مقالات

 

آیۂ تطہیر اور اس کے اہم ترین نکات

شعور ولایت فاؤنڈیشن

پیغمبراکرم(ص)نے مختلف مقامات پرلوگوں کے سامنے آیۂ تطہیر کی تلاوت فرمائی ہے ، یہ آیۂ کریمہ ٢٤ ذی الحجہ کو نازل ہوئی ،یہ آیت معارف اہل بیت کا سر چشمہ ہے ، خدانے اس آیت کو چند آیتوں کے درمیان قراردیا ہے تاکہ اس آیۂ کریمہ سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جاسکے ، سورۂ احزاب میں خدا فرماتاہے: (اِنَّمایُرِیدُ اللہَ لِیُذْہِبُ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطہِّرَکُمْ تَطْہِیْرا)۔
اس آیت میں کلمۂ ''انّما ''حصر ہے جو ارادۂ الٰہی کے منحصر ہونے پر دلالت کرتا ہے اور اسی طرح اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اس آیت میں مذکورہ طہارت، اہل بیت اطہار میں منحصر ہے ،خدا نے یہ ارادہ کیا ہے کہ تمام انسان پاک رہیں اور پاکیزگی ہی کی حالت میں دنیا سے جائیں، اس ارادہ کو ارادۂ تشریعی کہا جاتا ہے لیکن اہل بیت اطہار کے بارے میں جو ارادہ ہے وہ ارادۂ تشریعی نہیں ہے بلکہ ارادۂ تکوینی کی قسموں میں سے ایک قسم ہے ، یعنی خدا کا یہ فرمانا کہ ''خدا نے ارادہ کیا ہے''اس بات کی دلیل ہے کہ یہ طہارت عطیہ الٰہی ہے اکتسابی نہیں ہے ،امام رضا علیہ السلام نے بھی اس سلسلے میں یوں فرمایا ہے:من غیر اکتساب'' ہم نے اس طہارت کو حاصل نہیں کیا ہے بلکہ خدا نے ہمیں عطا کیا ہے'' ۔
دوسرا نکتہ : ''لیذہب ''کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے نجاستوں کو اہل بیت سے دفع کیا ہے رفع نہیں کیا ہے (یعنی اہل بیت سے نجاستوں کو دوور رکھا ہے دور کیا نہیں ہے )کیوں کہ نجاستیں کبھی بھی اہل بیت کے نزدیک بھی نہیں آئیں نجاستوں میں ملوث ہونا تو دور کی بات ہے ،اہل بیت ہمیشہ سے پاک تھے ۔
''الرجس''کا الف ولام چاہے استغراق پر دلالت کرتا ہو یا جنس پر ،اس رجس میں تمام نجاستیں شامل ہیں اور جب تمام رجس دور ہوگئے توعصمت مطلقہ حاصل ہوگئی ۔
''کُم ''کی ضمیر کے بعد لفظ ''اہل البیت ''کا لانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ حکم صرف اور صرف اہل بیت اطہار سے مخصوص ہے اور دوسرا کوئی بھی اس آیت کے حکم میں شامل نہیں ہے ،اور روایتوں میں آیا ہے کہ اہل بیت سے مراد چودہ معصوم ہیں ۔
پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:یا علی ھذہ الآیة نزلت فیک و فی سبطی والائمة من ولدک''اے علی !یہ آیت تمہاری شان میں ،میرے نواسوں کی شان میں اور تمہاری نسل کے ائمہ کی شان میں نازل ہوئی ہے'' ۔(١)
اس آیت میں ''یرید ، لیذھب،یطھّر''سب کے سب فعل مضارع ہیں جو خدا وندعالم کے اس ارادہ اور اس کی طرف سے عطا کردہ اہل بیت علیہم السلام کی طہارت کے استمرار و دوام پر دلالت کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ ''اذہاب رجس''(رجس کو دور رکھنا)کے بعد''یطہّرکم'' کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس تطہیر کا مرتبہ ''اذہاب رجس ''والی تطہیر سے بلند ہے ، اورآخر میں لفظ ''تطہیراً''کا استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ اہل بیت اطہار کو خدا کی طرف سے ایسی طہارت مطلقہ حاصل ہے جو مافوق اذہان بشر ہے ۔ (اصل یہ ہے کہ ہر لفظ اپنا مخصوص معنی رکھتا ہے مگر یہ کہ اس کے خلاف کوئی دلیل موجود ہویعنی کوئی دلیل ہو جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ یہ لفظ اپنے مخصوص معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے )۔

آیۂ تطہیر کے ذریعہ مذہب امامیہ کے عقائد کا اثبات
١۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اہل بیت دوسروں سے افضل ہیں۔
٢۔ اس آیۂ کریمہ کے ذریعہ جو عصمت ثابت ہوتی ہے اس کا مرتبہ انبیاء اور اولیاء کی عصمتوں سے بلند ہے ۔
٣۔ روایتوں میں ''رجس ''کی تفسیر جہل سے کی گئی ہے لہٰذا جب خدا وندعالم نے تمام کے تمام جہل کو اہل بیت سے دور رکھا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل بیت علم مطلق کے حامل ہیں ۔
٤۔ اس آیۂ کریمہ کو خداوندعالم نے ازواج پیغمبر کے وظائف کو بیان کرنے والی آیات کے بیچ میں قرار دے کر ازواج کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تم لوگ جس گھر میں آئی ہو وہ ایک پاک و پاکیزہ گھر ہے لہٰذا ہوشیار رہنا کہیں کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوجائے جس سے اس گھر کی قداست پر حرف آئے۔
٥۔ پیغمبر اکرم اور اہل بیت اطہار علیہم السلام بشر ہیں مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ان میں اور دوسرے انسانوں میں فرق ہے بالکل اسی طرح جیسے حضرت عیسیٰ بشر ہیں مگر بغیر باپ کے پیدا ہوئے ،حضرت موسیٰ بشر ہیں مگر چالیس دنوں تک بغیردانہ و پانی کے زندہ رہے اور عبادت خدا کرتے رہے ،حضرت خضر بشر ہیں مگر آج تک زندہ ہیں ، حضرت یونس بھی بشر ہیں مگر مدتوں مچھلی کے پیٹ میں سمندر کی گہرائی میں عبادت خدا کرتے رہے ،حضرت عیسیٰ بھی بشر ہیں جو ان آسمانوں میں زندہ ہیں جہاں ہوا نہیں ہے لہٰذا بنی انوع انسان سے انبیائے کرام کا افتراق ناقابل انکار نہیں ہے ۔
٦۔ فرق یہ ہے :پیغمبر اکرم(ص) کا لعاب دہن معجز نما ہے اگر اندھے کنویں میں گر جاتا تھا تو وہ کنواں پانی سے بھر جاتا تھا اور جنگ خیبر میں مولائے کائنات کی آنکھیں آشوب میں مبتلا ہوئی تھیں پر جیسے ہی آنحضرت(ص) کا لعاب دہن لگایا گیا شفایاب ہوگئیں ۔ حضرت علی و حضرت فاطمہ زہرا علیہما السلام کی شادی کے وقت پیغمبراکرم(ص) نے ایک برتن میں اپنا کچھ لعاب دہن رکھا اور علی و فاطمہ علیہما السلام سے فرمایاکہ اس میں سے تھوڑا تھوڑا پی لو اور باقی اپنے بدن پر چھڑک لو ۔(2)
٧ ۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام کا بدن مرنے کے بعد بھی پاک ہے ،حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا حضرت علی علیہ السلام سے یہ وصیت کرنا کہ مجھے میرے لباس کے اوپر ہی سے غسل دینا:فانّی طاہرة مطہّرة''کیوں کہ میں پاک و پاکیزہ ہوں'' ۔اس بات کی دلیل ہے کہ مرنے کے بعد بھی ان حضرات کا جسم مبارک پاک ہے ۔(3)
٨۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام پاک و پاکیزہ دنیا میں آتے ہیں:اللہ تبارک و تعالیٰ قد نظّفہ و طہّرہ''خدا ئے متعال نے انھیں پاک و پاکیزہ قرار دیا ہے ، اور اس کے علاوہ ہر حال میں پاک و پاکیزہ ہیں''۔ابنتی طاہرة مطہّرة''میری بیٹی پاک وپاکیزہ ہے'' ۔(4)
رسول خدا(ص)نے یہ بھی فرمایاہے :''اس مسجد میں کسی کے لئے مجنب ہونا حلال نہیں ہے سوائے میرے ، علی ، فاطمہ اور حسن و حسین اور ان لوگوں کے جو میرے اہل ہیں کیوں کہ یہ سب کے سب مجھ سے ہیں ۔(5)
٩۔ ایک روایت میں ہے : ''رجس''کے معنی شک کے ہیں لہٰذا خدا نے شک کو اہل بیت سے دور رکھا ہے ۔(6)
١٠۔اہل بیت اطہار علیہم السلام جس سر زمین میں دفن ہوجاتے ہیں ان کے مقدس اجسام اس زمین کو پاک کردیتے ہیں؛طبتم و طابت الارض التی فیھا دفنتم''۔آپ حضرات بھی پاک ہیں اور آپ کی برکت سے وہ زمین بھی پاک ہوگئی جہاں آپ دفن کئے گئے'' ۔(7)
١١۔آپ حضرات دریائے ولایت و طہارت ہیں اگر کوئی گنہگار آپ حضرات کی زیارت کو جاتا ہے تو ملائکہ آواز دیتے ہیں:طبت وطاب من زرت''تم نے خود کو پاک کرلیا ،تمہیں اسی نے پاک کیا ہے جس کی تم نے زیارت کی ہے''۔(8)
١٢۔وہ حضرات کبھی بھی قرآن سے جدا نہیں ہوں گے:''انھما لا یفترقان''۔(9) اور دوسری طرف قرآن کا یہ ارشاد ہے (لا یمسّہ الا المطہّرون)اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اور صرف اہل بیت اطہار نے قرآن کی حقیقت کو سمجھا ہے لہذا حقیقی مفسر قرآن بھی یہی ہیں۔
ماخوذ از : انوار غدیر ؛ ترجمہ: شعور ولایت فاؤنڈیشن

حوالہ جات
١۔تفسیر البرہان ،ج٤،ص٤٤٤
2۔بحار الانوار ،ج٤٣،ص١٢٣۔ج٣٩،ص١١
3۔بحار الانوار ، ج٤٣ ،ص ١٧٩
4۔احقاق الحق ،ج١،ص٣١١
5۔بحار الانوار ،ج٣٩،ص٢٠
6۔بحار الانوار،ج٢٣،ص٢٠٣
7۔بحار الانوار ،ج١٠١،ص٢٠١
8۔بحار الانوار ،ج١٠١،ص١٩
9۔اصول کافی ،ج٢،ص٤١٥
مقالات کی طرف جائیے