|
دشمن غدیر پر خدا کا عذاب |
شعور ولایت فاؤنڈیشن |
(سَئلَ سَائِل بِعَذَابٍ وَاقِع)۔(١) میدان غدیر میں پیغمبراکرم(ص) نے لوگوں سے بیعت لینے کے بعد دوبارہ امیرا لمومنین ؑ کے فضائل و مناقب کو بیان کرنا شروع کیاجسے سن کر بعض منافقین بھڑک اٹھے ،حارث بن نعمان فہری نامی شخص نے تو پیغمبر اکرم (ص) کے سامنے اکڑنا شروع کردیا اور کہا :جب آپ خود اللہ کے رسول ہوگئے، علی آپ کے جانشین ہوگئے،آپ کی بیٹی فاطمہ دنیا کی بہترین عورت ہوگئیں ، حسن وحسین(علیہما السلام) اہل قریش کے جوانوں کے سردار ہوگئے تو پھر قریش کے لئے کیا رہ گیا؟ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:یہ سب خدا کے حکم سے ہوا ہے میری خواہش سے نہیں ۔ حارث نے دوبارہ کہنا شروع کیا:آپ نے کہا کہ ''لاالہ الااللہ ''کہو ،ہم نے کہا،ہم سے اپنی نبوت کا اقرار لیا ،ہم نے اس کا بھی اقرار کیا ۔کہا : نماز ،روزہ ، حج اور زکات بجا لائو،ہم نے وہ سب کیا،لیکن آپ نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ اب اپنے چچا کے بیٹے(علی)کو ہمارے سروں پر مسلط کررہے ہیں ؟یہ خود آپ کی طرف سے ہے یااللہ کی جانب سے۔ اگر چہ یہ حکم رسول خدا (ص) کی طرف سے بھی ہوتا تو کوئی مشکل نہیں تھی کیونکہ اللہ نے فرمایاہے:(وماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی)۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:خدا کی قسم !یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے ۔ حارث نے کچھ کفر آمیز باتیں کہیں ،نبی (ص) نے اسے اللہ سے ڈرایااور توبہ کی دعوت دی ،لیکن حارث نے اپنے سر کو آسمان کی جانب اٹھایا اور کہا:یااللہ! اگر محمد سچ کہہ رہے ہیں تو مجھ پر پتھر نازل کر دے اور اگر (معاذ اللہ)محمد جھوٹ کہہ رہے ہیں تو ان پر عذاب نازل کر۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اس سے کہا:یا تو بہ کر لے یا میرے پاس سے چلا جا۔ اس نے جواب دیا :ایک تیسرا راستہ بھی ہے کہ آپ خلافت میں قریش کے لئے ایک حصہ قرار دے دیں ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے جواب دیا:یہ کام ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ حارث نے بھی کہا :میں توبہ تونہیں کرسکتا ہوں،ہاں آپ کے پاس سے چلا جاتا ہوں۔ حارث اٹھا اور چلا گیا ،جیسے ہی حارث پیغمبر (ص) سے دورہوا ،ایک پرندہ آسمان میں ظاہر ہوا اور اس نے ایک سنگریزہ حارث پر پھینکا،سنگریزہ حارث کے سر پر گرا اور نیچے سے خارج ہوگیا اور ایک بجلی چمکی جس نے حارث کے بدن کو جلا دیاپھریہ آیت نازل ہوئی: (سََلَ سَائِل بِعَذَابٍ وَاقِع)۔ قابل غور با ت یہ ہے کہ حارث جب تک پیغمبر (ص) کے پاس تھا عذاب نازل نہیں ہوا، چونکہ اللہ نے فرمایا ہے:( وَمَا کَانَ اﷲُ لِیُعَذِّبَہُمْ وََنْتَ فِیہِمْ)''یعنی پیغمبر اکرم (ص) کا وجود مبارک عذاب کو نازل نہیں ہونے دیتا'' ۔(2)
آیۂ کریمہ سے شیعی عقائد کی حقانیت پر استدلال ١۔اس واقعہ میں یہ بات واضح طور سے بیان کی گئی ہے کہ ''امامت ''ایک ایسا منصب ہے جو خداوندعالم کی طرف سے ہے جس میں لوگوں کو بلکہ رسول اکرم کو بھی کوئی اختیار نہیں ہے ۔ ٢۔ رسول اکرم(ص) اور اہل بیت کرام (علیہم السلام )کا وجودعذاب الٰہی میں مانع ہوتاہے ، جو شخص بھی ان ذوات مقدسہ سے متصل ہوجائے عذاب الٰہی سے محفوظ ہوجائے گا پیغمبر (ص)نے فرمایا :مثل اھل بیتی کمثل سفینة نوح من رکبھا نجیٰ ومن تخلف عنھا غرق''ہمارے اہل بیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہے جو اس پر سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جس نے مخالفت کی (اور سوار نہ ہوا)وہ غرق اور ہلاک ہوگیا''۔ ٣۔جس نے بھی امیرالمومنین کی ولایت کو قبول نہیں کیا گویا اس نے پیغمبر اکرم (ص) کے قول کی حقانیت اور صداقت کو قبول نہیں کیا اور پیغمبر اکرم (ص) کا منکر کافر ہے؛(لِلْکَافِرینَ لَیْسَ لَہُ دَافِع )۔(3) ٤۔حارث کا تقاضا ایک طرح سے مباہلہ ہی تھااور اللہ نے جس طرح سے آیہ مباہلہ میں پیغمبر (ص)اور اہل بیت کی حقانیت کو ثابت کیا یہاں پربھی پیغمبر (ص)کی حقانیت اور صداقت کو ثابت کیا ۔ ٥۔واقعہ غدیر اتنی اہمیت کا حامل تھا کہ بعض لوگوں کے لئے عظیم معجزے کی ضرورت ہوئی اور یہ معجزہ ابرہہ کے لشکر والے معجزے کے مانند وقوع پذیر ہوا اور لوگوں کے درمیان مشہور ہوگیا۔ ٦۔یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اصحاب کے درمیان منافقین بھی تھے لہٰذا تمام صحابہ عادل نہیں ہیں ۔ ٧۔یہ نعمان بن حارث کا ماجرا اور صحابہ کا اعتراض کرنا ،خطبہ غدیر کے اس جملہ کی حقانیت کو ثابت کررہا ہے جس میں نبی (ص) نے فرمایا:''میں یہ جانتا ہوں کہ تمہارے درمیان مومنین کم اور منافقین زیادہ ہیں ۔نیز اس جملے سے ایک روایت کی تفہیم بھی آسان ہوگئی جس میں کہاگیاہے :ارتد الناس بعد رسول اللہ الا ثلاثہ او سبعة''رسول کے بعد سوائے تین یا سات افراد کے سب کے سب مرتد ہوگئے ''۔ ٨۔آیۂ مباہلہ کے مطابق حضرت علی کا انکار پیغمبر (ص)کے انکار کے متراف ہے ،اس لئے کہ حضرت کو نفس رسول کہاگیاہے اس لئے واقعہ میں حارث منکر پیغمبر (ص) تھا۔ ٩۔قرآن کا فرمان ہے :(وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا)''پیغمبر (ص) جس چیز کا تمہیں حکم دیں اس پر عمل کرو اور جس چیز سے منع کریں اس سے پرہیز کرو''۔(4) اس آیت میںکلمہ ''خذوہ''امر ہے جو وجوب پر دلالت کرتا ہے یعنی واجب ہے (کہ امر نبوی پر عمل کریں )بعض افراد کا دعویٰ ہے کہ وہی فرمان نبی اور سنت پر عمل کرتےہیں اور خود کو'' سنی ''کہتے ہیں ،جبکہ بعد پیغمبر جس گروہ نے فرمان نبی کی اطاعت کی وہ شیعہ ہی تھے ۔ ١٠۔خداوندعالم کا ارشاد ہے :(وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی ٭ِنْ ہُوَ ِلاَّ وَحْی یُوحَی)''یعنی اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے ،اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے''۔ (5) لیکن منافقین پیغمبر اکرم کی حیات کے آخری دنوں تک یہی سوال کرتے نظر آئے کہ یہ مطلب اللہ کی جانب سے ہے یا خود آپ کی طرف سے ۔ ایسا سوال کرنے والوں میں عمر بن خطاب بھی ہیں جنہوں نے سوال کیا: یا رسول اللہ ھذا من اللہ او من رسولہ۔(6) ١١۔جس نے علی ابن ابی طالب کا انکار کیا گویا اس نے پیغمبر (ص)کاا نکار کیا اور جس نے پیغمبر (ص) کا انکار کیا گویا اس نے خداوند متعال کا انکا ر کیا ۔ ١٢۔جو شخص علی بن ابی طالب کی ولایت سے خارج ہوگیا وہ اللہ کی ولایت سے خارج ہوگیا کیونکہ ارشاد ہے :ولایة علی ولایة اللہ ۔ ١٣۔حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :ولایة علی بن ابی طالب حصنی فمن دخل حصنیی امن من عذابی''علی کی ولایت میرا قلعہ ہے جو اس میں داخل ہوگیا وہ ہمارے عذاب سے محفوظ ہوگیا''۔ (7) حارث اللہ کے قلعہ (ولایت علی )میں داخل نہیں ہوا اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگیا ۔ (چھوٹی باتوں اور چھوٹے گناہوں پر عذاب نازل نہیں ہوتا،لہٰذا یہ ولایت کا مسئلہ بہت ہی اہم اور ہدایت کے ارکان میں شمار ہوتا ہے )۔ ماخوذ از :انوار غدیر ؛ ترجمہ شعور ولایت فاؤنڈیشن
حوالہ جات ١۔سورہ معارج/١ 2۔سورہ انفال آ٣٣ 3۔سورہ معارج٢ 4۔سورہ حشر٧ 5۔سورہ،نجم٣ 6۔توحید صدوق ص٢٥ 7۔تفسیر قمی ج١ص١٧٤
|
مقالات کی طرف جائیے |
|