مقالات

 

قبر زہرا سلام اللہ علیہا پر حضرت علی علیہ السلام کا سیل اشک

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

مدینہ کو رات نے اپنی سیاہ آغوش میں لے لیاہے ، شہر کے رہنے والے غفلت کی نیند سور ہے ہیں ، رات کا سناٹا ہر طرف چھایا ہواہے ۔ اور حضرت علیؑ اس پر اسرار تاریکی اور سناٹے میں بالکل اکیلے ہیں ، ہر اعتبار سے تنہا،بالکل اکیلے۔ شہر رحمت سے مجسمۂ رحمت کا سایہ اٹھ چکا ہے ، پورا شہر لوگوں سے بھرا پڑا ہے لیکن اس بھرے پُرے شہر میں علی کو تنہائی کا احساس ہورہا ہے، اس لئے کہ ان کا سہارا اب اپنے بابا کے سایۂ عاطفت میں جا چکا ہے ، گھر کی تنہائی میں ان کا جی نہیں لگتا ، ایسے میں کیا کریں ۔
آہستہ سے اٹھے ، دبے قدموں سے گھر سے باہر آئے اور لوگوں سے چھپ چھپاکے بقیعہ کی طرف چلے ، اور پھر چالیس نئی قبروں میں سے ایک قبر کا انتخاب کیا ...دو زانو بیٹھ گئے...یہ قبر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر ہے جو ان کی تنہائی میں ان کی مونس و غمخوار ہوتی تھیں ، وہ ایک کوہ غم کی طرح فاطمہ کی قبر پر بیٹھے ہوئے ہیں، تنہا ...خاموش ...اور سوگوار ۔
کتنے لمحے وقت کے دوش پر سوار ہوکر گزر گئے ، اچانک دل کی گہرائیوں میں
موجود غم واندوہ کی موجوں نے ہلچل مچایا...احساس تنہائی شدت سے ستانے لگا اور آپ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔
گریہ کی آواز سے تاریکی شب کا سینہ چاک ہورہاہے ، قبروں میں موجود مردے بے چین ہورہے ہیں ، گزرتے لمحوں پر یہ آواز بوجھ بن رہی ہے ، اسی لئے وہ آہستہ آہستہ گزر رہاہے ....پھر یہ کیا ، اب اس آواز گریہ میں لفظوں کی آمیزش بھی ہے...حضرت علی علیہ السلام اپنی ہچکیوں کے درمیان کچھ کہہ رہے ہیں اور ان کے مخاطب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ ہیں :
'' سلام ہو آپ پر اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ ، میری طرف سے اور آپ کی پیاری دختر کی طرف سے جو ابھی آپ کی خدمت میں پہونچ چکی ہے ، آپ کے جوار میں دفن ہوچکی ہے اور سب سے پہلے آپ سے جا ملی ہے ۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ!میرا صبر ختم ہوگیا ہے لیکن اس کے سوا چارہ بھی نہیں ہے جیسے آپ کی مصیبت پر صبر کیاہے، زہراء کے فراق پر بھی صبر کروں گا ۔
یا رسول اللہ !آپ کی روح میری آغوش میں قبض کی گئی ، میں آپ کی آنکھوں کو بند کرتا تھا ، میں تھا کہ جس نے آپ کے جسم مبارک کو قبر میں اتارا ، ہاں !صبرکروں گا اور پڑھوں گا : (انا للہ و انا الیہ راجعون)۔
یا رسو ل اللہ !وہ امانت جو آپ نے میرے سپرد کی تھی اب آپ کے پاس لوٹ گئی ہے ، زہراء میرے ہاتھ سے چھینی گئی ہے ، آسمان و زمین کی رونق ختم ہوگئی ہے ، یا رسول اللہ !میرے غم کی کوئی انتہا نہیں رہی ، میری آنکھوں سے نیند اڑ چکی ہے ، میرا غم و اندوہ ختم نہ ہوگا ۔
یہ ایسے غم اور مصائب ہیں جو دل کے زخموں سے پیدا ہوئے ہیں ، ہماری باصفا گھریلو زندگی کی رونقیں کتنی جلدی لٹ گئیں ۔
یا رسول اللہ !آپ کی دختر آپ کو خبر دے گی کہ آپ کی امت نے اتفاق کرکے خلافت کو مجھ سے چھین لیا اور زہراء کے حق پر قبضہ کرلیا ۔
یا رسول اللہ !موجودہ حالات کے متعلق فاطمہ سے پوچھئے گا کیونکہ ان کے دل میں بہت زیادہ درد موجود ہے جو یہاں ظاہر نہ کرسکیں لیکن آپ سے وہ بیان کریں گی تاکہ خدا ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان قضاوت کرے ۔
یا رسو ل اللہ !اگر دشمنوں کی شماتت کا خوف نہ ہوتا تو آپ کی قبر پر بیٹھا رہتا اور اس مصیبت عظمیٰ پر روتا رہتا ۔
یا رسو ل اللہ !ہمارے حالات ایسے تھے کہ ہم مجبور تھے کہ آپ کی بیٹی کو مخفی طور پر رات کی تاریکی میں دفن کریں ، اس کا حق لے لیا گیا اور اسے میراث سے محروم رکھا گیا ۔
یا رسو ل اللہ !میں اپنے اندرونی درد کو خدا کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اس درد ناک مصیبت پر آپ کو تسلیت پیش کرتاہوں، آپ پر اور اپنی مہربان بیوی پر میرا درود و سلام ہو ۔( بحار الانوارعلامہ مجلسی ج٤٣ ص ١٨٣)
اور پھر حضرت علی خاموش ہوجاتے ہیں ،حیران ہیں، پریشان ہیں ، کیا کریں سمجھ میں نہیں آتا ....۔
پھر آپ نے اپنے آپ کو سنبھالا ، بدقت تمام قبر زہراء سے اٹھے ، جانے کا دل نہیں کررہاہے ، فاطمہ کو یوں تنہا چھوڑ کر جانے کی ہمت نہیں ہورہی ہے لیکن کیا کریں بچوں کو دیکھنا ہے ، وہ اکیلے ہیں ، انہیں بھی سہارا دینا ہے ۔
اس لئے آپ قبر زہراء (س) کو حسرت سے دیکھتے ہیں ، آنکھوں سے سیل اشک جاری ہے ، نہیں معلوم کیا سوچ کر رو رہے ہیں ، شاید انہیں زہراء(س) کا اشک شہادت یاد آگیا جسے آپ نے اس وقت بہتے ہوئے دیکھا تھا جب ایک ظالم نے جلتے ہوئے دروازے کو دھکا دیا تھااور فاطمہ در ودیوار کے درمیان آواز دے رہی تھیں : فضہ مجھے سنبھالو ، میرا محسن شہید ہوگیا ۔

چپ کھڑا ہے آج اپنی آنکھ میں آنسو لئے
جل رہے ہیں ذہن کے آنگن میں یادوں کے دئیے
مقالات کی طرف جائیے