|
شام غربت |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
آج مدینہ کی فضا سوگوار ہے ، ہر طرف اداسی چھائی ہوئی ہے ، عجیب سی تنہائی اور غربت کا بسیراہے ، ہر گزرتے لمحے میں درد و غم کی ایک داستان سمٹی ہوئی ہے ۔ کس کا غم وقت کے سینے پر بوجھ بن گیاہے ...؟ طبیعت بے کلی کی شکار کیوں ہے...؟ ، شہر رحمت کی فضا میں سانس لینے والا ہر شخص بے چینی اور اضطراب کیوں محسوس کررہاہے ...؟ ہاں !کوئی ہے جو اس دنیا سے رخت سفر باندھ کر ہمیشہ کے لئے جارہاہے ، اس کا جسم غم واندوہ سے نڈھال ہے اور روح مصائب و آلام کی شدت سے مضمحل ...جاتے جاتے اس کے لبوں پر بس ایک ہی فریاد ہے :
ٹوٹ کر اتنے مصائب مجھ پہ برسائے گئے دن پہ وہ پڑتے تو ہوجاتے شب اندوہگیں شعور گوپال پوری مرحوم وقت آہستہ آہستہ گزر رہاہے ، حجرے میں ایک بستر پر فاطمہ (س)لیٹی ہوئی ہیں ،رخِ انور قبلہ کی طرف ہے ، نگاہیں دیوار پر ٹکی ہوئی ہیں ، ہاتھوں میں تسبیح ہے جس کی آواز کمرے کی محدود فضا میں گونج کر عجیب سا سماں باندھ رہی ہے ،لبوں پر تقدیس الٰہی کے الفاظ ہیں ....اور پھر اچانک وقت جیسے تھم سا گیا ، زمین و آسمان لرزنے لگے ، فضا پر سوگواری چھا گئی ۔ہاں !وہ ذات اس دنیا سے چلی گئی جو تنہا یادگار رسول تھی ، موت کے سرد ہاتھ نے اس کے پلکوں کو بند کردیا... لیکن بند پلکوں کے پیچھے اس کی روشن آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور وہ اپنے محبوب باپ کے چہرے کا دیدار کرر ہی ہیں ۔وہ خود تو موت کی آغوش میں اپنے بابا کے پاس پہونچ گئیں لیکن اپنے پیچھے حضرت علی کے گھر میں بھیانک اندھیرا پن چھوڑ گئیں ، اس گھر سے وہ شمع بجھ گئی جس کی روشنی سے گھر والوں کو بہت طمانیت محسوس ہوتی تھی ۔ افسوس !اب علی اس کائنات میں تنہا ہیں اپنے کمسن بچوں کے ساتھ ...ہر طرح سے تنہا اور اکیلے ، کچھ دنوں پہلے مدینہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ کے وجود سے خالی ہوچکاتھا اور اب گھر سے فاطمہ کا وجود بھی رخصت ہوچکا ہے ، پہلے حضرت علی شہر میں تنہا تھے اوراب گھر میں بھی اکیلے رہ گئے ہیں ۔ وہ رات کی تاریکی کا انتظار کررہے ہیں ، اس لئے کہ زندگی بھر کوئی خواہش نہ کرنے والی شریک حیات نے آخری سانسوں میں اور زندگی کے آخری لمحوں میں ایک خواہش کی تھی کہ اے علی !مجھے شب میں حنوط اور غسل دیجئے گا ، شب ہی میں مجھ پر نماز پڑھئے گا اور شب کی تاریکی ہی میں مجھے سپرد لحد کردیجئے گا ۔ جیسے جیسے شام کی سیاہی پھیل رہی ہے علی کے سینے میں موجود غم و اندوہ بڑھتا جارہاہے ، اس لئے کہ وہ گھڑی قریب آرہی ہے جس کے دامن میں غربت و تنہائی اور کرب کی ایک دنیا موجود ہے ...ہاں !وہ گھڑی فاطمہ سے علی کی جدائی کی غم انگیز گھڑی ہے ۔ مدینہ کو رات نے اپنی سیاہ آغوش میں لے لیاہے ،شہر کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں غفلت کی نیند سو رہے ہیں ، لیکن آج علی کے گھر سے سکون و آرام کوسوں دور ہے ، کچھ قریبی ساتھی ہیں جو رسول کی اکلوتی بیٹی کو سپرد خاک کرنے کے لئے آئے ہیں ...گھر کی چہار دیواری میں کچھ دبی دبی ہچکیوں کی آواز آرہی ہے ، شاید کچھ بچے اپنی ماں سے جدا ہورہے ہیں لیکن وہ اپنی اماں کی وصیت کا پاس و لحاظ رکھنے کے لئے آواز گریہ پر روک لگانے کی کوشش کر رہے ہیں ، ان دبی دبی ہچکیوں کی آواز میں دنیا جہاں کا غم سمٹا ہواہے ، ان بچوں سے ٹوٹ کر پیار کرنے والی ماں جدا ہورہی ہے ۔ اب رسول کا شہر پوری طرح سے تاریکی میں ڈوب چکا ہے ، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے ، ایسے میں ایک جلے ہوئے دروازے سے تابوت نکالا ، یہ نبی کی اکلوتی بیٹی کا تابوت ہے ، غربت ، تنہائی اور بے کسی کے عالم میں یہ تابوت مدینہ کے قبرستان بقیعہ میں لے جایا جارہاہے ۔ ایسا کیوں ہے ، اس جنازے پر اتنی غربت کیوں طاری ہے ، بے کسی کا رواج کیوں ہے؟ کیا یہ مسلمانوں کے رسول کی اکلوتی بیٹی نہیں ہے ، پھر اس کے جنازے میں وہ مسلمان شریک کیوں نہیں ہیں جن کو رسول نے زندگی کا سلیقہ سکھایا تھا ....اور پھر رسول کی اکلوتی بیٹی کا جنازہ مظلومانہ اور غریبانہ انداز میں سپرد لحد کردیاگیا ....اور اپنے پیچھے تاریخ کے دامن میں ایک سوال چھوڑ گیا کہ رسول کی اکلوتی بیٹی کا جنازہ لوگوں سے چھپ چھپا کے رات کی تاریکی میں کیوں دفن کیاگیا...؟! دفن کے بعد قریبی ساتھی جا چکے ہیں لیکن حضرت علی علیہ السلام قبر زہراء(س) کو حسرت سے دیکھ رہے ہیں ،کتنے لمحے وقت کے دوش پر سوار ہوکر گزر گئے لیکن علی کی آنکھیں قبر زہرا(س) پر ٹکی ہوئی ہیں، ان کو نہ اپنا ہوش ہے اور نہ ہی اپنے اطراف و اکناف کا ، وہ صرف قبر زہرا کو دیکھ رہے ہیں، چپ ہیں بالکل خاموش. .. چپ کھڑا ہے آج اپنی آنکھ میں آنسو لئے جل رہے ہیں ذہن کے آنگن میں یادوں کے دئیے لیکن پھر اچانک دل کی گہرائیوں میں موجود غم و اندوہ کی موجوں نے ہلچل مچایا ...احساس تنہائی شدت سے ستانے لگا اور آپ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ گریہ کی کربناک آواز سے تاریکی شب کا سینہ چاک ہوتا رہا اور حضرت علی علیہ السلام گریہ کرتے رہے ، زہراکی مظلومیت کو یاد کرتے رہے اور گریہ کرتے رہے ، مصائب و آلام کی شدت کو یاد کرتے رہے اور اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے رہے ...کافی دیر تک گریہ کرتے رہے ....اپنی پوری زندگی گریہ کرتے رہے ...آج بھی حضرت علی علیہ السلام گریہ کررہے ہیں ، ان کی آنکھوں سے آج بھی سیل اشک جاری ہے ،جب زندہ تھے زہرا کی مظلومیت کو یاد کرکے روتے رہے اور آج بھی زہرا کی مظلومیت کو یاد کرکے رو رہے ہیں ، اس لئے کہ آج بھی زہرا مظلومہ ہیں ....آج بھی زہرا بے چین ہیں، مضطرب ہیں اس لئے کہ ان کی قبر آج بھی ویران ہے ،وہ آج بھی اپنے بابا کے شہر میں اکیلی اور تنہا ہیں ...ہاں !حضرت علی اسی تنہائی اور غربت کو یاد کرکے رو رہے ہیں ۔ کس کا غم دوہرا رہی ہیں سسکیاں سی دوستو! کس لئے آج آرہی ہیں ہچکیاں سی دوستو!
بے کسوں کے دل کی حالت،غمزدوں کی کیفیت کیوں بھٹکتی پھر رہی ہے ب ے اماں سی دوستو!
|
مقالات کی طرف جائیے |
|