مقالات

 

ایمان ابو طالب علیہ السلام ؛کلام ابو طالب کی روشنی میں

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

تاریخ اسلام میں کچھ شخصیتیں ایسی ہیں جن کے کارناموں اور جاں نثاریوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی ،حالانکہ تاریخ کے تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو اسلام کو وہ سرخروئی حاصل نہ ہوپاتی جس کے دعوے آج بھی بڑے فخر سے کئے جاتے ہیں ۔مربی نبی،کفیل رسول ، پیغمبر کی زندگی میں بے حد اہمیت کی حامل شخصیت ، غالب کل غالب امیر المومنین حضرت علی کے والد گرامی ''جناب ابوطالب '' کا شمار ایسے ہی عظیم المرتبت لوگوں میں ہوتا ہے جن کی انگلی تھام کر تہذیب انسانیت نے چلنا سیکھا ہے ، جنہوں نے مربی انسانیت رسول کی اس وقت نصرت و حمایت کی جب پورا مکہ آپ کا جانی دشمن ہوگیاتھا۔
افسوس اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ بیٹے کی دشمنی میں ایسی عظیم شخصیت پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی گئی اور ایسے انسان کے ایمان کو موضوع بحث قرار دیاگیا جو کل ایمان کا باپ ہے۔آج بھی کچھ لوگ اندھی تقلید کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت سے دور اپنے'' پیروں'' کے چبائے ہوئے لقمے استعمال کررہے ہیں اور اپنی ہی تضحیک کا سامان فراہم کررہے ہیں۔
حالانکہ ایمان ابو طالب(س) کے متعلق دوسرے شواہد و نظائر سے غض بصر بھی کرلیاجائے تب بھی صرف آپ کے وقیع اور حیرت انگیز شعری نگارشات ہی آپ کے محکم ایمان و عقیدے کی واضح دلیل ہیں ؛ آئیے سیرت و تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں موجود آپ کے بے شمار شعری نگارشات میں سے بعض پر ایک سرسری نگاہ ڈوڑائی جائے ۔
حاکم نے اپنی کتاب ''مستدرک''(١) میں اپنی سند سے ابن اسحاق سے نقل کیا ہے:ا بو طالب نے نجاشی کے پاس کچھ اشعار بھیجے تاکہ انہیں ان مسلمانوں کی تشویق و ترغیب کے لئے پڑھے جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی :
ترجمہ:
''شائستہ کرداروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ محمدصلی اللہ علیہ و آلہ،موسی و مسیح کی وزارت سے سرفراز ہیں۔ان دونوں پیغمبروں کی طرح محمدصلی اللہ علیہ و آلہ بھی ہمارے لیے دین لائے ۔ سب کے سب حکم خدا سے ہدایت کرتے ہیں اور انسانوں کو (گمراہی و ضلالت ) سے بچاتے ہیں''۔
آپ نے یہ اشعار بھی کہے ہیں :
الم تعلموا أنَّا وجدنا محمدًا
رسولا کموسیٰ خُطّ فی اول الکتب
و أَنَّ علیہ فی العباد مَحبَّةً
ولا حیف فیمن خَصَّہ اللّٰہُ بالحبّ
''کیا تمہیں اب بھی یقین نہیں آتا کہ ہم نے محمد کو ویسا ہی نبی پایا ہے جیسے موسی ٰ تھے اور یہ کہ ان کا تذکرہ قدیم کتابوں میں موجود ہے اور یہ کہ خدا نے صرف محمد پر اپنی محبت نازل کی پس اس سے بہتر کون ہوسکتا ہے جسے اپنی محبت سے مخصوص کرے''۔(٢)
اور ان اشعار میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہکو مخاطب قرار دیاہے :
واللّٰہ لن یصلو ا الیک بجمعہم
حتی اَوَ سَّد فی التراب دفینا
فصدع بامر ک ما علیک غضاضة
وابشربذاک و قرّمنک عیونا
ودعوتنی و علمت انک ناصحی
ولقد دعوتَ کنت ثم امینا
ولقد عملت بأنَّ دین محمد
من خیر ادیان البریة دینا
''خدا کی قسم !یہ قریش اپنی تمام جمعیت کے ساتھ بھی آپ کے قریب بھٹک نہیںسکتے جب تک کہ میں مٹی میں دفن نہ کردیا جائوں ۔ اس لئے تم بے خوف ہوکر علانیہ تبلیغ کرو تم پر کوئی پابندی نہیں، اس بات سے خوش ہوجائو اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ۔ تم نے مجھ کو دعوت دی ہے اور میں جانتا ہوں کہ تم میرے مخلص ہمدرد ہو، تمہاری دعوت امین کی دعوت ہے اور یہ بھی مجھے یقینی طور پر معلوم ہے کہ دین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کائنات کا سب سے بہتر دین ہے'' ۔
ان اشعار کو ثعلبی نے اپنی تفسیر میں نقل کر کے لکھاہے : مقاتل، عبد اللہ بن عباس ،قسم بن محضرةاور عطا بن دینار وغیرہ متفق ہیں کہ متذکرہ اشعار ابوطالب ہی کے ہیں۔ ( اوریہ اشعار خود ا بوطالب کے ہیں )۔(٣)
ابن ابی الحدید نے اپنی شرح (٤) میں نقل کیا ہے کہ ان کے مشہور اشعار میں سے کچھ اشعاریہ ہیں:
(ترجمۂ اشعار )
''تم خدا کے پیغمبر محمدصلی اللہ علیہ و آلہ ہو اور تم بزرگ ومحترم، نور انی سید وسردار ہو ان لوگوں کے لئے جو پاک و پاکیزہ ہیں او رتم پاکیزہ نسل سے ہو تمہارا اصل و نسب سب سے اچھا ہے اورتمہارا نسب عمرو (ہاشم) بہت زیادہ بخشنے والا او ربے مثال ہے''۔
ابن الحدید اپنی شرح(٥) میں لکھتے ہیں:کہا گیا ہے: مشہور ہے کہ عبد اللہ مامون نے کہا کہ خدا کی قسم! ابوطالب اس شعر کے ذریعہ اسلام لائے ہیں:
(ترجمۂ اشعار)'' میں نے خداوند مالک ومقتدر کے بھیجے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی اسوقت مدد کی جب ان کے سامنے تلواریں بجلی کی طرح چمک رہی تھیں ۔ میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ کادفاع کیا اور ان کی حمایت کی اورا یسی حمایت جیسے کوئی دلسوز و مہربان حمایت کرتا ہے۔ میں ان کے دشمنوں کے سامنے آہستہ یانرمی کے ساتھ نہیں چلا مثلاً جس طرح سے اونٹنی فنیق اونٹ کے خوف سے آہستہ آہستہ چلتی ہے۔لیکن میں ان کے لئے شدت سے اس طرح آواز بلند کرتا ہوں جس طرح کسی بھوکے کودودھ نہ ملے تووہ چلاتا ہے''۔
ایک شعر کے اضافہ کے ساتھ یہ تمام اشعار دیوان ابو طالب میں موجود ہیں۔(٦)
ابن ابی الحدید اپنی شرح (٧) میں جناب ابو طالب کے بعض اشعار نقل کر کے لکھتے ہیں :
''یہ تمام اشعار متواتر ہیں؛اس لئے کہ اگر ایک ایک شعر متواتر نہ ہو پھربھی مجموعی اعتبار سے تمام اشعار ایک مشترک امر پر دلالت کرتے ہیں اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی تصدیق ہے ۔مجموعی اعتبار سے تمام اشعار متواتر ہیں بالکل اسی طرح جس طرح حضرت علی نے ایک ایک قتل انجام دیا اور شجاعان وقت کو تہہ تیغ کیا ، یہ تمام قتل خبر واحد کے ذریعہ منقول ہیں لیکن یہ تمام اخبارِ واحد مجموعی اعتبار سے متواتر ہیں او ر ہمیں حضرت کی شجاعت کا علم حاصل ہوتاہے ''۔
علامہ ابن شہر آشوب مازندرانی اپنی کتاب '' متشابہات القرآن'' میں آیہ ٔ مبارکہ:(وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَنِصُرُہُ)''اور خدا اپنے مددگار وں کی یقینا مدد کرے گا''۔(٨) کے ذیل میں لکھتے ہیں:
''جناب ابوطالب کے ایمان کو ثابت کرنے والے اشعار کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے ،ان اشعار میں انہوں نے رسول خدا ۖ سے دشمنی کرنے والے سے اظہار دشمنی کیاہے اور آنحضرت کو رسول کی حیثیت سے معرفی کی ہے ''۔
پھر ان کے بے شمار اشعار کو نقل کیاہے ، جن میں سے بعض یہ ہیں جو ان کی وصیت میں بھی موجود ہیں:
أوصِیْ بنصر نب الخیر اربعةً
بنی علیاً و شیخَ القوم عباسا
وحمزة الاسد الحامی حقیقتہ
وجعفرًا ان تذودادونہ الناسا
کونوافدائً لکم امّیٰ وما ولدت
فی نصر أحمد دون الناس اتراسا
''میں چار افراد کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی نصرت کی تاکید کرتاہوں : اپنے بیٹے علی اور قوم کے بزرگ عباس ، حقیقت نبوی کے حامیٔ حمزہ اور جعفرکو۔( میں تاکیدکرتاہوں )کہ لوگوں کے درمیان ان کا دفاع کریں ۔میری ماں اور ان کی اولاد آپ پر قربان ، لوگوں کے مدمقابل احمد کی نصرت کے سلسلے میں ڈھال بن جانا ''۔
ابن عساکر نے اپنی تاریخ (١) میں جلہمة بن عرفطہ سے نقل کیا ہے:
مکہ میں قحط پڑا،قریش نے ابوطالب سے کہا کہ وادیاں سوکھ گئی ہیں ،ہم روٹیوں کے محتاج ہوگئے ہیں ۔ ہمارے ساتھ ا یئے تاکہ نماز استسقاء پڑھیں ۔ ابوطالب اپنے ساتھ ایک بچے کو لئے ہوئے باہر آئے جو سورج کی طرح درخشاں تھا ۔ آپ کے گرد کئی بچے تھے، ابوطالب نے اس بچے کو گود میں لے کراس کی پیٹھ کعبہ سے چسپاں کردی ،بچے نے آپ کی انگلی تھا م لی۔ اس وقت آسمان پر بادل کا کہیں پتہ نشان نہ تھا، اچانک اس قدر بارش ہوئی کہ تمام جوار اور وادیاں جل تھل ہوگئیں ۔
ایسے میں ابو طالب نے یہ اشعار کہے:
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ
ثمالُ الیتامیٰ عصمة الارامل
یلوذبہ الہلاّک من آل ہاشم
فہم عندہ من نعمة فواضلِ
و میزان عدل لا یخیس شعیرةً
ووزان صدقٍ وزنہ غیر ہائلٍ
'' وہ نورانی چہرہ جس کا واسطہ دے کر پانی طلب کیاجاتاہے ، وہ یتیموں کے فریادرس اور بیوائوں کی پناہ گاہ ہیں ،بنی ہاشم کے فقراء انہیں کی پناہ حاصل کرتے ہیںاوران کے پاس ناز و نعمت کے لئے زیادہ جاتے ہیں،وہ عدالت کی ایسی میزان ہیں جس کا وزن ایک بال کے برابر بھی خطا نہیں کرتا اور اس کا وزن سچا وزن ہے جس میں جھوٹا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے'' ۔
شہرستانی ''ملل ونحل'' (١٠) حاشیہ کتا ب''الفصل'' میں جناب عبد المطلب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
''وہ چیزیں جواس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ مقام رسالت اورشرف نبوت سے واقف تھے،ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب مکہ میں زبر دست قحط پڑا اور دوسال تک بارش نہیں ہوئی تو اپنے بیٹے ابو طالب کو حکم دیاکہ گہوارے میں موجود شیرخوار کو لے آئیں ۔ آپ انہیں اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھا کر کعبہ کے پاس آئے اور آسمان کی طرف بلند کرکے کہا: خدایا! اس بچے کے حق کی قسم اور۔ دوسری تیسر ی مرتبہ بھی آسمان کی طرف بلندکیا اورکہا :خدا! اس بچے کے حق کی قسم ،ہم پر مسلسل اورمسلا دھاربارش کا نزول فرما۔تھوری دیر نہ گذری تھی کہ آسمان پر بادل چھاگئے اوربار ش ہونے لگی یہاں تک کہ لوگ مسجد کے خراب ہونے سے خوفزدہ ہوگئے اس وقت ابو طالب نے اپنا قصیدہ ٔ لامیہ (جس کے ہر شعر کے آخر میں لام ہے) پڑھا جس کامطلع ہے :
وابیض یستسقی الغمام بوجہہ
ثمال الیتامیٰ عصمة للارامل
پھراس قصیدے کے بقیہ اشعارنقل کئے ہیں ۔محقق سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ابو طالب نے یہ اشعار شعب ابی طالب کے زمانے میں کہے ہیں۔ لہذا بارش کی دعا عبد المطلب اور ان کے بیٹے (سید بطحاء ابوطالب) کے توسط اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے وسیلے سے تھی جس وقت آنحضرت شیر خوار تھے،یہ واقعہ دونوں کی خالص توحید پرستی ، خدا پر ایمان ، رسول خدا کی معرفت اوران کی قداست و پاکیزگی کی نشاندہی کر رہاہے ۔اگر ان دونوں حضرات کے لئے یہی دو واقعات منقول ہوتے تو کافی تھے چنانچہ یہی دونوں واقعات ایک محقق کے لئے بھی کافی ہیں اس کے لئے ضروری نہیں کہ ایمان کے حوالے سے دوسری دلیلیں تلاش کرے ۔
ایمان و عقیدے سے سرشار جناب ابو طالب کے متذکرہ تمام اشعار چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ کا ایمان انتہائی مستحکم اور استوار تھا ، اگر اس کا دسواں حصہ بھی کسی کے حصے میں آتا تو اس کے ایمان کا چرچا گلی گلی ہوتا ۔ اتنے مستحکم ایمان کے مالک کے ایمان پر انگلی اس لئے اٹھائی گئی کیوں کہ آپ کل ایمان کے باپ تھے ، بیٹے کی دشمنی اس طرح نکالی گئی کہ باپ کے ایمان پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیا ، ظاہر ہے جب بیٹے کے کردار میں کوئی داغ نظر نہیں آیا تو باپ پر انگلی اٹھا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کی ،ظاہر ہے سورج کی طرف منھ کر کے تھوکنے سے آپ ہی کا چہرہ خراب ہوگا سورج کا کیا بگڑے گا ۔

حوالے
١۔المستدرک علی الصحیحین ج٢:ص ٦٢٣(ج]٢ص٦٨٠،ح ٤٢٤٧)
٢۔سیرہ ابن ہشام ج ١ ،ص ٣٧٣ (( ج ١، ٣٧٩ ۔ ٣٧٧ ) شرح ابن ابی الحدید ج ٣ ،ص ٣١٣( ج ١٤ ،ص ٧٢ نامہ ٩؛ البدایة النھایة ج ، ٣ص ٨٧( ج ٣، ،ص ١٠٨ )
٣۔البدایة والنھایة ج ٣، ص ٤٢ ( ج ٣، ،ص ٥٦)شرح ابن ابی الحدید ج ، ٣ ص ٣٠٦( ج ١٤ ، ص ٥٥ نامہ ٩) ؛فتح الباری ، ج ٧ ،ص ١٥٣، ٥٥ا ( ج ، ٧ ،ص ٩٤ ، ١٩٦ )؛ المواھب اللدینیہ ج ١ ،ص ٦١ ،( ج ١، ص ٢٢٣ )السیرة الحلبیہ ج ١ ، ص ٣٠٥، ( ج، ١،ص ٢٧٨)
٤۔شرح نہج البلاغہ،ج٣:ص ٣١٥(ج١٤ص٧٧،نامہ ٩)
٥۔شرح نہج البلاغہ،ج٣:ص ٣١٤(ج٤ص٧٤،نامہ ٩)
٦۔ دیوان ابوطالب: ص٢٤(ص٧٠)
٧۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣:ص٣١٥ (١٤ص٧٨،نامہ ٩)
٨۔حج:٤٠
٩۔ مختصر تاریخ دمشق (ج٢ص١٦١۔١٦٢)؛ الخصائص الکبری:ص٨٦و١٢٤(ج١ص١٤٦و٢٠٨)؛ السیرة الحلبیة ج١:ص ١٢٥(ج١ص١١٦)
١٠۔الملل والنحل: در حاشیہ الفصل ج٣:ص٢٢٥(ج٢ص٢٤٩)
مقالات کی طرف جائیے