|
بانی اصلاح فخر الحکماء مولانا سید علی اظہر صاحب مرحوم؛ پہلی قسط |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
وطن مالوف ریاست بہار میں شیعوں کی اکثر بستیاں نہایت مردم خیز اور علم و فضل سے لبریز رہی ہیں ، ان میں ایک سے ایک باکمال اور دین و دنیا کی عظمتوں سے مالامال شخصیتیں منصہ شہود پر نمودار ہوئیں۔انہیں بستیوں میں ایک مشہور بستی ''کجھوا'' ہے جہاں کی دستاویزی علمی و قلمی خدمات نے اسے حیات جاوداں عطا کی ہے اور جہاں کی عظیم شخصیتوں اور ان کے لافانی کارناموں کا تذکرہ آنے والی نسلوں کے لئے نہایت مفید اور کا آمد ثابت ہوگا ۔ یہ تاریخی بستی ضلع سیوان سے تقریباً ٢٢ کیلو میٹر کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے ، اس کے بانی غلام محمد صاحب ہیں جو نقوی سادات کے مورث اعلیٰ ہیں، وہ ١١٤٢ھ میں کجھوا میں وارد ہوئے ، یہ بستی جس وقت آباد کی گئی وہاں کوس اور جھائو کے جنگلات تھے جس کے علامات آج بھی دریا کے کنارے پائے جاتے ہیں ، کوس اور جھائو کی مناسبت سے اس بستی کا نام کجھوہ پڑا۔غلام محمد صاحب امام علی نقی علیہ السلام کی تیسویں پشت سے تھے ۔ پروفیسر سید حسن عسکری صاحب کی تحقیق کے مطابق یہ بستی ١٧٣٠ ء میں آباد ہوئی ہے ،حالانکہ بعض لوگوں نے ١٦٦٥ئ کی تاریخ بھی تحریر کی ہے ۔ بہرحال اس بستی کی آبادی کی تاریخ جو بھی ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ اس نے اپنی ترقی کے منازل بہت جلدی طے کئے ہیں اور اپنے دامن میں ایک سے ایک باکمال سپوتوں کی پرورش کی ہے ، ان میں ایک نمایاں نام بانی ٔ اصلاح فخر الحکماء مولانا سید علی اظہر صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ کا ہے جن کی شخصیت اور کارنامے تاریخ ساز ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ ٔ عمل بھی ہیں،ایسی ہی ہستیوں کو یہ کہنے کا حق ہے : نقش است بر جریدۂ عالم دوام ما
اسم گرامی اسماء کا اثر انسان کی سیرت پر جزوی سہی پڑتا ہے اور ضرور پڑتا ہے اسی لئے حدیثوں میں اچھے نام رکھنے کی تاکید کی گئی ہے اور اسے والدین پر بچوں کے حق سے تعبیر کیاگیاہے ۔ فخر الحکماء کا نام بھی ان کے والد کی فرمائش پر جناب شیخ علی اظہر صاحب چریاکوٹی نے تفاؤل کے بعد تاریخی نام ''مظہر اسلام'' رکھا ۔ اسی نام سے وہ اپنے گھر اور وطن میں مشہور ہوئے لیکن جب کم سنی میں لکھنؤ تشریف لے گئے تو ان کے استاد مولاناسید احمد علی محمودآبادی نے ایک اور نام'' سید حسین ''تجویز کیا لیکن خدا کی قدرت کہ وہ ''علی اظہر ''کے نام سے مشہور ہوئے ۔ قرائن بتاتے ہیں کہ نام کی تبدیلی شعوری تھی ،بعد کے حالات نے اس کی تصدیق بھی کردی، ظاہر ہے امیر المومنین حضرت علی کے نام کی برکتوں نے انہیں علم و عمل کے اعلی مدارج پر فائز کیا اور دنیا و آخرت کی سعادتوں کے دروازے کھول دیئے ۔
والد کا نام آپ کے والد کا نام ''سید حسن باخدا '' تھا جو زہد و تقوی اور علم و عمل کے زیور سے آراستہ و پیراستہ تھے، مجاہد اسلام مولانا سید محمد باقر نقوی صاحب اپنے جد کے متعلق اس طرح رقم طراز ہیں: '' میرے پر دادا مولانا سید حسن صاحب قبلہ طاب ثراہ زہد و تقوی علم و عمل کے اعتبار سے مرجع اتام اور امیدگاہ مومنین تھے ، مرحوم کی قبر پر جو کتبہ لکھا ہوا ہے اس پر آپ کے نام کے ساتھ لفظ '' باخدا '' بھی کندہ ہے ، یہ وہ لقب تھا جس کے ساتھ مرحوم اپنے زمانہ ٔ حیات میں مشہور ہوچکے تھے اور جب تک لفظ باخدا ان کے نام کے ساتھ اضافہ نہ کیاجاتا مسمی کا پہچاننا دشوار ہوتا ''۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ فخر الحکماء کو زہد و تقوی ، علم و عمل ، خدمت دین اور ائمہ طاہرین کے مسلک کی اشاعت و ترویج کا جذبہ ورثہ کے طور پر ملاتھا ۔
ولادت فخر الحکماء مولاناسید علی اظہر صاحب کی ولادت ٢ رمضان المبارک ١٢٧٧ ھ بمطابق ١٨٦١ء کو ہوئی، آپ کی ولادت کے سلسلے میں ایک واقعہ انتہائی حیرت انگیز ہے : ایک مرتبہ آپ کے والد سید حسن باخدا مرحوم نے خواب میں دیکھا کہ جناب مولوی عابد حسین صاحب انہیں ایک ہیرا موتی عطا کر رہے ہیں، جس رات کو آپ نے یہ خواب دیکھا اسی شب کو فخر الحکماء کی ولادت ہوئی اور اس طرح اس خواب کی تعبیر سامنے آئی ۔
ابتدائی حالات اور تعلیمی سلسلہ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سید حسن باخدا سے حاصل کی ، آپ کے متعلق تحریر کئے گئے بعض مختصر مقالوں سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے اپنے والد محترم کے علاوہ گھر پر مولوی غلام صادق صاحب اور مولوی ضامن علی صاحب سے بھی تعلیم حاصل کی ہے ۔مگر مستقل طور پر دینی تعلیم کا سلسلہ مولانا محمد امین صاحب گوپال پوری سے شروع ہوا ۔ پھر کمسنی ہی میں آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا، یہ تقریباً ١٢٨٣ھ کی بات ہے ، والدہ ماجدہ کے انتقال کے بعد آپ اپنے والد کے ہمراہ لکھنؤ تشریف لائے ۔ علامہ کنتوری نے تقریباً ١٢٨٩ھ میں لکھنؤ ہی میں مدرسہ ایمانیہ کی سنگ بنیاد رکھی ،مولانا سید علی اظہر صاحب اس مدرسہ کے پہلے گروپ میں تھے،آپ وہاں ابتدائی امتحان میں امتیازی نمبر سے کامیاب ہوئے ،مولانا مرتضی حسین صدر الافاضل نے مطلع انوار میں لکھاہے کہ اس امتحان میں امتیازی کامیابی پر ''ہدایة الاطفال '' نامی کتاب انعام میں دی گئی ۔ ١٢٩٣ھ میں آپ وطن آئے تو آپ کے والد ماجد نے آپ کا عقد کیا ، ١٢٩٤ھ میں آپ تکمیل تعلیم کے لئے پھر لکھنؤ تشریف لائے ، اس سفر میں آپ نے میر آغا صاحب،جناب مولانا سید حامد حسین صاحب اور عماد العلماء مولانا سید محمد مصطفی صاحب لکھنوی سے شرف تلمذ حاصل کیا اور مختلف علوم و فنون کی تکمیل کی، خاص طور سے سرکار حامد حسین طاب ثراہ کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوئے ،سرکار حامد حسین نے بھی اس ہیرے کی تراش خراش میں خصوصی توجہ کا مظاہرہ فرمایا ،اس سلسلے میں خود ان کے پوتے مجاہد اسلام مولانا باقر صاحب کا بیان ملاحظہ فرمائیے: ''...لکھنؤ آنے کے بعد آپ کا زیادہ وقت سرکار حامد حسین صاحب طاب ثراہ کی خدمت میں گزرا ، تاریخ و علم کلام سے رغبت پہلے ہی سے زیادہ تھی ، مولانا حامد حسین صاحب قبلہ کی خدمت میں رہ کر آپ کی خدا داد صلاحیتوں پر جلا ہوئی اور درجہ کمالات تک پہونچے ، مولانا حامد حسین صاحب مرحوم کو آپ سے ایسی ہی گہری محبت تھی جیسی ایک شفیق استاد کو اپنے ہونہار شاگرد اور ایک باکمال باپ کو آئینہ کمالات پدر فرزند سے ہوتی ہے ''۔ ١٢٩٥ ھ میں آپ کے والد مولانا سید حسن باخدا مرحوم حج کے لئے تشریف لے گئے تو فخر الحکماء کو وطن جانا پڑا ، آپ نے اپنے والد کی عدم موجودگی میں وہاں امام جماعت کے فرائض باحسن وجوہ انجام دئیے۔
آپ کے اساتذہ مذکورہ سطور میں آپ کے بعض اساتذہ کیا تذکرہ کیاگیا ، یہاں آپ کے ان تمام اساتذہ کی اجمالی فہرست پیش کی جارہی جن سے آپ نے طول زندگی میں کسب فیض کیا ۔ ١۔ مولانا سید حسن باخدا صاحب( والد ماجد ) ٢۔ مولوی غلام صادق صاحب ٣۔ مولوی ضامن علی صاحب ٤۔ مولانا سید محمد امین صاحب گوپال پوری ٥۔ حکیم میر حیدر حسین صاحب ٦۔ حکیم باقر حسین صاحب ٧۔ جناب میر آغا صاحب ٨۔ مولانا سید حامد حسین صاحب ٩۔ مولانا سید احمد علی صاحب محمودآدی ١٠۔ عماد العلماء مولانا سید محمد مصطفی صاحب لکھنوی
حج و زیارات اور اجازہائے اجتہاد فخر الحکماء دو مرتبہ عتبات عالیات کی زیارت سے مشرف ہوئے ، پہلی مرتبہ ١٢٩٧ھ میں عراق و خراسان تشریف لے گئے ،آپ زیارت کے لئے تنہا گئے تھے ۔ دوسری مرتبہ اپنے عیال و اطفال کے ہمراہ ١٣٢٢ھ میں عتبات عالیات کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ اس سفرمیں فخر الحکماء نے آیة اللہ حسین مازندرانی ، آیة اللہ شیخ محمد طہ نجفی ،آیة اللہ شیخ شریعت اصفہانی اور آیة اللہ العظمی سید کاظم یزدی سے ملاقات کی ، ان حضرات نے آپ کے علمی تبحر سے متاثر ہو کر آپ کو اجازۂ اجتہاد و روایت عطا کئے ۔ پھر آپ ١٣٤٢ھ میں حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے ۔
حکمت و طبابت پر ایک نظر ١٢٩٨ھ میں عتبات عالیات کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد دوبارہ مرکز علم و ادب ''لکھنؤ '' تشریف لائے اور علم طب کی تعلیم میں مشغول ہوگئے ،یہ سلسلہ تقریباً تین سال تک جاری رہا ۔ حکمت و طبابت میں آپ کو حد درجہ مہارت حاصل تھی ، ہاتھ میں غیر معمولی شفا تھی ، اسی لئے حکمت و طبابت کے حوالے سے آپ کا دور دور تک شہرہ تھا ، جس کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے لگایا جاسکتاہے جسے حجة الاسلام مولانا مسرور حسن صاحب نے اپنے مضمون ''افکار مسرور '' میں نقل کیاہے : ''مخدومی و استاذی نادرة الزمن علامہ سید ابن حسن صاحب قبلہ نونہروی نے حضرت فخر الحکماء کے علمی تبحر اور طبابت میں حذاقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دفعہ نظام دکن بیمار ہوئے اور جب تمام اطباء اور ڈاکٹروں کے علاج سے عاجز ہوگئے تو بہار سے حضرت فخر الحکماء کو بلایا گیا چنانچہ آپ حیدرآباد دکن تشریف لے گئے اور نظام کا طبی معائنہ کرنے کے بعدان کے لئے ''عرق زمرد '' تجویز فرمایا ۔ نزدیک اور دور تمام عطاروں کے پاس ہر کارے دوڑائے گئے لیکن عرق زمرد کہیں دستیاب نہیں ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہمارے یہاں یہ عرق ملے گا چنانچہ آپ نے اپنے ساتھ جانے والے عطار کو بہار بھیجا اور اس سے فرمایا کہ ککروندے کا عرق نکال کر اسے صاف و شفاف کر کے بوتل میں بھر کر لاؤ ، یہ طریقہ آپ نے اس لئے اختیار فرمایا کہ چونکہ ککروندے کا عرق نہایت معمولی چیز ہے جو نظام کے شاہی مزاج کے قطعاً منافی تھی ،اگر آپ دکن میں بھی ککروندے کا عرق نکلوا کر نظام کو استعمال کرادیتے تو نہ صرف یہ کہ فائدہ نہ ہوتا بلکہ اس کا نفسیاتی اثر بھی غلط پڑتا۔ غرض آپ کا فرستادہ بہار آیا اور آپ کی ہدایت کے مطابق ککروندے کا عرق بنام ''عرق زمرد'' لے کر حیدر آباد دکن واپس آیا ، آپ نے اس کے ذریعہ نظام کا علاج فرمایا اور ان کو شفا ہوئی ،نظام دکن نے خوش ہوکر آپ کو کچھ نذرانہ پیش کرنا چاہا تو آپ نے انکار کردیا''۔ آپ نے فن طب میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ١٣٠١ھ میں شہر آرہ میںاسی فن کو ذریعہ معاش بنایا ، آپ کے پوتے مجاہد اسلام مولانا باقر صاحب مرحوم ،فن طب اور آپ کے ذریعہ معاش کے متعلق لکھتے ہیں: '' جد مرحوم نے لکھنؤ میں فن طب میں مہارت حاصل کی اور اسی کو ذریعہ معاش بنایا ،ابتداً آپ نے صوبہ ٔ بہار کے شہر آرہ میں مطب شروع کیا گر چہ باوجود حذاقت و مہارت اور حیرت انگیز دست شفا رکھنے کے اس کی طرف زیادہ توجہ نہ رکھ سکے ''۔ تقریباً ١٠ ،١١ سال تک شہرآرہ میں مطب جاری رکھا اس کے بعد ١٣١٤ھ میں پٹنہ تشریف لائے اور وہاں اپنا مطب شروع کیا ، پٹنہ میں آکر آپ کا معمول تھا کہ دن میں مطب میں مریضوں کے درمیان سرگرم رہتے پھر نماز پڑھاتے اور اس کے بعد لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے ۔ ان معمولات کو دیکھ کر یہ کہاجاسکتاہے کہ اپنے زمانہ کا یہ جید عالم باعمل اور عدیم النظیر طبیب و حکیم ، علم ابدان و علم ادیان پر کامل دسترس رکھنے کی وجہ سے قوم و ملت کا روحانی و جسمانی دونوں طریقوں سے علاج کر رہاتھا ۔
مناظرانہ مہارت مناظرہ ایک اہم اورذمہ دارانہ فن ہے ، اس میں حریف کو زیر کرنے سے زیادہ اپنے مذہب کا دفاع ،حق کی جیت اور باطل کو پسا کرنے کا جذبہ کار فرما ہوتاہے۔ یہ اور بات ہے کہ حریف اپنی شکست سے تلملا کر حق پرست کی جان کے در پے آجاتاہے اور کبھی کبھی اپنے گھنائونے مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتاہے۔اس سے ایک مناظر کی اہمیت و عظمت پوری طرح آشکارہوجاتی ہے کہ وہ مذہب و حق کی سر بلندی کے لئے کبھی کبھی اپنی جان کی بازی لگا دیتاہے ۔ فخر الحکماء مولانا سید علی اظہر صاحب قبلہ بھی ایک بے مثال اور کامیاب مناظر تھے ، انہوں نے اپنی پوری زندگی مذہب و حق کے دفاع میں صرف کردی ، کبھی قلم کے ذریعہ تو کبھی زبان کے ذریعہ ۔ آپ کے قلمی مناظرے کے نمونے تو بے مثال ہیں جو کتابی شکل میں شائع ہوکر اپنی مناظرانہ مہارت کا لوہا منواچکے ہیں ، ان میں سے بعض کتابیں یہ ہیں: مناظرۂ امجدیہ ؛کشف الظلمات ردبحث فدک؛دفع الوثوق عن نکاح الفاروق ؛الآل والاصحاب؛ تنقید بخاری ...وغیرہ ۔ خود رسالۂ الشمس اور اصلاح آپ کے قلمی مناظرے کی دلیل ہے ،اس لئے کہ آپ نے اس وقت یہ دونوں رسالوں کا اجراء کیا جب اہل سنت کے متعدد رسائل و اخبارات ہندوستان میں شائع ہورہے تھے اور ہر شمارے میں فرقہ حقہ پر سب و شتم اور طعن و اعتراضات کی بوچھار ہورہی تھی ، اس وقت شیعوں کا کوئی ایسا رسالہ نہیں تھا جو ان اعتراضات اور معترضین کی وسیسہ کاریوں کا جواب دیتا ، ایسے میں آپ نے دو رسالوں ''الشمس '' اور '' اصلاح '' کا اجراء کیا اور اہل سنت کے تمام اعتراضات کا منھ توڑ جواب دیا ۔ آپ نے اپنی زبان سے بھی مختلف جگہوں پر مذہب و حق کا دفاع کیا اور اپنی مناظرانہ مہارت کا لوہا منوایا ،یہاں صرف اس کا ایک نمونہ پیش کیاجارہاہے جسے صاحب مطلع انوار نے نقل کیاہے ، وہ تحریر فرماتے ہیں: ''....( فخر الحکماء مولانا سید علی اظہر صاحب)١٣١٠ھ میں بہیڑہ سادات میں مناظرے کے لئے آئے اور سنیوں کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی ...''۔
|
مقالات کی طرف جائیے |
|