|
امام حسین علیہ السلام کی خوش مزاجی |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
خوش مزاجی انسان کے باوقار جذبات اور شریف ترین احساسات کی ترجمانی کرتی ہے ، یہ داخلی توانائیوں پر صیقل کرتی ہے اور پوشیدہ صلاحیتوں کو نمایاں کرتی ہے ۔ خوش مزاجی ماحول میں نفرت کے بجائے محبت و انسیت کی ایک ایسی فضا تیار کرتی ہے جس سے مردہ قلوب زندہ ہوجاتے ہیں ، خوش مزاج انسان اگر خاموش رہتاہے تو اس کے چہرے سے زندگی کی خوشبو پھوٹتی ہے اور بولتاہے تو فضا میں تبسم کے پھول بکھر جاتے ہیں ۔ یہ ایسی عبادت ہے جس سے خدا بھی خوش ہوتاہے اور بندے بھی خوش ہوتے ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: من ادخل السرور علی اخیہ المومن فقد ادخل السرور علینا اھل البیت و من ادخل السرور علینا اھل البیت فقد ادخل السرور علی رسول اللہ و من ادخل السرور علی رسول اللہ فقد سر اللہ و من سر اللہ کان حقا علی اللہ ان یسرہ و ان یسکنہ جنتہ ''جس نے اپنے مومن بھائی کو خوشحال کیا اس نے ہم اہل بیت کو خوش کیا اور جس نے ہم اہل بیت کو خوش کیا اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کو خوش کیا اور جس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کو خوش کیا اس نے خدا کو خوشحال کیا اور جو خدا وندعالم کو خوشحال کرتاہے تو خدا پر اس کا حق یہ ہے کہ اسے خوشحال کرے اور اسے جنت میں سکونت دے دے''۔(١) علمائے اخلاق کی تصریحات کے مطابق قہقہہ مذموم ہے جو ہزلہ گوئی اور استہزا کا نتیجہ ہے لیکن مزاح اور تبسم جو خوش مزاجی کا موجب ہے ، مستحسن ہے ۔ بظاہر قہقہہ اور تبسم میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن اگر غائر نظر سے تجزیہ کیاجائے تو نتائج کے اعتبار سے دونوں میں بڑا فرق نظر آئے گا ، قہقہہ زیادہ تر استہزا تک منتج ہوتاہے ، یہ اکثر حیا کے تقاضوں سے متجاوز ہوجاتاہے اور ماحول میں سوقیانہ پن ابھار دیتاہے لیکن تبسم ، خوش مزاجی کا لازمہ ہے ، اس کا مقصد ماحول میں زندگی کی لہر دوڑانا ، باہمی تعاون کا جذبہ پیداکرنا اور تعمیری صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہوتاہے ، اگر خوش مزاجی میں استہزا کا عنصر آجائے تو اس سے ماحول میں غم و غصہ اور نفرت و عناد پیدا ہوجاتاہے اور اکثر اس سے نشانۂ استہزاء کی تعمیری صلاحیتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ قرآن کی روشنی میں خوش مزاجی انبیاء کی نمایاں صفت رہی ہے ، حضرت سلیمان کی سیرت میں ہے کہ ایک دن صحرا کی طرف اپنے لشکر کے ساتھ جارہے تھے ، ایک چیونٹی اپنے ساتھیوں سے بولی کہ اپنے سوراخوں میں داخل ہوجائو ، ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں روند ڈالے اور انہیں اس کی خبر بھی نہ ہو ؛(فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِنْ قَوْلِہَا)'' اس کی بات پر حضرت سلیمان مسکرا کر ہنس پڑے ''۔(٢) ظاہر ہے کہ سلیمان نبی تھے ان سے کسی غلطی کا امکان ہی نہ تھا ، چیونٹی کی یہ بات سراسر نادانی و حماقت پرمبنی تھی ۔ یہ ضحک یا تبسم مظاہراتی اعتبار سے جس قدر کم ہو بہتر ہے ، خود قرآن کا حکم ہے:( فَلْیَضْحَکُوا قَلِیلًا وَلْیَبْکُوا کَثِیرًا)۔(٣)بظاہر قرآن میں کم ہنسنے کی تاکید اس لئے ہے کہ ممکن ہے زیادہ ہنسی کی عادت انسان میں ہزلہ گوئی ، استہزا اورمسخرہ پن کی حدوں تک پہونچادے۔ خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے متعلق ارباب سیرت نے خوش مزاجی کی واضح طریقے سے نشاندہی کی ہے اور بہت سے تبسم آفریں واقعات تحریر کئے ہیں۔ حضرت علی کی سیرت میں تو خوش مزاجی کا عنصر اس قدر غالب تھا کہ دشمنوں نے اس کے ذریعہ آپ پر الزام دھرنا شروع کردیا تھا ، آپ نے اس کی تردید میں فرمایا : عجبا لابن النابغة یزعم لاھل الشام ان فی دعابة ...قال باطلا و نطق آثما'' نابغہ کے بیٹے پر حیرت ہے کہ وہ میرے بارے میں اہل شام سے کہتا پھرتا ہے کہ مجھ میں مسخرہ پن پایا جاتا ہے اور میں کھیل کود اور تفریح میں پڑا رہتا ہوں ، اس نے غلط کہا اور کہہ کر گنہگار ہوا ''۔ اگر عمرو عاص نے حضرت کی خوش مزاجی کا اعلان کیا ہوتا تو آپ کبھی اس کی تردید نہ فرماتے بلکہ فخر کرتے کیونکہ خوش مزاجی تو انبیاء کا شیوہ رہاہے ۔ عمرو عاص نے حضرت کے مسخرہ پن ، ہزلہ گوئی اور استہزاء کا اعلان کیاتھا جو اخلاقی اعتبار سے مذموم ہے اس لئے آپ نے تردید فرمائی۔ خوش مزاجی اہل جنت کی سوغات ہے ، قرآن میں جنت والوں کی صفت تبسم ، خوش مزاجی اور دمکتا چہرہ بتائی گئی ہے :(وُجُوہ یَوْمَئِذٍ مُسْفِرَة ، ضَاحِکَة مُسْتَبْشِرَة )'' کچھ چہرے اس دن دمک رہے ہوں گے ، ہشاش بشاش ہوں گے '' ۔(٤) امام حسین علیہ السلام جوانان جنت کے سردار تھے ،آپ کی سیرت اور نفسیات میں جنتیوں کے مظاہرات کا ہونا ایک عقلی مناسبت معلوم ہوتی ہے لیکن کربلا کے دلگداز واقعہ کی وجہ سے ہماری فطرت کی افتاد کچھ یوں ہوگئی ہے کہ امام حسین کا خیال آتے ہی ذہن و قلب پر غم و الم کے بادل چھا جاتے ہیں اور آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش شروع ہوجاتی ہے ۔ ہم نے لفظ حسین کو ''کرب و بلا '' کا مرادف سمجھ لیاہے ، یہ ہمارا شعار ہے اور سرمایہ افتخار بھی ۔ادھر ہمارے لبوں پر نام حسین آیا اور ادھر تصورات میں محرومی ، ناکامی ، بے چارگی اور مظلومیت کا پورا لشکر مسلط ہوگیا ، کبھی ہم نے اس رخ سے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ حسین کی مظلومیت یا مجبوری اختیاری تھی ،ہمیں اس رخ سے بھی سوچنا چاہئے کہ ان کی مظلومیت سے ان کے اقتدار و اختیارات کی نفی نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے امام حسین علیہ السلام کی سیرت میں صرف غم پر مبنی واقعات ہی پر توجہ دینا اپنی عادت بنالی ہے ، سیرت کے ان نقوش کو جو آپ کی خوش مزاجی کی نشاندہی کرتے ہیں ، ہم نے نظر انداز کردیاہے ۔ خوش مزاجی ایسی صفت ہے جو تمام کمالات نفسانیہ کا جوہر کہی جاسکتی ہے ، یہ شریف ترین صفات کا زیور ہے ، اگر امام حسین کے واقعات سیرت میں خوش مزاجی کا عنصر نمایاں کیاجائے تو اس سے اسوۂ حسنہ کی طرف ہماری دلچسپی بڑھ سکتی ہے ،اسے اپنانے کی ہماری للک زیادہ ہوگی ۔ مزاج کی فطری شادابی چھوٹے چھوٹے مسرت انگیز واقعات کو بھی عظمت عطا کردیتی ہے ؛ انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک کنیز نے آپ کی خدمت میں پھولوں کا ایک گلدستہ پیش کیا ،آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا : جا !میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کیا ۔ انس کہتے ہیں کہ میں نے حیرت سے پوچھا : اس نے آپ کی خدمت میں پھولوں کا حقیر گلدستہ پیش کیاتھا ، اس کی اتنی اہمیت کہاں تھی کہ آپ نے اسے آزاد کردیا ۔ امام نے فرمایا:کذا ادبنا اللہ اذ قال اذا حیتم بتحیة فحیوا باحسن منھا فکان احسن منھا عتقھا'' ہم اہل بیت کو خدا نے ایسا ہی ادب سکھایاہے ، اس کا ارشاد ہے کہ جب کوئی تمہارے پاس تحفہ لائے تو تم اس کے بدلے میں اس سے بہتر تحفہ دو ۔ میری نظر میں اس سے بہتر تحفہ اس کو ازاد کردینا تھا ''۔(٥) خوش مزانی نفسیاتی توازن کا باعث اور بلند ترین اخلاق کی مورث ہے ، دیکھتے دیکھتے مظاہرۂ نفرت کے بھڑکتے شعلوں کو سبزہ و گلزار بنادیتی ہے ۔ایک دفعہ آپ مدینہ سے باہر اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف لئے جارہے تھے ، ایک بدو نے اشتعال انگیز انداز میں پوچھا: یہ کون ہے ؟ پھر حقارت سے بولا : اس کے سرپر رسول کا عمامہ ہے ، بدن پر رسول ہی کا پیراہن ہے اور کمر میں رسول کی تلوار ہے ؟ لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ فرزند رسول حسین بن علی علیہما السلام ہیں ۔ وہ آپ کے سامنے آیا اور آپ کی شان میں مغلظات بکنے لگا ۔ امام اس کے سوالیہ فقروں اور تحقیر آمیز حرکتوں پر مسکرانے لگے ، اس وقت آپ کے ساتھ چار سو اصحاب تھے ، سبھی مشتعل ہوگئے اور اسے قتل کرنا چاہا ۔ امام نے سب کو منع فرمایا اور اس دیہاتی کی طرف متوجہ ہوئے : میرے بھائی !اگر تمہارے اوپر جنگل کی خشکی نے اثر کیاہے تو میرے گھر چلو وہاں آرام سے کھاؤ پیو موج کرو ، میں تمہارا بہترین علاج بھی کرادوں گا اور اگر تمہاری بیوی نے پریشان کیاہے تو مجھ سے روپیہ لے کر اسے دے دو ، وہ رام ہوجائے گی ۔ آپ اس سے بہت دیر تک نرم اور تبسم آفریں باتیں کرتے رہے حالانکہ آپ کے اصحاب برابر مطالبہ کررہے تھے کہ اجازت ہو تو اسے قتل کردیاجائے ۔ آپ نے اصحاب سے فرمایا : ہم وہ پہاڑ ہیں جسے تند ہوائیں جنبش نہیں دے سکتیں ۔(٦) اگر سخاوت کا نفسیاتی تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دینے والا ہاتھ اپنی بالادستی کی وجہ سے فخر و غرور سے سرشار ہوتاہے اور لینے والا ہاتھ اپنی پستی کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ۔ کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ بلا استحقاق لے رہاہے اور سوال کرکے حاصل کررہاہے ، اگر سائل کے ذہن سے بلا استحقاق کا تصور ختم کردیا جائے اور سوال کا عار اور ذہنی بے چارگی کا خیال مٹادیا جائے تو یہ معطی کے حسن عطا اور انفاق فی سبیل اللہ کا حسین اور مکمل ترین نمونہ ہوگا ۔ امام حسین نے سخاوت کو بھی اپنی خوش مزاجی سے نہ صرف یہ کہ منفرد شکل دی ہے بلکہ دانش و عرفان کا ذوق بیدار کیاہے ۔ایک اعرابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ!میں نے ایک دیت کاذ مہ لے لیاہے اور اس کی ادائیگی پر قادر نہیں ہوں ، آپ اہل بیت کی گرامی ترین فرد ہیں ، آپ کا خاندان تمام کائنات میں منتخب ہے ، سخی کا دربار ہے ...۔ آپ نے فرمایا: میرے بھائی !میں تجھ سے تین سوالات کرتاہوں اگر ایک سوال کا جواب دیا تو تہائی ، دو کا جواب دیاتو دو تہائی اور اگر تینوں سوالوں کا جواب دیدیا تو تیرے تمام مطالبات پورے کردوں گا ۔ اعرابی گھبراگیا: آپ راسخون فی العلم ہیں آپ کے سوالوں کا جواب کیادے سکوںگا۔ آپ نے فرمایا : میں نے جد امجد حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ سے سنا ہے ، وہ فرماتے تھے کہ احسان بقدر معرفت کرنا چاہئے ۔ کہنے لگا : سوال کیجئے ، اگر معلوم ہوا تو بتادوں گا ورنہ آپ ہی سے پوچھ لوں گا ۔ حضرت نے پوچھا: ای الاعمال افضل '' کون سا عمل سب سے بہتر ہے ''۔ اعرابی نے جواب دیا: الایمان باللہ '' اللہ پر ایمان ''۔ امام : کس چیز سے انسان ہلاکت سے نجات پاسکتاہے ؟ اعرابی : خدا پر اعتماد سے ۔ امام : انسان کی زینت کس چیز میں ہے ؟ اعرابی : علم کے ساتھ بردباری میں ۔ امام : اگر یہ نہ ہو؟ اعرابی : دولت ہو مروت کے ساتھ ۔ امام : اگر یہ بھی نہ ہو؟ اعرابی : فقر ہو صبر کے ساتھ ۔ امام : اگر یہ بھی نہ ہو تو؟ اعرابی : تو پھر اس پر آسمان سے بجلی گر پڑے اور اسے جلا کر بھسم کردے کیونکہ وہ اس کا مستحق ہے ۔ امام نے تبسم فرمایا اور ایک ہزار درہموں کی تھیلی اس کے سامنے رکھ دی اور ایک انگوٹھی بھی عطا فرمائی جس کے نگینے کی قیمت دو سو درہم تھی ۔ فرمایا: یہ تیرے دیت کی رقم ہے اور انگوٹھی کو فروخت کرکے اپنے اہل و عیال کے نفقہ کا بندوبست کرلینا ۔ وہ اعتراف کرتاہوا چلا : (واللہ یعلم حیث یجعل رسالتہ )۔(٧) امام مخالف ماحول میں بھی اپنی خوش مزاجی برقرار رکھتے تھے اور دانش افروزی کے ایسے ایسے بلیغ مظاہرے فرماتے تھے کہ نفاق و بدعت کے لات و ہبل کو خدا یاد آجاتا تھا ۔ شامی سیاست نے اہل بیت کو معاشرتی اعتبار سے نیچا دکھانے اور اقتصادی اعتبار سے کچلنے کی اپنی تمام طاقتیں صرف کردی تھیں ، منبروں پر علی و اولاد علی پر سب و شتم ، راہ چلتے فقرے بازی ، گستاخ دیہاتیوں کو دشنام طرازی پر آمادہ کرنا ، ان پر حکومت کا رعب قائم کرنے کی ناکام کوشش ، مجمع میں طعن و تشنیع اور سبکسار کرنا...ان تمام باتوں کا لازمی رد عمل یہ ہونا چاہئے تھا کہ بنی ہاشم تا عمر خاموشی کا روزہ رکھ لیتے یا کم از کم سر برآوردہ مخالفین کے مجمع میں ان کے طنزیہ فقروں کو غم و غصہ کی شکل میں پی جاتے ۔ امام حسین علیہ السلام امیر شام کے دربار میں بیٹے ہیں ، گرد و بیش انسانیت کے بدنام ترین نمونے ہیں ، ایسے میں عمرو عاص نے پوچھا : کیا وجہ ہے کہ ہماری اولادیں آپ کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہیں؟ امام نے جواب میں ایک شعر پڑھا : بغاث الطیر اکثرھا فراخا و ام الصقر مقلاة تزور '' گدھ نسل کے اعتبار سے زیادہ ہوتا ہے اور شاہین کی اولادیں کم دیکھنے میں آتی ہیں''۔(٨) جواب بھرپور تھا اور اسے چپ کرنے کے لئے کافی تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شعر کی بلیغ نشتریت کو محسوس نہ کرسکا یا بے حیائی میں نظر انداز کرکے پوچھا : کیا وجہ ہے کہ آپ کی داڑھی کے بال گھنے ہوتے ہیں اور ہم لوگوں کے چہروں پر کم ہوتے ہیں؟ انداز سوال بتارہاہے کہ امام کے شعر میں اکثریت پر طنز کو محسوس کرکے وہ اپنے خاندان میں بھونڈی قلت کے نظائر تلاش کرنے لگا تھا ، آپ نے اس مرتبہ حسبنا کے پرستار پر قرآن پیش کیا :(وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِِذْنِ رَبِّہِ وَالَّذِی خَبُثَ لاَیَخْرُجُ ِلاَّ نَکِدًا)''اچھی زمین کا سبزہ خدا کے حکم سے اچھا ہی ہوتاہے اور خبیث زمین کی پیداوار خراب ( اور بھونڈی ) ہوتی ہے ''۔(٩) امام نے بنی ہاشم کو البلد الطیب اور بنی امیہ کو البلد الخبیث فرمایا ہے ، آپ وحی ترجمان کا لعاب دہن چوس کر تنو مند ہوئے تھے ، آپ کا گھر مہبط وحی اور مختلف ملائکہ تھا ، گھر طیب و طاہر ،گھر میں ہمیشہ قرآن ہی کے چرچے ہوتے تھے اس لئے آپ کا ارشاد خدا وند عالم کی وحی کے مطابق ہونا ہی چاہئے تھا۔ یہ تھے امام حسین علیہ السلام کی خوش مزاجی کے چند اہم ترین نمونے ؛ اگر غائر نظر سے تجزیہ کیاجائے تو معلوم ہوگاکہ آپ کی پوری زندگی میں خوش مزاجی کے بے پناہ نظائر پائے جاتے ہیں ،ظاہر ہے امام علیہ السلام کی غم و اندوہ سے بھرپور زندگی کے پیش نظر خوش مزاجی کے یہ نمونے ہر انسان کو لمحۂ فکریہ دے رہے ہیں اوریہ باور کرارہے ہیں کہ امام انسان کامل ہوتاہے، اس کی ذات میں زندگی و بندگی کا ہر شعبہ بدرجۂ اتم پایا جاتاہے ، ایسی ہی ذوات مقدسہ ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں ، ان کے دستورات کو آنکھ بند کے اپنی زندگی کے لئے مشعل راہ بنایاجاسکتاہے ۔ حوالہ جات ١۔جامع الاخبار ص٨٦، فصل ٤٤ ٢۔نمل ١٩ ٣۔ توبہ ٨٢ ٤۔ عبس ٣٨۔٣٩ ٥۔ بحار الانوار ج٤٣ص ٣٤٣ ٦۔ وسیلة النجاة ٧۔ بحار الانوار ٤٤ص ١٩٦ ٨۔ بحار الانوار ج٤٤ ص ٢٠٩ ٩۔اعراف ٥٧
|
مقالات کی طرف جائیے |
|