مقالات

 

قدوۃ العارفین مولاناسید علی صاحب بھیک پوری مرحوم

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

تمہید
یہ بات بالکل واضح ہے کہ موت کے بعد کسی انسان کی تعریف و توصیف نہ مرنے والے کو فائدہ پہونچاتی ہے اور نہ تعریف کرنے والے کو ۔ لیکن یہ کام اس لئے ضروری ہے کہ دوسری نسل میں بھی اسی کردار کے افراد پیداہوں اور دوسرے انسان بھی اپنی زندگی کو اسی ڈھانچہ میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کریں ۔
ایک برجستہ انسان اپنے مختلف صفات ، کمالات ، امتیازات اور خصوصیات کی وجہ سے فرد سے جماعت ، اکائی سے قوم اور شخصیت سے کردار بن جاتاہے ، وہ دنیا میں اپنے علم و عمل اور کردار کے ذریعہ ایسا نقش جاوداں چھوڑے جاتاہے جس کے متعلق دنیا والے قدردانی کا احساس کرتے ہوئے اسے ہمیشہ اپنے دل و دماغ میں زندہ رکھتے ہیں اور اس کی یاد مناکر اپنی بیداری کا ثبوت دیتے ہیں ۔
قدوة العارفین عالی جناب مولانا سید علی صاحب بھیک پوری مرحوم بھی ایسے ہی افراد میں سے تھے جو ایک قوم اور ملت کی حیثیت رکھتے تھے ،جنہوں نے فرد ہو کر جماعت کا کام انجام دیااور اکائی ہوکر اپنے کو ایک ملت ثابت کیا ۔ان کے علم و کردار کی خوشبو آج بھی اس عنوان سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ علمائے بہار میں آپ ہی وہ پہلے شیعہ مجتہد اور عالم ہیں جن کے قدموں کی برکت سے بہار میں خاص طور سے سیوان اور مظفرپور میں علم دین کی روشنی پھیلی اور لوگوں میں پابندیٔ شریعت کا ذوق پیدا ہوا ۔آپ علم و فضل کے اعلی ترین مراتب پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ زہد و تقوی اور معرفت الہی کے عظیم مراتب کے بھی حامل تھے ، ان گوناگوں خصوصیات و کمالات کو پیش نظر رکھ کر بجا طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ :
خورشید و فلک چکر کھاتے ہیں بہم برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتاہے
یہاں آپ کی زندگی و بندگی کے کچھ آفاقی اور مثالی نقوش پیش کئے جارہے ہیں:

وطن اور اسم گرامی
مولانا مرحوم کا وطن مالوف ریاست بہار کی معروف بستی ''بھیک پور '' ضلع سیوان بہار تھا، آپ اسی بستی کے ایک باعزت سید خاندان میں متولد ہوئے ، آپ کا اصلی نام ''سید پیر علی '' تھالیکن سید العلماء سید حسین ( علیین مکان ) کو یہ نام ناپسند ہوا تو آپ نے ان کے فرمائش کے مطابق اسے بدل کر ''سید علی ''کر دیا ، آپ اسی نام سے مشہورہوئے ۔ والد کا نام '' سید ابن حیدر علی '' تھا اوروالدہ کا نام ''ہاجرہ بنت قدرت اللہ ''تھا۔ آپ کی صحیح تاریخ ولادت کہیں درج نہیں لیکن تاریخ وفات اور مجموعی عمر کے پیش نظرآپ کی پیدا ئش ١٢١٥ھ؁ میں قرار پاتی ہے ۔

فراست علم و عمل
''علم'' انسانیت کی پیشانی کا حسین جھومر ہے ، اس کے ذریعہ انسان معراج کی اس بلندی پر پہونچ جاتاہے جہاں ہر چیز اپنی اصلیت و واقعیت کے ساتھ پوری طرح نمایاں ہوجاتی ہے ،جس کے دل و دماغ میں اس کا شعور بیدار ہوجائے وہ اپنے ساتھ ساتھ قوم و ملت کی زندگی کو بھی سنوار تاجاتاہے، خاص طور سے علم دین ۔ اس کا معیار دنیا وی تعلیم سے کہیں مختلف اور عظیم ہے اور اس کا دائرہ اس سے بہت زیادہ وسیع ۔اس کے لئے ایک خاص ظرف حصول کی ضرورت ہوتی ہے ۔
حدیث میں ہے :العلم نور یقذفہ اللہ فی قلب من یشاء ''علم ایک نور ہے ،خداوندعالم جس کے دل میں چاہتاہے ڈال دیتا ہے۔
اس تناظر میں مولانا مرحوم کی ابتدائی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ان کی عظمتِ شخصیت پر کافی حد تک روشنی ڈالی جاسکتی ہے ۔
آپ کو بچپن ہی سے مذہبی تعلیم کا بے حد شوق تھا، اسی لئے تقریباً پندرہ (١٥) سال کی عمر میں تحصیل علم کے شوق میں سرشار ہوکر گھر والوں کو اطلاع کئے بغیر ایک فقیر کے ہمراہ چھپرہ چلے گئے اور وہاں کے علماء و افاضل سے کسب علم و فیض کر نا شروع کردیا ، آپ تقریباً دس سال تک چھرہ میں تحصیل علم کے سلسلے میں مشغول رہے۔ بیان کیاجاتاہے کہ وہاں کے ایک سجادہ نشین نے آپ کو اپنا جاشین بنانا چاہا، درگاہ کی جاگیر میں کئی گائوں اور آمدنی کے دوسرے ذرائع تھے جو سجادہ نشین کے ذاتی تصرف میں رہتے تھے ، لیکن علمی فراست اور دینی شعور کے پیش نظر آپ نے اس بہترین پیش کش کو رد کر دیا اور مزید تعلیم کے لئے لکھنو کی جانب روانہ ہوگئے ۔

لکھنؤ کا تعلیمی سفر
یہ بات یقیناً حیرت انگیز ہے کہ آپ تحصیل علم کے لئے پاپیادہ لکھنو کی جانب روانہ ہوگئے اور تقریبا ً ایک مہینہ کے مشقت آمیز سفر کے بعد لکھنو پہونچے ، لکھنو پہونچ کر آپ نے ایک مسجد میں قیام کیا، حالت اتنی ناگفتہ بہ تھی کہ تین دنوں تک فاقہ میں گذر گئے لیکن غیرت کے مارے کسی سے اپنا حال بیان نہ کیا ۔ آخر کار قاضی الحاجات کی بارگاہ میں دست دعا بلند کیا : ''خدایا ! اگر میرا رزق دنیا میں نہیں ہے تو موت کی سختی مجھ پر آسان کر دے ورنہ روزی ملنے کی کوئی سبیل پیدا کردے ''۔
دعا ختم ہوتے ہی کسی نے مسجد کے دروازے سے آپ کا نام لے کر پکارا کہ چلئے فلاں مقام پر طلاب کی دعوت کا انتظام ہے ۔پہلے تو آپ کو تامل ہوا اور آپ نے جانے سے انکار کردیا لیکن جب اس نے بہت زیادہ اصرار کیا تو دل میں یہ خیال ابھرا کہ میں نے ابھی خدا وندعالم سے رزق بھیجنے کی دعا کی تھی لہذا خدا کے بھیجے ہوئے رزق کو ٹھکرانا صحیح نہیں ہے ، ذہن میں جیسے ہی یہ خیال آیا آپ نے جانے کی آمادگی ظاہر کر دی ۔
اس رئیس نے کوئی نذر مانی تھی اور ایفائے نذر کے بطور ہر طالب علم کو انواع و اقسام کے کھانوں سے بھرا ہوا ایک خوان اور پانچ پانچ روپئے پیش کئے تھے ۔ وہ کھانا اور روپیہ جتنے دنوں تک چلا اس عرصہ میں آپ کے لئے وظیفہ کا انتظام ہوگیا اور آپ نے باقاعدہ طور پر درس لینا شروع کر دیا ۔
ظاہر ہے جب انسان کے جذبے صادق ہوں تو خداوندعالم آگے بڑھنے کے راستے خود ہی ہموار کرتا چلاجاتاہے ، چنانچہ تھوڑے ہی مدت میں آپ سید العلماء سید حسین علیین مکان کے تلامذہ میں شامل ہوگئے ، سید العلماء حضرت غفرانمات سید دلدار علی صاحب طاب ثراہ ( صاحب عماد الاسلام ) کے چھوٹے فرزند تھے اور اس وقت محور علم و فضل کی حیثیت رکھتے تھے ۔
جناب سید العلماء آپ پر بہت زیادہ شفقت کا مظاہرہ فرماتے تھے اور آپ کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے ، ایک دن آپ نے کسی رئیس زادہ کی تعلیم کے لئے پندرہ روپیہ ماہانہ پر مقرر کر دیااور قیام و طعام کا انتظام بھی اسی رئیس کی حویلی میں کروا دیا تا کہ آپ کسی مالی تشویش کے بغیر تحصیل علم میں مشغول رہیں ۔یہ صورت حال یقینا خوش کن تھی لیکن اس کے بر عکس مولاناسید علی صاحب کے چہرے پر کبھی خوشی کے آثار نظر نہیں آتے تھے ۔وہ رئیس ان کی پر ہیز گاری اور علم و فضل سے بہت زیادہ متاثر تھے ، انہوںنے خیال کیا کہ شاید یہ حق الزحمة بہت کم ہے اسی لئے رنجیدہ خاطر رہتے ہیں چنانچہ انہوں نے اس رقم کو بڑھا کر تیس روپیہ کر دیا لیکن اس سے آپ کے انقباض میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ کچھ دنوں بعد آپ نے اس رئیس سے قطع تعلق کر لیا لیکن وہ اس قدر متاثر تھے کہ سید العلماء کی خدمت میں آکر عرض کی : اگر رقم کم ہو تو میں اضافہ کرنے کو تیار ہوں ۔ سید علی صاحب نے کہا کہ جو رقم ہے وہ بہت زیادہ ہے ، لیکن وہاں رہنے اور آنے جانے سے بہت زیادہ وقت تلف ہوتاہے اور اس سے میری تعلیم متاثر ہوتی ہے نیز اگر یوں ہی رقم جمع ہوتی رہی تو مجھ پر حج واجب ہوجائے گا اور کچھ دنوں کے لئے میں تحصیل علم سے محروم ہوجاؤں گا جو میرے اس سفر کا اصل مقصد ہے ۔اس کے بعد سید العلماء نے اپنے فرزندوں جناب سید محمد تقی صاحب ( ممتاز العلماء ) اور جناب سید علی نقی صاحب ( زبدة العلماء ) کی تعلیم پر مامور فرمایا۔
آپ دنیا اور مال دنیا سے ہمیشہ بیزار رہتے تھے ، چنانچہ دنیا سے بے توجہی کا یہ عالم تھا کہ جو تنخواہ ملتی تھی اسے لا کر بستر کے نیچے ڈال دیتے تھے ایک دن بستر جھاڑا گیا تو ایک کثیر رقم برآمد ہوئی ۔

لکھنؤ سے واپسی اور وطن کی مذہبی سرگرمیاں
آپ نے تقریباً بارہ ( ١٢) سال سید العلماء سے کسب فیض کیا اور ٣٨، ٣٧ سال کی عمر میں وطن واپس آنے کا قصدفرمایا ۔ اہل بھیک پور نے آپ کے استقبال کا اہتمام باجے وغیرہ سے کیاتھا لیکن آپ نے سختی سے اس کی ممانعت فرمائی اور اس طرح آپ کے قدم رکھتے ہی احکام شرعیہ کی پابندی کی داغ بیل پڑ گئی ۔
وطن میں قیام کے دوران آپ کے علم و فضل اور کمالات نفسانی سے لوگ اس قدر متاثر ہوئے کہ بہت سے افراد کے دلوں میں علم دین حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوگیا ، چنانچہ اس شوق و ولولہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ کچھ ہی دنوں بعد بہت سے لوگوں نے آپ کے ہمراہ لکھنو جانے کی آمادگی ظاہر کر دی جن میں قابل ذکر مندرجہ ذیل افراد ہیں :
١۔ مولانا سید احسان علی صاحب مرحوم
٢۔ مولانا حکیم سید ہاشم علی صاحب مرحوم
٣۔ مولاناحکیم سید دین علی صاحب مرحوم
٤۔ مولانا سید محمد تقی صاحب مرحوم
٥۔ مولانا سید الہی بخش صاحب مرحوم
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
فراغت کے بعد لکھنو سے واپس آکر آپ اپنے اساتذہ کرام کے حکم کے مطابق اپنے جوار میں دین اسلام کے اصول و فروع کی ترویج ، جمعہ و جماعت کے قیام اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں مشغول ہوگئے ۔اس زمانہ میں عام طور پر لوگ مشرکانہ رسم و رواج کو اپنائے ہوئے تھے ، حلال و حرام میں تمیز نہ تھی ، نجاست و طہارت کے ابتدائی مسائل سے بھی ناواقف تھے ، لیکن مولانا مرحوم کے اسوۂ حسنہ ، ورع و تقویٰ اور دن و رات کی نصیحتوں سے لوگوں میں احکام شرعیہ کی پابندی کا ایسا ذوق پیدا ہوگیا کہ جن لوگوں نے کبھی قبلہ کی طرف منھ نہیں کیاتھا ، پانچوں وقت کی نماز کے پابند ہوگئے :
رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسم چمن
اسی زمانہ میں پورنیہ کے رئیس ''راجا مومن علی خاں '' نے جناب سید العلماء کی خدمت میں ایک عریضہ روانہ کیاکہ کسی صاحب فضل و کمال عالم دین کو پورنیہ بھیجئے ، ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا کہ یہاں تشریف لانے والے کو قیام و طعام کے علاوہ مبلغ ساٹھ روپیہ ماہانہ پیش کیاجائے گا ۔ سید العلماء نے اس جگہ کے لئے مولانا مرحوم کا انتخاب فرمایا اور آپ کو وہاں جانے کا حکم نامہ روانہ کردیا ، خط ملتے ہی آپ پورنیہ کے لئے روانہ ہوگئے لیکن اول تو یہ کہ پورنیہ سے لکھنؤ اور لکھنو ٔ سے بھیک پور خط آنے جانے میں وقت لگا اور دوسرے یہ کہ اس وقت ریل گاڑی وغیرہ کا تصور نہیں تھا ، بیل گاڑی وغیرہ سے سفر کیاجاتاتھا ۔چنانچہ جب مولانامرحوم ان طاقت فرسا مراحل سے گذر کر پورنیہ پہونچے تو وہاں ایک ایرانی فاضل مقرر ہوچکے تھے ۔
آپ فوراً ہی وہاں سے اپنے وطن کے لئے روانہ ہوگئے ۔چھپرہ پہونچے تو وہاں کے رؤ سا نے وہیں قیام کرنے کی استدعا کی اور آپ وہاں چند سال دینی خدمات اور ارشاد و ہدایت میں مشغول رہے ۔اس کے بعد وہاں سے مظفر پورچلے گئے، جہاں نواب سید محمد کاظم علی خاں کے بچوں کو نہایت قلیل تنخواہ پر تعلیم دینے لگے ۔
یہاں ایک حیرت انگیز واقعہ لائق ذکر ہے کہ جس زمانہ میں مولانامرحوم مظفر پور میں مقیم تھے، لکھنؤ کا ایک چرب زبان نائی، عالم دین کا لباس پہن کر مظفر پور پہونچا ، اس کے پرپیچ عمامہ اور گول ڈاڑھی سے اہل مظفر پور دھوکا کھا گئے اور اسے اپنا پیش نماز بنا لیا ۔ کچھ دنوں بعد فاضل نبیل مولانا سید اسد علی صاحب لکھنوی کسی کام کے سلسلہ میں مظفر پور تشریف لائے ،حضرت پیش نماز پر نظر پڑی تو فوراً پوچھا: تویہاں کب آیا؟۔ لوگوں کو اس طرز گفتگو سے کافی حیرت ہوئی کہ علماء آپس میں ایسے گفتگو کرتے ہیں، یہ کون سی تہذیب ہے ؟پھر مولانا موصوف نے فرمایا : ارے بھئی ! یہ تو ہمارا نائی ہے ، حجامت کی اصلاح جانتاہے نہ کہ شریعت کے مسائل ۔ اس کے بعد جب مولانا اسد علی صاحب مولانا سید علی صاحب سے ملے تو آپ کے تبحر علمی اور فضائل نفسانی سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور عوام کی جہال پروری پر بہت زیادہ تعجب اورافسو س ہوا ۔ مولانا اسد علی صاحب مرحوم نے نواب صاحب کو مشورہ دیاکہ مولانا سید علی صاحب کو اپنی نوتعمیر مسجد میں اقامۂ جمعہ و جماعت کی دعوت دیں ۔ اس وقت سے اہل مظفر پور آپ کے معتقد ہوگئے اور آپ نے پابندی شریعت کا ذوق ان کے دلوں میں پیدا کیا ۔ لوگوں کی اصلاح فقط زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے فرماتے تھے ۔
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایانِ شوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتاگیا

شخصیت کی خوبیاں اور عادات و اطوار
انسان کی ذاتی خوبیاں اورمنفرد عادات و اطوار اسے ہمیشہ صفحۂ تاریخ پر زندہ رکھتے ہیں ، وہ خود تو ابدی نیند سوجاتاہے لیکن اس کی زندگی کے آفاقی نقوش مشعل ہدایت بن کر لوگوں کے دل و دماغ میں باقی رہتے ہیں ۔مولانا مرحوم کی زندگی اورعادات و اطوار کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات نصف النہار کی طرح آشکار ہوجاتی ہے کہ آپ فضائل نفسانی اور کمالات روحانی کے مالک تھے ، جن کے پیش نظریہ کہاجاسکتاہے کہ آپ ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے ۔آپ کے تمام صفات حسنہ کا تذکرہ تو ممکن نہیںلیکن ذیل میں آپ کی زندگی و بندگی کے بعض نازش آفریں نمونے پیش کئے جارہے ہیں:
١۔زہد و قناعت
اگر پوری زندگی کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگاکہ خداوندعالم نے آپ کو وسعت رزق کم ہی عطا فرمائی ، عام طورپر آپ تنگی ٔ معاش کا شکار رہے ، آپ نے ہمیشہ سلمان و بوذر جیسی زندگی بسر کی ، بدمزہ کھانا کھاتے، موٹا کپڑا پہنتے اور اکثر تخت یا بوریہ پر بغیر فرش کے سورہتے تھے ، کسی کا نذرانہ جلدی قبول نہیں فرماتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ مومنین سے ملاقات کی غرض سے حسین آباد ( ضلع مونگیر ) تشریف لے گئے ، واپسی کے وقت حسین آباد کے رئیس جناب نواب علی خاں صاحب نے انتہائی عاجزی کے ساتھ پانچ سو روپئے ہدیہ کے طور پر پیش کئے لیکن آپ نے معذرت کر لی اور نواب صاحب کے شدید اصرار کے باوجود وہ رقم قبول نہ کی ۔
ریاضت نفس کی غرض سے سفر کے دوران سواری ساتھ ہوتے ہوئے بھی کوسوں پیدل چلتے تھے۔
٢۔ ورع و تقوی
آپ کے ورع و تقوی کا یہ عالم تھا کہ مشکوک و مشتبہ چیزوں کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے ،نواب سید محمد تقی خان صاحب مرحوم کے باورچی خانہ سے آپ کے لئے خاص اہتمام سے تینوں وقت خاصہ آتاتھا ۔ایک دن آپ کو شک ہوا کہ ان کے باوچی خانہ میں بعض اجناس ناپاک ہیں ، آپ نے فوراً ہی وہاں کا کھانا بند کروادیا اور روزانہ پاپیادہ بنگرہ جاتے اور وہاں سے طاہر کھانا لاکر اسے دوسرے دن صبح تک استعمال کرتے تھے ۔
٣۔جود و سخا
آپ کو پوری زندگی میں فارغ البالی نصیب نہیں ہوئی لیکن پھربھی آپ نے اپنے اخراجات کو اتنے سلیقہ سے سمیٹا تھاکہ کبھی کسی سے قرض لینے کی نوبت نہیں آئی ۔آپ اسی قلیل آمدنی کی حد میں رہتے ہوئے اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات بھی پورے کرتے تھے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس آمدنی کا بعض حصہ غریبوں اور مسافروں کی حاجت روائی کے لئے مخصوص کر دیاکرتے تھے ۔ آپ نے بہت سی غریب لڑکیوں کی شادیوں کے اخراجات برداشت کئے ، اپنے وطن میں اپنی مخصوص آمدنی سے ایک مسجد تعمیر کروائی اور ایک کنواں بنوایا ۔
٤۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
آپ کی پوری زندگی ایک مسلسل جہاد تھی ، اس وقت کا معاشرہ رسم و رواج میں بری طرح جکڑاہوا تھا ، ایسے ماحول میں لوگوں کو احکام شرعیہ کا پابند بنانے میں آپ کو جو زحمتیں اٹھانی پڑی ہوں گی اس کا اندازہ کرنا آسان نہیں ہے ۔
اس جہاد مسلسل کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے :
آپ کی پہلی شادی کے وقت بارات کٹوکھر پہونچی ، آپ نے دیکھا کہ سسرال والوں نے دستور زمانہ کے مطابق گانے ، باجے کا انتظام کیاہے ، آپ نے ان لغویات کو بند کرنے کی فرمائش کی توجواب ملا : مولوی صاحب! یہاں آپ کا قانون نہیں چلے گا ، یہاں وہ ہوگا جو ہم لوگ چاہیں گے ۔ آپ نے فوراً شادی والا لباس اتار کر روزہ مرہ کا لباس زیب تن کیااور پیدل بھیک پور روانہ ہوگئے ۔جب سسرال والوں نے یہ صورت حال دیکھی تو دوڑے ہوئے آئے ۔ گانا باجا رخصت کردیاگیا اور بڑی منت سماجت کر کے آپ کو کٹوکھر واپس لایاگیا ۔
٥۔آپ کا مستجاب الدعوات ہونا
جب آپ چھپرہ تشریف لے گئے تو اس وقت وہاں زبردست خشک سالی تھی ، لوگ بہت زیادہ پریشاں حال تھے، ہر مذہب و ملت کے لوگ بارش کے لئے دعائیں کرتے کرتے تھک چکے تھے ۔ آپ نے نماز استسقاء پڑھائی ، ابھی اعمال ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ موسلادھار بارش شروع ہوگئی اور انسانوں اور جانوروں کو دوبارہ زندگی ملی ۔مظفر پور کے قیام کے دوران بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا ۔
ایک مرتبہ مظفر پور میں ماہ صیام کی انتیسویں تاریخ ہوگئی ، آسمان پر گہرے کالے بادل چھائے ہوئے تھے ، چاند دیکھنا ناممکن معلوم ہوتاتھا ، اتنے میں وہاں کے باشندے ''آغا نثار حسین صاحب '' نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کرکہا کہ میں نے خود چاند دیکھاہے لہذا آپ کل عید ہونے کا اعلان فرمادیں ۔ آپ نے جواب میں فرمایا: آپ کا کہنا صحیح ہے لیکن میں حکم شریعت سے مجبور ہوں ، جب تک دو عادل گواہ رویت ہلال کی گواہی نہ دیں ، میں عید کا اعلان نہیں کر سکتا۔ آغا صاحب اپنے اصرار پر قائم رہے ارو ادھر لوگوں میں بے چینی پیدا ہوگئی ۔ آپ صحن مسجد میں تشریف لائے اور دعا کی : خدایا! اگر کل واقعاً عید کا دن ہے تو اپنے ان بندوں کو عید کی برکتوں سے محروم نہ کر اور ہلال عید کو ان کے لئے ظاہر فرمادے۔ دعا ختم ہوتے ہی بادل چھٹا اور چاند واضح ہوگیا۔

شادیاں اور اولادیں
آپ نے دو شادیاں کی تھیں ،آپ کی پہلی شادی کٹوکھر ضلع سیوان میں ہوئی ، پہلی زوجہ کا نام معلوم نہ ہوسکا ، ان کے بطن سے کئی اولادیں ہوئی لیکن سب کی سب ایام رضاعت ہی میں فوت ہوگئیں ، ایک دن پھر وطن سے خط آیاکہ آپ کے نومولود فرزند کا انتقال ہوگیا ہے ۔ اس خط کو پڑھ کر آپ بہت رنج و غم کے عالم میں اسی فکر میں سر جھکائے بیٹھے تھے کہ بڑے بھائی سید میر علی تو لا ولد ہیں ہی ، میرے بھی بچے پیدا ہوتے ہی مرجاتے ہیں ، ہم لوگوں کی نسل شاید منقطع ہوجائے گی ۔ اسی وقت نواب سید محمد تقی خان صاحب مرحوم ، مولانا سے ملنے آگئے ، افسردگی کا سبب معلوم ہونے پر مشورہ دیا کہ آپ دوسری شادی کرلیں ، خدا آپ کو اس عقد سے ایسی اولاد دے گا جس سے آپ کی نسل چلے گی ، پہلے تو آپ نے انکار کیا لیکن احباب اور معتقدین کے مسلسل اصرار پر آپ نے تقریباً ١٢٦٨ میں دوسری شادی کر لی ، اس وقت آپ کی عمر (٥٣) سال تھی ۔ دوسری زوجہ سے آپ کو دو فرزند ہوئے :
١۔ مولانا سید محمد مہدی صاحب ؛
٢۔ مولانا ڈاکٹر حکیم سید محمد جواد صاحب ؛
ان دونوں کی ولادت میں تین چار سال کا فاصلہ ہے ، دونوں ہی آسمان علم کے درخشاں ستارے ہیں ، ان کی حیات و خدمات پر آئندہ کسی شمارے میں روشنی ڈالی جائے گی ۔

وفات
مظفر پور کے قیام کے دوران آپ پر فالج کا اٹیک ہوا اور ٢٠صفر ١٢٨٥ کو اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے ،جنازہ دوسرے دن اٹھایاگیا ،مولوی مرزا محمد ہادی صاحب لکھنوی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور عام قبرستان میں سپرد خاک کر دیاگیا ۔ کچھ سالوں قبل تک اس پختہ قبر کا نشان باقی تھا اور اس کے سرہانے ایک درخت لگا ہواتھا ، لیکن اب وہ درخت بھی کٹ چکاہے اور قبر کا نشان بھی باقی نہیں ہے :
میں نے بخشی ہے تاریکیوں کو ضیا اور خود اک تجلی کا محتاج ہوں
روشنی دینے والے کو بھی کم سے کم اک دیا چاہئے اپنے گھر کے لئے
آپ کی وفات پر عالم جلیل مولانا سید نظر حسین صاحب قبلہ طاب ثراہ بھیک پوری نے عربی میں آپ کا قطعہ تاریخ لکھاتھا ، قطعہ تاریخ سے مربوط شعر ہے :
واللہ غافرہ من عالم ثقة
اودی فقیل اسی تاریخہ غفرہ
''کیا کہنا اس عالم ثقہ کا جو اس دنیا سے چلا گیا اور اللہ نے ان کو بخش دیا تو ان کی تاریخ وفات کہی گئی ''غفرہ '' ( ١٢٨٥)

منابع و مآخذ
١۔ خورشید خاور ؛مولف : مولانا سید سعید اختر صاحب گوپال پوری
٢۔ مطلع انوار( فارسی ) ؛مولف : مولانا سید مرتضی حسین صدرالافاضل ؛مترجم : ڈاکٹر محمد ہاشم
٣۔ شجرہ طیبہ ؛مولف : مولانا سید سعید اختر صاحب گوپال پوری
اس کتاب سے بہت زیادہ استفادہ کیاگیاہے ، بلکہ اسی کے مطالب کو اپنے انداز میں لکھنے کی کوشش کی گئی ہے (باتشکر)
٤۔ مختلف افراد سے انٹرویو
مقالات کی طرف جائیے