|
مولانا سید محمد مہدی صاحب بھیک پوری (صاحب لواعج الاحزان ) ؛ دوسری قسط |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
مولانا مرحوم، بحیثیت خطیب و شاعر مولانا محمد مہدی صاحب طاب ثراہ نے دین کی تبلیغ و اشاعت میں تمام تر ذرائع استعمال کئے اور اس سلسلے میں اپنی بساط بھر ہر ممکن سعی کی ۔ چنانچہ آپ نے جہاں خطابت اور موعظہ کے ذریعہ لوگوں کو دین حقہ سے آشنا کرایا وہیں فارسی نظم کے میدان میں قدم رکھ کراپنی خدا داد صلاحیت کا لوہا بھی منوایا ، یہاں ان متذکرہ فنون پر آپ کی مہارت کا مختصر خاکہ پیش کیاجارہاہے : بحیثیت خطیب : خطابت بحیثیت خطابت بے حد اہم اور انتہائی ذمہ دارانہ فن ہے لیکن اگر اس کے ساتھ تبلیغ دین اور قوم و ملت کی خدمت کا جذبہ شامل ہوجائے تو اس کی ذمہ داری اور اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتاہے ۔دنیاوی خطابت اور مذہبی خطابت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دنیاوی اور سیاسی خطابت کو سننے والے صرف تماشائی ہوتے ہیں ، وہ خطیب کے مطالب پر غور و خوض نہیں کرتے بلکہ صرف لہجہ اور انداز دیکھتے ہیں جس کا لہجہ اوراندازجتنا اچھا ہوگا وہ اتنا ہی اچھا خطیب ہوگا لیکن مذہبی خطابت میں خطیب کے زیر منبر بیٹھنے والے افراد صرف تماشائی نہیں ہوتے ، ان کے پاس ایک ایمان اور عقیدہ ہوتا ہے ، وہ اپنے ایمان و عقیدہ کی تقویت یا اصلاح کے لئے زیر منبر بیٹھتے ہیں اسی لئے وہ خطیب کے انداز اور لہجے سے زیادہ اس کے مطالب پر اپنی توجہات مبذول رکھتے ہیں ۔ اس اعتبار سے ایک مذہبی خطیب ، اپنی خطابت کے دوران صرف ایک گھنٹے کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ زیر منبر بیٹھے ہوئے سیکڑوں لوگوں کے ایمان و عقیدہ کا ذمہ دار ہوتاہے ، اس کے بیان کا اثر کئی نسلوں تک قائم رہتاہے ۔ مولانا سید محمد مہدی صاحب طاب ثراہ بھی ایک خطیب بلکہ برجستہ خطیب تھے ، حالات کے پیش نظر اس فن کی ذمہ داری اور اہمیت سے بخوبی واقف تھے ، اسی لئے آپ نے میدان خطابت میں دوسرے سے بازی لے جانے کے لئے قدم نہیں رکھا بلکہ خطابت کو اس لئے اختیار کیا کیوں کہ آپ نے خطابت کی ضرورت محسوس کی ۔ چنانچہ آپ نے ایسے مقامات اور علاقوں میں مجلسیں پڑھیں اور موعظہ کے قالب میں تقریریں کیں جہاں لوگ دین و شریعت سے خاطر خواہ آشنا نہیں تھے۔ آپ کے حالات زندگی کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کو زیر منبر بیٹے ہوئے افراد کے ایمان و عقیدہ کا خاص خیال تھا اسی لئے آپ مستند اور ٹھوس مطالب بیان کرتے تھے ، آپ کے اسی مستند اور معتبر بیان کی وجہ سے وطن کے علاوہ دور دراز کے لوگ آکر آپ کی تقریریں سنتے تھے اور مستفیض ہوتے تھے۔ عہد حاضر میں خطابت کی جو حالت ہے وہ ارباب نظر سے پوشیدہ نہیں ، بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ خطابت میری شخصیت کی پہچان ہے لہذا میں اس میں مسائل اور موعظہ بیان کر کے اپنی شخصیت کو دائو پر نہیں لگا سکتا ۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں مذہبی اور سیاسی خطابت میں کیا فرق رہ جائے گا ۔ اس عنوان سے مولانا محمد مہدی صاحب قابل قدر اور لائق صد تحسین ہیں ، انہوں نے اپنی خطابت میں آخرت سازی کا نمونہ پیش کیاہے ، ان کی خطابت کا مقصد دنیا سازی اور لوگوں کی واہ واہ نہیں تھا بلکہ آخرت سازی تھا اسی لئے آپ اپنے بیان میں دینی و شرعی مسائل اور موعظہ بیان فرماتے تھے۔لواعج الاحزان اس کی واضح مثال ہے ، جس کی شان نزول ہی موعظہ ہے ، پہلے آپ لوگوں میں شرعی مسائل بیان کرتے تھے جسے سننے کے لئے دور دراز علاقوں سے لوگ آتے تھے بعد میں احباب کے اصرار پر اس میں مصائب بھی شامل کر لیا جوبعد میں کتاب کی شکل میں '' لواعج الاحزان '' کے نام سے شہرۂ آفاق ہوئی ۔
بحیثیت شاعر: مولانا محمد مہدی صاحب طاب ثراہ خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ برجستہ شاعر بھی تھے ، آپ کو فارسی نظم و نثر پر بھرپورمہارت حاصل تھی ۔ آپ کی کتاب ''لواعج الاحزان '' میں نظم و نثر دونوں نمونے جابجا ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں ، آپ نے اسی کتاب میں حمد و نعت کو نثر کے بجائے نظم میں پیش کیاہے ، یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے : ھست گل گلشن حمد حکیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
نعت نبی رنگ طرب خیزآں مدح علی بوئے دل آویز آں
رنگ چہ رنگی کہ جہاں تازہ کرد برزخ خورشید و قمر غازہ کرد
بوئے چہ بوئی کہ بود جان خلد تازہ از آں سنبل و ریحان خلد
غنچہ دل ہائے ہمہ مومناں چوں گل ترخرم و خنداں ازاں آپ واقعات و حوادث کو بڑے خوبصورت پیرائے میں پیش کرتے تھے ، چنانچہ مظفر پور میں اپنے والد ماجد ''مولانا سید علی صاحب طاب ثراہ '' کی دعا سے ہلال عید ظاہر ہونے کے واقعہ کو لکھنے کے بعد حسب ذیل اشعار لکھے ہیں: دعای او چو برگرد وں رسیدہ حجاب ابر شد ازوی د ریدہ
دعا را بر فلک رفتن ضرور است شگافد ابر گر ازوی چہ دور است
چہ حیرت شق ابر ے او اگر کرد کہ جدش مصطفی شق القمر کرد
عجب نے بہر او شد ابر منشق کہ بہر جد او نہ چرخ شد شق
کرامتھا کہ از حقش عطا شد ھمہ از فیض روح مصطفی شد
بر ایمان ھر کہ دارد استقامت عجب نبود از و خرق و کرامت
آپ کا مرتبہ ، علماء و مجتہد ین کی نظر میں ١۔ سر کار ناصر الملة اعلی اللہ مقامہ نے لواعج الاحزان جلد اول کی تقریظ میں مصنف مرحوم کے لئے حسب ذیل القاب استعمال کئے ہیں : العالم العامل ، والبارع الکامل ، المعقود علیہ الاخامل ، المشدود الیہ رحال الزوامل ، سباق غایات الفضل والکمال ، ورکازرایات السبق فی ارشاد الضلال ، المتعب جسدہ فی طاعة الرب المتعال ، المنضی بدنہ للعبادة فی اناء النھر واللیال ، الیف الورع والتقی وحلیف الرشد والھدی الخائف مقام ربہ رب السماوات العلی ، الناھی نفسہ عن الھوی ، ملاذ المجتدی ومنار المھتدی ، المعصف معاقد الود العھدی ، جناب المولوی السید محمد مھدی ایدہ اللہ الابدی بطولہ الصمدی ٢۔ باقر العلوم مولانا سید محمد باقر صاحب طاب ثراہ نے اپنی تقریظ میں ان کے لئے یہ لکھا ہے : وھو البارع القمقام ، زین اللیالی والایام ، الموفق الموید ، المسدد من لدن الملک العلام ، الناشر لمناقب الائمة البررة الفخام ، المھدی لزمر الذاکرین لفضائلھم و مصائبھم ما یقربھم الی اللہ الزلفی و یبغلھم الی دار السلام ، والمشارک فی اجرھم النزیل علی مر الدھور والاعوام و کر الشھور والایام ، زین الندی ، وردی الصدی ، حلیف الشرف المھدی سمی الامام الغائب المنتظر المھدی ، جناب المولوی السید محمد مھدی جعلی اللہ تعالی ناصر لکل ھاد واسوة لکل مھدی ٣۔ سرکار نجم العلماء نے یہ القاب تحریر فرمائے : البارع الغطریف والسمیدع العریف ، الناھج مناھج التحقیق ، والسالک مسالک التدقیق ، المشمر عن ساق جدہ الی شواھق الحق و قببہ والمضمر قلاص عزیمتہ الی جواد الصدق وسننہ المذکر ماثر اھل الذکر بمصاص نیتہ ، والمشھر معالی امورھم علی تفاقم بلیتہ المبید خضرآء الجھل بمومض بیانہ والممیط دجنة الغی بمشرق تبیانہ ، الراغب عن خزعبلات الزیغ واباطیلہ ، الجانح الی مواعظ الرش و نصحہ وقیلہ ، المکابد شوائب الکرب ابتغاء لمرضاتہ والمقاسی نؤالحدثان ابانة لایاتہ شعر : حلیف المزایا الغر من زمن المھد اخا المجد والعلیا محمدن المھدی ٤۔ سرکار مرزا محمد تقی صاحب مجتہد العصر ( سامرہ ) نے مولانا مرحوم کے علمی مدارج کودیکھتے ہوئے عراق کے زیارتی سفر کے دوران اجازہ ٔ روایت اور امور حسبیہ عطا فرمایا تھا ۔ ٥۔ ہندوستان کے مجتہدین عظام میں فقیہ اہل بیت مولانا سید محمد باقر صاحب طاب ثراہ اور سرکار عماد العلماء میر آغا صاحب طاب ثراہ نے اجازہ امور حسبیہ مرحمت فرمایا تھا ۔
گرانقدر تصانیف آپ نے اپنی حیات طیبہ میں اردو میں چھ اور فارسی و عربی میں ایک ایک کتابیں تحریر فرمائیں جو سب آپ کی زندگی ہی میں زیور طبع سے آراستہ ہوئیں ۔ذیل میں ان کی قدرے تفصیل پیش کی جارہی ہے : ١۔ سواء السبیل یہ کتاب اردو میں ہے ، آپ کی سب سے پہلی تصنیف ہے جس میں اصول عقائد کو عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ پیش کیاہے ۔ اوپر بیان کیاگیا کہ جب آپ نے مظفر پور میں اقامت فرمائی اور لوگوں سے گفتگو کی تو اندازہ ہوا کہ عام طور پر لوگ اصول دین و مذہب کو استدلالی طریقہ سے نہیں بلکہ تقلیدی طور سے مانتے ہیں اسی لئے ان کی ہدایت کے لئے آپ نے یہ کتاب تحریر فرمائی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو وقت کی ضرورت کا شدید احساس تھا ۔ یہ کتاب ١٣٠٦ھ سے قبل مطبع اثنا عشری لکھنؤ سے شائع ہوئی ۔ اس کتاب کے متعلق بیان کیاجاتاہے کہ اسے پڑھ کر مولوی شیخ عبد السبحان صاحب ( مقیم سیوان ) نے مذہب حقہ قبول کیاتھا ، چنانچہ تذکرۂ بے بہا نے بھی اسے نقل کیاہے ۔ ٢۔ حجة بالغہ یہ کتاب بھی اردو زبان میں مناظرہ کی کتاب میں ہے جس میں ملا غلام قادر صاحب مدراسی کے چار سوالوں کے جواب میں لکھی گئی تھی ۔ ١٨٢ صفحات پر مشتمل یہ کتاب خیر المطابع پٹنہ سے شائع ہوئی ۔ ٣۔ ٤۔ زمزمة الحجاج و مدینة الزیارات یہ کتاب اردو زبان میں جناب نواب سید علی نواب صاحب ابن نواب حاجی سید محمد تقی خان صاحب کی فرمائش پر تحریر فرمائی ۔ نواب صاحب مرحوم نے شوال المکرم١٣٢٥ھ میں سفر حج کا قصد کیا تو مولانا سید محمد مہدی صاحب سے فرمائش کی کہ ایک مختصر رسالہ حج کے احکام کے متعلق اردو زبان میں تحریر کر دیں تاکہ ضرورت کے وقت اس سے استفادہ کیاجاسکے اور کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ ہو ۔ چنانچہ آپ نے انہیں کی فرمائش پر سلیس اردو زبان میں تحریر فرمائی اور یہ بھی تحریر فرمایا : '' اور چونکہ میں نے اس رسالہ کو موافق احتیاط کے لکھا ہے تو انشا ء اللہ ہر زمانے میں عام مومنین مقلدین کے حق میں معین ومفید ہوگا ''۔ اسی سے ملحق رسالہ ' ' مدینة الزیارات '' ہے جس میں مدینہ منورہ کی تمام زیارتیںمذکور ہیں ۔ یہ دونوں رسالے پہلی مرتبہ نواب صاحب مرحوم کے خرچ سے عالم پریس لکھنؤ سے ١٣٢٦ھ میں شائع ہوئے ، نواب صاحب اسے زائرین اورحاجی کو ہدیة ً عنایت فرماتے تھے ۔ پہلا ایڈیشن جلد ہی ختم ہوگیا اور رسالہ کی طلب بدستور قائم رہی تو نواب صاحب مرحوم نے دوبارہ نظامی پریس سے ١٣٤٣ھ میں شائع کیا اور عازمین حج و زیارات کی خدمت میں ارسال کرتے رہے ۔یہ دونوں رسالے چھوٹی سائز میں ٢١٢ صفحات پر مشتمل ہیں ۔ ٥۔ تحفة الابرار ساٹھ صفحات کی یہ کتاب آپ کے والد ماجد ''مولانا سید علی صاحب قبلہ طاب ثراہ '' کی سوانح عمری پر مشتمل ہے جو مطبع قیصر پٹنہ سے شائع ہوئی ۔ ٦۔ مواعظ المتقین یہ کتاب عربی زبان میں ماہ رمضان کے ٣٥ مواعظ پر مشتمل ہے ، ان مواعظ میں جن کتابوں سے استفادہ کیاگیا ان میں مفتی سید محمد عباس صاحب طاب ثراہ کی کتاب '' منابر الاسلام '' کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ کتاب کے آخر میں ایک خاتمہ ہے جو علم و علماء کی فضیلت پر مشتمل ہے ، اس خاتمہ میں بعض علمائے سلف کے حالات زندگی بھی مرقوم ہیں جن میں آپ کے والد ماجد بھی شامل ہیں انہیں کے مختصر ذکر سے کتاب اختتام پذیر ہوتی ہے ۔ یہ کتاب ١٨ ذی الحجہ کو مکمل ہوئی ۔ خاتمة الطبع کی عبارت سے معلوم ہوتاہے کہ اس کی طباعت میں حسین آباد ضلع مونگیر کے رئیس مرحوم نواب دلدار علی خاں کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔پوری کتاب ٢٥٨صفحات پر مشتمل ہے ۔ ٧۔ لواعج الاحزان جلد اول و دوم مجالس پر مشتمل اردو زبان میں یہ کتاب آج بھی مقبول خاص و عام ہے اور مقبولیت کے پیش آج بھی مسلسل شائع ہورہی ہے۔
شادیاں اور اولاد آپ کی شادی خدیجہ خاتون بنت جناب مولوی سید الہی بخش صاحب بھیک پوری سے ہوئی تھی ، ان سے آپ کو ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہوئی ، جن کے نام سید محمد سجاد صاحب مرحوم اور ہاجرہ خاتون تھے ۔آپ کی زوجہ خدیجہ خاتون کا انتقال پٹنہ میں ١٠ ١٣٣٠ھ کو ہوئی ۔ آپ نے پہلی زوجہ کے انتقال پر دوسری شادی چین پور ضلع مظفر پور میں ڈاکٹر جمال الدین صاحب کی بہن '' صفاتن '' سے ہوئی ، ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔
بیماری اور وفات ١٣٤٠ ھ میں آپ کے جسم کے بائیں حصے پر فالج کا اثر ہوا ، آپ نے اس کا علاج کروایا ، جس سے کچھ افاقہ ہوا اور آپ دوبارہ مظفر پور جانے کے قابل ہوگئے لیکن دو تین برس بعد مرض نے شدت اختیار کر لی جس سے مجبور ہو کر آپ پھر وطن واپس آگئے ۔ آخر کار ٢٤ جمادی الثانیہ ١٣٤٨ھ بمطابق ٢٧ نومبر ١٩٢٩ ء کو رات میں مغرب و عشاء کے وقت اپنے وطن مالوف میں رحلت فرمائی اور اپنے برادر نسبتی حاجی دلدار حسین صاحب کے تعمیر کردہ امامباڑہ کے صحن میں مدفون ہوئے۔
منابع و ماخذ ١۔ خورشید خاور ؛مؤلف: مولانا سید سعید اختر صاحب ٢۔ مطلع انوار (فارسی )؛مؤلف: مولانا سیدمرتضی حسین صدر الافاضل ؛مترجم :ڈاکٹر محمد ہاشم ٣۔نجوم الارض ؛مولف : مولانا سید محمد صاحب ٤۔ دیباچۂ توشۂ آخرت ؛مرتبہ :مولانا سید رسول احمد صاحب ٥۔ شجرہ ٔ طیبہ ؛مولف : مولانا سید سعید اختر صاحب ٦۔اصلا ح صدی نمبر ٧ ۔مختلف افراد سے انٹرویو ٨۔ ذاتی معلومات
|
مقالات کی طرف جائیے |
|