائی کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے ، اس کا انتہائی حسین اور حساس ترین گوشہ ایک آیت کے مختصر جزو میں پیش کیاگیاہے: )'' پھر جب طالوت اپنے لشکر کے ساتھ شہر ایلیا سے روانہ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اب خداوندعالم ایک نہر کے ذریعہ تمہارا امتحان لینے والا ہے ، جو اس نہر میں سے پی لے گا وہ مجھ سے نہ ہوگا مگر یہ کہ ایک چلو ہاتھ میں لے لے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند افراد کے سوا سب نے پانی پی لیا''۔(4) معرکہ حق و باطل میں پروردگار عالم کے اس انداز آزمائش کا استعارے کی زبان میں بلیغ و عمیق تجزیہ کیاجاسکتاہے ۔ مفسرین اور ارباب تاویل نے بڑے عرفان انگیز گوشے نکالے ہیں لیکن الفاظ کی منظر نگاری ہمارے تصور کوکشاں کشاں واقعہ کربلا کی طرف موڑ دیتی ہے ، جہاں ایک بہت چھوٹے سے لشکر نے بہت بڑی فوج کا انتہائی استقامت اور صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا ، وہ مختصر لشکر شدید ترین مصائب میں اپنی بے پناہ قوت برداشت کا مظاہرہ کرتارہا ، جنگ میں اسباب کے بجائے خالق اسباب پر بھروسہ کیا ، میدان کارزار میں صرف لقائے الہی کا خیال تھا ، دشمن کاتزک و احتشام ان کی ٹھوکروں میں تھا ، سب سے حساس منظر وہ تھا جب ان کا سردار لشکر نہر پر قبضہ کر کے چلو میں پانی لئے دیر تک تکتا رہا ، پیاسے لشکر کی شہادت ، بھتیجی کی صدائے العطش ..... وفا سے معمور ڈبڈبائی آنکھیں نہ جانے کیاکیا دیکھتی رہیں لیکن یہ ( ِلاَّ مَنْ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِیَدِہِ)'' میری وابستگی اسی سے ہوگی جو ایک چلو پانی ہاتھ میں لے لے'' کی بھرپور تجسیم ضرور تھی ، کہاجاسکتا تھا کہ انتہائی پیاس میں نہر پر قبضہ کر کے پانی نہ پینے کا حکم تکلیف مالا یطاق ہے ۔ حضرت عباسؑ کے نفیس کردار نے اس اعتراض کی تردیدفرمائی ورنہ پیاسی سکینہ کا چچا پانی کو چلو میں لینا تو دورکی بات ہے اس کو چھونا بھی گوارا نہ کرتا۔ سورۂ یوسف کو خدا نے قرآن کا خوبصورت ترین اور سب سے حسین قصہ فرمایاہے: '' ہم آپ کے سامنے ایک بہترین اور سب سے حسین قصہ بیان کررہے ہیں جس کی وحی اس قرآن کے ذریعہ آپ کی طرف کی گئی ہے''۔(5) قرآن کا ہر قصہ حسین اور سبق آموز ہے ....سوال یہ ہے کہ حضرت یوسف کے واقعہ کو سب سے حسین اور وحی الہی سے مخصوص کیوں فرمایاگیاہے ...؟ واضح بات ہے کہ اس میں ایک سوتیلے بھائی کے انتہائی حسین کردار کو موثر پلاٹ کی شکل میں پیش کیاگیاہے ۔ ملا واعظ کاشفی کی صراحت کے مطابق یہ سورہ پیغمبر پر نازل ہی اس لئے ہوا تھا کہ واقعۂ شہادت حسین پر تسکین و تسلی کا مواد فراہم کرسکے ۔ حضرت یوسف کے خوبصورت کردار سے حضرت عباسؑ کی حسین سیرت کا تقابل بڑا ہی معرفت خیز ہوگا ۔ فرق یہ ہے کہ یوسف نے اپنے ظالم اور خطا کار سوتیلے بھائیوں کے مقابل بلند سیرت کا مظاہرہ کیا اور حضرت عباس نے اپنے مظلوم اور معصوم سوتیلے بھائی کی خدمت میں بلند کرداری ، ایثار و قربانی ، وفا اور جاںنثاری کا نذرانہ پیش کیا ، حضرت یوسف نے بھائیوں کو عفو و بخشش اور داد و دہش فرمائی ، پھر اس کے بعد دعا کی : '' میرا انجام فرمانبرداری پر ہو اور مجھے صالحین میں سے قرار دے ''۔(6) جس کا مطلب یہ ہے کہ کردار کی صالحیت کا ان سے اعلی تر نمونہ ممکن ہے اور ایسے افراد بہر حال پائے جاتے سکتے ہیں جو اس سے بھی بلند تر نمونۂ کردار پیش کرسکیں ۔ اخوت کے مظاہرے کا وہ پیرائیہ بیان جہاں اگر تذکرے میں بھائیوں کی شکایت ناگزیر ہوجائے تو آسائش کو الطاف خداوندی اور پریشانیوں کو شیطان کی کارستانی بتایا جائے کہ خطاکار سوتیلے بھائیوں کو ذرا بھی احساس شرمندگی سے دوچار نہ ہونا پڑے ، بلاشبہ یہ عظیم ترین مثالی کردار ہے ۔ '' اور خدا نے میرے ساتھ احسان فرمایا کہ مجھے قید خانہ سے نکالا اور اب لوگوں کو دیہی زندگی سے نکال کر شہری فضا میں پہنچایا جب کہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد پیدا کرچکا ہے ''۔(7) برادران یوسف نے اپنے معصوم بھائی سے زندگی کی بھیک مانگی تھی : '' اے عزیز ! ہم اور ہمارے گھر والے بڑی اذیت اور تکلیف میں بسرکر رہے ہیں اور ہم حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں ، آپ ہمیں پورا غلہ دے دیں اور ہم پر احسان فرمائیں ،بے شک خداوندعالم صدقہ دینے والوں کو جزائے خیر دیتاہے''۔(8) حضرت عباسؑ نے اہل حرم کی انتہائی اذیت اور تکلیف دیکھ کر امام حسین سے موت کی اجازت طلب کی کہ یہ دین اور امامت کے تحفظ کے لئے عظیم ترین کارنامہ تھا ، حضرت عباسؑ کے نفیس ترین کردار نے امامت سے اپنا قصیدہ پڑھوایا ، امام حسین نے اپنے کو جسد عباس پر والہانہ گرا کر فرمایا: اخی یا نور عینی یا شقیقی ، فلی قد کنت کالرکن الوثیق ''ہائے میرے بھائی ، میری آنکھوں کے نور ، میرے کردار کا لازمی حصہ ! تم تو میرے لئے ایک اعتماد سے بھرپور ستون کی طرح تھے ''۔
حوالہ جات : ١۔اعیان الشیعہ ج٧ ص ٤٢٩ 2۔مریم ٢۔٦ 3۔الخصال ج١ ص ٣٥ 4۔بقرہ ٢٤٩ 5۔قصص٣ 6۔یوسف ١٠١ 7۔یوسف ١٠٠ 8۔یوسف ٨٨
|
مقالات کی طرف جائیے |
|